رانگ ٹرن کی پہلی فلم 2003 میں آئی اور اس نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا‘ فلم کی اسٹوری ایلن بی میکلوری (Alan B. McElroy) نے لکھی اور روب شمٹ (Rob Schmidt) نے اسے ڈائریکٹ کیا تھا‘ فلم اتنی مشہور ہو گئی کہ پروڈیوسر 2007میں اس کا پارٹ ٹو لے آیا اور اس کے بعد لائین لگ گئی‘ 2009میں پارٹ تھری آیا‘ 2011 میں پارٹ فور‘ 2012 میں پارٹ فائیو‘ 2014 میں پارٹ سکس اور 2021 میں پارٹ سیون اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔
رانگ ٹرن کی کہانی بہت سادی ہے‘ دنیا میں ہمارے دائیں بائیں موت کی بے شمار وادیاں ہیں جن میں ایک سے بڑھ کر ایک خوف ناک عذاب انسانوں کا انتظار کر رہا ہے‘ ہم زندگی میں معمول کا سفر کرتے کرتے ایک رانگ ٹرن لیتے ہیں اور پھر موت کی ان وادیوں میں جا گرتے ہیں جن سے نکلنا ناممکن ہو جاتا ہے۔
اس فلم کے کرداروں کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے‘ یہ رانگ ٹرن لیتے ہیں اور اس کے بعد عذاب کا شکار ہو جاتے ہیں‘ میں نے 2005 میں پہلی بار یہ فلم دیکھی تھی اور یہ سبق سیکھا تھا زندگی گزارنے کا شان دار طریقہ صراط مستقیم ہے اور انسان کو کوشش کرنی چاہیے یہ کسی قیمت پر اس راستے سے نہ ہٹے کیوں کہ کوئی ایک رانگ ٹرن اسے کسی ایسے مقام پر لے جائے گا جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہو گی۔
ہماری قومی زندگی میں بھی 2014میں ایک رانگ ٹرن آیا تھا اور یہ رانگ ٹرن ملک کو ایک ایسی دلدل میں لے آیا جس سے نکلتے نکلتے ہم مزید دھنستے چلے جا رہے ہیں‘ ریاست ایک قدم اٹھاتی ہے اور اس کے بعد بڑے فخر سے دعویٰ کرتی ہے ہم اور ملک بحران سے نکل آئے ہیں لیکن اگلے دن معلوم ہوتا ہے وہ قدم ہمیں منزل سے مزید کئی کلومیٹر دور لے جا چکا ہے۔
ہمیں آج ماننا ہوگا 2014ہماری قومی زندگی کا منحوس ترین سال تھا‘ اس کی نحوست دس سال گزرنے کے بعد بھی آج تک قائم ہے اور سردست اس کے ٹلنے کے آثار نظر نہیں آ رہے اور اس کا سب سے بڑا وکٹم پاکستان ہے‘ یہ ملک روز بروز ڈوبتا چلا جا رہا ہے‘ میں عمران خان کا فین تھا اور میں آج بھی اس کا فین ہوں‘ اس شخص نے جیل کاٹ کر سب کے دعوؤں پر پانی پھیر دیا۔
یہ بیانیہ بنانے کا بھی اس وقت دنیا کا سب سے بڑا ماہر ہے‘ یہ ون مین آرمی بھی ہے‘ یہ اکیلا پوری پارٹی ہے اور لوگ اس سے بے تحاشا محبت بھی کرتے ہیں‘ ہمیں اس کی یہ خوبیاں بہرحال ماننا ہوں گی لیکن اس کی دو خامیوں نے اس اور ملک دونوں کا جنازہ نکال دیا اور وہ دو خامیاں ہیں بے تحاشا ضد اور انتہائی بری ٹیم۔
یہ وہ دو خامیاں ہیں جنھوں نے بانی کے ساتھ ساتھ ملک کا انجر پنجر بھی ہلا دیا‘ آپ خان کی ضد کا کمال دیکھیے‘ یہ اس ریاست کے ساتھ لڑ رہاہے جو اگر یہ جنگ ہار جاتی ہے تو پھر یہ اس قابل نہیں رہے گی جس پر عمران خان حکومت کر سکے‘ یہ ملک اسٹیبلشمنٹ کے بغیر کچھ بھی نہیں اور اگر یہ ختم ہو گئی تو پھر سب کچھ ختم ہو جائے گا لیکن خان اس حقیقت کا ادراک ہی نہیں کر رہا۔
