امریکا کی جانب سے چین پر 10 فیصد ٹیرف ڈیوٹی عائد کرنے سے پاکستان کو کیا فائدہ مل سکتا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
اپنی حلف برداری کے بعد سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ آئے روز ایک نیا سرپرائز دنیا کو دے رہے ہیں، ان کی جانب سے حالیہ سرپرائز ٹیرف وار ہے جو انہوں نے چین اور کینیڈا کیخلاف شروع کرنے کا اعلان کیا ہے، جس سے ممکنہ طور پر دونوں ممالک کا تجارتی نقصان متوقع ہے۔
اس تبدیل ہوتی ہوئی عالمی صورتحال میں ماہرین کا خیال ہے کہ چین اس مسئلہ سے خود کو نکالنے میں کامیاب ہو جائے گا اور اس صورتحال سے پاکستان کی معیشت کو مثبت ثمرات مل سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا چین ٹریڈ وار میں پاکستان کے لیے خیر کی خبر
معاشی ماہر سلمان نقوی کا کہنا ہے کہ چین پر 10 فیصد ٹیرف عائد ہونے سے چینی تاجر اب اپنا مال کہیں اور بیچنے کی کوشش کریں گے کیوںکہ امریکی مارکیٹ مہنگی ہوجائیں گی۔
’اب ممکن ہے کہ پاکستان چین سے بڑی مقدار میں خام مال منگوائے، جو کہیں اور نہ بکنے سے چین اپنا خام مال پاکستان کو رعایتی قیمت پر فروخت کرسکتا ہے، خاص طور پر ٹیکسٹائل اور اسٹیل سیکٹر میں پاکستان کو فائدہ مل سکتا ہے۔‘
سلمان نقوی کے مطابق پاکستان اس صورت حال کا بھر پور فائدہ اٹھا سکتا ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہ اس صورت حال کا جائزہ لے کر بروقت فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے۔
مزید پڑھیں: امریکی ٹیرف پالیسی کے خلاف کینیڈا، میکسیکو کا اتحاد، چین بھی کھل کر سامنے آگیا
’بات اگر میکسیکیو اور کینیڈا کی ہو تو ان کے لیے ٹیرف میں اضافہ بہتر نہیں، انہیں معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، لیکن چین متبادل راستے نکال لے گا اور چین کی معیشت بہت بڑی ہے۔‘
نیشنل بزنس گروپ کے چئیرمین میاں زاہد حسین کا کہنا ہے کہ امریکا نے چین پر ٹیرف 10 جبکہ کینیڈا پر 25 فیصد لگایا ہے، چین پر عائد کردہ ٹیرف کا فائدہ پاکستان کو مل سکتا ہے۔
’اگر کینیڈا کی طرح چین پر بھی 25 فیصد ٹیرف لگتا تو اس کا پاکستان کو بہت فائدہ ہوتا لیکن اب بھی پاکستان اس صورت حال کا بھرپور فائدہ لے سکتا ہے، پاکستان کو دیکھنا ہوگا کہ کون سے کاروبار پاکستان کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔‘
مزید پڑھیں: یورپی اشیا پر محصولات عائد کرنے کے اعلان پر صدر ٹرمپ کو یورپی یونین کا انتباہ
میاں زاہد حسین کے مطابق پڑوسی اور دوست ملک ہونے کے ناطے چین کوشش کرے گا کہ وہ کم سے کم نقصان کے ساتھ اپنا خام مال بیچے اور یہ بھی ممکن ہے کہ چین امریکا کے علاوہ اب دیگر ممالک پر زیادہ انحصار کرے لیکن فوری طور پر اس کے مثبت اثرات سے پاکستان مستفید ہو سکتا ہے۔
اسٹاک ایکسچینج کاروبار کے ماہر شہریار بٹ کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے آنے کے بعد یہ امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ پوری دنیا کو سرپرائز ملیں گے، جن کا آغاز ہو چکا ہے، جوابی رد عمل میں کینیڈا نے بھی امریکا پر 25 فیصد ٹیرف عائد کیا ہے جبکہ چین نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں شکایت کی ہے۔
مزید پڑھیں:محصولات سے بچنے کے لیے کینیڈا کو امریکا کی 51ویں ریاست بننا ہوگا، ڈونلڈ ٹرمپ
شہریار بٹ کا کہنا ہے کہ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو یقینی طور پر پاکستان بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتا، ٹیرف کی اس جنگ کی وجہ سے پوری دنیا کی اسٹاک مارکیٹیں نیچے آرہی ہیں، اور پاکستانی اسٹاک مارکیٹ پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
