جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی۔ اس دوران جسٹس امین الدین نے ریمارکس دئے کہ ملٹری کورٹس کا دروازہ نہیں کھول رہے، صرف دیکھنا ہے اپیل منظور ہوتی ہے یا خارج۔ جمعہ کو ہونے والی سماعت میں جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ آرمی ایکٹ سویلین کا ٹرائل کرنے کے لیے ڈیزائن ہی نہیں کیا گیا، آپ عام شہریوں کو ایسے نظام کے حوالے نہیں کرسکتے۔ آج سماعت شروع ہوئی تو خواجہ احمد حسین نے دلائل وہیں سے شروع کیے اور مؤقف اپنایا کہ سویلنز کا کورٹ مارشل کسی صورت نہیں ہوسکتا، فوجی عدالتوں کا طریقہ کار شفاف ٹرائل کے تقاضوں کے برخلاف ہے، سپریم کورٹ کے تمام 5 ججز نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے طریقہ کار کے شفاف ہونے سے اتفاق نہیں کیا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ کیا دھماکہ کرنے والے اور عام سویلنز میں کوئی فرق نہیں ہے، جس پر خواجہ احمد حسین بولے کہ میں کسی دہشتگرد یا ملزم کے دفاع میں دلائل نہیں دے رہا، سویلنز کا کورٹ مارشل ممکن ہوتا تو اکیسویں ترمیم نہ کرنا پڑتی۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے پھر سوال کیا کہ اکسیویں ترمیم میں تو کچھ جرائم آرمی ایکٹ میں شامل کیے گئے تھے۔ خواجہ احمد حسین نے جواب دیا کہ اگر آرمی ایکٹ میں ترمیم سے کورٹ مارشل ممکن ہوتا تو آئینی ترمیم نہ کرنی پڑتی، اس طرح کورٹ مارشل ممکن ہے تو عدالت کو قرار دینا پڑے گا کہ اکسیویں ترمیم بلاوجہ کی گئی۔ خواجہ احمد حسین نے کہا کہ اکسیویں ترمیم میں آرٹیکل 175 میں بھی ترمیم کی گئی، فوجی عدالتوں میں فیصلے تک ضمانت کا کوئی تصور نہیں۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے پوچھا کہ 15 دن میں فیصلہ ہوجائے تو ضمانت ہونے یا نہ ہونے سے کیا ہوگا۔ خواجہ احمد حسین نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں اپیل کسی آزاد فورم پر جاتی ہے نہ مرضی کا وکیل ملتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل خواجہ احمد حسین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے دلائل محدود رکھیں کہ کیا مرکزی فیصلہ درست تھا یا نہیں، آپ نے شیخ لیاقت حسین کیس کی مثال دی تھی، اس وقت پبلک اور آرمی میں براہ راست کوئی لڑائی نہیں تھی، غالباً ایک واقعہ کراچی میں ہوا تھا جس میں ایک میجر کو اغوا کیا گیا تھا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اکیسویں ترمیم میں تو سیاسی جماعت کو باہر رکھا گیا تھا، ہمارے سامنے سوال صرف یہ ہے کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق کس پر ہوگا، خدانخواستہ دہشتگردی کا ایک حملہ پارلیمنٹ، ایک حملہ سپریم کورٹ اور ایک حملہ جی ایچ کیو پر ہوتا ہے، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ پر حملے کا ٹرائل انسداد دہشتگردی عدالت میں چلے گا، جی ایچ کیو پر حملہ ملٹری کورٹ میں چلے گا، میری نظر میں تینوں حملے ایک جیسے ہی ہیں تو تفریق کیوں اور کیسے کی جاتی ہے۔ ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین نے کہا کہ عدالت ایسا دروازہ نہ کھولے جس سے سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہو۔ جسٹس امین الدین بولے، ’ہم کوئی دروازہ نہیں کھول رہے، ہم نے صرف یہ دیکھنا ہے کہ اپیل منظور کی جاتی ہے یا خارج کی جاتی ہے‘۔ خواجہ احمد حسین نے دلائل دیے کہ وزارت دفاع کے وکیل نے دلائل میں کہا آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت اپیل قابل سماعت ہی نہیں تھی، وزارت دفاع کے وکیل نے کہا جہاں آرٹیکل 8 کی ذیلی شق 3 اے اپلائی ہو وہاں درخواست قابل سماعت تھی، اگر اس کیس میں آرٹیکل 184 کی شق 3 کا اطلاق نہیں ہوسکتا تو پھر کسی اور کیس میں اطلاق ہو ہی نہیں سکتا۔ ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین نے کہا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے ہمیشہ آرٹیکل 184 کی شق 3 کے اختیار سماعت کو محتاط انداز میں استعمال کرنے کی رائے دی، ملٹری کورٹس میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی رائے دی کہ آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت براہ راست درخواست قابل سماعت تھی۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: خواجہ احمد حسین نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں جسٹس امین الدین ملٹری کورٹس کورٹ مارشل ملٹری کورٹ سپریم کورٹ دروازہ نہ آرمی ایکٹ نے دلائل جاتی ہے

