Nai Baat:
2025-04-22@14:39:59 GMT

بلوچستان مثالی عالمی اقتصادی مرکز

اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT

بلوچستان مثالی عالمی اقتصادی مرکز

بلوچستان! پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جو 44 فیصد رقبے پر مشتمل ہے اور بے پناہ قدرتی وسائل، سٹریٹجک محل وقوع اور وسیع اقتصادی مواقع سے مالا مال ہے۔ گوادر پورٹ، چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کی وجہ سے یہ عالمی تجارتی مرکز کا روپ دھار چکا ہے۔ بلوچستان کے قدرتی وسائل جن میں ریکوڈک کاپر گولڈ مائن، کرومائیٹ، سنگ مرمر اور قدرتی گیس کے وسیع ذخائر شامل ہیں جو عالمی سرمایہ کاروں کے لیے بے مثال مواقع فراہم کرتے ہیں۔ زراعت اور ماہی گیری کے شعبے بھی سرمایہ کاری کے لیے پُرکشش ہیں، یہاں اعلیٰ معیار کی کجھور، سیب، انار اور انگور کی پیداوار ہوتی ہے جبکہ ساحلی علاقوں میں ماہی گیری اور آبی زراعت کے شعبے سرمایہ کاروں کے لیے وسیع روشن امکانات ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگلے 10 سے 12 سال میں بلوچستان پاکستان کا سب سے امیر صوبہ ہو گا۔ بلوچستان میں اس وقت تانبے کے ذخائر نکالنے پر کام جاری ہے۔ چینی کمپنیاں یہاں مزید سرمایہ کاری کرنے کیلئے تیار ہیں جبکہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے بھی قدرتی ذخائر (ریکوڈک) پر سرمایہ کاری میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا ہے، جو نہایت خوش آئند بات ہے۔ ریکوڈک میں کاپر اور گولڈ کے ذخائر کھربوں ڈالر میں ہیں جو پورے پاکستان خصوصاً بلوچستان کے لیے گیم چینجر ثابت ہونگے اور انٹرنیشنل پارٹنرز کی وجہ سے یہاں مہارت پیدا ہو گی اور بلوچستان خود مائننگ کے قابل ہو جائے گا۔ ریکوڈک منصوبہ پر کام کرنے والی کمپنی بیرک گولڈ کارپوریشن کے سی ای او مارک برسٹو پاکستان میں سو فیصد خوش ہیں، ریکوڈک جیسی بڑی مائنز ترقی کے حوالے سے بلوچستان کا چہرہ بدل دیں گی۔ ابتدائی فزیبلٹی سٹڈی کے مطابق مائن کی لائف 36 سال ہے اور تخمینہ یہ ہے کہ اس سے 70 سے 80 ارب ڈالر حاصل ہونگے۔ بلاشبہ یہ منصوبہ پاکستان کو قرضوں سے نجات دلائے گا۔ اس سے پاکستان کا سرمایہ کاری امیج مزید بہتر ہو گا، ریکوڈک ممکنہ طور پر دنیا کی سب سے بڑی سونے اور تانبے کی کان ہو گی۔ بلوچستان کی ترقی کے لیے ویژن بلوچستان 2030 کے تحت صوبے میں ترقی کا سفر تیزی سے جاری ہے۔ خوشحال بلوچستان کے اس پروگرام کے تحت صوبہ بھر میں ترقیاتی منصوبوں کا جال بچھایا گیا ہے جس کا مقصد مستحکم بلوچستان ہے۔ صوبے میں جاری منصوبوں کے تحت کمیونیکیشن، انفراسٹرکچر، ڈیموں کی تعمیر، پانی کی قلت دور کرنے سمیت دیگر منصوبوں پر کام جاری ہے۔ خضدار تا کچلاک قومی شاہراہ کے دو رویہ منصوبے پر کام جاری ہے، اسی طرح خطے میں مستقل تجارتی مرکز کے طور پر جاننے کے حوالے سے گوادر کا اہم کردار ہے۔ جہاں برآمدات اور درآمدات سے دیگر ملکوں میں تجارتی تعلق کو فروغ حاصل ہو گا۔ آنے والے وقتوں میں سینٹرل ایشیائی ممالک کے باہمی روابط گوادر پورٹ تجارت سے مزید مستحکم ہوں گے۔ سی پیک کا پہلا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد دوسرے مرحلے پر کام جاری ہے، وسیع و عریض رقبے پر قائم صوبہ بلوچستان میں بہت سے منصوبہ جات کے قیام اور ان کی تکمیل کیلئے گنجائش ہے، جیسا کہ گوادر ائیر پورٹ کا ورچوئل افتتاح کیا گیا ہے، یہ بین الاقوامی معیار کی تمام تر سہولیات سے آراستہ انٹرنیشنل ائیر پورٹ ہے۔ جہاں پہلی فلائٹ لینڈ ہوئی جو بہت بڑا سنگ میل ہے۔ واضح رہے کہ گوادر انٹر نیشنل ائیر پورٹ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جو 430 ایکڑ پر مشتمل ہے، یہ چار لاکھ مسافروں کی سالانہ گنجائش رکھتا ہے، جسے آئندہ برسوں میں 16 لاکھ مسافروں تک پہنچایا جائے گا۔ نیو گوادر ائیر پورٹ کا ایک ہی رن وے 3658 میٹر طویل اور 75 میٹر چوڑا ہے، اس ائیر پورٹ پر ائیر بس اے 380 اور بوئنگ 747 جیسے بڑے طیارے لینڈ کر سکیں گے۔ گوادر انٹرنیشنل ائیر پورٹ کے فعال ہونے سے تجارت اور سیاحت کی نئی راہیں کھلیں گی جو ملکی معیشت کے لیے خوش آئند ہے۔ ائیر پورٹ کی تکمیل سے گوادر بندرگاہ کی فعالیت بھی مؤثر ہو جائے گی۔ محل وقوع کے لحاظ سے گوادر پورٹ خاصا اہم ہے کیونکہ یہ گرم سمندری پانی کے علاقے میں واقع ہے، دنیا کی بہت کم بندر گاہوں کو یہ سہولت حاصل ہوتی ہے۔ گرم پانی والی بندرگاہ سارا سال تجارتی جہازوں کی آمد و رفت کے لیے فعال رہ سکتی ہے، ٹھنڈے پانی کی بندرگاہوں کے برعکس گرم پانی کی بندرگاہ پر سمندری ترسیل میں کوئی رکاوٹ نہیں آتی۔ جدید تجارت میں سمندری راستوںکی ضرورت میں اضافہ ہوا ہے، ایسے میں گوادر کی اہمیت ایک ’’بحری گیٹ وے‘‘ کی مانند ہے۔ پاکستان گوادر پورٹ کی وجہ سے خطے میں سمندری ترسیل کے حوالے سے سب سے زیادہ جیو سٹریٹیجک پوزیشن کا حامل ہے۔ جنوب ایشیائی، مغربی ایشیا اور وسط ایشیائی ریاستوں کے مابین ٹرانزٹ ٹریڈ میں گوادر پورٹ کو مرکزی حیثیت حاصل ہو گی۔ ترکمانستان، قازقستان، عمان، ایران، قطر سعودی عرب اور چین کے ساتھ معاشی رابطوں کے نئے دور کے آغاز سے پاکستان میں معاشی ترقی اور خوشحالی کی راہ گامزن ہو گا۔ اس کے خلاف محاذ آرائی پاکستان دشمنی ہے۔ گوادر بندرگاہ کو پاکستان کی اقتصادی ترقی کا مرکز اور سی پیک کا محور سمجھا جاتا ہے۔ گوادر کے خلاف بڑھتی ہوئی محاذ آرائی دراصل سی پیک کے خلاف بین الاقوامی سازشوں کا حصہ ہے جس میں کچھ اندرونی عناصر بھی شامل ہیں۔ بھارت اور چند دیگر ممالک کھل کر یا خفیہ طور پر اس منصوبے کو ناکام بنانے کی سازشیں کرتے رہے ہیں، کیونکہ یہ منصوبہ نہ صرف خطے میں طاقت کا توازن بدل سکتا ہے بلکہ پاکستان کو اقتصادی لحاظ سے ایک مضبوط پوزیشن میں لے کر آ سکتا ہے۔ سی پیک صرف ایک اقتصادی منصوبہ نہیں بلکہ پاکستان اور چین کے سٹریٹیجک تعلقات کی علامت ہے۔ گوادر بندر گاہ اور سی پیک کے دیگر منصوبوں سے پاکستان کی اقتصادی ترقی میں تیزی آئے گی۔ گوادر کے خلاف سازشیں دراصل پاکستان کی ترقی کے خلاف ہیں۔ بھارت اور دوسرے سی پیک مخالف ممالک دہشت گرد تنظیموں کو مالی مدد فراہم کر رہے ہیں جو گوادر سی پیک منصوبوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ بلوچستان میں علیحدگی پسند عناصر کو شہ دی جا رہی ہے اور عالمی سطح پر سی پیک کو متنازع بنانے کے لیے پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے، مگر اس کے باوجو د بلوچستان میں ترقی اور خوشحالی کا سفر تیزی سے جاری ہے جس میں پاک فوج کا اہم کردار ہے۔ چین کے ون بیلٹ ون روڈ اقدام سے بھی بلوچستان کی تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گا، یہ امر بھی باعث خوشی ہے کہ روس، تاجکستان اور ازبکستان نے بھی چین کے ون بیلٹ ون روڈ اقدام کی حمایت کرتے ہوئے رابطے کے فروغ اور موثر ٹرانسپورٹ کاریڈور کی ترقی پر زور دیا ہے۔ اس سے خطے میں پائیدار امن، ترقی اور خوشحالی کے لیے راستے نکلیں گے۔ یاد رہے کہ اس وقت بلوچستان عالمی برادری کے لیے مثالی اقتصادی مرکز کا روپ دھار چکا ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: پر کام جاری ہے بلوچستان میں سرمایہ کاری پاکستان کا گوادر پورٹ سے پاکستان ائیر پورٹ کے خلاف حاصل ہو سی پیک چین کے کے لیے