’پاکستان امریکا کا تجارتی پارٹنر ہے اگر ہماری برآمدات کم ہوتی ہے تو پاکستان کو معاشی صورت حال پر مسائل درپیش ہو سکتے ہیں، پاکستان کو اب دوسری مارکیٹ ڈھونڈنا ہوں گی جس سے پاکستان کو معاشی استحکام ملنے کا امکان ہو۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسٹاک ایکسچینج اسٹیل امریکی صدر ٹیرف ٹیکسٹائل چین ڈونلڈ ٹرمپ سرپرائز شہریار بٹ کینیڈا مارکیٹ میاں زاہد حسین میکسیکیو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسٹاک ایکسچینج اسٹیل امریکی صدر ٹیرف ٹیکسٹائل چین ڈونلڈ ٹرمپ شہریار بٹ کینیڈا مارکیٹ میاں زاہد حسین میکسیکیو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ سے پاکستان پاکستان کو فیصد ٹیرف صورت حال سکتا ہے کے لیے چین پر کہ چین
پڑھیں:
پی ایچ ڈی کا موضوع لوٹا کیوں نہیں ہو سکتا؟
ایک خبر نظر سے گزری جس پر ابھی تک حیرانی نہیں جا رہی۔ یہ ایک خبر ہی نہیں ہے بلکہ فکر انگیز موضوع ہے۔ اس سے ہمارے محفوظ یا غیرمستحکم مستقبل کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ اس خبر کے مطابق کراچی کے 80سال کے ایک بزرگ نے کراچی کی فیڈرل اردو یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی یے جس کا موضوع ’’کراچی میں ایف ایم ریڈیو کی مقبولیت اور سامعین‘‘ تھا۔ اگر یہ خبر سچی ہے اور ملک بھر میں نمایاں ہوئی ہے تو سچی ہی ہو گی۔ لیکن دل ابھی تک نہیں مان رہا ہے کہ اس موضوع پر بھی کوئی کارآمد تھیسز لکھا یا لکھوایا جا سکتا ہے۔ ہمارے اہل علم اور سرکردگان فکری طور پر اس قدر تشنہ تکمیل اور کسمپرسی کا شکار ہو سکتے ہیں اس کا ابھی تک یقین نہیں آ رہا ہے۔ شائد یہ ہماری قومی تعلیمی ترقی کی تاریخ میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی یونیورسٹیوں کا پہلا واقعہ ہے کہ اس طرز کے کسی فضول اور لایعنی موضوع پر کسی کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دی گئی ہے! بہتر ہوتا کہ موصوف نے پی ایچ ڈی ہی کرنی تھی تو اس موضوع پر تین چار سال مغز ماری کرنے کی بجائے وہ کسی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی جعلی ڈگری ہی خرید لیتے۔
ہاں یہ واقعہ پی ایچ ڈی کے 80سالہ طالب علم کے لئے قابل فخر ضرور ہے کہ انہوں نے اپنے علم و تحقیق کا شوق پورا کرنے کے لئے عمر کے اس حصے میں یہ غیرمعمولی کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس مد میں ان کی تحقیق کے شوق اور محنت کو تو سراہا جا سکتا ہے مگر موضوع کے انتخاب پر وہ کسی داد کے مستحق نہیں ہیں۔ اس خبر کے مطابق صاحب کی صحت ٹھیک نہیں تھی، انہیں مختلف اوقات میں چار دفعہ ہارٹ اٹیک اور ایک بار فالج کا حملہ ہوا۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنی تحقیق کا سلسلہ جاری رکھا۔ طالب علم کے علمی عزم اور استقلال کو ہم بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ لیکن جنہوں نے پی ایچ ڈی کے لیئے اس موضوع کو منظور کیا ان کی عقل و بصیرت پر حیرت ہے کہ وہ اس موضوع پر پی ایچ ڈی کروا کر قوم و ملک اور دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے تھے۔
