حیدرآباد :پاکستان ورکرز فیڈریشن کا مطالبات کے حق میں مظاہرہ
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)پاکستان ورکرز فیڈریشن حیدرآباد ڈویژن کی جانب سے مطالبات منوانے کیلئے اور ملازمین کے بنیادی مسائل حل نہ کئے جانے کے خلاف حیدرآباد پریس کلب کے سامنے رشید کمبرانی، رافعہ سلطانہ، منیر احمد ،غلام نبی بھلائی، جمال خان لغاری اور شبیر احمد خاصخیلی سمیت دیگر کی قیادت میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔ اس موقع پر رہنمائوں نے کہا کہ سندھ کے سرکاری و نجی ملازمین حکومت کے دہرے عذاب کا شکار ہیں، نجی کارخانوں میں مزدوروں کو میڈیکل سمیت دیگر بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں اور ملازمین کو ان سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے جبکہ سرکاری ملازمین کی اولاد کیلئے روزگار کے دروازے بند کر کے سن کوٹہ اور فوتی کوٹہ ختم کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حال ہی میں وفا قی حکومت کی جانب سے ملازمین کی پنشن کا جو قانون جاری کیا گیا ہے ہم اسے مسترد کرتے ہیں کیونکہ اس قانون کے تحت سرکاری ریٹائرڈ ملازمین اور ان کی فیملی کی پنشن کو محدود کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے سندھ حکومت کو چارٹر آف ڈیمانڈ ارسال کیا ہے اور اگر چارٹر آف ڈیمانڈ منظور نہیں کیا گیا تو پھر احتجاج کے دائرے کو وسیع کرتے ہوئے سندھ بھر میں مظاہرے کیئے جائیں گے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: گیا ہے
پڑھیں:
تحریک انصاف ایک سال میں اپنے بنیادی مطالبات سے پیچھے ہٹ چکی
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) گزشتہ ایک سال کے دوران نئے عام انتخابات، حکومت کی تبدیلی اور 2024ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی مکمل تحقیقات کے اپنے بنیادی مطالبات سے پیچھے ہٹ چکی ہے۔
اب پارٹی کی مکمل توجہ جیل میں قید پارٹی قیادت بشمول سابق وزیر اعظم عمران خان کیلئے ریلیف کے حصول اور مخالفانہ ماحول میں سیاسی مقام کے دوبارہ حصول پر مرکوز ہے۔
پارٹی ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے بیشتر رہنما اب سمجھ چکے ہیں کہ تاریخی لحاظ سے پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والی طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ براہ راست تصادم فضول ہے۔ پی ٹی آئی کی سینئر شخصیات کے ساتھ پس منظر میں ہونے والی بات چیت سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اعتماد کا گہرا فقدان ٹھیک نہیں ہو سکتا اور پس پردہ کوئی ڈیل ایسی ثابت نہیں ہو سکتی کہ جس سے عمران خان کی اڈیالہ جیل سے رہائی اور اقتدار کے ایوانوں میں دوبارہ واپسی کو ممکن بنایا جا سکے۔
پارٹی کی ایک سینئر شخصیت نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس بات کا اعتراف کیا کہ فی الوقت ہمارے لیے سب سے بہتر چیز یہ ہو سکتی ہے کہ اقتدار میں واپسی کی بجائے سیاسی بقاء کی حکمت عملی اختیار کی جائے تاکہ پارٹی کو سانس لینے کا موقع مل سکے اور 2028ء میں منصفانہ الیکشن ملے۔ پارٹی اب سمجھتی ہے کہ موجودہ ’’ہائبرڈ سسٹم’’ (ایک اصطلاح جو اکثر اسٹیبلشمنٹ کے زیر تسلط سیاسی فریم ورک کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے) جاری رہے گا۔
یہ نظام ختم کرنے یا اسے کمزور کرنے کی پی ٹی آئی کی کوششیں ناکام رہی ہیں جس کیلئے پارٹی عوامی تحریکیں، عدالتی دبائو یا بین الاقوامی برادری سے اپیلوں کا راستہ اختیار کر چکی ہے۔ پارٹی کا اپنا تجزیہ یہ ہے کہ عدلیہ اپنی غیر جانبداری کھو چکی ہے، جبکہ غیر ملکی حکومتوں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
ملک کے کئی حصوں میں خاص طور پر نوجوانوں اور شہری متوسط طبقے میں پی ٹی آئی کی مقبولیت زیادہ ہے۔ تاہم، پارٹی رہنما مانتے ہیں کہ اس عوامی حمایت سے سیاسی فائدہ حاصل نہیں کیا جا سکا کیونکہ یہ تسلیم کی گیا ہے کہ فوج کے ساتھ براہِ راست تصادم کی پالیسی غلط رہی۔ پارٹی کی صفوں میں ایک پریشان کن سوال جنم لے رہا ہے کہ اگر کوئی سمجھوتہ ہوا بھی تو کیا اسٹیبلشمنٹ عمران خان پر دوبارہ بھروسہ کرے گی؟ اس کے ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے کہ عمران خان کے بغیر پی ٹی آئی سیاسی لحاظ سے ناقابل تصور ہے۔
پی ٹی آئی کیلئے پریشان کن بات یہ ہے کہ مفاہمت کی خواہشات کے باوجود پارٹی کے بانی چیئرمین نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنے کیلئے پارٹی سوشل میڈیا کو بیان بازی میں نرمی لانے یا حکمت عملی تبدیل کرنے کیلئے نہیں کہا۔
اس کے برعکس، پارٹی سوشل میڈیا کا بیانیہ سخت تنقید پر مبنی ہے جس سے حالات مزید خراب ہوتے ہیں۔ آئندہ کے حوالے سے پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کو ایک عملی نقطہ نظر اختیار کرنا چاہئے: اپنے قیدی رہنمائوں کیلئے قلیل مدتی ریلیف حاصل کرنا، نچلی سطح پر دوبارہ منظم ہونا، اور آئندہ عام انتخابات کیلئے تیاری شروع کرنا۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ پارٹی اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے تصادم کی بجائے بقائے باہمی کا راستہ چنتی ہے یا نہیں۔
Post Views: 5