کراچی:

ایم ڈی کیٹ کے امیدواروں کی سوال نامے کے اجراء کی درخواست شٹل کاک بن گئی، ریگولر بینچ نے آئینی بینچ کو پٹیشن بھیجی مگر آئینی بینچ نے سماعت سے انکار کردیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق ہائیکورٹ میں ایم ڈی کیٹ کے امیدواروں کی سوالنامے کے اجراء کی درخواست کی سماعت ہوئی۔ روسٹر  تبدیل ہونے کے بعد ججز  تبدیل ہوئے، درخواست دوسرے ریگولر بینچ میں منتقل ہوگئی۔

ریگولر بینچ نے ایک گھنٹہ سننے کے بعد درخواست آئینی بینچ میں منتقل کردی۔ آئینی بینچ نے چند منٹ کی سماعت کے بعد سننے سے انکار کردیا۔

جسٹس کے کے آغا نے ریمارکس دیئے کہ یہ پالیسی کے خلاف درخواست ہے یہ ریگولر بینچ میں لگائیں۔

درخواست گزار نے موقف دیا کہ میری آپ سے ریکویسٹ ہے کہ آپ اس درخواست کو سن لیں، یہ طالب علموں کے مستقبل کا معاملہ ہے۔آئینی بینچ نے وکیل کے اصرار پر سماعت 13 فروری تک ملتوی کردی گئی۔

دائر درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ درخواست گزار کو ریلیف سکھر آئی بی اے اور سندھ ٹیسٹنگ سروس نے فراہم کرنا ہے، درخواست کے فیصلے تک نتائج جاری نہ کیے جائیں۔

ایم ڈی کیٹ کے جوابات کی شیٹ فراہم کی گئی لیکن سوال نامہ نہیں دیا گیا۔ سوال نامہ کے بغیر سوالات کی جانچ ممکن نہیں ہے۔

ایم ڈی کیٹ میں غلطی یا سلیبس سے باہر کے سوالات کی موجودگی ممکن ہے، پنجاب، کے پی میں ایم ڈی کیٹ امیدواروں کو جوابات کی شیٹ کے ساتھ سوالنامے کی کاپی فراہم کی گئی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی سوالنامہ جاری کرنے کا حکم دیا ہوا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ایم ڈی کیٹ کے ریگولر بینچ

پڑھیں:

پاکستانی میڈیا: سچ کے بجائے منظر نامے کا اسیر؟

کہا جاتا ہے کہ صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے، لیکن جب یہی ستون اپنے بوجھ تلے دبنے لگے، جب سچائی کو مفادات کی چادر میں لپیٹ دیا جائے، اور جب خبر ایک تجارتی شے بن جائے تو قوم کا شعور بجھنے لگتا ہے۔

پاکستان میں صحافت کا وہ شاندار ماضی اب ایک دھندلے عکس کی مانند ہے، جہاں کبھی تحقیق، جستجو اور سچائی صحافی کے قلم کا سرمایہ تھیں، آج وہی قلم اشتہارات کی سیاہی سے تر ہے۔

ناظر کو اب وہ نہیں دکھایا جاتا جو دراصل وقوع پذیر ہوا، بلکہ وہ دکھایا جاتا ہے جو مخصوص حلقوں کو راس آتا ہو، میڈیا کی اس روش نے خبر اور تاثر کے درمیان لکیر مٹا دی ہے۔

ذرائع ابلاغ جو کبھی عوام کی آنکھ اور ریاست کی نگرانی کا ذریعہ تھے، اب ایک ایسی صنعت بن چکے ہیں جہاں ریٹنگز، اشتہارات اور سنسنی خیزی ہی اصل کرنسی ہے۔

خبروں کی وقعت اب ان کی صداقت سے نہیں، بلکہ ان کی فروخت پذیری سے متعین ہوتی ہے، صحافت جو کبھی ضمیر کی آواز تھی، اب تفریحی مواد میں ڈھل چکی ہے۔ سنجیدہ تجزیہ ایک نایاب جنس ہے، جبکہ شور شرابہ، چیختے اینکرز اور جذباتی مناظر وہ لوازمات ہیں جو بریکنگ نیوز کی پہچان بن چکے ہیں۔

یہ امر باعثِ حیرت نہیں کہ ریاستی ادارے بھی اکثر اسی میڈیا کے زیرِ اثر آ جاتے ہیں، جسے کبھی وہ اپنا معاون سمجھتے تھے۔ میڈیا بعض اوقات ریاستی بیانیے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے، تو کبھی اسی بیانیے کو سبوتاژ کرنے کے لیے محاذ آرا ہو جاتا ہے۔ یہ دوغلا پن میڈیا اور ریاست کے درمیان ایک مصلحتی رشتہ قائم کرتا ہے، جو نہ مستقل ہوتا ہے، نہ معتبر۔ اسی لیے عوام اب یہ سوال کرتے ہیں کہ جو ہم دیکھ رہے ہیں، کیا وہ ریاست کی آواز ہے یا کسی اور کے مفاد کا عکس؟