تعلیمی دنیا میں پی ایچ ڈی ایک تحقیقی مقالہ ہوتا ہے جس میں کسی ایک خاص موضوع کے مختلف پہلوئوں پر تحقیق کروا کر اس کے نتائج اخذ کئے جاتے ہیں۔ اس تحقیق میں بھی 5,000 سے زائد افراد(مرد و خواتین) نے حصہ لیا، اور اس میں انہوں نے ایف ایم ریڈیو کے سیاسی شعور، آفات سے متعلق آگاہی، ثقافت اور زبان پر اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے اپنی آرا پیش کیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اردو زبان کی وسعت یا متاثر کن گفتگو کے آداب وغیرہ کے کسی موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھواتے، مگر ایسا لگتا ہے کہ ہم علم و تحقیق کے میدان میں بھی اتنے ہی کرپٹ ہیں جتنے زندگی کے دوسرے معاملات میں ہیں یعنی آپ چاہیں تو کوئی سورس (جگاڑ) لگا کر اپنی کاروباری برانڈ پر بھی تحقیقی مقالہ لکھوا کر کسی کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دلوا سکتے ہیں یعنی ڈگری کی ڈگری اور کاروبار کا کاروبار!پی ایچ ڈی ہولڈر کو فلاسفی کا ڈاکٹر بھی کہا جاتا ہے۔ علمی کامیابی کی سب سے بڑی سطح پی ایچ ڈی (ڈاکٹر آف فلاسفی)ہے، جو کہ ڈاکٹریٹ کی تحقیقی ڈگری ہے۔ اس کا مطلب فلسفہ کا ڈاکٹر ہوتا ہے کیونکہ جب کوئی کسی موضوع پر تحقیق کرتا ہے تو وہ اس میں خود کو غرق کر دیتا ہے، اس کی مکمل چھان بین کر کے اس کی تاریخ جاننے کی کوشش کرتا ہے، اس کے سیاق وسباق سے آگہی حاصل کرتا یے اور پھر جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اپنی تحقیق کے نتائج سے لوگوں کو آگاہ کرتا ہے۔ اس کے بعد جس امیدوار کا لکھا ہوا پی ایچ ڈی کا مقالہ پاس ہو جاتا ہے وہ اپنے نام کے ساتھ ’’ڈاکٹر‘‘ کا اضافہ کر سکتا ہے۔
عام میڈیکل ڈاکٹر وہ شخص ہوتا ہے جو کسی بیمار کے مرض کی تفتیش اور تشخیص کرتا ہے اور مریض کی جانچ پڑتال کے بعد اس کی صحت کی بحالی کے لئے دوا لکھ کر دیتا ہے۔ ہمیں زوال سے نکلنے کے لئے اپنے ہر شعبے میں پی ایچ ڈی ڈاکٹروں کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ تشخیص کریں اور ہمیں بتائیں کہ ہمارے زوال کی اصل وجوہات کیا ہیں۔
میرے خیال میں وہ شخص جو جنون کی حد تک اپنے مضمون سے پیار نہیں کرتا، اس میں خود کو کھو نہیں دیتا اور جسے اپنے مضمون پر مکمل عبور اور دسترس نہیں ہوتی وہ حقیقی معنوں میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر کہلانے کا حق دار نہیں ہو سکتا ہے۔ اصل میں پی ایچ ڈی ہولڈر صحیح معنوں میں اسی وقت ڈاکٹر کہلاتا ہے جب وہ اپنے موضوع کا ایک سپیشلسٹ کی طرح ’’ایکسپرٹ‘‘ ہو جاتا ہے۔
ہماری پی ایچ ڈی ڈگریوں کی یونہی تنزلی جاری رہی تو آئندہ تاریخ کی پی ایچ ڈی کا عنوان ہو گا، ’’سکندر اعظم نے دنیا کو فتح کرنے کی بجائے ڈانس کی کلاس میں داخلہ کیوں نہ لیا‘‘ یا اردو زبان کی پی ایچ ڈی کے مقالے کا عنوان ہو گا، ’’بہادر شاہ ظفر کو اردو شعرا کے مشاعرے کروانا کیوں پسند تھے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ جب سرسید احمد خان نے ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ اور علامہ اقبال ؒنے ’’اسلامی عقیدے کی تشکیل نو‘‘ کے تحقیقی موضوعات پر خامہ فرسائی کی تو اس کے نتیجے میں مسلمانوں میں آزادی حاصل کرنے کا جذبہ اجاگر ہوا اور ’’اسلامی مملکت خداداد‘‘ وجود میں آئی۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر پاکستان اب تک قائم ہے تو ہمارے علمی موضوعات ایسے ہونے چایئے کہ جس سے پاکستان دنیا کی ’’سپر پاور‘‘ بن سکے۔ محکمہ تعلیم کے ارباب اختیار کو اس پر غور کرنا چایئے کہ وہ تعلیمی نصاب اور موضوعات کی سمت درست کرنے کی طرف توجہ دیں۔ اگر ہماری علمی اور تعلیمی تنزلی یونہی جاری رہی تو کچھ بعید نہیں کہ سیاسیات میں پی ایچ ڈی کے لیئے کسی کو اگلا موضوع ’’لوٹا کریسی‘‘ ہی نہ دے دیا جائے۔ اگر ریڈیو ایف ایم پر پی ایچ ڈی ہو سکتی ہے تو سیاسی لوٹوں پر پی ایچ ڈی نہ کرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