مفتی قوی بھی راکھی ساونت سے شادی کے خواہشمندنکلے
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
مفتی قوی بھی بھارتی اداکارہ راکھی ساونت سے شادی کے خواہشمند نکلے، انہوں نے اداکارہ سے مشروط نکاح کی خواہش کا اظہار کردیا۔
مفتی قوی نے حال ہی میں ایک یوٹیوبر کو دیے گئے انٹرویو میں راکھی ساونت سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا ، ان کا کہنا تھا کہ وہ اب اپنے نکاحوں کی تعداد نہیں بتائیں گے، وہ اپنے نکاحوں کی بات خفیہ رکھیں گے۔
مفتی قوی نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے برصغیر کے ایک بہت بڑے سیاسی، علمی اور ادبی گھرانے کی ایک خاتون سے بھی نکاح کیا تھا لیکن وہ خاتون جلد انتقال کر گئیں۔
مفتی قوی کے مطابق وہ آج بھی جب قبرستان سے گزرتے ہیں تو اپنے نکاح میں رہنے والی مرحوم خاتون کیلئے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک سمیت دیگر علمائے اکرام کی تحقیق کے مطابق ہندوؤں کے پاس جو کتاب ہے، وہ الہامی ہے، اس لیے راکھی ساونت بھی اہل کتاب ہوئیں اور وہ ان سے نکاح کر سکتے ہیں۔
مفتی قوی نے کہا کہ وہ راکھی ساونت سے نکاح کیلئے تیار ہیں لیکن ان کی صرف ایک ہی شرط ہے کہ وہ بتائیں کہ کہیں ان کا ہندو یا مسلم مذہب کے تحت کوئی نکاح تو نہیں ہوا ہوا؟
انہوں نے یہ شرط بھی رکھی کہ وہ راکھی ساونت سے نکاح کرنے سے قبل اپنی والدہ سے اجازت لیں گے اور اگر ان کی والدہ رضامند ہوئیں تو وہ تیار ہیں۔
خیال رہے کہ چند روز قبل پاکستانی اداکار و ماڈل ڈوڈی خان نے انسٹاگرام ویڈیو میں راکھی ساونت کو شادی کی پیش کش کی تھی۔
بعد ازاں ڈوڈی خان نے ایک اور ویڈیو میں بتایا کہ اب وہ لوگوں کی تنقید کی وجہ سے راکھی ساونت سے شادی نہیں کر سکتے، انہیں ٹرول کیا گیا لیکن وہ بھارتی اداکارہ کی شادی کسی دوسرے پاکستانی سے کروانے کیلئے تیار ہیں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
دوسری شادی کرنے کی صورت میں بچے کی کسٹڈی کا حق دار کون؟ عدالت کا بڑا فیصلہ سامنے آگیا
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس ایس رضا کاظمی نے بچوں کی حوالگی کے حوالے سے بڑا فیصلہ سناتے ہوئے دوسری شادی کرنے کے باوجود ماں کو ہی بچے کی کسٹڈی کا حق دار قرار دے دیا۔
جسٹس احسن رضا کاظمی نے نازیہ بی بی کی درخواست پر 4 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا، عدالت نے دوسری شادی کی بنیاد دس سالہ بچے کو ماں سے لیکر باپ کو دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
فیصلے میں کہا کہ بچوں کے حوالگی کے کیسز میں سب سے اہم نقطہ بچوں کی فلاح وبہبود ہونا چاہیے، عام طور پر ماں کو ہی بچوں کی کسٹڈی کا حق ہے، اگر ماں دوسری شادی کر لے تو یہ حق ضبط کر لیا جاتا ہے۔
اس میں کہا گیا کہ یہ کوئی حتمی اصول نہیں ہے کہ ماں دوسری شادی کرنے پر بچوں سے محروم ہو جائے گی، غیر معمولی حالات میں عدالت ماں کی دوسری شادی کے باوجود بچے کی بہتری کی بہتری کےلیے اسے ماں کے حوالے کرسکتی ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا کہ موجودہ کیس میں یہ حقیقت ہے کہ بچہ شروع دن سے ماں کے پاس ہے، صرف دوسری شادی کرنے پر ماں سے بچے کی کسٹڈی واپس لینا درست فیصلہ نہیں، ایسے سخت فیصلے سے بچے کی شخصیت پر بہت برا اثر پڑ سکتا ہے۔
جج نے قرار دیا کہ موجودہ کیس میں میاں بیوی کی علیحدگی 2016 میں ہوئی، والد نے 2022 میں بچے کی حوالگی کے حوالے سے فیصلہ دائر کیا، والد اپنے دعوے میں یہ بتانے سے قاصر رہا کہ اس نے چھ سال تک کیوں دعوا نہیں دائر کیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ والد نے بچے کی خرچے کے دعوے ممکنہ شکست کے باعث حوالگی کا دعوا دائر کیا، ٹرائل کورٹ نے کیس میں اٹھائے گئے اہم نقاط کو دیکھے بغیر فیصلہ کیا، عدالت ٹرائل کورٹ کی جانب سے بچے کی حوالگی والد کو دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتی ہے۔