رولنگ کا یہ حشر قبول نہیں
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
سینیٹ‘ ہائوس آف فیڈریشن ہے اور اعلیٰ جمہوری آئینی ادارہ ہے لیکن کیا وجہ ہے کچھ دنوں سے چیئرمین سینیٹ اجلاس کی صدارت نہیں کر رہے، وجہ بھی سب کو معلوم ہے مگر سب خاموش ہیں۔ چیئرمین سینیٹ مخدوم یوسف رضا گیلانی نے پی ٹی آئی سینیٹر اعجاز چودھری کے پروڈکشن آرڈرز پر عمل درآمد ہونے تک سینیٹ کے اجلاس کی صدارت سے انکار کردیا۔ انہوں نے اعجاز چودھری کو جیل سے لانے کے پروڈکشن آرڈرز دیے ہوئے ہیں مگر جیل انتظامیہ اس پر عمل درآمد نہیں کر رہی، جس پر چیئرمین سینیٹ نے گزشتہ روز احتجاجاً سینیٹ کی اجلاس کی صدارت نہیں کی۔ اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ کی رولنگ اور آرڈرز قانونی حیثیت کے حامل اور حتمی ہوتے ہیں۔ حکومت ہی ان پر عمل نہیں کرتی تو یہ اس کے لیے کسی نیک نامی کا باعث نہیں ہو سکتا۔
سید یوسف رضا گیلانی ماضی میں بھی کئی مرتبہ اسی طرح کے جرأت مندانہ اقدامات کر چکے ہیں۔ 90ء کی دہائی میں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے درمیان اختلافات ذاتیات کی حد تک چلے گئے تھے۔ یوسف رضا گیلانی اسپیکر قومی اسمبلی تھے۔ اپنی کتاب ’’چاہ یوسف سے صدا‘‘ میں وہ لکھتے ہیں کہ مسلم لیگ نون کے اسیر ارکان قومی اسمبلی شیخ رشید احمد، شیخ طاہر رشید اور حاجی بوٹا کے پیپلز پارٹی کے وزراء کے مشورے کے بعد پروڈکشن آرڈرز جاری کیے گئے۔ بعد میں پارٹی نے انہیں پروڈکشن آرڈرز واپس لینے پر اصرار کیا۔ حتیٰ کہ وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے بھی ان آرڈرز کی واپسی کے لیے کہا۔ اس پر ان کی طرف سے انکار کرتے ہوئے کہا گیا کہ وہ پروڈکشن آرڈرز واپس لینے کے بجائے اسپیکر کے عہدے سے استعفا دینا پسند کریں گے۔ ہمارے ہاں انسانیت کے لیے کام کرنے اور آئین پر عمل کرنے کو بھی کبھی کبھار جرم سمجھ لیا جاتا ہے۔ یوسف رضا گیلانی کو قید کی سزا اس بنا پر سنا دی گئی کہ انہوں نے کئی لوگوں کو اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے ملازمتیں دی تھیں۔ ان کو عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ کی طرف سے اس وقت نا اہل قرار دے دیا گیا جب انہوں نے بطور وزیراعظم سوئس حکام کو خط لکھنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ ایسا کرنا آئین کے خلاف ہے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے مطابق ان کو وزارت عظمیٰ سے بھی الگ ہونا پڑا تھا۔ اس میں کسی کو سرِ مو اختلاف نہیں ہے کہ پاکستان میں صرف آئین ہی سپریم ہے۔ اسی لیے یوسف رضا گیلانی نے اس وقت کی عدالت عظمیٰ کا غیر آئینی حکم ماننے کے بجائے آئین پر عمل کرنے کو ترجیح دی تھی۔ یہ ان کا جرأت مندانہ اور درست اقدام تھا۔ جس کو اسی عدالت عظمیٰ کی طرف سے ایک دہائی کے بعد جواز مانتے ہوئے ان کی نااہلیت کو ختم کر دیا۔ مگر اس وقت تک جو نقصان ہونا تھا وہ ہو چکا تھا۔ آج چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے سینیٹر چودھری اعجاز احمد کے جو پروڈکشن آرڈر جاری کیے ہیں وہ آئین اور قانون کے مطابق ہیں۔ حکومت ان پر عمل کر دیتی تو چیئرمین سینیٹ کو اجلاس کی صدارت سے انکار تک نہ جانا پڑتا۔ اب بھی حکومت معاملات سمیٹنے کی کوشش کرے۔ یوسف رضا گیلانی کے ماضی کا ریکارڈ یہی بتاتا ہے کہ ان کو اصولوں کے مقابلے میں عہدوں کی کبھی پروا نہیں رہی۔ حکومت چیئرمین سینیٹ کے جاری کردہ پروڈکشن آرڈرز کی خوشدلی سے تعمیل کرکے اپنا قد بھی اونچا کرسکتی ہے۔ یہی کہنا ہے کہ وجہ بھی سب کو معلوم ہے۔ مگر سب خاموش ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: یوسف رضا گیلانی اجلاس کی صدارت پروڈکشن ا رڈرز چیئرمین سینیٹ عدالت عظمی
پڑھیں:
تہران یورینیم افزودگی پر کچھ پابندیاں قبول کرنے کو تیار
تہران(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔21 اپریل ۔2025 ) اعلیٰ ایرانی عہدیدار نے بتایا ہے کہ تہران امریکا کو واضح کرچکا ہے کہ یورینیم کی افزودگی پر کچھ پابندیاں قبول کرنے کو تیار ہیں لیکن اس کے لیے مضبوط ضمانتوں کی ضرورت ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نئے جوہری معاہدے سے دوبارہ دستبردار نہیں ہوں گے.(جاری ہے)
عرب نشریاتی ادارے نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان روم میں ہونے والے مذکرات کے دوسرے دور کو دونوں فریقوں نے مثبت قرار دیا ہے صدر ٹرمپ نے فروری سے تہران پر”زیادہ سے زیادہ دباﺅ“ کی مہم دوبارہ نافذ کی ہے اپنی پہلی مدت کے دوران 2015 میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے ایٹمی معاہدے سے 2018 میں دستبردار ہو گئے تھے اور ایران پر دوبارہ سخت پابندیاں عائد کر دی تھیں.
