ٹرمپ امن ساز ہے یاجنگجو؟
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
مصر کی سیسی حکومت کی پوزیشن البتہ غیر یقینی ہے، سیسی نے ابتدائی طور پر نسل کشی کے آغاز میں اسی طرح کے منصوبوں کو مسترد کر دیا تھا، اور اس نے اس وقت کہا تھا کہ اگر اسرائیل فلسطینیوں کو بےگھر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، تو انہیں فلسطین کے اندر ہی منتقل کیاجائےاور فلسطینی دھڑوں کے خلاف اسرائیلی کارروائیوں کی تکمیل کے بعد انہیں غزہ کی پٹی میں واپس بھیج دیا جائے۔ ہم نے اس حالیہ منصوبے پر بین الاقوامی یا علاقائی کرداروں کی طرف سے کوئی ردعمل نہیں سنا ہے۔ ہمیشہ کی طرح اقوام متحدہ، یورپی یونین، عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم سمیت سب نے سر ریت میں گاڑ دیا اور کوئی بیان جاری نہیں کیا یہاں تک کوئی معمولی سا ردعمل بھی نہیں دیاجو خطے میں امن کے منصوبے کی خلاف ورزی کا سبب بننے والے ایسے تمام منصوبوں کو مسترد کرنے کا براہ راست اظہار کرتا ہو۔ شمالی غزہ کی پٹی میں ہزاروں شہریوں کو اپنے گھروں کو لوٹتےدیکھنا اورقابضوں کی گولیوں کےسامنے ان کی ثابت قدمی، ٹرمپ کے منصوبے کا براہ راست ردعمل ہے۔ یہ لوگ جو پندرہ مہینوں سے اپنے اوپر بے دریغ پھینکےگئے ٹنوں بموں کے نیچے بغیر کسی گرم بستر کے سردزمین پر سوتے رہے اس لئےکہ انہیں صرف اپنے گھروں کو لوٹنا ہے،(وہ گھر جو اب ملبے کے سوا کچھ نہیں ہیں)، اپنے وطن کی جگہ وہ کسی اوروطن کو قبول نہیں کریں گے۔ زندگی، جسے اسرائیلی جنگی جنون نے 15 ماہ کے دوران تباہ وبرباد کردیا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ اب جنگ بندی کے کمزور معاہدے کی روشنی میں بین الاقوامی کرداروں کو فلسطینیوں کی عارضی رہائش، موبائل ہسپتال، بجلی اور پانی کے نیٹ ورک کی مرمت، خصوصی طبی ٹیمیں اور زخمیوں کو ہر قسم کی انسانی امدادی کارروائیوں کو تیز کرتے ہوئے اس معاہدے کی حمایت کرنی چاہیے۔
غزہ کی پٹی کی ہلاکتوں، نقل مکانی اور تباہی کے بعد، بین الاقوامی کرداروں کو ایک بین الاقوامی یا علاقائی کانفرنس کا مطالبہ بھی کرناچاہیے تاکہ ہنگامی امداد اور تعمیر نو کے کاموں کو تقویت دینے اور مددکے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔جیسا کہ ان دیگر ممالک کے لئے کانفرںسوں کا انعقاد کیاگیا جنہیں غزہ کی پٹی کے مقابلے میں بہت کم مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔اس اقدام سے غزہ کی پٹی کے مکینوں کو امید بھرا پیغام جائے گا اور یہ اعتماد بھی حاصل ہو گا کہ وہ تنہا نہیں ہیں اور نیتن یاہو اور ان کےحامیوں کے لیے یہ پیغام ہوگا کہ ان کے منصوبے کے مطابق جنگ میں واپس جانا ناممکن ہے اور یہ اب ماضی کی بات ہو چکی ہے۔
