Islam Times:
2025-04-22@01:35:57 GMT

اسلامی مزاحمت کی پیٹھ میں ابومازن کا خنجر

اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT

اسلامی مزاحمت کی پیٹھ میں ابومازن کا خنجر

اسلام ٹائمز: واشنگٹن کے سیاسی اداروں کی راہداریوں میں غزہ کی پٹی میں فلسطین اتھارٹی کو استعمال کرنے کی حمایت کی جا رہی ہے اور حمایت کرنے والوں میں مشرق وسطی کے لیے امریکی صدر کے خصوصی نمائندے اسٹیو ویٹکاف، قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز اور ٹرمپ کا داماد جرڈ کشنر شامل ہیں۔ دوسرے الفاظ میں وائٹ ہاوس، واشنگٹن کے زیر اثر فلسطین اتھارٹی کو غزہ پر قابض کر کے فلسطین کی اسلامی مزاحمت ختم کرنے کے درپے ہے۔ مشرق وسطی خطے میں امریکہ کی حکمت عملی غاصب صیہونی رژیم کی سربراہی میں ایک مشترکہ سیاسی سیکورٹی بلاک تشکیل دینے پر مبنی ہے جس کا سیاسی پہلو خیانت آمیز "ابراہیم معاہدہ" اور اس کا اقتصادی پہلو "آئیمک راہداری" جانا جاتا ہے۔ یہ منصوبہ بنانے والوں کا اصل مقصد بحر ہند سے لے کر بحیرہ روم تک اسرائیل اور عرب ممالک میں مشترکہ سیکورٹی تجارتی مفادات ایجاد کرنا ہے۔ تحریر: علی احمدی
 
غزہ میں 15 ماہ تک جاری رہنے والی جنگ رک جانے کے بعد اب مختلف سیاسی حلقوں میں اس موضوع پر گرما گرم بحث شروع ہو چکی ہے کہ خطے کا مستقبل کیا رخ اختیار کرے گا؟ غاصب صیہونی رژیم کے فوجی و سیکورٹی اداروں کی گذشتہ توقعات کے برخلاف غزہ میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کا ملٹری ونگ عزالدین قسام بٹالینز پوری قوت سے موجود ہے اور عوام کی بھرپور حمایت سے فلسطینی مجاہدین نے قیدیوں کے تبادلے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ میں اسلامی مزاحمت زندہ اور باقی ہے۔ مڈل ایسٹ آئی سے وابستہ ذرائع کا کہنا ہے کہ مشرق وسطی کے لیے امریکی صدر کے خصوصی ایلچی اسٹیو ویٹکاف نے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ابومازن محمود عباس کے ممکنہ جانشین حسین الشیخ سے ملاقات کی ہے۔
 
ایک اندازے کے مطابق اس ملاقات میں جو موضوع زیر بحث لایا گیا ہے وہ غزہ پر بھی فتح آرگنائزیشن کی حکومت قائم کرنے کی حکمت عملی تلاش کرنا ہے۔ ویٹکاف اور حسین الشیخ کے درمیان یہ مذاکرات ایسے وقت انجام پا رہے ہیں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خصوصی ایلچی اس بات کا اعتراف کر چکا ہے کہ مشرق وسطی خطے کے مستقبل کے بارے میں صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور اس کا نقطہ نظر ایک ہی ہے۔ لہذا یہ کہنا بجا ہو گا کہ وائٹ ہاوس سعودی حکمرانوں کی وساطت سے فلسطین اتھارٹی اور غاصب صیہونی رژیم کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ غزہ پر حکمرانی کے لیے فلسطین اتھارٹی کا ممکنہ امیدوار زیاد ابو عمرو ہے جو محمود عباس کا مشیر اور قریبی ساتھی ہے۔ وہ غزہ میں پیدا ہوا تھا اور اس نے 2014ء کی جنگ کے بعد غزہ کی تعمیر نو کی یہ کہہ کر شدید مخالفت کی تھی کہ اسرائیل ایسا نہیں چاہتا۔
 
فلسطین اتھارٹی، جو فتح آرگنائزیشن کی ایک شاخ ہے، بائیں بازو کے رجحانات رکھنے والی سیکولر تنظیم ہے اور اس کی تشکیل سرد جنگ کے دوران انجام پائی تھی جب سامراج مخالف افکار اپنے عروج پر تھے۔ اگرچہ اس تنظیم نے کئی عشروں تک غاصب صیہونی رژیم کے خلاف مسلح جدوجہد انجام دی لیکن 1990ء کے عشرے میں تل ابیب سے سازباز کا راستہ اختیار کیا اور غاصب صیہونی رژیم کے ساتھ اوسلو 1 اور اوسلو 2 معاہدوں پر دستخط بھی کیے۔ غاصب صیہونی فوج کے ساتھ قریبی تعاون کے باعث اس وقت غزہ کی پٹی کے علاوہ مغربی کنارے میں بھی فلسطین اتھارٹی سے شدید نفرت پائی جاتی ہے۔ فلسطین اتھارٹی کے سیاسی اداروں نے ہتھیار پھینک دینے کے بعد اقتصادی سرگرمیوں کا آغاز کیا جس کے نتیجے میں وہ شدید کرپشن کا شکار ہو چکے ہیں۔
 
