٭ لگتاہے آئین ملک کو چلانے کے لیے نہیں بنا ،وہ اس کو چلانے کے لیے بنے ہیں،حکومت عوام کی منتخب کردہ نہیں، حکومت اسٹیبلیشمنٹ کے اشاروں پر چلتی ہے ،محسوس ہورہاہے کہ کوئی دباؤ آیا اورپیکا بل پر دستخط ہو گئے
٭26آئینی ترمیم میں ایسی ترامیم کو شامل کیا گیا کہ ججز مکمل ان کی کٹھ پتلی ہوں،صدر مملکت سے کہا تھا وہ وقت دیں اور دستخط نہ کریں، مگر کوئی دباو ٔ آیا اورپیکا ترمیمی بل پر دستخط ہو گئے، مولانا فضل الرحمان کی گفتگو

(جرأت نیوز )جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمان پیکا قانون پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقتدر قوتوں کے لیے آئین اور قانون موم کی ناک ہے جس طرف چاہیں موڑ دیں، لگتا ہے پر کوئی دباو ٔآیا اور ترمیمی بل پر دستخط ہو گئے ۔سربراہ جے یوآئی مولانا فضل الرحمان نے پارلیمنٹ ہاؤس میں پی آر اے کے دفتر کا دورہ کیا، صدر پی آر اے پاکستان عثمان خان اور سیکرٹری نوید اکبر سمیت باڈی کے ممبران نے استقبال کیا۔ صدر پی آر اے عثمان خان اور سیکریٹری نوید اکبر نے مولانا کو پیکا ترمیمی بل سے متعلق بریف کیا۔ سربراہ جے یوآئی مولانا فضل الرحمان نے پارلیمانی رپورٹرز سے پیکا بل پر اپنے ہرممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی اور کہا کہ سیاست اور صحافت ہمیشہ ایک دوسرے سے وابستہ رہے ہیں، خاص طور پر پارلیمان کے اندر ارکان اور صحافیوں کے تعلق کا بھی ادراک و احترام ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انسان قوانین بناتا ہے تو خاص معروضی حالات کو مدنظر رکھ کر بناتا ہے مگر ایک وقت کے بعد اسکی افادیت ختم ہوجاتی ہے ، باالخصوص 26 ویں ترمیم کے وقت جو حالات رہے تعجب ہے ہمارے مقتدر حلقوں کے قریب آئین موم کی ناک ہے ، جیسے آئین ملک کو چلانے کے لیے نہیں بنا اور وہ آئین کو چلانے کے لیے بنے ہیں۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ پیکا قانون پر اپنے موقف کو دہراؤں گا، پیکا قانون پر صحافیوں کو اعتماد میں لیا جاتا، ان کی تجاویز لی جاتی، صدر کو کہا تھا صحافیوں کی تجاویز لی جائیں اور صحافتی تنظیموں کی رائے لیں، صدر مملکت سے کہا تھا وہ وقت دیں اور دستخط نہ کریں، مگر کوئی دباو ٔ آیا اور ترمیمی بل پر دستخط ہو گئے ۔ان کا کہنا تھا کہ اب صورتحال یہ ہے کہ جہاں ہم سے وہ تقاضہ کررہے تھے کہ مسودہ تیار نہیں، وہیں ووٹ لینا بھی چاہتے تھے ، جب مسودہ کا تقاضہ ہوا تو شدید موقف کے بعد مسودہ دیا، اگر ہم اس مسودہ کو تسلیم کرلیتے تو نام کی جمہوریت ہوتی اور مارشل لا ہوتا۔سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ اطمینان سے کہہ سکتا ہوں کہ ایک ماہ مذاکرات کرکے خالصتا آئینی جمہوری بنیاد پر بات کی، ہمارا کوئی ذاتی مفاد شامل تھا نہ کوئی مطالبہ تھا اور کامیابی ملی، 56کلاز سے دستبردار کیا اور 26تک لیکر آئے ، ہمارا موقف پیکا ترامیمی بل پر بہت واضح ہے ۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ26آئینی ترمیم میں ایسی ترامیم کو شامل کیا گیا کہ ججز مکمل ان کی کٹھ پتلی ہوں، جو گنجائش موجود تھی اس کا آج بھرپور فائدہ اٹھایا جارہا ہے ، ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا فائدہ اٹھانا بھی آئین کی روح کی خلاف ورزی ہے ، ایسے اقدامات غمازی کرتی ہے کہ حکومت اسٹبلشمنٹ کی اشاروں پر چلتی ہے ، یہ اقدامات ملکی مفاد میں نہیں ہوتے ، ہماری رائے کو مثبت سمجھا جائے ، امریکی نئی انتظامیہ آئی ہے فلسطین میں جنگ بندی ہوئی ہے ۔

.