دنیا کے سب سے طاقتور ملک کے صدر کی جانب سے ایسے بدنیتی پر مبنی اور خطرناک منصوبوں کی کھلم کھلا تشہیر مشرق وسطیٰ کی سلامتی اور استحکام کے لیے ان کے لاپرواہ رویے کی عکاسی کرتی ہے۔ وہ تنازعات کی تاریخ کو جو ہمیشہ قابض حکومتوں کی اپنے مقامی لوگوں کی زمینوں کو خالی کرنے کی خواہشات کو ہوا دیتی رہی ہے نظرانداز کرنے کے عادی ہیں۔ اس قسم کا کوئی بھی نقل مکانی کا منصوبہ 7 اکتوبر کو شروع ہونے والی اور اس سے پہلےکی جنگوں سے بڑی جنگ کو بھڑکانے کاباعث ہوگا۔
دوسری قوموں کے مفادات کے تئیں لاپرواہی اور مخالفانہ سوچ کی اس سطح کے ساتھ ساتھ اس کے تباہ کن اثرات پر غور کیے بغیر ایسے منصوبے تجویز کرنے کی جرات،ایک ایسی ذہنیت کی عکاسی ہےجو اب بھی اپنے آباؤ اجداد کےدور میں رہتا ہے جس نے تارکین وطن پر مشتمل ایک ریاست قائم کی جس نے سرزمین کے مقامی لوگوں کو قتل کیا۔ فلسطینی عوام جو ابھی ایک نسل کشی سے نکلے ہیں اور اپنی زندگیوں کو دوبارہ تعمیر کرنے کے لیے سخت جدوجہد کر رہے ہیں ، نقل مکانی کے تمام منصوبوں کو مسترد کرتے ہیں۔وہ اس کی تعمیر نو کے لیے پرعزم ہیں جسے قبضے نے تباہ کیا ہے اور نیتن یاہو حکومت کی جانب سے جنگ بندی کے معاہدے کو کمزور کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔ غزہ نقل مکانی کا منصوبہ جیسا کہ طے ہے،نیتن یاہو کی حکومت کے مذموم عزائم کا پتہ دیتا ہے اور فلسطینیوں کے قتل، تباہی اور بےگھری کے سلسلہ کو دوبارہ شروع کرنے کی ترجمانی کرتا ہے ۔ ٹرمپ کے فیصلے اور نقل مکانی کا منصوبہ غزہ کی پٹی میں دوبارہ جنگ کے آغاز کے نیتن یاہو کے منصوبے سے ہم آہنگ ہے۔ خطے میں ایک حقیقی امن ساز، اس طرزکی جنگی مدد فراہم نہیں کرے گا جس میں مہلک بموں جیسے جرائم کا ارتکاب ہو،یا مغربی کنارے میں تباہی پھیلانے کے لیےنقل مکانی جیسی اسکیمیں تجویز کرے یا مغربی کنارے کو ضم کرنے کے اپنے پرانے نئے منصوبے کو عملی جامہ پہنائے۔ اگر مشرق وسطیٰ کی حکومتوں نے ٹرمپ اور دوسروں کے تابع رہنے کا انتخاب کیا، اور ایسے مطالبات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تیار ہوگئے تو فلسطینیوں کی قیادت میں خطے کے لوگ ایسے منصوبوں کو واضح طور پر مسترد کردیں گے۔ وہ ان زمینوں کے لوگ ہیں، اس کے مالک اور معمار ہیں، چراگاہوں کی تلاش میں آنے والے مہاجرین کا گروہ نہیں۔ عرب ورثے میں وطن محض سامان کی تھیلی یا محض ایک جگہ نہیں ہے۔ یہ گہری جذباتی اور روحانی کیفیت ہے جو شناخت اور تعلق کے احساس کی نمائندگی کرتی ہے۔ جلاوطنی یا نقل مکانی موت کے مترادف ہے۔ باعث حیرت ہے کہ نقل مکانی کے اس طرح کے احمقانہ منصوبوں کے حامی اس قتل و غارت گری سے سبق اور اخلاقیات سیکھنے میں ناکام رہے ہیں جو فلسطینیوں نے نیتن یاہو کے اعلان کردہ نقل مکانی کے منصوبوں کو ناکام بنانے کے لیے 15 ماہ سے زیادہ برداشت کی ہے۔ اگر ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ خطے میں امن و سلامتی کا ایک نیا باب کھولنا چاہتی ہے تو انہیں ایسے فریب کار افراد کے ایجنڈوں سے گریز کرنا چاہیے جو خطے میں ایک اور تباہ کن جنگ کی آگ بھڑکانے کے خواہشمند ہیں۔ اس کے بجائے، انہیں جنگ بندی کے معاہدے پر عمل درآمد کو ترجیح دینی چاہیے، جو شروع سے ہی نازک تھا اور جسے نیتن یاہو شدت سے کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جیسا کہ جنوبی لبنان میں اس کے موجودہ اقدامات سے ظاہر ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: بین الاقوامی منصوبوں کو غزہ کی پٹی کے منصوبے نقل مکانی نیتن یاہو کرنے کی کے لیے اور اس
