WE News:
2025-04-22@14:42:34 GMT

عزت اور صحت تو آنی جانی ہے

اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT

آج (4 فروری) عالمی یومِ سرطان ہے۔ 150 سے زائد ممالک میں سینکڑوں چھوٹی بڑی تقاریب، کتابچوں کی تقسیم اور کینسر مریضوں سے یکجہتی کے لیے واکس ہو رہی ہیں۔

جاننے کی بات یہ ہے کہ کینسر بذاتِ خود بیماری نہیں بلکہ  انسانی جسم کے اندر خلیوں کی بغاوت اور گروہ بندی کے عمل کو کینسر کہتے ہیں۔ جسم میں کسی ایک حصے کے خلیے کسی بھی دن کسی بھی وجہ سے پگلا  کے تیزی سے اپنی تعداد ازخود بڑھانا شروع کر دیتے ہیں اور ٹیومر نامی گروہی شکل میں آس پاس کی حساس جسمانی تنصیبات میں توڑ پھوڑ شروع کر دیتے ہیں اور اگر صحت مند خلیے  مزاحمت نہ کریں تو دہشتگرد سرطانی خلیے مقبوضہ علاقہ بڑھاتے ہی چلے جاتے ہیں اور آزاد جسمانی مملکت کا وجود مٹا کے ہی دم لیتے ہیں۔

اگر آپ تھوڑے سے بھی زہین اور محتاط ہیں تو ان دہشتگرد خلیوں کو سازش کے ابتدائی مرحلے میں ہی پکڑ کے ان کا جزوی یا کلی قلع قمع کر سکتے ہیں۔ مگر تدارک کے لیے سرطانی سازش کی موٹی موٹی نشانیاں جاننا بھی ضروری ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: گرین پاسپورٹ کا رنگ پیلا کیوں پڑ گیا؟  

مثلاً جسم کے مختلف حصوں پر مسوں یا تلوں میں اچانک سے اضافہ اور انکے حجم و رنگت میں بارہا تبدیلی محسوس کرنا، کھانسی کے دوروں میں اضافہ، اکثر سانس اٹکنا اور خوراک نگلنے میں تکلیف ہونا، آئے دن قبض یا دست کی شکایت، پیشاب اور بلغم میں خون محسوس کرنا  یا جنسی مقامات سے وقتاً فوقتاً خون رسنے کا غیر متوقع عمل،  بلاوجہ وزن میں کمی ، اچانک سے بکثرت تھکن کا احساس، نئے نئے عارضی یا مستقل درد کا تجربہ جو پہلے کبھی نہیں ہوا، پیشاب کی بار بار  آمد میں اضافہ یا پیشاب کے دوران تکلیف محسوس کرنا یا ایسا لگے کہ زور سے آ رہا ہے مگر نہ آنا یا بہت کم آنا۔

خواتین کا چھاتیوں کی کھال یا حجم میں تبدیلی اور ان میں تھوڑا بہت درد محسوس کرتے رہنا، بھوک کا اکثر اڑ جانا، معدے کے السر میں شدت، بدہضمی یا سینے کی جلن جیسی کیفیات میں اضافہ، سوتے میں اچانک پسینے سے شرابور ہو جانے کی کیفیت وغیرہ۔

ضروری نہیں کہ ان تمام علامات کا مطلب کینسر کی ابتدا ہی ہو۔ کئی دیگر بیماریوں میں بھی ایسی یا ان سے ملتی جلتی علامات مشترک ہوتی ہیں۔ مگر احتیاط کا تقاضا ہے کہ  جب ان میں سے کچھ یا بہت سی علامات محسوس کریں تو خود بقراط  بننے یا اپنے جیسے دیگر نیم حکیموں کے مجرب نسخوں اور ٹوٹکوں پر کان دھرنے  کے بجائے کسی ڈھنگ کے ڈاکٹر سے رابطہ کریں اور اگر وہ مختلف ٹیسٹ کروانے کو کہے تو کج بحثی کے بجائے مشورہ دھیان سے سنیں۔