ذریعہ: Juraat

پڑھیں:

مغربی سامراجی قوتوں نے تاریخ کو کیسے مسخ کیا؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 اپریل 2025ء) اس کی ایک واضح مثال 1861ء سے 1865ء تک جاری رہنے والی امریکی خانہ جنگی ہے۔ مورخین اس کے اسباب پر منقسم ہیں۔ ایک گروہ کا ماننا ہے کہ یہ جنگ غلامی کے خاتمے کے لیے لڑی گئی، جبکہ دوسرا گروہ اسے یونین کے تحفظ سے جوڑتا ہے۔ تیسرے گروہ کی رائے ہے کہ شمالی ریاستیں، جو صنعتی ترقی کی راہ پر تھیں، جنوبی ریاستوں کے زرعی کلچر اور غلامی پر مبنی معیشت کو ختم کرنا چاہتی تھیں۔

جنوبی ریاستوں کے بڑے زمیندار، جن کی دولت غلاموں کی محنت سے حاصل شدہ زرعی پیداوار پر منحصر تھی، غلامی کو جائز قرار دیتے تھے۔ وہ دعویٰ کرتے تھے کہ افریقی غلاموں کو ان کے ''پسماندہ معاشروں‘‘ سے نکال کر امریکہ میں آباد کیا گیا، جہاں انہیں عیسائیت قبول کروا کر ''نجات اور معاشی استحکام‘‘ دیا گیا۔

(جاری ہے)

جب کوئی تاریخی واقعہ متنازع ہو جاتا ہے، تو ہر گروہ اپنے موقف کے دفاع کے لیے نئے تاریخی مآخذ تلاش کرتا ہے یا موجودہ مآخذ کی نئی تشریحات پیش کرتا ہے۔

اس عمل سے تاریخ کا دائرہ کار وسیع ہوتا ہے اور نئے خیالات اسے تازگی عطا کرتے ہیں۔ تاہم یہ عمل تاریخ کو مسخ کرنے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

یورپی سامراجی ممالک نے اپنی نوآبادیاتی تاریخ کو بہت حد تک مسخ کیا ہے۔ انہوں نے مقامی باشندوں کا استحصال کیا، ان کا قتل عام کیا اور ان کی دولت لوٹ لی لیکن ان مظالم کا تذکرہ ان کی تاریخی کتابوں میں شاذ و نادر ہی ملتا ہے۔

اس کے برعکس، وہ اپنی نوآبادیاتی تاریخ کو فخر کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے ایشیا اور افریقہ کی ''پسماندگی‘‘ کو ختم کر کے انہیں ''مہذب‘‘ بنایا۔

اسی طرح، جن یورپی ممالک نے غلاموں کی تجارت کی، انہوں نے افریقہ سے غلاموں کو جہازوں میں بھر کر امریکہ کی منڈیوں میں فروخت کیا اور کریبین جزائر میں ان سے شکر اور کافی کی پیداوار کروائی۔

ان مظالم کی تفصیلات ان کی تاریخ سے غائب ہیں۔

تاریخ کا ارتقاء کیسے ہوتا ہے؟

وہ فخر سے بتاتے ہیں کہ 1830ء کی دہائی میں برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک نے غلامی کا خاتمہ کیا اور وہ اسے اپنی مذہبی و اخلاقی اقدار کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ لیکن یہ دعویٰ حقیقت سے دور ہے۔ غلامی کا خاتمہ مذہبی یا اخلاقی وجوہات کی بجائے تکنیکی ترقی کی وجہ سے ہوا۔

جب مشینوں نے غلاموں کی محنت سے زیادہ پیداوار دینا شروع کی تو غلام معاشی بوجھ بن گئے۔ نتیجتاً، انہیں آزاد کیا گیا لیکن آزادی کی قیمت بھی غلاموں سے ہی وصول کی گئی۔ مالکان نے دعویٰ کیا کہ غلام ان کی ملکیت ہیں، اس لیے انہیں آزادی کے بدلے چار سے پانچ سال تک بغیر معاوضے کے کام کرنا پڑا۔ یورپی ممالک نے غلاموں کی نسلوں سے لی گئی محنت کا کوئی معاوضہ ادا کرنے پر غور نہیں کیا اور غلامی کے کاروبار کو جرم قرار دینے سے گریز کیا۔

یورپی سامراج نے اپنی غربت کم کرنے کے لیے افریقہ میں کالونیاں قائم کیں۔ سیسل روڈز (وفات: 1902ء) نے موجودہ زمبابوے اور جنوبی افریقہ میں مقامی لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کر کے برطانوی غریبوں کو آباد کیا۔ جرمنی نے نمیبیا اور ہرارے میں نابا قبائل کو ختم کر کے جرمن آباد کاروں کو بسایا۔ اس طرح، یورپی ممالک نے ''اپنی غربت ختم کر کے افریقیوں کو غریب‘‘ بنا دیا لیکن ان کی تاریخ ان جرائم پر خاموش ہے۔

