امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کینیڈا کو ایک بار پھر امریکا کی 51 ویں ریاست بنانے کی خواہش ظاہر کر دی۔

ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا کہ اس صورت میں کینیڈا کے پاس بہتر فوجی تحفظ ہوگا اور اس پر کوئی ٹیرف بھی نہیں ہوگا۔

صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ کینیڈا کے پاس کسی بھی چیز کی ضرورت نہیں، ہم کیوں کینیڈا کو سبسڈی دینے کے لیے سیکڑوں ارب ڈالر ادا کرتے ہیں؟

انہوں نے کہا کہ امریکا اب عقلمندی کے ساتھ چلایاجا رہا ہے، جس کے نتائج شاندار ہوں گے۔

واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےچین، کینیڈا اور میکسیکو کی درآمدی مصنوعات پر بھاری ٹیکسز عائد کرکے تجارتی جنگ چھیڑ د ہے۔

صدر ٹرمپ نے 3صدارتی حکم ناموں کے ذریعے میکسیکو اور بیشتر کینیڈین درآمدات پر 25 فیصد اور چین سے آنے والی اشیا پر 10فیصد ٹیکسز عائد کردیے ہیں، ان ٹیکسز کا اطلاق منگل سے ہوگا۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

پاکستانی میڈیا: سچ کے بجائے منظر نامے کا اسیر؟

کہا جاتا ہے کہ صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے، لیکن جب یہی ستون اپنے بوجھ تلے دبنے لگے، جب سچائی کو مفادات کی چادر میں لپیٹ دیا جائے، اور جب خبر ایک تجارتی شے بن جائے تو قوم کا شعور بجھنے لگتا ہے۔

پاکستان میں صحافت کا وہ شاندار ماضی اب ایک دھندلے عکس کی مانند ہے، جہاں کبھی تحقیق، جستجو اور سچائی صحافی کے قلم کا سرمایہ تھیں، آج وہی قلم اشتہارات کی سیاہی سے تر ہے۔

ناظر کو اب وہ نہیں دکھایا جاتا جو دراصل وقوع پذیر ہوا، بلکہ وہ دکھایا جاتا ہے جو مخصوص حلقوں کو راس آتا ہو، میڈیا کی اس روش نے خبر اور تاثر کے درمیان لکیر مٹا دی ہے۔

ذرائع ابلاغ جو کبھی عوام کی آنکھ اور ریاست کی نگرانی کا ذریعہ تھے، اب ایک ایسی صنعت بن چکے ہیں جہاں ریٹنگز، اشتہارات اور سنسنی خیزی ہی اصل کرنسی ہے۔

خبروں کی وقعت اب ان کی صداقت سے نہیں، بلکہ ان کی فروخت پذیری سے متعین ہوتی ہے، صحافت جو کبھی ضمیر کی آواز تھی، اب تفریحی مواد میں ڈھل چکی ہے۔ سنجیدہ تجزیہ ایک نایاب جنس ہے، جبکہ شور شرابہ، چیختے اینکرز اور جذباتی مناظر وہ لوازمات ہیں جو بریکنگ نیوز کی پہچان بن چکے ہیں۔

یہ امر باعثِ حیرت نہیں کہ ریاستی ادارے بھی اکثر اسی میڈیا کے زیرِ اثر آ جاتے ہیں، جسے کبھی وہ اپنا معاون سمجھتے تھے۔ میڈیا بعض اوقات ریاستی بیانیے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے، تو کبھی اسی بیانیے کو سبوتاژ کرنے کے لیے محاذ آرا ہو جاتا ہے۔ یہ دوغلا پن میڈیا اور ریاست کے درمیان ایک مصلحتی رشتہ قائم کرتا ہے، جو نہ مستقل ہوتا ہے، نہ معتبر۔ اسی لیے عوام اب یہ سوال کرتے ہیں کہ جو ہم دیکھ رہے ہیں، کیا وہ ریاست کی آواز ہے یا کسی اور کے مفاد کا عکس؟

