اسلام آباد (وقائع نگار) جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہے کہ ہمیں ذمہ دار ریاست ہونے کا ثبوت دینا ہوگا، ہم نے پراکسی وار لڑتے کڑتے خود کھوکھلا کرلیا ہے، مقتدر قوتوں کے آئین اور قانون موم کی ناک ہے جس طرف چاہیں موڑ دیں، پیکا کے حوالے سے قانون یک طرفہ بنا ہے، خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں حکومتی رٹ موجود نہیں، ہمیں تکلیف ہوتی ہے جب ہم سنتے ہیں کہ ہمارے جوان شہید ہوگئے، اب ہم افغانستان کے ساتھ معاملات خراب کرنے جارہے ہیں، وفاق میں دینی مدارس کی رجسٹریشن کا قانون پاس ہوچکا ہے،،کیا اب تک یہاں سے کسی صوبے کو کہا گیا ہے کہ قانون سازی کرنی ہے۔
سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان نے پارلیمنٹ ہاؤس میں پی آر اے کے دفتر کا دورہ کیا، صدر پی آر اے پاکستان عثمان خان اور سیکرٹری نوید اکبر سمیت باڈی کے ممبران نے استقبال کیا، صدر پی آر اے عثمان خان اور سیکریٹری نوید اکبر نے مولانا کو پیکا ترمیمی بل سے متعلق بریف کیا۔
مولانا فضل الرحمان نے پارلیمانی رپورٹرز سے پیکا بل پر اپنا ہرممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی اور کہا کہ سیاست اور صحافت ہمیشہ ایک دوسرے سے وابستہ رہے ہیں، خاص طور پر پارلیمان کے اندر ارکان اور صحافیوں کے تعلق کا بھی ادراک و احترام ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انسان قوانین بناتا ہے تو خاص معروضی حالات کو مدنظر رکھ کر بناتا ہے مگر ایک وقت کے بعد اسکی افادیت ختم ہوجاتی ہے، باالخصوص 26 ویں ترمیم کے وقت جو حالات رہے تعجب ہے ہمارے مقتدر حلقوں کے قریب آئین موم کی ناک ہے، جیسے آئین ملک کو چلانے کے لیے نہیں بنا اور وہ آئین کو چلانے کے لیے بنے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پیکا قانون پر اپنے موقف کو دہراؤں گا، پیکا قانون پر صحافیوں کو اعتماد میں لیا جاتا، ان کی تجاویز لی جاتی، صدر کو کہا تھا صحافیوں کی تجاویز لی جائیں اور صحافتی تنظیموں کی رائے لیں، صدر مملکت سے کہا تھا وہ وقت دیں اور دستخط نہ کریں، مگر کوئی دباو آیا اور ترمیمی بل پر دستخط ہو گئے۔
سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ اب صورتحال یہ ہے کہ جہاں ہم سے وہ تقاضہ کررہے تھے کہ مسودہ تیار نہیں، وہیں ووٹ لینا بھی چاہتے تھے، جب مسودہ کا تقاضہ ہوا تو شدید موقف کے بعد مسودہ دیا، اگر ہم اس مسودہ کو تسلیم کرلیتے تو نام کی جمہوریت ہوتی اور مارشل لا ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ اطمینان سے کہہ سکتا ہوں کہ ایک ماہ مذاکرات کرکے خالصتا آئینی جمہوری بنیاد پر بات کی، ہمارا کوئی ذاتی مفاد شامل تھا نہ کوئی مطالبہ تھا اور کامیابی ملی، 56 کلاز سے دستبردار کیا اور 26 تک لیکر آئے، ہمارا موقف پیکا ترامیمی بل پر بہت واضح ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ چھبیسویں آئینی ترمیم میں ایسی ترامیم کو شامل کیا گیا کہ ججز مکمل ان کی کٹ پتلی ہوں، جو گنجائش موجود تھی اس کا آج بھرپور فائدہ اٹھایا جارہا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا فائدہ اٹھانا بھی آئین کی روح کی خلاف ورزی ہے، ایسے اقدامات غمازی کرتی ہے کہ حکومت اسٹبلشمنٹ کی