میں: ’اللہ اکبررسول ؐ رہبر، اللہ اکبر رسول ؐ رہبر‘ اپنی طالب علمی کے زمانے میں اسلامی جمعیت طلبہ کے طفیل یہ انقلابی ترانہ میں اکثر سنتا اور گنگنایا کرتا تھا، جس سے ایمان تازہ اور روح سیراب ہوجاتی تھی اور دل میں اسلامی انقلاب کی خواہش اور بھی بڑھ جاتی تھی۔ کیوں نہ آج کی گفتگو کا آغاز اسی ترانے کی گونج سے کریں جو آج بھی ایوانوں کی پرشکوہ دیواروں سے ٹکرا کر داعیانِ انقلاب کے جذبوں کو گرما رہی ہے۔
قدم بڑھائے چلو جوانوں
کہ منزلیں راہ تک رہی ہیں
اندھیری راتوں کی سرحدوں سے
سنہری صبحیں جھلک رہی ہیں
ابھر رہا ہے افق سے سورج
نزول انوار ہے زمیں پر
اللہ اکبر رسولؐ رہبر، اللہ اکبر رسولؐ رہبر
وہ: سبحان اللہ کیا ولولہ انگیز اشعار ہیں، دل میں نیا جوش پیدا ہوا اور جسم میں ایک سنسنی سی دوڑ گئی۔ نمازِ فجر سے شروع ہونے والا دن، تلاوت و تفہیم ِ قرآن، سیرتِ رسول پاکؐکا مطالعہ، اسلام کے پیغام کو موجودہ دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ رکھنے کے لیے اسٹڈی سرکل کی نشستیں، عصر حاضر کے جھوٹے خدائوں اور استحصالی نظام کے خلاف مسلسل صدائے احتجاج، انقلاب انقلاب اسلامی انقلاب کے فلک شگاف نعرے، شب بیداریاں، تربیتی کیمپ، گشتی لائبریری، اسکول فسیٹولز، اسکالر شپ کے آزمائشی امتحانات، اجتماعی طعام کی محفلیں اور ان جیسی نہ جانے کتنی ہی سرگرمیاں ایک حسین منظر کی طرح یادوں کے دریچوں سے نکل کر نظروں کے سامنے جھلملانے لگیں۔ اورکبھی کبھی تو یہ احساس اس قدر شدید ہوجاتا ہے کہ معاً اقبال یاد آجاتے ہیں۔
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تُو
میں: تمہیں نہیں لگتا کہ خود کو اقراری مجرم کہنے والا کل کا داعی ٔ انقلاب آج کہیں مفرور ہوگیا ہے، فکر معاش یا شاید دنیا کی محبت دامن گیر ہوکر زمانے کی گرد میں کہیں کھوگیا ہے۔ مصلحت کوشی کی طرف مائل اور خواہشات کے نشتر سے قدم قدم پرگھائل نظر آتا ہے۔
وہ: تمہارا تجزیہ کسی حد تک درست ہے کہ آج کے داعی کا کردارو عمل کچھ لگا بندھا سا ہے، لیکن اپنی کم کوشی کے باوجود آداب ِ خود آگاہی سے آشنا اور بے ذوق نہیں ہے، وقتی طور پر رفتار ذرا دھیمی پڑتی نظر آرہی ہے مگر للکار میں گھن گرج وہی ہے۔ اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اس حقیقت کا ادراک بھی ضروری ہے کہ تاریخ میں ہمیشہ وہی اقوام، تحریکیں اور اجتماعیتیں کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہیں جنہوں نے اپنی ناکامیوں کے اسبا ب خود اپنے اندر تلاش کیے اور ان کا سدباب کرکے فتح و نصرت کی داستانیںرقم کیں۔ اس بحث کو یہیں چھوڑتے ہوئے کیوں نہ ہم اپنے جوش وجذبے کو حماس اور فلسطین کے مجاہدوں کی زندگیوں سے گرمائیں جن کی آنکھوں میں جہاد اور شوق شہادت لہو بن کر دوڑ رہا ہے جو اسوۂ رسول ؐ کو اپنی زندگی کا مرکزو محور بناکر اللہ اکبر کی صدائیں بلند کرتے ہوئے ہر گزرتے دن کے ساتھ جرأت اور قربانیوں کی نئی داستانیں رقم کررہے ہیں۔ ان مجاہدین کے گزرنے والے روزو شب ہر مسلمان اور داعیان ِ حق کے لیے ایک آئینہ ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں بالخصوص گزشتہ چار سو ساٹھ سے زائد دن تک باطل کے آگے عزم وہمت کی چٹان بنے رہنا، اپنے سرکردہ رہنمائوں، اٹھارہ ہزار سے زائد کم سن جگر گوشوں اور ہزاروں کی تعداد میں مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کی قربانیاں دے کر بھی اپنے مقصد کو زندہ رکھنا، قیدو بند کی آزمائشوں اور سختیوں کو استقامت کے ساتھ برداشت کیے جانا۔ یہی وہ آئینہ ہے جس میں ہر مسلمان کو اپنا عکس تلاش کرنا ہے، کیا میری ذمے داری ایک دو مظاہروں میں چار پانچ نعرے لگانے اور ہزار دوہزار کا فلسطین فنڈ دینے کے بعد پوری ہوگئی، یا چند یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ میرے دل کی تسکین کے لیے کافی ہے؟۔
اسی آئینے میں اسلام کے اس شاندار ماضی کی جھلک بھی دکھائی دے رہی ہے جو یرغمال بنائے گئے قیدیوں کے ہشاش بشاش چہروں، ان کے ہاتھوں میں عربی زبان سیکھنے کے سرٹیفکیٹس اور یادگاری تحائف کی شکل میں ساری دنیا کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔ بس مغرب کے متعصب میڈیا کے علاوہ ہر ذی شعور یہ کہنے پر مجبور ہے کہ مجاہدین کی جانب سے ان کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک قیدیوں نہیں مہمانوں والا تھا۔ ورنہ امریکا کی گو د میں بیٹھے بزدل اسرائیل نے تو فلسطینیوں کی نسل کُشی کے لیے ظلم کا ہر وہ حربہ استعمال کیا جس کی توقع ایک ظالم سے کی جاسکتی ہے۔ اس سارے پس منظر میں ہم مسلمانوںکو اپنی غیرت ِ ایمانی اور ترجیحات کا از سرِ نو تعین کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اللہ اکبر رسول ؐ رہبر کا ترانہ دل میں جوش وجذبہ جگانے اور ولولہ انگیز نعروں سے آگے بڑھتے ہوئے پاکستان میں اسلا می انقلاب کی مدھم ہوتی مشعل کو پھر سے روشن کرنے کا محرک ٹھیرے۔ آج کی گفتگو کا اختتام اسی ترانے کے ان اشعار پر کرتے ہیں جس میں حماس کے جوان، ساری امت، بالخصوص نوجوانوں کو یہ پیغام دے رہے ہیں۔
زمیں کے سب جھوٹے دیوتائوں نے
مل کے گٹھ جوڑ کرلیا ہے
تمہاری جانب ہیں سب کی نظریں
تمہیں مٹانے کا فیصلہ ہے
اگر خدائی ہے ساتھ ان کے
خدا کا سایہ تمہارے سر پر
اللہ اکبر، رسولؐ رہبر، اللہ اکبر، رسولؐ رہبر
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
بات ہے رسوائی کی
یہ خبر حیران کن اور توجہ طلب تھی کہ جب برطانیہ میں ہسٹری کی ایک ٹیچر پچاس سالہ وینیسا براؤن کو چھبیس مارچ کو دو آئی پیڈز چوری کرنے کے الزام میں جیل میں ساڑھے سات گھنٹے گزارنے پڑے، یہ آئی پیڈز کسی اور کے نہیں بلکہ ان کی اپنی بیٹیوں کے تھے جو وینیسا نے صرف اس لیے چھپائے تھے کہ ان کی بیٹیاں اپنے اسکول کے کام پر توجہ دیں۔