دوسرا آپ دنیا جہاں کے شان دار لوگ اس کے سامنے کھڑے کر دیں لیکن یہ ان سب کو چیر کر سیدھا کسی عثمان بزدار یا محمود خان پر گرے گا اور پھر اپنی ساری توانائیاں اسے وسیم اکرم پلس بنانے میں صرف کر دے گا۔
لیکن جس طرح خواجہ سرا صاحب اولاد نہیں ہو سکتے بالکل اسی طرح عثمان بزدار آخر میں عثمان بزدار اور محمود خان محمود خان ہی رہتے ہیں مگر آج ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا یہ دونوں خامیاں ہماری اسٹیبلشمنٹ میں بھی ہیں یعنی انتہائی ضد اور بری ٹیم کی سلیکشن۔
مثلاً میاں نواز شریف 2014 میں ٹھیک کام کر رہے تھے‘ حکومت نے دہشت گردی اور لوڈ شیڈنگ پر قابو پانا شروع کر دیا تھا اور سی پیک کے ذریعے معاشی ری وائیول بھی ہو رہا تھا لیکن چند لوگوں کی ضد آڑے آئی اور انھوں نے چلتے ہوئے ملک کو ’’رانگ ٹرن‘‘ کی طرف دھکیل دیااور خان نے لانگ مارچ کا اعلان کر دیا‘ ان کا دعویٰ تھا دس لاکھ لوگ لاہور سے نکلیں گے جن میں لاکھ موٹر سائیکل ہوں گے لیکن یہ دعویٰ بری طرح ناکام ہوا‘ اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ کے باوجود لاہور سے دس ہزار لوگ بھی نہیں نکلے اور وہ بھی گوجرانوالہ تک پہنچتے پہنچتے تحلیل ہو گئے۔
اسٹیبلشمنٹ اگر اس وقت خان صاحب کی مینجمنٹ سکل اور ٹیم میکنگ کی صلاحیت کا اندازہ کر لیتی تو آج شاید صورت حال مختلف ہوتی لیکن جب انسان کی مت ماری جاتی ہے تو پھر اسے سامنے پڑی چیزیں بھی دکھائی نہیں دیتیں لہٰذا ہمارے بھائی لوگ اسے خان کی ناتجربہ کاری اور سادگی سمجھ بیٹھے۔
خان نے بعدازاں اسلام آباد میں 126 دن دھرنا دیا‘ اس دھرنے کے کھانے تک کا بندوبست جنرل ظہیر الاسلام کرتے تھے‘ دھرنے کے لیے بجلی کا انتظام بھی آبپارہ سے ہوتا تھا‘ اسٹیبلشمنٹ کو اس وقت بھی اندازہ نہیں ہوا جو شخص یہ چھوٹا سا ٹاسک پورا نہیں کر سکتا وہ کل اگر وزیراعظم بن گیا تو اس کے کپڑے تک ہمیں ڈرائی کلین کرنا پڑیں گے‘ ہم پہلے اسے کرسی پر بٹھائیں گے پھر اس کرسی کی حفاظت کریں گے پھر حکومت چلائیں گے اور آخر میں اس سے بے عزتی بھی کرائیں گے چناں چہ اسٹیبلشمنٹ کی خان کو وزیراعظم بنانے کی ضد نے ملک کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا۔
پنجابی کا بڑا شان دار محاورہ ہے‘ نانی کی شادی کرائی برا کیا اور شادی کے بعد نانی کی طلاق کرا دی یہ اس سے بھی برا کیا‘ خان کو زبردستی وزیراعظم بنوانے کی کوشش نانی کا نکاح تھا‘ یہ نہیں ہونا چاہیے تھا‘ اسٹیبلشمنٹ خان کو ابھی میچور ہونے دیتی‘ یہ آہستہ آہستہ آگے بڑھتا رہتا اور 2018میں نہ سہی تو 2024 میں وزیراعظم بن جاتا‘ اس دوران یہ کم از کم تجربہ کار تو ہو جاتا۔
کے پی میں اس کی حکومت بھی اسے بہت کچھ سمجھا دیتی لیکن اسٹیبلشمنٹ کی جلد بازی اور ضد ’’رانگ ٹرن‘‘ ثابت ہوئی ‘ چلیں اگر ہم نے یہ رانگ ٹرن لے لیا تھا تو پھر ہم نانی کی طلاق تو نہ کراتے‘ خان 2022 میں غیرمقبول ہو چکا تھا اور اس کی حکومت اپنے بوجھ تلے دب رہی تھی‘ آپ نے جنرل فیض حمید کا سہارا کھینچ لیا تھا‘ یہ کافی تھا‘ خان کی حکومت اس کے بعد چند ماہ کا کھیل تھی‘ آپ یہ ہونے دیتے۔