اشاروں پر چلتی ہے، یہ اقدامات ملکی مفاد میں نہیں ہوتے، ہماری رائے کو مثبت سمجھا جائے، امریکی نئی انتظامیہ آئی ہے فلسطین میں جنگ بندی ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلی دفعہ اسرائیل کو فلسطین میں شکست ہوئی ہے، ٹرمپ کہتا ہے فلسطین کو مصر میں آباد کیا جائے، اقوام متحدہ کی اپنی قراردادوں میں ہے، فلسطین میں مزید آباد کاری کی گنجائش نہیں ہے پھر بھی آباد کاری کی گی، عرب لیگ نے ٹرمپ کی تجویز کو مسترد کیا ہے، یہودیوں کو امریکا میں آباد کیا جائے، ٹرمپ صرف صدر نہیں بلکہ بدمعاش صدر ہے۔
سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ امریکا ہمارے وسائل پر قبضہ کرے گا، ہمیں اپنی روش تبدیل کرنا ہوگی، چھبیس ویں آئینی ترمیم میں عدلیہ کو کمزور کرنے کی کوشش کو ہم نے ناکام بنایا، حکومت عوام کی منتخب نہیں ہے اسٹیبلیشمنٹ کے اشاروں پر چلتی ہے۔
سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا کہ انسان قوانین بناتا ہے تو خاص معروضی حالات کو مدنظر رکھ کر بناتا ہے مگر ایک وقت کے بعد اسکی افادیت ختم ہوجاتی ہے، باالخصوص 26 ویں ترمیم کے وقت جو حالات رہے تعجب ہے ہمارے مقتدر حلقوں کے قریب آئین موم کی ناک ہے، جیسے آئین ملک کو چلانے کے لیے نہیں بنا اور وہ آئین کو چلانے کے لیے بنے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب تک ایک اسٹبلشمنٹ کے فورم پر فیصلے ہوں گے تو مسائل تو بڑھیں گے، آپ سیاستدانوں کے ساتھ بیٹھیں اور بات کریں، اس حد تک نہ جائیں کہ ہمارے پاس تمام راستے ہی بند ہو جائیں، سیاستدانوں کے پاس کوئی راستہ نہ رہے، اگر دو چار لوگ سب معاملات طے کرتے رہیں گے تو یہ چیزیں نہیں چل سکتیں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ملک معاشی طور پر ٹھیک ہورہا ہے آنے والے دنوں میں جی ڈی پی کم ہوگا، آئندہ سال روپے کی قدر بھی کم ہوگی، عام آدمی کا کنسرن تو روزگار اور مہنگائی سے ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں حکومتی رٹ موجود نہیں، سڑک کے کناروں اور نزدیک ترین مسلح گروہوں کے مرکز نظر آتے ہیں، رات کو گلی کوچے ان کے حوالے ہوتے ہیں نہ جانے حکومت کہاں ہوتی ہے؟ ہمیں تکلیف ہوتی ہے جب ہم سنتے ہیں کہ ہمارے جوان شہید ہوگئے، میں فوج اور اپنی دفاعی صلاحیت کے بارے میں کیا سوچوں گا؟ مجھے اعتماد تھا میں طاقتور ملک اور قوم ہوں وہ اعتماد ریزہ ریزہ ہو چکا ہے، میرے اپنے گاؤں میں دہشت گرد کھلم کھلا گھوم رہے ہیں۔
سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ اگر خدانخواستہ میں ان کا نشانہ بنوں تو میری سیکیورٹی ان کے لیے ناکافی ہوگی، یہ ہی صورتحال بلوچستان کی ہے یہ محافظ میرے ہیں یہ ملک میرا ہے، اگر آج بلوچ علیحدگی کا اعلان کردیں تو لوگ اس کی حمایت کریں گے، اس صورتحال کو حقیقت پسندی سے دیکھا جانا چاہیئے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ کشمیر تو ہم نے اونے پونے دے دیا ہے 5 فروری کو یوم یکجہتی بھی منائیں گے، تاریخ کے ساتھ ہم زیادتی کررہے ہوں گے، ان کے خون اور ناموس کو اپنی سیاست کے لیے استعمال کیا ہے، ہم نے کشمیریوں کو تن تنہا چھوڑ دیا ہے، مودی مسلم دشمن ہے اس نے کشمیر کی ڈیموگریفی تبدیل کرنے کی کوشش کی، یہ تو کشمیریوں نے ان کے خوابوں کو بیکھیر دیا ہے، ہمارا کیا کردار ہے صرف ایک بیان دینے تک؟۔