سیاسی وابستگیاں بھی پاکستانی میڈیا کی ساخت کا اہم جزو بن چکی ہیں۔ ایک مخصوص جماعت کے حق میں نرم گوشہ، دوسری کے خلاف محاذ آرائی اور تیسری کے لیے مکمل خاموشی، یہ سب وہ رویے ہیں جو صحافت کے بنیادی اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہیں۔ اکثر اوقات تجزیہ تجویز بن جاتا ہے، اور رائے کو خبر کا جامہ پہنا دیا جاتا ہے، اس طرزِ عمل نے عوامی اعتماد کو شدید زک پہنچائی ہے۔

صحافی اب صرف خبر کے راوی نہیں رہے، وہ خود خبر بن چکے ہیں، عدالتوں کے فیصلے پہلے فیصلے صادر کر دینا، تحقیق سے پہلے فتوے دینا، اور مخالفین کو نشانہ بنانا یہ سب اس نئے صحافتی کلچر کا حصہ ہیں، جو کسی فکری یا اخلاقی نظام سے خالی ہے۔ صحافت کی نجی حیثیت کا کمرشلائزیشن نے گلا گھونٹ دیا ہے، اور سچائی اب نفع و نقصان کے ترازو میں تولی جاتی ہے۔

یہ وہ لمحہ فکریہ ہے جہاں ہمیں رک کر سوچنا ہوگا کہ کیا صحافت واقعی ریاست کے ساتھ ہے، یا صرف ریٹنگ کے ساتھ؟ کیا میڈیا عوامی شعور کو بیدار کررہا ہے، یا اسے مفلوج بنا رہا ہے؟ کیا اینکرز قوم کی رہنمائی کررہے ہیں، یا اسے اشتعال اور الجھن کی طرف دھکیل رہے ہیں؟ جب صحافت ضمیر کے بجائے بازار کی زبان بولنے لگے تو سمجھ لیجیے کہ معاشرہ سمت کھو چکا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم صحافت کو اس کے اصل مقام پر واپس لائیں۔ ایسا میڈیا تشکیل دیا جائے جو ریاست کا آلہ کار نہ ہو، اور نہ ہی سیاسی مفادات کا غلام، بلکہ ایک ایسا ادارہ ہو جو سچائی کی پاسداری کرے، تنقید کو تعمیری رخ دے، اور عوام کو صرف آگاہ نہ کرے بلکہ باشعور بھی بنائے۔ ہمیں ایک ایسی صحافت درکار ہے جو علامہ اقبال کے ’فکرِ بلند، گفتارِ دلنواز، اور روحِ حریت‘ کی ترجمان ہو۔

ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا ہم وہ صحافت چاہتے ہیں جو بکتی ہے یا جو جگاتی ہے؟ جو جھنجھوڑتی ہے یا جو بہکاتی ہے؟ جو ریاست کے ساتھ ہے، یا صرف ریٹنگ کے ساتھ؟ یہ فیصلہ صرف میڈیا کا نہیں، پورے معاشرے کا ہے، اور شاید یہ فیصلہ ہی ہمارا مستقبل متعین کرے گا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر راسخ الكشميری

wenews پاکستانی میڈیا ذرائع ابلاغ ریاست ریاست کا ستون سچائی سنسنی خیزی صحافت مفادات وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • عالمی تنازعات، تاریخ کا نازک موڑ
  • ٹرمپ ٹیرف: چین کا امریکا کے خوشامدی ممالک کو سزا دینے کا اعلان
  • ’ امریکا میں کوئی بادشاہ نہیں‘ مختلف شہروں میں ٹرمپ مخالف مظاہرے
  • ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف امریکا میں 700 مقامات پر ہزاروں افراد کے مظاہرے
  • امریکی سپریم کورٹ نے وینزویلا کے باشندوں کی جبری ملک بدری روک دی
  • امریکا، سپریم کورٹ نے وینزویلا کے تارکین وطن کو بیدخل کرنے سے روک دیا
  • تبدیل ہوتی دنیا
  • پاکستانی میڈیا: سچ کے بجائے منظر نامے کا اسیر؟
  • چیف جسٹس نے ججز کے تبادلوں پر رضامندی ظاہر کی تھی: رجسٹرار سپریم کورٹ
  • ٹرمپ انتظامیہ شام پر عائد پابندیوں میں نرمی پر غور کر رہی ہے،امریکی اخبار