Express News:
2025-04-22@07:15:58 GMT

مسلم لیگ ن کی داخلی سیاست

اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT

پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا ہمیشہ سے یہ المیہ رہا ہے کہ جب بھی وہ اقتدار میں آتی ہیں تو اقتدار کو اہمیت دے کر اپنی ہی سیاسی جماعتوں کو نظر انداز کر دیتی ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اقتدار کی سیاست میں سیاسی جماعتوں کی اہمیت کمزور اور اقتدار مضبوط ہوتا ہے لیکن جب یہ سیاسی جماعتیں اقتدار سے باہر نکلتی ہیں تو انھیں اپنی سیاسی جماعتوں کی کمزوری کا احساس ہوتا ہے۔

مسلم لیگ ن بھی کچھ اسی سطح کی صورتحال سے دوچار ہے۔بڑی سیاسی جماعت کا خود کو ایک صوبے تک محدود کرنااسے مزید سیاسی تنہائی میں مبتلا کر رہا ہے۔ پنجاب کی سیاست کئی دہائیوں تک مسلم لیگ نون کے قبضے میں چلی آ رہی ہے اور اسی بنا پر صوبے میں مسلم لیگ نون کا سیاسی اقتدار ہے۔

لیکن اب یہاں مسلم لیگ نون کے لیے ایک بہت مضبوط اور سخت حریف پی ٹی آئی کی صورت میں موجود ہے۔ پی ٹی آئی نے مسلم لیگ نون کو پنجاب اور کے پی کے میں سخت ٹائم دیا ہے۔لیکن مسلم لیگ نون کی قیادت نے موجودہ حالات میں پی ٹی آئی کا سیاسی مقابلہ کرنے کے بجائے خود کو محض اقتدار تک محدود کرکے سیاسی میدان تنہا چھوڑا ہوا ہے۔مسلم لیگ نون کی سیاست نواز شریف ، شہباز شریف، حمزہ شہباز اور مریم نواز تک محدود ہے۔

پنجاب کی سیاست پر مکمل کنٹرول مریم نواز کا ہے جب کہ شہباز شریف بھی اب پنجاب کے معاملات میں سرگرم نہیں ہے کیونکہ وہ مرکز میں وزیراعظم ہیںجب کہ نواز شریف بھی عملی سیاست میں اس طرح سے سرگرم نہیں جس طرح سے ان کو ہونا چاہیے تھا۔

انھوں نے خود کو سیاسی طور پر تنہا کیا ہوا ہے۔ بہت سے ارکان پنجاب اسمبلی کو اس بات کا گلہ ہے کہ وزیراعلیٰ کی ان سے ملاقات نہیں ہوتی اور نہ ہی پارٹی کے معاملات یا تنظیمی معاملات میں کوئی توجہ دی جارہی ہے۔ ارکان اسمبلی کا تقرریوں، تبادلوں وغیرہ میں کوئی مشورہ نہیں ہے۔

ترقیاتی فنڈ ز کی بھی کڑی جانچ پڑتال ہے۔ بعض وفاقی اور صوبائی وزرا سمیت کئی پارلیمانی سطح کے سیکریٹریز اور مشیرز بھی گلہ کر چکے ہیں کہ انھیں بھی اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔ ارکان اسمبلی جب یہ شکایت وزیراعظم تک پہنچاتے ہیں تو وزیراعظم بھی زیادہ توجہ نہیں دیتے۔

پارٹی کے تنظیمی اجلاس نہ ہونے کے برابر ہیں۔پنجاب کو چھوڑیں باقی دیگر صوبوں میں تو تنظیمی معاملات نہ ہونے کے برابر ہیں۔نواز شریف کا متحرک نہ ہونا بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔حمزہ شہباز جو ماضی میں بہت فعال ہوا کرتے تھے، اب خاموش نظر آتے ہیں۔مسلم لیگ ن پی ٹی آئی کے مقابلے میں ایک متبادل بیانیہ کی ناکامی کا شکار ہے۔ایسے لگتا ہے کہ مسلم لیگ ن کا انحصار اپنی جماعت ووٹر اور سپورٹر سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کے اوپر ہے ۔