سیاسی وابستگیاں بھی پاکستانی میڈیا کی ساخت کا اہم جزو بن چکی ہیں۔ ایک مخصوص جماعت کے حق میں نرم گوشہ، دوسری کے خلاف محاذ آرائی اور تیسری کے لیے مکمل خاموشی، یہ سب وہ رویے ہیں جو صحافت کے بنیادی اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہیں۔ اکثر اوقات تجزیہ تجویز بن جاتا ہے، اور رائے کو خبر کا جامہ پہنا دیا جاتا ہے، اس طرزِ عمل نے عوامی اعتماد کو شدید زک پہنچائی ہے۔

صحافی اب صرف خبر کے راوی نہیں رہے، وہ خود خبر بن چکے ہیں، عدالتوں کے فیصلے پہلے فیصلے صادر کر دینا، تحقیق سے پہلے فتوے دینا، اور مخالفین کو نشانہ بنانا یہ سب اس نئے صحافتی کلچر کا حصہ ہیں، جو کسی فکری یا اخلاقی نظام سے خالی ہے۔ صحافت کی نجی حیثیت کا کمرشلائزیشن نے گلا گھونٹ دیا ہے، اور سچائی اب نفع و نقصان کے ترازو میں تولی جاتی ہے۔

یہ وہ لمحہ فکریہ ہے جہاں ہمیں رک کر سوچنا ہوگا کہ کیا صحافت واقعی ریاست کے ساتھ ہے، یا صرف ریٹنگ کے ساتھ؟ کیا میڈیا عوامی شعور کو بیدار کررہا ہے، یا اسے مفلوج بنا رہا ہے؟ کیا اینکرز قوم کی رہنمائی کررہے ہیں، یا اسے اشتعال اور الجھن کی طرف دھکیل رہے ہیں؟ جب صحافت ضمیر کے بجائے بازار کی زبان بولنے لگے تو سمجھ لیجیے کہ معاشرہ سمت کھو چکا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم صحافت کو اس کے اصل مقام پر واپس لائیں۔ ایسا میڈیا تشکیل دیا جائے جو ریاست کا آلہ کار نہ ہو، اور نہ ہی سیاسی مفادات کا غلام، بلکہ ایک ایسا ادارہ ہو جو سچائی کی پاسداری کرے، تنقید کو تعمیری رخ دے، اور عوام کو صرف آگاہ نہ کرے بلکہ باشعور بھی بنائے۔ ہمیں ایک ایسی صحافت درکار ہے جو علامہ اقبال کے ’فکرِ بلند، گفتارِ دلنواز، اور روحِ حریت‘ کی ترجمان ہو۔

ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا ہم وہ صحافت چاہتے ہیں جو بکتی ہے یا جو جگاتی ہے؟ جو جھنجھوڑتی ہے یا جو بہکاتی ہے؟ جو ریاست کے ساتھ ہے، یا صرف ریٹنگ کے ساتھ؟ یہ فیصلہ صرف میڈیا کا نہیں، پورے معاشرے کا ہے، اور شاید یہ فیصلہ ہی ہمارا مستقبل متعین کرے گا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر راسخ الكشميری

wenews پاکستانی میڈیا ذرائع ابلاغ ریاست ریاست کا ستون سچائی سنسنی خیزی صحافت مفادات وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • پیکا ایکٹ میں ترمیم کے خلاف ایک اور آئینی درخواست دائر
  • 190 ملین پاؤنڈز کیس: اپیلیں مقرر کرنے سے متعلق ڈپٹی رجسٹرار سے پالیسی طلب
  • پی ایف یو جے دستور گروپ کی پیکا ایکٹ میں ترمیم کیخلاف درخواست پر نوٹس جاری
  • صنم جاوید کی بریت کیخلاف درخواست پر سماعت ملتوی
  • ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کیس: عمران خان اور بشریٰ بی بی کی اپیلوں پر بڑی پیش رفت
  • رنویر الہ آبادیا کیس کی تحقیقات مکمل، پاسپورٹ واپسی کی درخواست سماعت کیلیے مقرر
  • اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست پر سماعت نہ ہونے پر عمر ایوب کا اظہار تشویش
  • پاکستانی میڈیا: سچ کے بجائے منظر نامے کا اسیر؟
  • عدالت نے عالیہ حمزہ کی درخواست ضمانت سماعت کیلئے منظور کرلی
  • پولیس کی گاڑیاں جلانے کا مقدمہ: یاسمین راشد کی درخواست ضمانت کی سماعت