بنگلہ دیش پریمیئر لیگ( بی پی ایل) ایک بار پھر کھلاڑیوں کو واجبات کی عدم ادائیگی کے حوالے سے شہہ سرخیوں میں ہے۔

بی پی ایل کی فرنچائز دربار راجشاہی تاحال اپنے اسٹاف اور غیر ملکی کھلاڑیوں کے واجبات ادا نہیں کرسکی ہے جس کی وجہ سے متعدد نامور کھلاڑی ڈھاکہ کے ہوٹل میں پھنس گئے ہیں، اس سے قبل عدم ادائیگی پر کھلاڑیوں نے میچ کا بائیکاٹ بھی کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: شعیب ملک بی پی ایل چھوڑ کر دبئی کیوں گئے؟ ٹیم اونر کا اہم بیان سامنے آگیا

فرنچائز کے مالک شفیق الرحمان نے دعویٰ کیا تھا کہ غیر ملکی کھلاڑیوں کے واپسی کے ٹکٹ بک کردیے گئے ہیں تاہم عدم ادائیگی پر یہ کھلاڑی تاحال ہوٹل میں موجود ہیں۔

کرک بز کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی کرکٹر محمد حارث، افغانستان کے عفتاب عالم، ویسٹ انڈیز کے مارک ڈیل اور میگوئل کمنز، اور زمبابوے کے ریان برل اب بھی اپنے معاوضے کے منتظر ہیں، ان کھلاڑیوں کو ٹیم مینجمنٹ سے رابطہ کرنے پر کوئی واضح جواب نہیں ملا۔

رپورٹ کے مطابق محمد حارث نے اس صورتحال سے پاکستان کرکٹ بورڈ کو آگاہ کردیا ہے، پی سی بی نے فوری طور پر اس معاملے پر کارروائی کرتے ہوئے نہ صرف محمد حارث سے رابطہ کیا بلکہ بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ سے بھی بات چیت کی ہے، محمد حارث کو آج اسلام آباد پہنچانے کے لیے پرواز کا انتظام کیا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بی پی ایل کھیلنے والے پاکستانی کرکٹرز سے متعلق پی سی بی کا بڑا فیصلہ

رپورٹ کے مطابق اگرچہ ٹیم مالکان نے ادائیگیوں کی یقین دہانی کرائی تھی، لیکن دربار راجشاہی کے کئی مقامی کھلاڑی ہوٹل چھوڑ کر جاچکے ہیں مگر انہیں بھی ان کے واجبات ادا نہیں کیے گئے۔

صورتحال اس وقت مزید پیچیدہ ہو گئی جب فرنچائز نے اپنے بس ڈرائیور کو بھی ادائیگی نہیں کی، بس ڈرائیور نے انوکھا احتجاج کرتے ہوئے کھلاڑیوں کے تمام کٹ بیگز اور سامان بس میں بند کر دیا۔

بس ڈرائیور محمد بابول نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ انتہائی افسوسناک اور شرمناک بات ہے۔ اگر ہمیں ادائیگی کی جاتی تو ہم کھلاڑیوں کو ان کا سامان واپس دے دیتے۔

یہ بھی پڑھیں: شاہین آفریدی نے بی پی ایل کے لیے جنوبی افریقہ ٹیسٹ کو خیر باد کیوں کہا؟

’مقامی اور غیر ملکی کھلاڑیوں کے کٹ بیگز بس میں موجود ہیں، لیکن جب تک ہمارے معاوضے کا بڑا حصہ ادا نہیں کیا جاتا، میں انہیں سامان واپس نہیں کرسکتا۔‘

بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ (بی سی بی) نے صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی ہے، کمیٹی کھلاڑی اور دیگر عملے کو ادائیگیوں میں تاخیر کی وجوحات کا جائزہ لے گی، دوسری جانب پولیس نے دربار راجشاہی کے مالک شفق العقمان کو تحویل میں میں بھی لے لیا ہے۔

  دوسری طرف بی پی ایل 2025 میں دربار راجشاہی کی کارکردگی بھی مایوس کن رہی اور وہ پلے آف مرحلے تک پہنچنے میں ناکام رہی۔ ٹیم نے 12 میں سے صرف 6 میچز جیتے اور پوائنٹس ٹیبل پر پانچویں نمبر پر رہی۔ انہوں نے اپنا آخری میچ 27 جنوری کو ڈھاکا میں سلہٹ اسٹرائیکرز کے خلاف کھیلا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news بنگلہ دیش پریمیئر لیگ پاکستان غیر ملکی کھلاڑی کھلاڑی محمد حارث معاوضہ واجبات.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بنگلہ دیش پریمیئر لیگ پاکستان کھلاڑی معاوضہ واجبات دربار راجشاہی کھلاڑیوں کے بس ڈرائیور بنگلہ دیش بی پی ایل

پڑھیں:

جمہوریت کی مخالفت کیوں؟

گزشتہ دنوں میرے ایک دوست جو درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں، میری ان سے ملاقات ہوئی۔ میرے یہ دوست جمہوریت کے سخت ترین مخالف ہیں۔ ان کے نزدیک ہماری تمام تر سیاسی نظام کی خرابیوں کی جڑ پاکستان میں رائج یہ جمہوری نظام ہے جس کا خاتمہ ضروری ہے۔ ان کے نزدیک اسلام کا سیاسی نظام ہی ہمارے مسائل کا حل ہے۔

اپنے اس دوست کی سوچ کے برعکس راقم التحریر جمہوری نظام کی تمام تر خرابیوں کے باوجود اس کا حامی رہا ہے۔ میرے نزدیک ہماری تمام سیاسی نظام میں خرابیوں کی وجہ جمہوری نظام کا تسلسل کے ساتھ جاری نہ رہنا ہے۔

بار بار کے مارشل لا اور سیاست میں مداخلت کے نتیجے میں یہ خرابیاں پیدا ہوئیں اور عوام جمہوریت کے حقیقی ثمرات سے محروم رہے۔ مجھے دینی اور مذہبی موضوعات پر اپنی کم علمی اورکم فہمی کا ہمیشہ احساس رہا ہے، اس لیے میں عموماً دینی اور مذہبی موضوعات پر علمی گفتگو سے گریز کرتا ہوں۔ تاہم جب جمہوریت کا موضوع ہمارے درمیان دوران گفتگو آیا تو اس گفتگو نے مکالمے کی صورت اختیار کر لی۔

جمہوریت کی مخالفت کے حوالے سے میرے دوست کا کیا موقف ہے، اسے اپنے اسلوب میں بیان کر رہا ہوں۔ میرے دوست کے نزدیک ایک صالح اور مہذب حکومت وہی ہو سکتی ہے جس کی بنیاد اخلاقی اقدار اور تصورات پر قائم ہو۔

دنیا کے سیاسی نظاموں میں اخلاقی اقدارکی کوئی جگہ نہیں، اس میں نمایندگی کا اہل وہی شخص تصورکیا جاتا ہے جو ڈپلومیٹک اور چرب زبان ہو، چاہے اخلاقی حوالے سے کتنا ہی گرا ہوا کیوں نہ ہو۔ یہ عمل اسلامی اصولوں کے منافی ہے۔ اس نظام میں قانون سازی کا حق شہری کا حق ہے۔ لازمی اس قانون سازی میں انسانی خواہشات کو اولین حیثیت حاصل ہوگی اس طرح انسان کی روحانی زندگی تباہ ہو جائے گی اور انسان نفس کا غلام بن کر رہ جائے گا۔

اسلام میں نسلی اور مذہبی گروہ بندی جائز نہیں۔ جمہوری طریقہ انتخاب میں نسلی، لسانی اور مذہبی تعصبات کو ابھارکر عوامی جذبات کو استعمال کرکے اسے اپنی کامیابی کا زینہ بنایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں معاشرے میں کشمکش اور تصادم کی فضا پیدا ہوتی ہے۔

جمہوریت کی بنیادی خوبی محض عددی برتری تصورکی جاتی ہے یہ منطقی لحاظ سے درست نہیں،کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ 200 کے مقابلے 201 کی رائے زیادہ درست اور دانش مندانہ ہے۔ اس نظام میں افراد کی گنتی کی جاتی ہے انھیں تولا نہیں جاتا، یعنی صلاحیت اور قابلیت کی اس نظام میں کوئی اہمیت نہیں۔

جمہوریت کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس کا مزاج سیکولر ہے، یہی وجہ ہے کہ جو مذہبی اور دینی جماعت اس میں حصہ لیتی ہے، اس کا مزاج سیکولر ہو جاتا ہے۔ اس نظام میں کامیابی کے لیے تمام طبقات کی حمایت درکار ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ جماعتیں مصلحت کا شکار ہو کر خدائی احکامات کے نفاذ کے بجائے انسانی خواہشات کی تکمیل میں سرگرم عمل ہو جاتی ہیں یہ طرز عمل اسلامی اصولوں کے منافی ہے۔

میرے دوست کی یہ تمام باتیں جزوی طور پر درست ہیں کلی طور پر نہیں۔ میرا موقف یہ تھا کہ انسانی معاشرے کو مہذب اور تمدنی معاشرہ کہلانے اور عوام الناس کو اجتماعیت کے دائرے میں رکھنے کے لیے کسی نہ کسی نظام حکومت کی ضرورت لازمی طور پر ہوتی ہے اب یہ نظام حکومت کیسے وجود میں آئے گا، اس نظام کے خد و خال کیا ہوں گے؟

حکومت کرنے والوں کے اختیارات کی حدود کیا ہوں گی، ان کا انتخاب کس طرح کیا جائے گا اور سیاسی استحکام کس طرح پیدا ہوگا۔ اس حوالے سے مختلف زمانے میں مختلف تجربات سامنے آئے ہیں، اس میں ایک تجربہ جمہوری نظام بھی ہے۔ دنیا نے اب تک کے تجربات سے جمہوری نظام کو اس کی بہت سی خرابیوں کے باوجود ایک بہتر نظام سیاست پایا ہے جس کی وجہ سے اس نظام کو دنیا بھر میں فروغ حاصل ہوا۔

