ہندوستانی آئی فونز کی درآمد یا اسمگلنگ دائرہ اختیار میں نہیں، پی ٹی اے
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے واضح کیا ہے کہ ہندوستانی ساختہ آئی فونز اور دیگر موبائل آلات کی درآمد یا اسمگلنگ کی روک تھام اس کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔
پی ٹی اے نے یہ بیان کابینہ ڈویژن کی تجویز کے جواب میں دیا ہے جس میں کابینہ ڈویژن نے کہا تھا کہ ہندوستان کے تیار کردہ آئی فونز پاکستان کی سائبر سیکیورٹی کے لیے خطرہ ہوسکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سستے ترین آئی فون کی لانچنگ متوقع، اہم فیچرز کون سے ہونگے؟
پی ٹی اے نے کابینہ ڈویژن کے خدشات رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امپورٹ آرڈر 2022 کے تحت بھارتی مصنوعات کی پاکستان میں درآمد ممنوعہ ہے اور بھارتی ساختہ آئی فون اور ڈیوائسز پاکستان میں بلیک لسٹ ہیں۔
ترجمان پی ٹی اے کے مطابق بھارت کے لیے مختص جی ایس ایم اے کا ٹائپ ایلوکیشن کوڈ کو رجسٹرڈ نہیں کیا گیا، بھارت کے لیے مختص کوڈ کو بلیک لسٹ کر رکھا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: انٹرنیٹ اسپیڈ میں کمی کی بڑی وجہ وی پی این ہے، پی ٹی اے
ٹیلی کام اتھارٹی نے واضح کیا کہ اسے مارکیٹ میں موبائل فون کی فروخت اور خریداری کو منظم کرنے کا قانونی اختیار نہیں ہے۔ ’ہندوستانی ساختہ موبائل آلات کی درآمد یا اسمگلنگ کی روک تھام کسٹمز اور دیگر متعلقہ محکموں کے دائرہ اختیار میں آتی ہے نہ کہ پی ٹی اے کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اسمگلنگ بھارت پاکستان پی ٹی اے ٹیلی کام اتھارٹی کسٹمز ہندوستانی آئی فونز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسمگلنگ بھارت پاکستان پی ٹی اے ہندوستانی ا ئی فونز دائرہ اختیار میں پی ٹی اے کے لیے
پڑھیں:
افغان مہاجرین کے جعلی شناختی کارڈز کی تحقیقات کا دائرہ مزید وسیع کردیا گیا
پشاور:افغان مہاجرین کے جعلی پاکستانی کارڈز کی تحقیقات کا دائرہ مزید وسیع کرتے ہوئے پشاور کی 15 یونین کونسل کی سیکریٹریز سے ریکارڈ طلب کر لیا گیا ہے اور اپنے خاندان میں شامل کرنے والے پاکستانیوں کی نشان دہی بھی کر دی گئی ہے۔
خیبر بازار، گنج بازار، نمک منڈی، جناح پارک روڈ، دیر کالونی، زرگر آباد، پیپل منڈی، حیات آباد، افغان کالونی سمیت مختلف علاقوں میں رہائش پذیر اور بازاروں میں کاروبار کرنے والے مہاجرین کی گرفتاریوں کے لیے ان کی فہرستوں کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ پشاور کے مختلف یونین کونسلوں کے سیکریٹریوں کو ریکارڈ سمیت تحقیقات کے لیے طلب کیا گیا ہے اور بعض سرکاری ملازمین کے حوالے سے بھی تحقیقات ہو رہی ہے۔