ہو سکتا ہے کہ معائنے اور تشخیص کے نتیجے میں تصدیق ہو جائے کہ یہ کینسر نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔ لیکن یہ خدانخواستہ کینسر کی علامات نکلیں تب آپ کیا کریں گے۔ لہٰذا عافیت اسی میں ہے کہ جب بھی آپ جسمانی طور پر کچھ الٹا سیدھا یا غیرمعمولی محسوس کریں تو اپنے اور کنبے کے ذہنی سکون کے لیے معائنہ ضرور کروا لیں۔

کینسر کسی ایک مسئلے کا نام نہیں بلکہ ہمیں کینسر کی 200 سے زائد اقسام میں سے کوئی بھی لاحق ہو سکتا ہے۔ البتہ 5 بڑے جانے پہچانے کینسر ہیں۔

مثلاً کارسینوما ( چھاتی، پھپپھڑوں، مثانے اور فوطوں کا کینسر)۔

سرکوما (ہڈیوں اور پٹھوں کا کینسر)۔

دماغ اور ریڑھ کی ہڈی یعنی مرکزی اعصابی نظام پر حملہ آور ہونے والا کینسر۔

لوکیمیا (یہ خون کے سفید جسیموں اور ہڈیوں کے گودے کا دشمن ہے)۔

لمپفوما اور مائلوما (یہ آپ کے جسمانی مدافعتی نظام کے پیچھے پڑ جاتا ہے) ۔

کینسر ٹی بی یا کوڑھ کے برعکس چھوت چھات والا معاملہ نہیں۔ چنانچہ آپ بے فکری سے متاثرہ شخص کا خیال رکھ سکتے ہیں۔ اس سے ایسی گفتگو کر سکتے ہیں جس سے اس کا حوصلہ نہ ٹوٹے اور وہ خود کو تنہا یا الگ تھلگ محسوس نہ کرے۔ آدھی لڑائی دوا لڑتی ہے اور آدھی جنگ حوصلہ جیتتا ہے۔

مزید پڑھیے: اگلے 5 برس اور اڑتا پاکستان

دواؤں اور علاج کے طریقوں میں دن بہ دن بہتری آ رہی ہے۔ لہٰذا کینسر سے کامیابی سے لڑنے کی شرح پہلے کے مقابلے میں مسلسل بڑھ رہی ہے ۔ کہنے کا مطلب ہے کہ کینسر سزائے موت نہیں ہے بلکہ اس کے چنگل سے فرار ممکن ہے۔

بہت سے لوگ بد احتیاطی سے زندگی بھر پرہیز کرتے ہیں پھر بھی کوئی نہ کوئی کینسر ہو جاتا ہے۔ اس کا سبب  خاندانی جینیاتی ورثہ ہوسکتا ہے۔ البتہ جینیاتی وجوہات  کے سبب کینسر میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد زیادہ نہیں ہوتی۔ ہم تمام احتیاطیں کرلیں مگر فضائی و ماحولیاتی آلودگی کے اثرات سے شاید نہ بچ سکیں۔ چنانچہ ایسی فضا میں زندہ رہنے سے کئی اقسام کے کینسرز کو پھلنے پھولنے کا موقع مل جاتا ہے۔
کینسر کے تباہ کن اثرات سے نمٹا جا سکتا ہے، انہیں پسپا کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ ہم غیر معمولی علامات محسوس کرتے ہی یا پھر احتیاطاً بنا کسی علامت  ہر برس 2 برس میں تفصیلی طبی معائنہ کروانے کی علت پال لیں۔ یقیناً  کوئی بھی جانچ مفت میں نہیں پڑتی مگر اس کا خرچہ  کینسر کے علاج کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔

اگر آپ ماشاءاللہ صحت مند ہیں پھر بھی اوپر والے کا شکر اور احتیاط کے بجائے خطروں سے خوامخواہ کھیلنے والی طبیعت پائی ہے اور یہ بھی زعم ہے کہ مجھے کچھ  نہیں ہو سکتا تو پھر آزمائش شرط ہے۔