پڑھیں:

پاراچنار، مجلسِ علمائے اہلبیتؑ کی جانب سے امن سیمینار کا انعقاد

سیمینار سے علامہ تجمل حسین، علامہ ڈاکٹر احمد حسین نجفی، علامہ محمد حسین طاہری، علامہ احمد روحانی، ڈاکٹر ذوالفقار، پرنسپل حاجی گل اکبر، پروفیسر یاسر علی اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر عامر نواز نے خطاب کیا۔ اسلام ٹائمز۔ پاراچنار میں مجلسِ علمائے اہلبیتؑ کی جانب سے امن سیمینار کا انعقاد کیا گیا، جس میں علماء، عمائدین، ضلعی انتظامیہ اور سٹیک ہولڈرز نے شرکت کی، سیمینار میں پائیدار امن کے قیام کیلئے مختلف تجاویز پیش کی گئیں، اور ذمہ دار افراد سے اپنی ذمہ داری بروقت پوری کرنے اور فوری قیام امن ممکن بنانے پر زور دیا گیا۔ "ضلع کرم میں مستقل اور پائیدار امن کیسے" کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے علامہ تجمل حسین، علامہ ڈاکٹر احمد حسین نجفی، علامہ محمد حسین طاہری، علامہ احمد روحانی، ڈاکٹر ذوالفقار، پرنسپل حاجی گل اکبر، پروفیسر یاسر علی اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر عامر نواز نے خطاب کیا اور قیام امن کے حوالے سے مل کر کام کرنے پر زور دیا۔

اس موقع پر مقررین کا کہنا تھا کہ بدامنی کی روک تھام کے لیے فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے کیونکہ امن معاہدے کے بعد راستے بند رکھنا افسوسناک ہے، منظم طریقے سے سامان کی ترسیل اور لوگوں کی آمد و رفت میں بھتہ خوری اور رشوت خوری کا بازار گرم ہے، اس وجہ سے مافیا کی جانب سے بھی امن کا راستہ روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مقررین کا کہنا تھا کہ فریقین کو اب سمجھ آگیا ہے کہ بد امنی کے ذریعے عوام کا استحصال جاری ہے اور مختلف طریقوں سے انہیں تنگ کیا جا رہا ہے اور سات ماہ سے آمد و رفت کے راستے کی بندش کے باعث کاروبار زندگی مفلوج ہے۔ مقررین نے ضلعی انتظامیہ اور فورسز سے آمد و رفت کے راستے فوری طور کھولنے اور محفوظ بنانے پر زور دیا۔ سیمینار سے خطاب میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر عامر نواز کا کہنا تھا کہ حکومت عوام کی جان و مال کی تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھا رہی ہے اور قیام امن میں عوام اور عمائدین کا تعاون از حد ضروری ہے۔

متعلقہ مضامین

  • شیخ رشید بزرگ آدمی ہیں بھاگ کر کہاں جائیں گے، جسٹس ہاشم کاکڑ کے ریمارکس
  • جی ایچ کیو حملہ کیس میں شیخ رشید کی بریت اپیل؛ مہلت مانگنے پر سپریم کورٹ پراسیکیوٹر پر برہم
  • جی ایچ کیو حملہ کیس میں شیخ رشید کی بریت اپیل؛  مہلت مانگنے پر سپریم کورٹ پراسیکیوٹر پر برہم
  • ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں،ناانصافی پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں،سپریم کورٹ کے صنم جاوید کی بریت فیصلے کیخلاف پنجاب حکومت کی اپیل پرریمارکس
  • ڈریں اس دن سے جب اڈیالہ جیل کا دروازہ ٹوٹ گیا تو معاملات کسی کے ہاتھ میں نہیں رہیں گے، اعتزازاحسن 
  • بلوچستان: ڈیوٹی سے غفلت برتنے پر لیویز فورس کے 15 اہلکار برطرف
  • پاراچنار، مجلسِ علمائے اہلبیتؑ کی جانب سے امن سیمینار کا انعقاد
  • ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کی خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ سے ملاقات
  • اسلام آباد سمیت تمام ہائی کورٹس میں مستقل چیف جسٹس تعینات کرنے کا فیصلہ
  • اسلام آباد سمیت تمام ہائی کورٹس میں مستقل چیف جسٹس تعینات کرنے کا فیصلہ