لیکن اس وقت دوبارہ ضد کا مظاہرہ ہوا جس کے نتیجے میں سیاسی طور پر مردہ خان دیو بنتا چلا گیا یہاں تک کہ یہ آج کسی کے قابو میں نہیں آ رہا‘ نانی کے نکاح کے بعد کی صورت حال نکاح سے پہلے کی صورت حال سے زیادہ افسوس ناک ثابت ہوئی‘ ریاست اب ایک سوراخ بند کرتی ہے تو پہلے سے بڑا سوراخ پیدا ہو جاتا ہے اور جب اسے بند کر دیا جاتا ہے تو چند فٹ کے فاصلے پر اس سے بھی بڑا سوراخ ہو جاتا ہے۔
آپ عدلیہ کے تازہ ترین ایشو کو لے لیجیے‘حکومت اور ریاست نے مل کر بڑی مشکل سے دن رات ایک کر کے 26ویں آئینی ترمیم پاس کرائی‘ اس کا مقصد سپریم کورٹ کو کنٹرول کرنا اور جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس بننے سے روکنا تھا‘ یہ سوراخ بند ہو گیا لیکن اس کے ساتھ ہی اسلام آباد ہائی کورٹ مزید آؤٹ آف کنٹرول ہو گئی چناں چہ حکومت نے پہلے دو ایڈہاک ججز تعینات کر دیے جس کے بعد ججز کی تعداد دس ہو گئی۔
حکومت کا خیال تھا ہائی کورٹ میں اب بیلنس آ جائے گا لیکن یہ خام خیالی ثابت ہوئی چناں چہ پھر حکومت تین ہائی کورٹس سے تین ججز اسلام آباد لانے پر مجبور ہو گئی‘ جسٹس سرفراز ڈوگر کو لاہور‘ جسٹس خادم حسین سومرو کو سندھ اور جسٹس محمد آصف کو بلوچستان ہائی کورٹ سے لایا گیا‘ یہ تینوں ججز اسلام آباد آ چکے ہیں اور انھوں نے ہائی کورٹ میں کام بھی شروع کر دیا ہے۔
دوسری طرف وکلاء نے ہڑتالیں شروع کر دی ہیں اور ان ججوں کی عدالتوں میں پیش نہ ہونے کا اعلان بھی کر دیا ہے‘ آپ دیکھ لیں ایک بحران ٹالنے کے لیے ریاست کو کتنے نئے بحرانوں سے گزرنا پڑ رہا ہے‘ عدلیہ کی فارمیشن میں یہ تبدیلی ملک میں انصاف کا مزید جنازہ نکال دے گی‘ 26 ویں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ عملاًختم ہو چکی ہے‘ اس کا احترام اور وقار دونوں مٹی میں مل چکے ہیں اور اس میں ججز کا قصور بھی ہے۔
جج صاحبان جب اپنے منصب سے اتر کر کسی سیاسی جماعت کے معاون بن جائیں گے تو اس کا کوئی نہ کوئی نتیجہ تو نکلنا تھا اور وہ نکلا لیکن رہی سہی کسر حکومت اور ریاست نے بھی پوری کر دی‘اس نے دو گھونسلے توڑنے کے لیے پورے محل کو آگ لگا دی۔
سپریم کورٹ کے بعد اب ہائی کورٹس کی باری ہے‘ ان میں جو تبدیلیاں کی جا رہی ہیں عین ممکن ہے ہم ان کے ذریعے بانی کو مزید دو چار سال جیل میں رکھ لیں‘ ہو سکتا ہے ہم اس مصنوعی سسٹم کو بھی مزید چند برس دھکا دے لیں لیکن اس عمل کے دوران ملک کا عدل کا نظام کہاں کھڑا ہو گا؟ آج وہ ججز جو کسی کے اشارے پر یہ سب کچھ کر رہے ہیں کل جب انھیں کوئی اشارہ کرے گا تو یہ کیا کیا نہیں کریں گے؟
ہمیں ماننا ہو گا ہم نے ایک اور رانگ ٹرن لے لیا ہے اور یہ رانگ ٹرن ہمیں اس وادی میں لے جائے گا جہاں بے انصافی اور ظلم کے ’’ذومبیز‘‘ دندناتے پھر رہے ہیں اوریہ ہماری طرف دیکھ کر بار بار پوچھ رہے ہیں اگر کل تم لوگوں کو انصاف کی ضرورت پڑ گئی تو تم کس عدالت میں جاؤ گے اور کس جج سے اپنا حق مانگو گے؟