اگر آپ جمہوری نظام کو اس کی چند خرابیوں کی بنیاد پر مسترد کرتے ہیں تو آپ کو دنیا کے سامنے ایک واضح سیاسی نظام پیش کرنا ہوگا۔ محض ہوا میں قلعے بنانے سے کچھ حاصل نہ ہو سکے گا۔

جہاں تک اسلام کے نظام حکومت کی بات ہے تو ہمیں اسے تاریخی پس منظر میں سمجھنا ہوگا۔ اسلام کے سیاسی نظام میں خلاف راشدہ کے دور کو رول ماڈل قرار دیا جاتا ہے۔ یہ دور حکومت 30 سال کے عرصے پر محیط ہے، اس مدت میں چار صحابی خلیفہ مقرر ہوئے چاروں خلفا کا تقرر چار مختلف طریقوں سے ہوا۔ اس کے بعد جو ماڈل سامنے آیا اسے خاندانی ماڈل کہا جاسکتا ہے۔

اسلام کی پوری سیاسی تاریخ اس پس منظر میں چلتی رہی، اسی پس منظر میں مسلم حکومتیں قائم ہوئیں۔ اس میں زیادہ تر حکمران وہی تھے جو خاندانی حکومت کے اصول کے تحت حکمران بنے تھے۔ یہ خاندانی ماڈل خلافت راشدہ کے رول ماڈل سے مختلف تھا لیکن کیونکہ اس ماڈل میں اہل اسلام کو امن اور حفاظت کے ساتھ دین پر عمل کرنے اور دین کی تبلیغ و اشاعت کا کام بخوبی انجام پا رہا تھا، اس لیے عوام الناس نے اس نظام کو قبول کیا عرب کے بعض ممالک میں یہ نظام آج بھی رائج ہے۔

اس تاریخی پس منظر کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے۔ اسلام کسی لگے بندھے نظام کی تجویز یا خاکہ پیش نہیں کرتا بلکہ ایسے بنیادی اصول قائم کرتا ہے جو کسی حکومت کے عمومی خدوخال کی تشکیل کرتے ہیں وقت اور حالات کے تحت طرز حکومت کیسا ہونا چاہیے اس کا فیصلہ لوگوں پر چھوڑ دیا ہے یہ میری ناقص رائے ہے اس پر بہتر علمی رائے کا اظہار مذہبی اسکالر اور علما دین ہی کر سکتے ہیں۔

ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اس وقت دنیا میں جمہوری نظام کامیابی سے جاری ہے۔ جمہوری نظام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ ایسا نظام حکومت ہے جس میں حکومتی مدت پوری ہوتی ہے اس میں پرامن انتقال اقتدار کا طریقہ موجود ہے۔

عوامی رائے عامہ کے ذریعے اسے قانونی اور اخلاقی جواز حاصل ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس نظام کو سیاسی استحکام حاصل ہوتا ہے اس لیے اس نظام کو غیر اسلامی قرار دینا درست عمل نہیں ہے اور نہ ہی اسے مغربی طرز حکومت کا نام دیا جانا چاہیے۔ بعض لبرل اور سیکولر عناصر سیاست میں دینی اور مذہبی جماعتوں کی شمولیت کے خلاف ہیں میری ذاتی رائے میں اگر ملک کی اکثریت کسی نظام حیات کو قبول کرکے اس کے نفاذ کی کوشش کرتی ہے تو اس کے اس جمہوری حق کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔ اسے تسلیم کیا جانا جمہوریت کی روح کے عین مطابق ہے۔

یہ ہے دونوں جانب کا نقطہ نظر، کون درست ہے کون غلط اس کا فیصلہ پڑھنے والے خود کرسکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • متنازع نہروں کے خلاف دھرنا، ہر گھنٹے میں صورت حال خراب ہورہی ہے، کراچی چیمبر
  • ڈھاکا یونیورسٹی کے ہاسٹل کا نام علامہ اقبال کے نام پر رکھنے کا مطالبہ
  • یہ سونا بیچنے کا نہیں بلکہ خریدنے کا وقت ہے، مگر کیوں؟
  • مانتے ہیں ہمارا مڈل آرڈر زیادہ مضبوط نہیں: روی بوپارہ
  • بنگلہ دیش کا انٹرپول سے حسینہ واجد سمیت 12افراد کیخلاف ریڈ نوٹس جاری کرنے کا مطالبہ
  • محمد یونس کا ڈھاکہ اور بیجنگ کے مابین دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ
  • ‘پاکستان میرا دوسرا گھر ہے’ سر ویوین رچرڈز نے دل کھول کر اپنے تاثرات بیان کردیے
  • پی ایچ ڈی کا موضوع لوٹا کیوں نہیں ہو سکتا؟
  • اناڑی ڈرائیور کو گاڑی دیتے نہیں، ایٹمی ملک حوالے کر دیا، احسن اقبال: قوم امیج بہتر بنائے، خواجہ آصف
  • جمہوریت کی مخالفت کیوں؟