تاریخ کو مسخ کرنے کا عمل قوم پرستی اور وطن پرستی کے نام پر بھی کیا گیا۔ 1937ء میں جاپان نے چین پر حملہ کیا اور نانجِنگ سمیت کئی شہروں میں لوٹ مار اور قتل عام کیا۔ نانجِنگ میں شہریوں کا قتل، خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی اور منچوریہ میں آبادی کا خاتمہ جاپانی بربریت کی واضح مثالیں ہیں۔

عالمگیر تاریخ

جاپان نے فلپائن اور کوریا میں بھی یہی مظالم دہرائے، جہاں کوریائی خواتین کو ''کمفرٹ ویمن‘‘ کے نام سے جنسی غلامی کا نشانہ بنایا گیا۔

لیکن دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپانی مورخین نے قوم پرستی کے نام پر ان مظالم کو نظرانداز کیا۔ نانجنگ کے قتل عام کو تاریخی طور پر تسلیم نہیں کیا گیا، حالانکہ تصاویر اور شواہد موجود ہیں، جن میں شہریوں کی لاشیں سڑکوں پر بکھری نظر آتی ہیں۔

کچھ جاپانی فوجیوں نے فخریہ طور پر اپنی ڈائریوں میں لکھا کہ انہوں نے شہریوں کو قطار میں کھڑا کر کے یہ دیکھا کہ ایک گولی سے کتنے لوگ ہلاک ہو سکتے ہیں۔

ایسی تفصیلات جاپانی تاریخ سے غائب ہیں۔

جاپان نے اپنی نئی نسل کو تاریخی حقائق کے بجائے قومی عظمت کی داستانیں سنائیں اور مظالم کو قومی مفاد کے نام پر چھپایا۔ یورپی سامراجی ممالک نے بھی اپنی کالونیوں کی آزادی کے وقت تاریخی دستاویزات کو یا تو جلا دیا یا اپنے ممالک میں منتقل کر دیا۔ آزادی کے بعد لکھی گئی تاریخ میں ایشیا اور افریقہ کی سامراجی مزاحمت کو نظر انداز کیا گیا اور حقائق کو مسخ کر کے پیش کیا گیا۔

مسخ شدہ تاریخ کو درست کرنا اس لیے مشکل ہے کہ متعلقہ دستاویزات یا تو موجود نہیں یا یورپی ممالک کے قبضے میں ہیں، جہاں تک ایشیا اور افریقہ کے ممالک کی رسائی نہیں۔ بدقسمتی سے ایشیا اور افریقہ کے ان ممالک میں، جہاں آمرانہ حکومتیں رہی ہیں، وہاں بھی تاریخ کو مسخ کیا گیا۔ آمروں نے اپنے ظلم و ستم کو قوم پرستی کے نام پر چھپایا اور مورخین نے ان واقعات کو مکمل طور پر بیان کرنے سے گریز کیا۔

جب تاریخ کو مسخ کر کے نصابی کتب میں شامل کیا جاتا ہے، تو نوجوان نسل تاریخی شعور سے محروم ہو جاتی ہے۔ وہ ماضی سے سبق سیکھنے کے بجائے گمراہی کا شکار ہوتی ہے۔ تاریخ کو درست کرنے کی ذمہ داری مورخین اور معاشروں پر عائد ہوتی ہے تاکہ آنے والی نسلیں حقائق سے آگاہ ہو سکیں اور ماضی کے تجربات سے سیکھ سکیں۔

ادارت: امتیاز احمد

متعلقہ مضامین

  • فضل الرحمن حافظ نعیم ملاقات : جماعت اسلامی ، جے یوآئی کا غزہ کیلئے اتحاد ، اپریل کو پاکستان پر جلسہ 
  • ریاست کا حصہ ہیں، عقل کے اندھے آئین پڑھیں: عمر ایوب 
  • مولانا فضل الرحمان کی مرضی اتحاد کرتے ہیں یا نہیں، عمر ایوب
  • فضل الرحمان حافظ نعیم ملاقات: فلسطین کا مسئلہ اجاگر کرنے کے لیے ’مجلس اتحاد امت‘ کے نام سے فورم بنانے کا اعلان
  • مولانا فضل الرحمٰن اور امیر جماعت اسلامی کے درمیان ملاقات آج ہوگی
  • نئی ترمیم لانے کی فی الحال کوئی تجویز نہیں: وزیرِ قانون اعظم نذر تارڑ
  • مولانا فضل الرحمن کا پاکستان تحریک انصاف کیساتھ سیاسی اتحاد کرنے سے انکار
  • سعودی شہریوں کے لیے پاکستان آنے پر کوئی ویزا پابندی نہیں جب چاہیں آئیں، محسن نقوی
  • سعودی شہریوں کیلئے پاکستان آنے پر کوئی ویزا نہیں، جب چاہیں آئیں: محسن نقوی
  • مغربی سامراجی قوتوں نے تاریخ کو کیسے مسخ کیا؟