انہوں نے کہا کہ اب ہم افغانستان کے ساتھ معاملات خراب کرنے جارہے ہیں، اس بات کو اجاگر کیا جارہا ہے کہ افغانستان سے افغانی آتی ہیں اور کارروائی کرتے ہیں، کیا ہمارے جنرلز ہمارے ہی نوجوانوں کی جہاد میں شامل ہونے کی ترغیب نہیں دے رہے تھے؟ کیا جنرل مشرف کے دور میں ہوائی اڈے نہیں دیے گئے؟ کیا افغانستان پر فضائی حملے نہیں ہوئے؟ کیا کسی وہاں سے کہا کہ پاکستان سے حملے کیوں ہورہے ہیں؟ آج سارا دباؤ پاکستان میں دینی مدارس پر آرہا ہے۔
سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا کہ ایف اے ٹی ایف کا بڑا اہداف یہ ہی ہے کہ منی لانڈرنگ نہ ہو، ہمارے ملک کے بڑے اور بزرگ سیاستدان منی لانڈرنگ میں ملوث نہیں ہیں؟ الزامات منی لانڈرنگ کے سیاستدان پر اور نشانہ مدارس ہیں، وردیوں میں مدارس پر جاکر پیش ہوتے ہیں اور سوال فیڈ کرکے جواب ہائی لائٹ کروائے جاتے ہیں، وفاق میں دینی مدارس کی رجسٹریشن کا قانون پاس ہوچکا ہے، کیا اب تک یہاں سے کسی صوبے کو کہا گیا ہے کہ قانون سازی کرنی ہے، قانون سازی اس لئے نہیں کی جارہی کہ دنیا کو بھی خوش رکھنا ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ 43 ہزار اس سال حافظ کرام وفاق المدارس سے فارغ التحصیل ہو رہے ہیں، 18 ہزارمدارس کی رجسٹریشن کا ڈھونگ رچایا گیا ہے، دینی مدارس نے ثابت کیا ہے کہ وہ آئین، ملک اور پارلیمان کے ساتھ کھڑے ہیں، اگر کوئی مخالف ہے تو وہ نظم کی نہیں آپکی پشت پناہی میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کیا افغانستان کے ساتھ معاملات خراب کرنا پراکسی مفادات کا تحفظ کرنا ہے؟ حقائق تلخ ہیں لیکن ملک کے حالات کو ٹھیک کرنا ہے، امارات اسلامی کے سر پر آپ حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں؟ کیا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں، کیا امارات اسلامیہ نے کبھی مطالبہ کیا ہے کہ ہمارا نوجوان پکڑا ہے اور کیوں مارا ہے؟ پھر حالات ایسے بنائے جارہے ہیں جو پاکستان کے حق میں تھے انہیں مخالف کیا جارہا ہے، میں نے دورہ افغانستان میں جو کام کیا اس پر ریاستی اداروں نے تعریف کی، ہمیں ذمہ دار ریاست ہونے کا ثبوت دینا ہوگا، ہم نے پراکسی وار لڑتے لڑتے خود کو کھوکھلا کرلیا ہے۔
سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ کیا ہم نے ہوائی اڈے نہیں دیے تھے، آج سارا دباؤ دینی مدارس پر آرہا ہے، منی لانڈرنگ کا کون سا پیسہ ہے جو دینی مدارس پر خرچ ہوا ہے؟ میں پوچھنا چاہتا ہوں وفاق میں دینی مدارس کا اکاؤنٹ کھولنے کا بل پاس ہو چکا ہے، کیا صوبوں کو قانون پاس کرانے کے لیے کوئی ہدایت دی ہے، مدارس میں امتحان ہورہے ہیں، 18 ہزار ڈمی مدارس کا ڈھونڈا پیٹا گیا، معاملات جب آپ کے ہاتھ سے نکلتے ہیں اس کی ناکامی دوسروں پر نہ ڈالیں، ہم نے قبائلی علاقے کا انضمام کیا ہے قبائلی لوگوں کو گھروں سے نکالا، کے پی کے قبائلی عمائدین نے میرے سے ملاقات کی ان پر کیا گزر رہی ہے، قبائلی علاقوں میں ٹارگٹ کلنگ جاری ہے۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ کا کہنا تھا کہ منی لانڈرنگ نے کہا کہ ا بناتا ہے کا قانون کے ساتھ رہے ہیں کیا ہے