ٹرمپ کی دو شرائط کے درمیان کے سالوں میں تہران نے 2015 کے معاہدے کے تحت اپنے ایٹمی پروگرام پر عائد پابندیوں سے مسلسل تجاوز کیا ان پابندیوں کا مقصد ایٹمی بم تیار کرنا مزید مشکل بنانا تھا سابق امریکی صدر جو بائیڈن، جن کی انتظامیہ نے 2015 کے معاہدے کو بحال کرنے کی ناکام کوشش کی تھی تاہم وہ تہران کی جانب سے اس ضمانت کے مطالبے کو پورا کرنے میں ناکام رہے کہ آئندہ کوئی امریکی انتظامیہ معاہدے سے دستبردار نہیں ہوگی. تہران احتیاط کے ساتھ مذاکرات کے قریب پہنچ رہا ہے وہ کسی معاہدے تک پہنچنے کے امکان کے بارے میں شکوک اور ٹرمپ کے موقف پر شکوک و شبہات کا شکار ہے ٹرمپ نے بارہا دھمکی دی ہے کہ اگر اس نے یورینیم کی افزودگی کے تیز رفتار پروگرام کو روکا نہیں تو ایران پر بمباری کی جائے گی ایران کا مسلسل کہنا ہے کہ اس کا پروگرام پرامن ہے. تہران اور واشنگٹن کہہ چکے ہیں کہ وہ سفارت کاری کو جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں لیکن دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے جاری تنازع پر ان کے موقف ایک دوسرے سے الگ ہیں ایرانی عہدیدار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ تہران کی ریڈ لائنز جو سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی طرف سے لگائی گئی ہیں کو مذاکرات میں عبور نہیں کیا جا سکتا. ایرانی عہدیدار نے کہا کہ ایران کی ریڈ لائنز کا مطلب ہے کہ وہ اپنے یورینیم کی افزودگی سینٹری فیوجز کو ختم کرنے، افزودگی کو مکمل طور پر روکنے یا افزودہ یورینیم کی مقدار کو اس سطح تک کم کرنے پر راضی نہیں ہوگا جو 2015 کے معاہدے میں طے پایا تھا انہوں نے کہا کہ وہ اپنے میزائل پروگرام پر بات چیت نہیں کرے گا جسے وہ کسی بھی ایٹمی معاہدے کے دائرہ کار سے باہر سمجھتا ہے ایرانی عہدیدار نے کہا کہ ایران کو عمان میں بالواسطہ بات چیت میں معلوم ہوا کہ واشنگٹن نہیں چاہتا کہ وہ اپنی تمام ایٹمی سرگرمیوں کو روکے یہ ایران اور امریکہ کے لیے منصفانہ مذاکرات شروع کرنے کی بنیاد ہو سکتی ہے یہ اس وقت سامنے آیا ہے جب ایران نے گزشتہ روز کہا کہ امریکہ کے ساتھ سمجھوتہ ممکن ہے اگر وہ سنجیدہ ارادوں کا مظاہرہ کرے اور غیر حقیقی مطالبات نہ کرے. امریکہ کے مذاکرات کار سٹیو وِٹکوف نے کو”ایکس“پر ایک پیغام میں کہا تھا کہ ایران کو امریکہ کے ساتھ معاہدے تک پہنچنے کے لیے اپنی ایٹمی افزودگی روکنا اور قریب ترین ہتھیاروں کے درجے کے یورینیم کے ذخیرے کو ختم کرنا ہوگا . ایرانی عہدیدار نے بتایا کہ ایران نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ تعاون کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے ایران اس ادارے کو اس عمل میں واحد قابل قبول ادارہ سمجھتا ہے انہوں نے بتایا کہ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے امریکیوں کو آگاہ کیا ہے کہ امریکہ کو اس تعاون کے بدلے ایران کے تیل اور مالیاتی شعبوں پر عائد پابندیاں فوری طور پر ہٹانی ہوں گی.