جب فتح آرگنائزیشن غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کے انتظامی امور چلانے میں ناکام ہو گئی نیز اس نے 2006ء میں پارلیمانی الیکشن کے نتائج ماننے سے انکار کر دیا تو غزہ کی پٹی میں حماس نے اپنی تحریک کا آغاز کر دیا۔ حماس کو فتح آرگنائزیشن کی حکومت کے خلاف اس جدوجہد میں عوام کی بھرپور حمایت بھی حاصل تھی۔ دوسری طرف امریکی حکمرانوں نے غزہ میں فلسطین اتھارٹی کی حکومت بچانے کی خاطر اس پر دباو ڈالا کہ وہ اپنے اندر سیاسی، اقتصادی اور سماجی اصلاحات انجام دے۔ پہلے مرحلے میں فلسطین اتھارٹی کو محمود عباس کی پوزیشن واضح کرنی تھی جو آٹھ سال سے صدر تھے اور عوام میں ان کی مقبولیت نہ ہونے کے برابر تھی۔ اگلے قدم میں فتح آرگنائزیشن کو قومی آمدن کی منصفانہ تقسیم کی جانب آگے بڑھنا تھا جس کے تحت مزید فلسطینی عوام کو بہرہ مند ہونے کا موقع فراہم کیا جانا تھا۔
 
واشنگٹن کے سیاسی اداروں کی راہداریوں میں غزہ کی پٹی میں فلسطین اتھارٹی کو استعمال کرنے کی حمایت کی جا رہی ہے اور حمایت کرنے والوں میں مشرق وسطی کے لیے امریکی صدر کے خصوصی نمائندے اسٹیو ویٹکاف، قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز اور ٹرمپ کا داماد جرڈ کشنر شامل ہیں۔ دوسرے الفاظ میں وائٹ ہاوس، واشنگٹن کے زیر اثر فلسطین اتھارٹی کو غزہ پر قابض کر کے فلسطین کی اسلامی مزاحمت ختم کرنے کے درپے ہے۔ مشرق وسطی خطے میں امریکہ کی حکمت عملی غاصب صیہونی رژیم کی سربراہی میں ایک مشترکہ سیاسی سیکورٹی بلاک تشکیل دینے پر مبنی ہے جس کا سیاسی پہلو خیانت آمیز "ابراہیم معاہدہ" اور اس کا اقتصادی پہلو "آئیمک راہداری" جانا جاتا ہے۔ یہ منصوبہ بنانے والوں کا اصل مقصد بحر ہند سے لے کر بحیرہ روم تک اسرائیل اور عرب ممالک میں مشترکہ سیکورٹی تجارتی مفادات ایجاد کرنا ہے۔
 
لہذا واشنگٹن غاصب صیہونی رژیم کے انتہاپسند وزیروں کی اس رائے کے مخالف ہے کہ مغربی کنارے کو بھی صیہونی رژیم سے ملحق کر دیا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکی حکمران 7 اکتوبر 2023ء کے بعد پیش آنے والے واقعات کی روشنی میں اسلامی دنیا کی نظر میں مقبوضہ فلسطین کے اندر اور اس سے باہر فلسطینی تشخص کی اہمیت کو جانچ چکے ہیں۔ اگرچہ اکونومسٹ کا دعوی ہے کہ مغربی کنارے پر غاصب صیہونی رژیم کی موجودہ جارحیت کا مقصد سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان پر دباو ڈالنا ہو سکتا ہے تاکہ اسے جلد از جلد اپنے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے پر تیار کیا جا سکے۔ یعنی سعودی معاشرے میں فلسطین کاز کے بارے موجود حساسیت سعودی ولیعہد کو تمام تنازعات ختم کر دینے پر مجبور کر دے گی جس کا واحد راستہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی بحالی ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: غاصب صیہونی رژیم کے فتح آرگنائزیشن اسلامی مزاحمت امریکی صدر واشنگٹن کے غزہ کی پٹی کرنے کی اور اس کے لیے ہے اور کے بعد

پڑھیں:

