اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کے تبادلے آئین کے تحٹ اچھا اقدام ہے،صوبوں سے مزید ججز آنے چاہیں،چیف جسٹس
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
اسلام آباد (آن لائن) چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی نے دیگر ہائی کورٹس سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کو ٹرانسفر کیے جانے کے معاملے پر رد عمل دیتے ہوئے اس اقدام کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میںججز کا ٹرانسفر آئین کے تحت ہوا ‘ صوبوں سے مزید ججز آنے چاہئیں‘اسلام آباد ہائی کورٹ وفاقی اکائیوں کی علامت ہے، یہ محض ایک ماربل کی سفید عمارت نہیںہے، جب ہم دور دراز علاقوں میں جاتے ہیں تو وہاں کے جج ہمیں سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایکٹ کے سیکشن 3 کے تحت اسلام آباد ہائی کورٹ میں تمام وفاقی اکائیوں کی مساوی نمائندگی ہونی چاہیے‘ بلوچی بولنے، پنجابی بولنے، سندھی زبان بولنے والے اسلام آباد ہائی کورٹ آئے ہیں‘ اسلام آباد ہائی کورٹ پاکستان کی یگانگت کی جگہ ہے، آئین کا آرٹیکل 200 اس کی اجازت دیتا ہے اور یہ اچھا اقدام ہے، 3 ججوں کی اسلام آباد ٹرانسفر پر ججوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ تبادلہ آئین کے مطابق ہی
کیا گیا ہے‘ ججز میں تحفظات کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہوں، جو میرا دائرہ اختیار ہے اس کو بلاخوف و خطر استعمال کروں گا۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کی حلف برداری کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے ٹرانسفر کے معاملے کو مکس نہ کیا جائے‘ ججز کی تعیناتی اور ٹرانسفر دونوں الگ معاملے ہیں، دوسرے صوبوں کے ججز کو بھی فیئر چانس ملنا چاہیے‘ اسلام آباد ہائی کورٹ کسی خاص شہر کی نہیں پورے پاکستان کی ہے، اس اقدام کو ججز کو سراہنا چاہیے‘ اسلام آباد ہائی کورٹ آنے والے کو ججز تعینات نہیں کیا، یہ پہلے سے ہی ہائی کورٹ کے جج ہیں۔ علاوہ ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سرفراز ڈوگر نے وکلا کی ہڑتال میں عدالتی کارروائی کا آغاز کر دیا۔ اسلام آباد کی وکلا تنظیموں کی ہڑتال کی کال کے دوران نئے آنے والے ججز کی کاز لسٹ اور نام کی تختیاں لگا دی گئیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں تعینات نئے ججز جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس محمد آصف کی کاز لسٹ آویزاں کی گئی جن کے مطابق جسٹس سرفراز ڈوگر کے پاس 3، جسٹس محمد آصف کے پاس 2 کیسز پیر کو مقرر کیے گئے ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس سرفراز ڈوگر نے کورٹ کا آغاز کر دیا، تلاوت کلام پاک سے کورٹ کا آغاز ہوا، ڈپٹی اٹارنی جنرل عبد الخالق تھند نے بتایا کہ میں لا افسر ہوں آپ کو ویلکم کرتا ہوں۔ جسٹس سرفراز ڈوگر نے شکریہ ادا کیا اور3 کیسز کی سماعت کی۔ دوسری جانب 3 ججز کے اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبادلے کے معاملے پر اسلام آباد ہائی کورٹ بار کی کال پر وکلا نے ہڑتال کی۔ ہائی کورٹ بار کے صدر ریاست آزاد وکلا کو عدالت پیش ہونے سے روکتے رہے۔ ادھر اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار میں وکلا کی ہڑتال اور کنونشن کے موقع پر ڈسٹرکٹ کورٹس میں پولیس کی بھاری نفری تعینات رہی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اسلام ا باد ہائی کورٹ میں جسٹس سرفراز ڈوگر ہائی کورٹ کے
پڑھیں:
لندن ہائی کورٹ سے عادل راجہ کے خلاف تفصیلی فیصلہ جاری
لندن ہائی کورٹ نے سابق بریگیڈیئر راشد نصیر کی جانب سے دائر کیے گئے ہتکِ عزت کے مقدمے میں یوٹیوبر اور سابق میجر عادل راجہ کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے ان کے تمام الزامات کو جھوٹا، بے بنیاد اور بدنیتی پر مبنی قرار دے دیا ہے۔ عدالت نے اپنے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ عادل راجہ نے جون 2022 میں جو الزامات عائد کیے تھے، ان کے حق میں کوئی قابلِ قبول ثبوت پیش نہیں کیا گیا اور یہ تمام دعوے محض بہتان اور شخصیت کشی پر مبنی تھے۔ فیصلے کے مطابق لندن ہائی کورٹ نے عادل راجہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ بریگیڈئیر راشد نصیر کو 50ہزار پاؤنڈ یعنی ایک کڑور ستاسی لاکھ ہرجانے کی ادائیگی کریں جبکہ بھاری قانونی اخراجات بھی ادا کریں۔ عدالت نے انہیں 2لاکھ 60 ہزار پاؤنڈ یعنی 9کروڑ 72 لاکھ روپے بطور عبوری اخراجات فوری طور پر ادا کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ عدالت کے مطابق تمام مالی واجبات 22 دسمبر 2025 تک ادا کرنا لازمی ہوں گے۔ عدالت نے حکم دیا کہ عادل راجہ اپنے تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فیصلے کا خلاصہ 28 دن تک نمایاں طور پر آویزاں کرنے کے پابند ہوں گے۔ مزید یہ کہ عدالت نے مستقبل میں جھوٹے الزامات دہرانے سے روکنے کے لیے سخت حکم جاری کر دیا ہے۔ عدالتی حکم کے مطابق اگر انہوں نے فیصلے پر عمل نہ کیا تو ان پر توہینِ عدالت، جرمانہ اور ممکنہ جیل کی کارروائی ہو سکتی ہے۔ عدالت نے کہا کہ پنجاب الیکشن، مبینہ ملاقاتوں اور ''ریجیم چینج'' سے متعلق تمام بیانیے بے بنیاد تھے اور حقائق سے کوئی تعلق نہیں رکھتے تھے۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ ان الزامات نے بریگیڈیئر راشد نصیر کی شہرت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی، جو مکمل طور پر غلط ثابت ہوئی۔ عدالت نے متعدد ''حساس الزامات'' کو کلی طور پر ممنوع قرار دیتے ہوئے ان کے دوبارہ تذکرے کو بھی غیر قانونی قرار دیا۔ فیصلے میں یہ بھی شامل ہے کہ عدالتی حکم کا لنک اور خلاصہ ہر پلیٹ فارم پر واضح اور نمایاں طور پر دکھایا جائے، تاکہ عوام تک درست معلومات پہنچ سکیں۔