پڑھیں:
چینی، بھارتی طلبا کی ویزا قوانین پر ٹرمپ کے خلاف قانونی جنگ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 اپریل 2025ء) امریکہ میں تین بھارتی اور دو چینی طلباء نے ملک کے ہوم لینڈ سکیورٹی ڈپارٹمنٹ اور امیگریشن کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا ہے۔ ان طلباء نے امریکہ کی جانب سے کئی غیر ملکی اسٹوڈنٹس کے ایف ون ویزا منسوخ کیے جانے کے بعد یہ قدم اٹھایا۔
نیو ہمسفائیر کے ڈسٹرکٹ کورٹ میں امریکن سول لبرٹیز یونین (اے سی ایل یو) کی جانب سے دائر کیے گئے مقدمے میں ٹرمپ انتظامیہپر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ وہ "یکطرفہ طور پر سینکڑوں بین الاقوامی طلباء کے ایف ون ویزا اسٹیٹس کو منسوخ کر رہے ہیں۔
"مقدمہ آخر ہے کیا؟
ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف طلباء کی اس قانونی جنگ میں ان کا موقف ہے کہ انہیں نا صرف ملک بدری یا ویزا کی منسوخی کے خطرے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بلکہ انہیں "شدید مالی اور تعلیم کے حرج" کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔
(جاری ہے)
اس مقدمے میں کہا گیا کہ حکومت نے غیر ملکی طالب علموں کے ویزا کی قانونی حیثیت ختم کرنے سے پہلے مطلوبہ نوٹس جاری نہیں کیا۔
درخواست دینے والے طلباء میں چینی شہری ہانگروئی ژانگ اور ہاویانگ این اور بھارتی شہری لنکتھ بابو گوریلا، تھانوج کمار گمماداویلی اور مانی کانتا پاسولا شامل ہیں۔
ان طلباء کو ویزا کی منسوخی کے باعث شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ہانگروئی کی ریسرچ اسسٹنٹشپ منسوخ ہوئی ہے۔ ہاویانگ کو تقریباﹰ ساڑھے تین لاکھ ڈالر خرچ کرنے کے بعد بھی شاید اپنی پڑھائی ادھوری چھوڑنی پڑے۔
گوریلا 20 مئی کو اپنی ڈگری مکمل کرنے والا ہے، لیکن ایف ون ویزا کے بغیر وہ ایسا نہیں کر سکے گا۔
امریکہ میں بین الاقوامی طلباء کے مسائل کیا ہیں؟
ٹرمپ انتظامیہ کی اسٹوڈنٹ ویزا پالیسیوں میں سختی پر بین الاقوامی طلباء، تعلیمی اداروں اور قانونی ماہرین کو شدید تشویش ہے۔
امریکہ میں پڑھنے والے طلباء میں سب سے زیادہ تعداد چینی اور بھارتی اسٹوڈنٹس کی ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کو دیے گئے تعلیمی اداروں کے بیانات اور اسکول کے حکام کے ساتھ خط و کتابت کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ مارچ کے آخر سے امریکی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ایک ہزار سے زیادہ بین الاقوامی طلباء کے ویزے منسوخ یا ان کی قانونی حیثیت ختم کر دی گئی ہے۔
ادارت: عرفان آفتاب