 رانا ثنا اللہ ،خواجہ آصف، احسن اقبال، رانا تنویر، خرم دستگیر جیسے لوگوں کی موجودگی میں اگر پارٹی تنظیمی ڈھانچہ تیار نہیں کررہی تو اس پر ضرور غور کیا جانا چاہیے۔ سب سے زیادہ دباؤکا شکار تو مسلم لیگ ن کا ورکر ہے کیونکہ اسی کو مقامی علاقوں میں لوگوں کی باتیں سننی پڑتی یا حالات کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔

مسلم لیگ ن کی کوشش ہے کہ وہ ڈیجیٹل میڈیا پر سرگرم ہو کر اس تاثر کو قائم کریں کہ ان کی حکومت شاندار کام کر رہی ہے۔لیکن سچ تو یہ ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا پر چلنے والی حکومت اور زمینی حقائق میں بنیادی نوعیت کا فرق ہوتا ہے۔

مسلم لیگ نون کے بعض وزرا نے بڑے واضح طور پہ کہا ہے کہ اگر شہباز شریف نے موجودہ صورتحال میں کوئی ٹھوس اقدامات پارٹی تناظرکی بنیاد پر نہ اٹھائے تو آنے والے انتخابات میں ان کو سیاسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔جو مسائل اس وقت پنجاب کی سیاست پر غالب ہیں اس کا کوئی ایسا حل تلاش کرنا چاہیے ۔

ان کے بقول جس انداز سے پارٹی کو چلایا جا رہا ہے اس سے پارٹی کے معاملات کی سطح پر کافی خرابیوں نے جنم لیا ہے اور اگر ہم نے اس وقت اس کا ادراک نہ کیا تو اس کا سیاسی نقصان بطور جماعت ہمیں سیاسی میدان میںہی اٹھانا پڑے گا۔ سوال وہی ہے کہ اگر تنظیمی معاملات میں خرابی برقرار رہتی ہے تو یہ حکومتی سطح پر ہونے والے اقدامات کچھ نہیں کر سکیں گے۔ مسلم لیگ کی سیاست کا ایک المیہ یہ رہا ہے کہ اس نے ہمیشہ سے اپنی پارٹی پر انحصار کرنے کے بجائے بیوروکریسی پر بہت زیادہ انحصار کیا ہے اور اس کا سیاسی نقصان بھی اٹھایا ہے ۔

 یہ صورتحال بھی کافی دلچسپ ہے کہ مریم نواز خود کتنا بااختیار رکھتی ہیں کیونکہ اس دفعہ طاقت کا مرکز مسلم لیگ نون کی حکومت کم اورپس پردہ لوگ زیادہ نظر آتے ہیں۔اصل تو مسئلہ نوجوان ووٹروں کو اپنی طرف راغب کرنا ہے، اس معاملے میں مسلم لیگ ن کو کافی مشکلات کا سامنا ہے۔

نوجوانوں کی توجہ کا مرکزتو اس وقت پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی ہیں۔بانی پی ٹی آئی کو نوجوانوں کی سیاست سے کیسے دور رکھا جائے، یہ مسلم لیگ ن کے لیے واقعی ایک بڑا چیلنج ہوگا۔مسلم لیگ نون کے حامی میڈیا کے لوگ جس قسم کا بیانیہ بانی پی ٹی آئی کے خلاف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 

اس کا فائدہ بھی بانی پی ٹی آئی کو زیادہ اور مسلم لیگ نون کو کم ہو رہا ہے۔ سنجیدہ صحافیوں کے مقابلے میں اس وقت مسلم لیگ نون کی توجہ کا مرکز سوشل میڈیا کے لوگ ہیں جن کا بنیادی مقصد بانی پی ٹی آئی کی کردار کشی کے سوا کچھ نہیں نظر آتا اور یہ پالیسی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوگی۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت سر جوڑ کر بیٹھے اوردیکھے کہ سیاسی طور پر وہ کہاں کھڑی ہے ۔مسلم لیگ ن کو سیاسی حکمت عملیاںدرکار ہیں اور یہ ہی محفوظ سیاسی راستہ بھی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مسلم لیگ نون کی مسلم لیگ نون کے بانی پی ٹی ا ئی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن پی ٹی آئی کی سیاست کا سیاسی رہا ہے