یہ ترغیب دلانے کا انداز تو روایتی ماؤں والا ہی تھا لیکن ان کے لیے شرمندگی کا باعث بن گیا، صرف یہی نہیں بلکہ انھیں پابند بھی کر دیا گیا ہے کہ جب تک یہ مقدمہ خارج نہیں ہوجاتا وہ اس تفتیش کے حوالے سے نہ صرف اپنی بیٹیوں بلکہ کسی سے بھی بات نہیں کرسکتیں۔
ایک استاد کو جو دوسرے بچوں کو تعلیم دیتا ہے، اپنے ہی بچوں کی پڑھائی کی خاطر اس اقدام کی وجہ سے جس کوفت اور اذیت کا سامنا کرنا پڑا، اس تجربے کو انھوں نے ناقابل بیان تباہی اور صدمہ قرار دیا ہے۔ کیونکہ ان کی تمام تر توجیہات بے اثر ثابت ہوئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ آئی پیڈز ان کے بچوں کے تھے اور وہ انھیں ضبط کرنے کی حق دار تھیں۔ پولیس نے مذکورہ آئی پیڈز ان کی والدہ کے گھر سے برآمد کیے تھے۔ایک ماں خاص کر جب وہ استاد کے رتبے پر بھی فائز ہو، دہری ذمے داریوں کی حامل ہوتی ہے۔
اسے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے علاوہ اس کے اردگرد کے ماحول کو بھی دیکھنا پرکھنا ہوتا ہے کہ آیا وہ اس کی اولاد کے لیے موافق ہیں یا نہیں۔ وہ اپنے بچوں کی راہ سے کانٹے چننے کی اہل ہوتی ہے جس کے لیے انھیں پولیس کی مدد اور معاونت کی ضرورت نہیں، لیکن بدقسمتی سے مغربی ممالک میں حقوق کی علم برداری کے بڑے جھنڈے گڑھے ہوتے ہیں، جو ایک ماں سے اپنی اولاد کے حقوق تک چھین لیتے ہیں۔
ایک ماں کو اپنی اولاد کے لیے کیا تحفظات ہوتے ہیں، وہ پڑھے لکھے، صحت مند اور تندرست رہے،کھیل کود بھی کرے اور اپنی دوسری ذمے داریاں بھی نبھائے، اس تمام کے لیے اس کا ذہن صحت مند سوچ رکھنے کا حامل پہلی ترجیح ہوتا ہے۔
ماں بری سوچ سے اپنی اولاد کو الگ رکھنا چاہتی ہے۔آج کل بچوں کے ہاتھ میں بالشت بھر موبائل ساری حشر سامانی لیے ہر دم موجود اور تازہ دم تیار رہتا ہے۔ وہ اپنے والدین اور بڑوں کی نظر سے چھپ کر برا اور غلیظ مواد بھی دیکھ سکتے ہیں۔ فحش مواد دیکھنے سے ذہن کس طرح اثرانداز ہوتا ہے، کینیڈا کی لاوال یونیورسٹی کی ایک محقق ریچل اینی بارر نے ایک تحقیق کی جس میں انھوں نے بتایا۔
’’دنیا بھر میں کروڑوں افراد انٹرنیٹ کو مثبت کی بجائے منفی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، خصوصاً فحش مواد یا پورن سائٹس پر وقت گزارتے ہیں، یہ عادت دماغ کے اہم ترین حصے کو چاٹ لیتی ہے اور کند ذہن یا تعلق بچگانہ ذہنیت کا مالک بنا سکتی ہے ۔‘‘
دراصل غیر اخلاقی مواد کو دیکھنا عادت بنا لینے والے افراد کے دماغی حصے پری فرنٹل کورٹیکس کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اس اہم حصے قوت ارادی جسمانی حرکات اور اخلاقیات کو کنٹرول کرتا ہے۔ ایک تحقیق تو فحش مواد اور فلموں کے دیکھنے والوں کے متعلق کہتی ہے کہ ان کے دماغ سے منسلک ’’ریوارڈ سسٹم‘‘ چھوٹا ہوتا چلا جاتا ہے۔