آپ ذرا تصور کیجیے کل اگر صدر زرداری اور میاں شہباز شریف کو انصاف چاہیے ہو گا تو کیا یہ عدالتیں اور یہ جج انھیں انصاف دے سکیں گی اور اگر انصاف کی ضرورت کسی جنرل کو پڑ گئی تو کیا ہوگا؟ وہی ہو گا جو اس وقت قیدی نمبر 804 کے ساتھ ہو رہا ہے‘ کیوں؟ کیوں کہ ہر رانگ ٹرن کا نتیجہ بہرحال یہی نکلتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: یہ رانگ ٹرن اسلام آباد ہائی کورٹ اس کے بعد میں پارٹ ماننا ہو جائے گا ہو جاتا تھا اور جاتا ہے لیکن اس رہے ہیں ہیں اور کے ساتھ نہیں ہو ہے اور کر دیا ہو گئی اور اس اور ان اور یہ تو پھر رہا ہے
پڑھیں:
’بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے‘، برسوں پیسہ جوڑ کر فراری خریدنے والے کی خوشی چند منٹوں کی نکلی
جاپان کے ایک شخص نے 10 سال پیسے جمع کرکے نئی فراری خریدی لیکن وہ ایک گھنٹہ بھی اس کا لطف نہیں اٹھا سکا۔
جاپانی سوشل میڈیا پر ان دنوں ایک نوجوان میوزک پروڈیوسر ہونکون کی افسوسناک کہانی کے چرچے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: چار دروازوں والی فراری کی پہلی گاڑی میں اور کیا خاص ہے؟
ہونکون نے 10 برس تک پیسے جوڑ کر اپنی ڈریم کار فراری 458 اسپائیڈر خریدی لیکن گاڑی لینے کے ایک گھنٹے کے اندر ہی پہلی ہی ڈرائیو کے وقت وہ جل کر خاک ہوگئی۔
اپنی دردناک کہانی بیان کرتے ہوئے ہونکون نے بتایا کہ وہ اپنی ڈریم کار سے صرف چند منٹوں کے لیے ہی لطف اندوز ہو سکا کیونکہ اس میں 16 اپریل کو اس وقت آگ لگ گئی جب وہ اسے ٹوکیو میں شوٹو ایکسپریس وے پر چلا رہا تھا۔
وہ جب اپنی 458 اسپائیڈر کو چلاکر نکلا تو اس میں سے سفید دھواں اٹھنے لگا۔ پہلے تو اس نے سوچا کہ یہ دھواں اس کے ساتھ والی کار سے آرہا ہے لیکن جیسے ہی وہ گاڑی دور گئی یہ واضح ہوگیا کہ دھواں اس کی فراری سے ہی اٹھ رہا ہے تو ہونکون نے گاڑی روک دی اور فائر بریگیڈ کو فون کرکے مدد بلالی۔
پھر جب تک آگ بجھانے والی گاڑی وہاں پہنچتی اگلے 20 منٹ تک اس نے اپنے خوابوں کو جلتے دیکھا، اس کی آنکھوں کے سامنے اس کی برینڈ نیو فراری جل کر مکمل تباہ ہوچکی تھی۔
مزید پڑھیے: 28 سال قبل چوری ہونے والی ’فیراری‘پولیس نے بالآخر ڈھونڈ نکالی
ہونکون نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ میں جاپان میں واحد شخص ہوں جسے اس طرح کی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہونکون نے X پر جلتی ہوئی کار کی تصویر کے کیشپشن میں لکھا کہ میں نے 43 ملین ین (3 لاکھ 6 ہزار امریکی ڈالر) خرچ کیے اور مجھے صرف یہ تصویر ملی۔
ٹوکیو میٹروپولیٹن پولیس ڈیپارٹمنٹ کے مطابق ہونکن کی فراری پر کسی ٹکر کا کوئی نشان نہیں ہے لیکن تحقیقات ابھی جاری ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ آگ گاڑی کے انجن میں لگی تاہم وجہ معلوم نہیں ہو سکی۔
مزید پڑھیں: چینی کمپنی بی وائی ڈی الیکٹرک کاروں کی ملکہ ٹیسلا کو کس طرح مات دے رہی ہے؟
تاہم اپنی بدقسمتی پر بیحد غمگین جاپانی آئیڈل گروپ چوکورابی کے پروڈیوسر ہونکون کا یہ بھی کہنا ہے کہ بہرحال میں زندہ بچ جانے پر خوش ہوں کیوں کہ گاڑی دھماکے سے پھٹ بھی سکتی تھی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
جاپان کا بدقسمت شخص فراری نئی فراری جل گئی