ضروری سیاسی اصلاحات اور حسینہ واجد کے ٹرائل تک انتخابات قبول نہیں، جماعت اسلامی بنگلہ دیش

جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے کہا ہے کہ عوام ضروری سیاسی اصلاحات اور شیخ حسینہ واجد کے ٹرائل تک ہم انتخابات کو قبول نہیں کریں گے۔

جماعت اسلامی کے امیر ڈاکٹر شفیق الرحمان نے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ انتخابات سے قبل ضروری ہے کہ ضروری سیاسی اصلاحات ہوں اور شیخ حسینہ واجد کا ٹرائل بھی کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کے تحفظات سامنے آگئے

انہوں نے عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر یونس سے مطالبہ کیاکہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ ہونی چاہیے۔

انہوں نے ہندوستان کے ساتھ باہمی احترام، مساوات اور اچھی ہمسائیگی پر مبنی سفارتی تعلقات کو برقرار رکھنے پر بھی زور دیا۔ اور کہاکہ اگر ہم خوشحال ہوتے ہیں تو ہمارے پڑوسیوں کو بھی فائدہ ہوگا لیکن اگر ہماری بھلائی پر سمجھوتہ کیا جاتا ہے، تو ہندوستان کو یہ ضرور پوچھنا چاہیے کہ کیا ان پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

ڈاکٹر شفیق نے کہاکہ اگرچہ فسطائیت زوال پذیر ہے لیکن کچھ بیمار سیاست دان بھتہ خوری اور جائیدادوں پر قبضے جاری رکھے ہوئے ہیں۔

انہوں نے عہد کیا کہ اگر جماعت اسلامی اقتدار میں آئی تو خواتین کو عزت، تحفظ اور روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں گے۔

ڈاکٹر شفیق نے کہاکہ ہم حامی اور مخالف کی تقسیم سے آزاد ملک چاہتے ہیں، ہم اقلیت اور اکثریت کے تصور کو بھی مسترد کرتے ہیں۔ یہ بیان بازی طویل عرصے سے ہم پر ظلم کرنے کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے، اب مرد اور خواتین یکساں مل کر اس قوم کی تعمیر میں مدد کریں گے۔

انہوں نے کہاکہ نوجوانوں کو بااختیار بنایا جائے گا، لاکھوں لوگ اب کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنی جانیں قربان کریں گے، لیکن ملک کی خودمختاری نہیں۔

انہوں نے خطے میں بے روزگاری سے نمٹنے کے لیے لال مینار ہٹ میں ایک زرعی یونیورسٹی اور مقامی ہوائی اڈے کے قیام کا بھی مطالبہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے احتجاج کیوں شروع کردیا؟

جماعت اسلامی کے زیراہتمام ریلی میں لال مینار ہٹ اور آس پاس کے اضلاع سے ان کے چاہنے والے جلوسوں کی شکل میں داخل ہوئے، جس سے ایک ماحول بن گیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews بنگلہ دیش پاکستان ٹرائل جماعت اسلامی شیخ حسینہ واجد ضروری اصلاحات وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • جے یو آئی، جماعت اسلامی اتحاد خوش آئند ہے، حکومت کو خطرہ نہیں، ملک محمد احمد خان
  • جماعت اسلامی اور جے یو آئی کا فلسطین کے معاملے پر ملک گیر مہم چلانے کا اعلان
  • جے یو آئی اور جماعت اسلامی کا غزہ میں مظالم کیخلاف 27 اپریل کو مینارِ پاکستان پر جلسے کا اعلان
  • جماعت اسلامی کا یکجہتی فلسطین مارچ، اسلام آباد میں سکیورٹی ہائی الرٹ، ریڈ زون سیل
  • ہمارے حکمران اور سیاستدان اُمت مسلمہ سے نہیں ہیں، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری 
  • ہم نے فلسطین کی حمایت کو زندہ رکھنا ہے، ہمارے حکمران اور سیاستدان اُمت مسلمہ سے نہیں ہیں، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری 
  • اہل فلسطین سے اظہارِ یکجہتی، اسلامی جمعیت طلبہ کا خیبر پختونخوا میں یوم سیاہ
  • صیہونی حملے کے بعد اسرائیلی نژاد امریکی قیدی کا کوئی علم نہیں، ایک محافظ شہید ہو چکا ہے، القسام بریگیڈ
  • ضروری سیاسی اصلاحات اور حسینہ واجد کے ٹرائل تک انتخابات قبول نہیں، جماعت اسلامی بنگلہ دیش
  • جب مزاحمت بھی مشکوک ٹھہرے، فلسطین، ایران فوبیا اور امت کی بے حسی