محصولات سے بچنے کے لیے کینیڈا کو امریکا کی 51ویں ریاست بننا ہوگا، ٹرمپ کی پھر دھمکی
اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر کینیڈا کو اپنی 51 ویں ریاست بنانے کا دعویٰ کیا ہے اور کینیڈین عوام کو اس کے بدلے محصولات میں رعایت دینے اور بھرپور فوجی تحفظ دینے کا بھی وعدہ کیاہے۔
اتوار کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹروتھ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر لکھا کہ امریکا کینیڈا کو سبسڈی دینے کے لیے سینکڑوں ارب ڈالرادا کرتا ہے، اتنی بڑی سبسڈی کے بعد کینیڈا ایک قابل عمل ریاست کے طور پراپنا وجود کھودیتا ہے۔
انہوں نے لکھا کہ یہی وجہ ہے کہ کینیڈا کو ہماری 51 ویں ریاست بننا چاہیے، ٹرمپ نے کہا کہ اس اقدام سے ’کینیڈا کے عوام کو بہت کم ٹیکس ادا کرنا پڑے گا اور کہیں بہتر فوجی تحفظ بھی ملے گا اور کوئی مزید ٹیرف بھی ادا نہیں کرنا پڑے گا‘۔
امریکی صدر کا کہنا ہے کہ ‘ہم امریکہ کو ایک بار پھر عظیم بنائیں گے اور اس کے لیے امریکا ہر قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ اہم تجارتی شراکت داروں پر محصولات عائد کرنے سے امریکیوں کو معاشی ’تکلیف‘ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
واضح رہے کہ ہفتے کے روز ٹرمپ نے آزاد تجارتی معاہدے کے باوجود ہمسایہ ممالک میکسیکو اور کینیڈا پر 25 فیصد محصولات عائد کرنے کی دھمکی پر دستخط کیے اور چین پر پہلے سے عائد محصولات میں 10 فیصد اضافہ کر دیا تھا۔
یاد رہے کہ صدرٹرمپ نے حلف برداری سے قبل ہی اس طرح کے اقدامات کرنے کا عہد کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ یہ ممالک غیر قانونی امیگریشن اور امریکا میں افیون فینٹانل کی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہے ہیں۔
منگل سے شروع ہونے والے محصولات کے نفاذ میں ٹرمپ انتظامیہ نے انٹرنیشنل ایمرجنسی اکنامک پاورز ایکٹ کو بھی نافذالعمل کردیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اقدام پر تینوں ممالک چین، کینیڈا اور میکسیکو نے فوری طور پر جوابی کارروائی کا اعلان کیا ہے، جبکہ تجزیہ کاروں نے امریکی صدرکو متنبہ کیا کہ تجارتی جنگ ممکنہ طور پر امریکی ترقی کو سست کردے گی اور مختصر مدت میں ہی مہنگائی میں اضافہ کرے گی۔
اتوارکو ٹروتھ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ڈونلڈ ٹرمپ نے محصولات سے متعلق اشارتاً 3 ممالک کو لکھا کہ ’ کیا کچھ درد ہو گا؟‘ جی ہاں، شاید (اور شاید نہیں!) ۔
ساتھ ہی انہوں نے لکھا کہ ’ ہم امریکا کو دوبارہ عظیم بنائیں گے اور اس کے لیے ہم کوئی بھی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہیں‘۔
امریکی صدر اور ان کے مشیروں نے اس سے قبل اس بات کو قبول کرنے سے گریز کیا تھا کہ محصولات سے امریکا میں مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔ بظاہر ایندھن اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کو محدود کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کینیڈا سے توانائی کی درآمدات پر صرف 10 فیصد ٹیکس عائد کیا۔
ایک علیحدہ سوشل میڈیا پوسٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھراپنے شمالی ہمسایہ ملک کینیڈا کو امریکی ریاست بنانے کے عزم کا اعادہ کیا، جس کے بعد کینیڈا کے ساتھ تناؤ میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ امریکا کینیڈا کو سبسڈی دینے کے لیے سینکڑوں ارب ڈالرادا کرتا ہے، ٹرمپ نے مزید کہا کہ اتنی بڑی سبسڈی کے بعد کینیڈا ایک قابل عمل ریاست کے طور پر اپنا وجود کھو دیتا ہے۔
انہوں نے ٹروتھ سوشل پر مزید لکھا کہ یہی وجہ ہے کہ کینیڈا کو ہماری 51 ویں ریاست بننا چاہیے، ٹرمپ نے کہا کہ اس اقدام سے ’کینیڈا کے عوام کو بہت کم ٹیکس ادا کرنا پڑے گا اور کہیں بہتر فوجی تحفظ بھی ملے گا، کوئی اضافی ٹیرف بھی ادا نہیں کرنا پڑے گا‘۔
ادھر امریکی مردم شماری بیورو نے کینیڈا کے ساتھ تجارت میں 2024 کے تجارتی خسارے کو 55 بلین ڈالر کے طور پر درج کیا ہے۔
کینیڈا کا امریکی مصنوعات پر 25 فیصد ٹیکس عائد کرنے کا اعلان
ادھرڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کے بعد کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے اعلان کیا ہے کہ ان کا ملک 155 بلین کینیڈین ڈالر (106.