پڑھیں:

زلزلہ کی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں ، ڈائریکٹر زلزلہ پیما مرکز

 کراچی(آئی این پی)ڈائریکٹر زلزلہ پیما مرکز ڈاکٹر نجیب احمد نے واضح کیا ہے کہ زلزلے کی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی ۔ شارٹ ٹرم زلزلہ کی پیش گوئی کرنا مشکل ترین عمل ہے۔

ایک انٹرویو میں ڈاکٹر نجیب احمد کا کہنا تھا کہ کسی علاقہ میں سو سال پہلے زلزلہ آیاہے تو وہاں کے زمینی خدو خال دیکھ کر کچھ اندازہ لگایا جا سکتا ہے لیکن زلزلے کی شدت اور گہرائی پھر بھی نہیں بتائی جا سکتی۔ اِسی طرح زلزلہ آنے کے وقت کا تعین بھی نہیں کیا سکتا۔ڈائریکٹر زلزلہ پیما مرکز کا کہنا تھا کہ چاپان ، امریکا اور چین بھی زلزلوں کی پیش گوئی کرنے میں ناکام ہیں، ہمارے پاس جو سینسرز ہیں وہ بہت ہی حساس ہیں، یہ سینسرز اے 1.1 سے لے کر 9 تک شدت چیک کرتے ہیں۔ 14 جی پی ایس اسٹیشنز بھی جو ہر وقت زمین کی ارتعاش کو مانیٹر کر رہے ہیں۔ڈاکٹر نجیب احمد کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک ایکٹو فالٹ لائن پر ہے جہاں زلزلے تواتر سے آرہے ہیں۔ پاکستان ہندو کش کی ایکٹو فالٹ لائن پر ہے، ہم مسلسل زمینی صورتحال مانیٹر کر رہے ہیں۔ 

روزانہ ایک چمچ شہد کا استعمال کن بیماریوں سے بچاسکتا ہے؟

مزید :

متعلقہ مضامین

  • زلزلہ کی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں ، ڈائریکٹر زلزلہ پیما مرکز
  • پاکستان سپر لیگ 10 شائقین کرکٹ کی توجہ کا مرکز’’براہ راست دیکھنے‘‘ کا نیا ریکارڈ قائم
  •   اوورسیز کا زمینوں کے تحفظ، خصوصی عدالتوں اور سرمایہ کاری سہولت مرکز کے قیام کا مطالبہ
  • امریکہ کے اندھا دھند محصولات کے اقدامات غلط ہیں،یونیڈو
  • ایران میں اقتصادی بحران سے سب سے زیادہ متاثر متوسط طبقہ
  • توڑ پھوڑ کرنیوالے پاکستانی طلبہ ڈی پورٹ ہوں گے، امریکی ترجمان
  • مسیحی برادری کا پاکستان کی تعمیر و ترقی میں قابل تحسین کردار ہے: سرفراز بگٹی
  • یونیورسٹیوں میں توڑ پھوڑ کرنیوالے پاکستانی طلبہ ڈی پورٹ ہوں گے، امریکی ترجمان
  • اسلام آباد سفارتی سرگرمیوں کا مرکز، روانڈا اور یو اے ای کے وزرائے خارجہ کے دورے
  • بلوچستان کی ترقی اور کالعدم تنظیم کے آلہ کار