پڑھیں:

پاکستان کی بقا کے لئے کھوئی ہوئی لیڈرشپ کو تلاش کر نے کی ضرورت ہے، وزیر دفاع

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پاکستان کی بقا کے لئے کھوئی ہوئی لیڈر شپ کو تلاش کر نے کی ضرورت ہے

سیالکوٹ میں ریڈی میڈ گارمنٹس ایسوسی ایشن کے صنعتکاروں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صنعتکاروں کو ویزہ مسائل کی بڑی وجہ فقیروں کی بھرمار ہے، مانگنے والے بیرون ملک جا کر مانگتے ہیں، دیگر ممالک ان وجوہات کے باعث متاثر کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دو کروڑ سے زائد مانگنے والے فقیر موجود ہیں، ہم سیالکوٹ سے دو بار ان کو سویپ کر چکے ہیں لیکن اب بھی ان کی بھرمار ہے، ہمیں دوسرے ممالک کیسے فیسلیٹیشن کرسکتے ہیں،  سعودی ارب میں چھ ہزار افراد وزیر لے کے وہاں مانگ رہے ہیں۔

وزیر دفاع نے کہا کہ کراچی میں دہشت گردی کا خاتمہ کیا گیا، ملک میں معاشی استحکام اور نئے پراجیکٹ کو لانچ کیا گیا، ایک نا تجربہ کار حکومت نے اس ملک کی معاشیات کو تباہ کر کے رکھ دیا، عدم اعتماد کے بعد 1 اپریل 2022 کو وزارت خزانہ نے ہمیں کہہ دیا تھا کہ ایک کوارٹر کے لئے ہمارے پاس کوئی رقم نہیں تھی۔

خواجہ آصف نے کہا کہ  اس وقت لیڈر شپ نے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا، آج ملک میں اسباب پیدا ہوئے ہیں کہ پاکستان چوتھی اڑان بھرنے کو تیار ہے، پاکستان کی بقا کے لئے کھوئی ہوئی لیڈر شپ کو تلاش کر نے کی ضرورت ہے، ہم نے معاشی خامیوں کی جانچا ہے ایکسپورٹ کو قومی ایمرجنسی بنا کر پیداواری سیکٹر کو اس جانب راغب کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ آج ہماری اسٹاک ایکسچینج کے 533 کمپنی ہیں ان میں 70 کمپنیاں ہیں جو دس ہزار ڈالر سے اوپر کام کر رہی ہیں، ہمیں ایکسپورٹ کی جانب آنا چاہئے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ ہماری امپورٹ پر 4 بلین ڈالر کا خسارہ ہے،  ہمارے ملک کے لئے ان چار بلین ڈالرز کی بہت اہمیت ہے، 2015 میں ہم نے پلانٹ لگانے شروع کئے ہمارے پاور پلانٹ والوں نے ہر گرام پر چونا لگایا۔

ان کا کہنا تھا کہ  اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ہے کہ اس ملک کو کتنا نقصان ہو چکا ہے، بزنس کمیونٹی اس ملک کے محسن ہے، ایمانداری سے اپنے ملک میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں، 90 کی دہائی کی آئی پی پیز کنٹریکٹ ختم ہو جائیں گے، مشرف دور میں ہونے والے آئی پی پیز معاہدے تقریبا 2035 میں ختم ہوں گے۔

متعلقہ مضامین

  • مولانا فضل الرحمان کی مرضی اتحاد کرتے ہیں یا نہیں، عمر ایوب
  • پی ٹی آئی کے ساتھ تعلقات کو اس مقام پر لے جانا چاہتے ہیں جہاں بات چیت ہوسکے، فضل الرحمان
  • فضل الرحمان حافظ نعیم ملاقات: فلسطین کا مسئلہ اجاگر کرنے کے لیے ’مجلس اتحاد امت‘ کے نام سے فورم بنانے کا اعلان
  • فلسطین سے اظہارِ یکجہتی، 24 اپریل کو مینارِ پاکستان پر جلسہ ہوگا، مولانا فضل الرحمان
  •  قانون کی حکمرانی ہوتی تو ہمارے رہنما جیل میں نہ ہوتے :  عمرایوب
  • اقبالؒ کے فلسفے کو اپنا کر معاشی خودانحصاری، یکجہتی کو فروغ دینا ہوگا، شہباز شریف
  • 26؍اپریل کو مکمل ملک گیر ہڑتال ہو گی، حافظ نعیم الرحمان
  • حکمران امریکا اور اسرائیل سے ڈرتے ہیں، حافظ نعیم الرحمان کا غزہ مارچ سے خطاب
  • بلوچستان کو خیرات نہیں، بلکہ حقوق دیں، مولانا ہدایت الرحمان
  • پاکستان کی بقا کے لئے کھوئی ہوئی لیڈرشپ کو تلاش کر نے کی ضرورت ہے، وزیر دفاع