پڑھیں:

کسانوں کے نام پر سیاست نہ کی جائے: عظمٰی بخاری

عظمٰی بخاری نے کہا کہ پنجاب میں حالات خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی،پنجاب میں امن و امان کے قیام کے لیے پنجاب حکومت اقدامات کر رہی ہے، پنجاب میں کسانوں کو ان کا حق دیا جا رہا ہے۔ کسانوں کے نام پر سیاست نہ کی جائے۔لاہور میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے صوبائی وزیر اطلاعات عظمٰی بخاری نے کہا ہے کہ پنجاب حکومت امن وامان کے قیام کیلئے اقدامات کر رہی ہے.پنجاب میں حالات خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، پنجاب میں کسانوں کو ان کا حق دیا جا رہا ہے۔عظمی بخاری نے کہا کہ کسانوں کے نام پر سیاست نہ کی جائے. مریم نواز نے کسانوں کو بڑا ریلیف پیکج دیا ہے. گندم کے کاشتکاروں کیلئے 109ارب روپےکا پیکج دیا گیا ہے، گندم کے کاشتکاروں کو5 ہزار روپے فی ایکڑ ملیں گے۔انھوں نے کہا کہ فلورملز مالکان کو گندم کی خریداری کا پابند بنایا گیا ہے. فلورملز 25فیصد گندم خریداری کی پابند ہوں گی۔ کاشتکاروں کو ہرفضل کیلئے رقم فراہم کی جائے گی، گندم کے کاشتکاروں کو10ارب روپے کی سبسڈی پر9500 ٹریکٹردیئے جائیں گے۔عظمٰی بخاری نے کہا کہ ٹیوب ویلز کی سولرائزیشن کیلئے8 ارب روپے کی سبسڈی دی جائے گی. دنیا بھر میں جدید زرعی آلات کی خریداری کی جائے گی. زیادہ گندم اگانے والے کاشتکار کو 45 لاکھ کا 85 ہارس پاور ٹریکٹرمفت ملے گا۔ان کا کہنا ہے کہ دوسری پوزیشن کے کاشتکار کو 40 لاکھ روپے کا 75 ہارس پاور ٹریکٹر انعام ملے گا۔ تیسری پوزیشن کےکاشتکارکو35لاکھ روپےکا60ہارس پاورٹریکٹرملےگا. ہر ضلع میں سب سے زیادہ گندم اگانے والے کاشتکار کو 10 لاکھ انعام دیا جائے گا۔وزیر اطلاعات پنجاب کا کہنا ہے کہ کسی دوسرے صوبے نے کاشتکاروں کیلئے بروت اقدامات نہیں کیے. کسانوں سے گندم کی خریداری کو یقینی بنایا جا رہا ہے.گندم کی نقل و حمل کا مکمل ریکارڈ مرتب کیا جا رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • علیمہ خان کو سیاست میں گھسیٹنا ناجائز ہے، عمر ایوب
  • سندھ اور پنجاب بارڈر پر کینالز کے خلاف دھرنا، 15 لاکھ ڈالرز کا مال خراب ہونے کا خدشہ
  • کسانوں کے نام پر سیاست نہ کی جائے: عظمٰی بخاری
  • پانی کے مسئلے پر ہمیں سیاست نہیں کرنی چاہیے: احسن اقبال
  • آئی ایس او کے زیراہتمام ملتان پریس کلب کے سامنے اسرائیل کیخلاف احتجاجی ریلی
  • آئی ایس او کے زیراہتمام ملتان پریس کلب کے اسرائیل کے خلاف احتجاجی ریلی
  • مسلم حکمران امریکا و یورپ کے طلباء سے سبق سیکھ لیں، حافظ نعیم
  •  کینالز ، سیاست نہیں ہونی چاہئے، اتحادیوں سے ملکر مسائل حل کریں گے: عطاء تارڑ 
  • نہروں کا معاملہ افہام و تفہیم سے حل کرلیں گے، اس پر سیاست نہیں ہونی چاہیے، وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ
  • پیپلز پارٹی وفاق کا حصہ ہے، پانی کے مسئلے پر سیاست نہیں کرنی چاہئے: رانا ثنا اللہ