جرمنی کی اس سائنسی تحقیق کی مصنفہ زیمونے کیون کا کہنا ہے ’’باقاعدگی سے فحش فلمیں دیکھنے کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ کم یا زیادہ آپ کا دماغی ریوارڈ سسٹم ضایع ہوتا جاتا ہے۔‘‘دماغ میں موجود عصبی ڈھانچوں کے مجموعے کو ریوارڈ سسٹم کہتے ہیں اور عصبی ڈھانچے خوشی فراہم کرتے ہوئے دماغی رویے کو کنٹرول کرتے ہیں۔
اس تحقیق کے لیے چونسٹھ لوگوں کا انتخاب کیا گیا جن کی عمریں اکیس سے چونسٹھ سال کے درمیان تھیں۔ اس تحقیق سے پتا چلا کہ جو لوگ فحش فلمیں دیکھتے ہیں ان کے دماغ کا ’’اسٹریم‘‘ نامی حصہ چھوٹا ہو جاتا ہے، ریوارڈ سسٹم کا یہ اہم جز جنسی تحریک کا اہم کردار ہے۔فحش مواد دیکھنے والوں کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو ریسرچ کی ایک طویل فہرست ہے اس لیے کہ آج کی دنیا کا یہ اہم اور پیچیدہ مسئلہ ہے، بچے اور بڑے، خواتین اور مرد فحش مواد کو دیکھنے کے باعث منفی رویوں کا شکار ہو جاتے ہیں جن میں زیادتی، تشدد، مار پیٹ، خود غرضی اور قتل بھی شامل ہیں۔
ایسے افراد سرد مہری اور ظلم و جبر کرنے کے عادی ہوجاتے ہیں باالفاظ دیگر وہ عام انسانوں کے برخلاف زیادہ تلخ، کرخت اور بدمزاج ہو جاتے ہیں۔ اپنی خواہشات کو کسی بھی حد تک پورا کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ ہم اس قسم کے لوگوں کو دوسروں کے مقابلے میں آسانی سے پہچان بھی سکتے ہیں کیونکہ ان کے رویے اور جذبات عام انسانوں کے مقابلے میں مختلف ہوجاتے ہیں۔
برقی تاروں سے پوری دنیا میں نجانے کیا کچھ دیکھا جا رہا ہے جو دیکھنے والوں کا قیمتی وقت تیزی سے برباد کرتا چلا جاتا ہے اب چاہے وہ طالب علم ہو یا گھریلو خواتین اور عام لوگ۔ یہ ایک ایسا سحر ہے جو اپنے اندر سب کچھ اتارتا چلا جا رہا ہے لیکن ماں باپ اور اساتذہ کے حوالے سے ایک بہت بڑا امتحان وہ غلیظ مواد ہے جو معاشرے کے نہ صرف معماروں کو بلکہ معمر شہریوں کی دماغی استعداد پر اثرانداز ہوتا ہے۔
ہمارے اپنے ملک میں اسلام کے حوالے سے روایتیں تو سخت ہیں لیکن درحقیقت اب جو کچھ کھلے عام اس انٹرنیٹ کے حوالے سے چل رہا ہے شرم انگیز ہے۔ کیا سب کچھ اسکرین پر لگا دینا ہماری اقدار کے ساتھ انصاف کرتا ہے؟ محبت،ایک اور لفظ کے اضافے سے جوکچھ مختصر ترین چند منٹوں میں دیکھا تو عقل ماتم کرنے لگی کہ یہ کمائی کا خوب اچھا طریقہ ہے۔
نجانے کون لوگ اس کے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر و لکھاری تھے، پر نامعقولیت میں اول تھے۔ مرکزی کردار درمیانی عمر کے کردار ادا کرتے آنکھوں میں وحشت بھرے اداکار تھے۔ لوگ تنقید بھی کر رہے تھے اور تعریف بھی۔ ہمارے معاشرے میں، تو شاید یہ کہنا فضول ہی ہوگا کہ برطانیہ میں ہسٹری کی استاد کو اپنی ہی بچیوں کا آئی پیڈ چھپانے کی سزا جیل میں کیوں بھگتنی پڑی؟ اس لیے کہ تاریخ کی استاد جانتی تھی کہ ماضی میں عیش و عشرت اور فحش مواد دیکھنے کی وجہ سے قومیں کیسے برباد و خوار ہوئیں۔