کینیڈا کے متعدد صوبوں کے رہنما پہلے ہی جوابی کارروائیوں کا اعلان کر چکے ہیں، دوسری جانب میکسیکو کی صدر کلاڈیا شین بام نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنے وزیر اقتصادیات کو پلان بی پر عمل درآمد کی ہدایت کی ہے جس میں ٹیرف اور نان ٹیرف اقدامات شامل ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اقتصادیات امریکا امریکی ریاست امریکی صدر بام ٹیکس جسٹن ٹروڈو چائنا چین دھمکی ڈونلڈ ٹرمپ ریاست سوشل میڈیا کلاڈیا شین کینیڈا محصولات مشیر میکسیکو وزیر وی نیوزذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اقتصادیات امریکا امریکی ریاست امریکی صدر ٹیکس جسٹن ٹروڈو چائنا چین دھمکی ڈونلڈ ٹرمپ ریاست سوشل میڈیا کینیڈا محصولات میکسیکو وی نیوز ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا امریکی صدر کینیڈا کے کینیڈا کو انہوں نے کے بعد کی صدر نے کہا کیا ہے کے لیے
پڑھیں:
ڈونلڈ ٹرمپ کے دور اقتدار کے ہلچل سے بھرے پہلے 3 ماہ؛ دنیا کا منظرنامہ تبدیل
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں دوبارہ واپسی کے بعد ان کے اقدامات اور بیانات نے دنیا بھر میں ہلچل مچا دی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت کے پہلے 100 دن 30 اپریل کو مکمل ہو رہے ہیں اور اب تک صدر ٹرمپ نے صدارتی اختیارات کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔
78 سالہ صدر ٹرمپ نے ایک ایونٹ میں کہا کہ میرا دوسرا دورِ حکومت پہلے سے زیادہ طاقتور ہے۔ جب میں یہ کہتا ہوں 'یہ کام کرو تو وہ کام ہو جاتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ٹیرف پالیسی کا دفاع کیا اور سب سے پہلے امریکا کے اپنے ایجنڈے کو پورا کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔
امریکی صدر نے اپنی سمت کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ بڑی کامیابی کے ساتھ اپنے اہداف کو حاصل کر رہے ہیں۔
البتہ ان کے ناقدین نے پہلے 100 دنوں کی حکومت کو "آمرانہ طرزِ حکومت" قرار دیا ہے اور ان کی پالیسیوں کو انتشار کا باعث قرار دیا۔
سیاسی مورخ میٹ ڈالک کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا دوسرا دورِ صدارت پہلے سے کہیں زیادہ آمرانہ ذہنیت اور اقدامات سے بھرپور ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ روزانہ اوول آفس میں صحافیوں کے سوالات کا سامنا کرتے اور ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کرتے ہوئے خود کو ایک "ریئلٹی شو" کے مرکزی کردار کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
ٹرمپ کے ناقدین کا بھی کہنا ہے کہ نئے صدر کے دوسرے دور میں وائٹ ہاؤس میں مخصوص اور من پسند نیوز اداروں کو رسائی دی جارہی ہے۔
علاوہ ازیں عدلیہ کے ساتھ بھی صدر ٹرمپ کا رویہ جارحانہ رہا ہے جہاں انہوں نے ماضی کے مقدمات میں شریک کئی لاء فرمز کو سخت معاہدوں میں جکڑ دیا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے پہلے 100 دنوں کی تکمیل پر ان کی مقبولیت تمام جنگ عظیم دوم کے بعد صدور میں سب سے کم ہے۔ سوائے خود ان کے پہلے دور کے۔
ریپبلکن سینیٹر لیزا مرکاؤسکی نے کہا کہ ہم سب خوف زدہ ہیں جبکہ پروفیسر باربرا ٹرش کا کہنا تھا کہ صدر آئینی پابندیوں کی پرواہ کیے بغیر فیصلے کر رہے ہیں۔
ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے روس کے توسیع پسندانہ عزائم کی تقلید میں گرین لینڈ، پاناما اور کینیڈا پر علاقائی دعوے کرتے ہوئے امریکی اثرورسوخ بڑھانے کا عندیہ دیا ہے۔
ٹرمپ نے تعلیمی اداروں، جامعات اور ثقافتی مراکز کو نشانہ بناتے ہوئے خود کو ایک اہم آرٹس سینٹر کا سربراہ مقرر کیا اور ڈائیورسٹی پروگرامز کو ختم کر دیا ہے۔
اسی طرح تارکین کو پکڑ پکڑ کر دور دراز علاقے میں قائم خطرناک جیلوں میں زبردستی بھیجا جا رہا ہے۔
یاد رہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 20 جنوری کو عہدے کا حلف اُٹھایا تھا اور اسی دن چند اہم لیکن متنازع اقدامات کی منظوری دی تھی۔