دبا کے مے نوشی، منشیات کا استعمال، پان خوری یا تمباکو نوشی کیجیے اور اس انتباہ کو نظرانداز کر دیجیے کہ یہ تمام شوق آپ کو انگلی تھام کے معدے، آنت، جگر، سینے اور منہ کے کینسروں تک بآسانی پہنچا سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: شاید افغانوں میں ہی کوئی خامی ہے

اگر آپ شکم کے پجاری ہیں تو وزن اور توند بھلے بڑھتے رہیں مگر آپ ٹینشن نہ لیں اور 3،3 منزلہ برگر ڈکارتے رہیں، سبزیوں اور پھلوں سے منہ موڑ کے ریڈ میٹ، پروسیسڈ میٹ، نمکین اشیا  اور میٹھے سے رغبت کم نہ کریں۔ یہ بھی ہرگز نہ سوچیں کہ ان اسباب  کے ہوتے آپ کسی بھی دن  آنت اور پتے سمیت 12 طرح کے کینسرز میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔

ورزش یا چہل قدمی سے جتنا بچ سکتے ہیں بچیے اور اس سوچ کا دامن تھامے رہیں کہ بدپرہیزی اور تساہل کے جان لیوا نقصانات محض لالچی ڈاکٹروں کی پھیلائی ہوئی افواہیں ہیں۔ کون سا دوبارہ جنم لینا ہے۔ کھا لو پی لو موج اڑا لو۔ ایک دن تو سب ہی کو جانا ہے۔عزت اور صحت  آنی جانی ہے۔ اللہ مالک ہے۔

لانا بھئی ایک اور نمکین بیف کڑاہی اور سامنے والے کھوکھے سے سگریٹ کا ایک پیکٹ بھی پکڑ لو، شاباش۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسعت اللہ خان

وسعت اللہ خان معروف پاکستانی صحافی، کالم نگار اور تجزیہ کار ہیں

تمباکو نوشی عالمی یوم سرطان کینسر کینسر سے بچاؤ کینسر کی اقسام.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: تمباکو نوشی عالمی یوم سرطان کینسر کینسر سے بچاؤ کینسر کی اقسام سکتے ہیں کینسر کی سکتا ہے کے لیے

پڑھیں:

وارنر بھائی اور کتنا انتظار کریں

نیشنل اسٹیڈیم جاتے ہوئے آج اطراف کی سڑکوں پر قدرے سکون نظر آیا وجہ اتوار کی چھٹی تھی،عموما جب کوئی میچ ہو تو کئی کلومیٹر دور تک بیحد رش ہوتا تھا مگر اب ماضی والا دور نہیں رہا،پی ایس ایل کے دوران ورکنگ ڈیز میں یہاں دور تک گاڑیوں نظر آتی رہیں،ان میں سے بیشتر لوگ دفاتر سے گھر واپس جانے والے تھے۔

اسٹیڈیم کے مرکزی دروازے سے وی آئی پیز کی کارز اندر جانے کی وجہ سے ٹریفک سلو ہو جاتا ہے، اسی لیے عام لوگوں کے لبوں پر یہی دعائیں ہوتی ہیں کہ جلد کراچی میں کرکٹ میچز ختم ہوں اور انھیں چین سے گھر جانے کا موقع ملے۔

ماضی میں ایسا نہیں ہوتا تھا اور لوگ میچز کا انتظار کیا کرتے تھے،اب کراچی والے کرکٹ سے دور ہو چکے ہیں،حالانکہ یہاں کی بانسبت لاہور میں زیادہ پیدل چلنا پڑتا ہے، پھر بھی وہاں لوگ آتے ہیں،یہاں اب سڑکیں میچ کیلیے بند نہیں کی جاتیں،گھر کا کوئی فرد مرکزی دروازے پر فیملی کو چھوڑ کر کار پارک کر کے واپس آ سکتا ہے۔

البتہ پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ موجود ہے،اس کا حل شٹل بسیں چلانا ہے،مختلف شاپنگ مالز یا اور کوئی اور جگہ مختص کی جا سکتی ہے جہاں سے شائقین ٹکٹ دکھا کر بس میں سوار ہوں اور انھیں اسٹیڈیم پہنچا دیا جائے۔

اس میں کون سے کروڑوں روپے خرچ ہونے ہیں،اسی کے ساتھ اگر تعلیمی اداروں میں ٹکٹس دیے جاتے تو شاید چند ہزار لوگ تو آ ہی جاتے، یہ صرف پی سی بی نہیں بلکہ فرنچائزز کا بھی کام ہے،انھیں بھی برانڈ کو آگے بڑھانا چاہیے۔

ڈیوڈ وارنر کو کراچی کنگز نے 9 کروڑ روپے دیے ہیں،اس میں کرکٹ بورڈ کا بھی کنٹری بیوشن ہے،وارنر نے اب تک 46 رنز بنائے ہیں،یعنی ان کا ایک رن کئی لاکھ روپے کا پڑا ہے،خیر ابھی بہت میچز باقی ہیں کراچی والے چاروں میچز میں یہ آس لگائے بیٹھے رہے کہ شاید آج وارنر کا بیٹ چل جائے لیکن ایسا نہ ہوا،اتوار کو بھی جو چند ہزار لوگ وارنر کی بیٹنگ دیکھنے آئے تھے وہ مایوسی میں یہی کہتے پائے گئے کہ بڑی اننگز کیلیے وارنر بھائی اور کتنا انتظار کریں۔

خیر اب بھی ایک موقع باقی ہے،شاید پیر کو نیشنل اسٹیڈیم میں وارنر کے چوکوں،چھکوں کی بارش دیکھنے کو مل جائے،کراچی میں کم کراؤڈ کے باوجود جب پی ایس ایل کا ترانا یا کوئی اور گانا چلایا جاتا تو شائقین کا جوش و جذبہ بڑھ جاتا۔

کراؤڈ میں کمی کی بڑی وجہ پاکستان ٹیم کی ناقص کارکردگی بھی ہے،جب ٹیم دوبارہ جیتنے لگے گی تو لوگوں کی ناراضی ختم اور میدانوں کی رونق پھر سے بڑھ جائے گی،پی ایس ایل میں زیادہ بڑے نام نہ ہونے کے باوجود اس کے دلچسپ مقابلے دنیا بھر کی توقع کا مرکز بنتے ہیں،البتہ اس بار یکطرفہ مقابلوں نے تاحال ایونٹ کا مزا کرکرا کیا ہوا ہے۔

صرف کراچی کنگز اور ملتان سلطانز کا میچ ہی سنسنی خیز قرار دیا جا سکتا ہے،جب تک آخری اوورز تک میچز نہیں گئے ،ٹائی،سپراوورز نہ ہوئے تو شائقین دلچسپی نہیں لیں گے۔

بابر اعظم مسلسل مایوس کر رہے ہیں،محمد رضوان کا بیٹ ایک اچھی اننگز کے بعد خاموش ہو گیا، اب رواں ہفتے میچز ملتان اور لاہور منتقل ہو جائیں گے وہاں اسٹیڈیمز کھچا کھچ بھرے ہونے کی امید ہے۔

ایونٹ میں تاحال اسلام آباد یونائیٹڈ کی کارکردگی زبردست رہی،شاداب خان گزشتہ سال کی طرح اس بار بھی بہترین پرفارم کر رہے ہیں،کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کا سعود شکیل کو کپتان بنانے کا فیصلہ درست نہیں لگ رہا،شاید آپشنز کی کمی اس کی وجہ بنی ہو،شاہین آفریدی کی زیرقیادت لاہور قلندرز بھی تاحال مداحوں کی توقعات پر پورا اترے ہیں۔ 

البتہ ابھی چند ہی میچز ہوئے ہیں کارکردگی میں اتار چڑھاؤ آتے رہیں گے،تاحال ملتان سلطانز نے بیحد مایوس کیا،ماضی میں ٹائٹل جیتنے اور کئی بار فائنلز کھیلنے والی ٹیم اس بار مکمل آف کلر نظر آ رہی ہے،ٹیم اونر علی ترین نے آغاز سے قبل ہی لیگ کو متنازع بنانے کی کوشش کرتے ہوئے مسلسل منفی بیانات دیے،ان کی بعض باتیں شاید درست بھی ہوں لیکن انداز اور ٹائمنگ کو مناسب قرار نہیں دیا جا سکتا۔

بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ ملتان سلطانز کو اب ایک ارب 8کروڑ سالانہ کی بھاری فیس گراں گذرنے لگی ہے،ویلیویشن کے بعد یہ رقم بڑھ کر ڈیڑھ ارب تک پہنچ سکتی ہے،اس لیے فرنچائز اب جان چھڑانا چاہتی ہے۔

البتہ میری اطلاعات کے مطابق دیگر کی طرح سلطانز نے بھی فرنچائز برقرار رکھنے پر آمادگی ظاہر کر دی تھی،شاید بورڈ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش فیس میں کمی کرانے کیلیے ہے،البتہ معاہدہ اس کی اجازت نہیں دیتا،ری بڈنگ پر دیگر ٹیمیں آمادہ نہ ہوں گی۔

بعض افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ پی سی بی سے سلطانز میں جانے والے بعض آفیشلز نے بھی کان بھرے ہیں،حالیہ چند دنوں میں بورڈ کے خلاف میڈیا میں چند منفی خبروں کو بھی منظم مہم کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے،پاکستان میں کولنگ آف پیریڈ کا کوئی تصور نہیں ورنہ آفیشلز کو بورڈ کی ملازمت سے فارغ ہوتے ہی فرنچائز میں ملازمت کی اجازت نہ ملتی۔

مجھے لگتا ہے 2 نئی ٹیموں کی شمولیت کی باتیں سن کر بھی موجودہ فرنچائزز خوش نہیں ہیں،اس حوالے سے معاملات جب آگے بڑھیں گے تو محاذ آرائی کی کیفیت ہو سکتی ہے،البتہ ایک ایڈوانٹیج یہ ہے کہ سلمان نصیر اب پی ایس ایل کے سی ای او بن چکے۔

ان کی موجودہ فرنچائزز کے کئی مالکان سے دوستانہ تعلقات ہیں،وہ معاملات کو سنبھال سکتے ہیں، آئی سی سی سے شیئر ملنے کے بعد پاکستان کرکٹ کی آمدنی کا دوسرا سب سے بڑا ذریعہ پی ایس ایل ہی ہے،اس میں صفر سرمایہ کاری کے باوجود آمدنی ہوتی ہے،تمام تر اخراجات فرنچائز فیس سے پورے کیے جاتے ہیں۔

لہذا ضروری ہے کہ لیگ کو اور بڑا بنایا جائے تاکہ معاملات بہتر ہوں،امید ہے پی سی بی ایسا ہی کرے گا،اونرز کو بھی اپنی شکایات گورننگ کونسل میٹنگ میں کرنی چاہئیں،میٹنگ میں مائیک میوٹ اور میڈیا میں شور مچانے سے فیس کم نہیں ہو سکتی ہاں لیگ بدنام ضرور ہوگی۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

متعلقہ مضامین

  • ضرورت ہوئی تو مزید قانون سازی کریں گے ،وزیر قانون
  • برطانیہ میں 1 ہی بچے کی دو بار پیدائش کا حیران کُن واقعہ
  • نوازشریف انسٹیٹیوٹ آف کینسر ٹریٹمنٹ اینڈ ریسرچ بل کی عدم منظوری، مریم نواز برہم، سخت نوٹس لے لیا
  • ہانیہ عامر کو دیکھ کر محسوس ہوا کہ انسان کو ایسا ہونا چاہیے: کومل میر
  • ہمارے حاجی وی وی آئی پی کی طرح حج کریں گے: وفاقی وزیر مذہبی امور
  • آغا راحت کی سرکاری ملازمین پر تنقید مناسب نہیں، انجینیئر انور
  • جی ایچ کیو حملہ کیس کی سماعت آج ہوگی، پانچویں بار گواہان کی طلبی
  • کشمیر، گلگت بلتستان میں بارش، کراچی ہیٹ ویو کی لپیٹ میں
  • وارنر بھائی اور کتنا انتظار کریں
  • ہم جنگ کا خاتمہ اس وقت تک نہیں کریں گے جب تک حماس کو ختم نہ کردیں: نیتن یاہو