پاکستان بنگلہ دیش ، محبتیں اور قربتیں
اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT
صدر مرکزی مسلم لیگ ( پنجاب )
پاکستان اور بنگلہ دیش ۔۔۔ دو بھائی ہیں جو بچھڑ گئے تھے ۔ دونوں کے درمیان دشمنوں نے غلط فہمیاں پیدا کر دی تھیں جس کی وجہ سے دونوں کے درمیان تفریق اور خلیج حائل ہو گئی تھی لیکن چونکہ غلط فہمی کی بنیاد ہی غلط فہمی پر ہوتی ہے جس کی کچھ بھی حقیقت اور اصلیت نہیں ہوتی۔ جب حقیقت اور صداقت سامنے آئے تو غلط فہمی دور ہو جاتی ہے اور دل مل جاتے ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بھی یہی کچھ ہوا ہے۔
دونوں بھائیوں کو باہم لڑانے میں بنیادی کردار ہمارے ازلی دشمن بھارت کا تھا۔ بھارت نے اختلافات کو ابھارنے اور ان میں ہوا بھرنے کے لیے شیخ مجیب الرحمن اور اس کے گماشتوں کو استعمال کیا۔ اگرچہ اس میں ذوالفقار علی بھٹو، جنرل یحییٰ خان اور مغربی پاکستان کے دیگر سیاستدانوں کی بھی غلطیاں تھیں جنھیں تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو او ر یحییٰ خان نے اقتدار کی ہوس میں ملک کی سلامتی کو داؤ پر لگا دیا۔ حالات کا ادراک نہ کیا اور جلتی پر مزید تیل ڈالا جس سے اختلافات شعلہ جوالہ بن گئے۔ شیخ مجیب نے رائی کا پہاڑ بنایا دونوں خطوں اور بھائیوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کیں نتیجے میں دونوں بھائی ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔
تاہم جلد ہی بنگالی بھائیوں نے اپنے دشمن شیخ مجیب الرحمن اور اس کے سرپرست بھارت کو پہچان لیا پھر شیخ مجیب 15اگست 1975ء کے دن اپنے خاندان سمیت قتل کر دیا گیا اور عبرتناک انجام سے دوچار ہوا۔ شیخ مجیب کی دو بیٹیاں حسینہ اور ریحانہ اس لیے بچ گئیں کہ وہ ملک سے باہر تھیں ۔ یاد رہے کہ 15اگست بھارت میں یوم آزادی کے طور پر منایا جاتا ہے جیسے ہی بھارت میں شیخ مجیب کے قتل کی خبر پہنچی ان کا یوم آزادی یوم سوگ میں بدل گیا۔ حالت یہ ہوئی ہے کہ شیخ مجیب کی لاش کئی دن تک بے گوروکفن پڑی رہی ۔ پھر بنگلہ دیش میں جنرل ضیاء الرحمن اور جنرل ارشاد جیسے پاکستان سے محبت کرنے والے اقتدار میں آتے رہے۔
ان ایام میں دونوں بھائی اس طرح سے ایک دوسرے کے قریب آگئے کہ گویا ان میں اختلافات کبھی بھی نہ تھے۔ وقت گزرتا رہا پھر ایک وقت آیا جب شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی حسینہ واجد اقتدار میں آگئی۔ کہنے کی حد تک اس خاتون کا نام ’’ حسینہ ‘‘ ہے لیکن عملاََ یہ خاتون اپنے کردار کے اعتبار کچھ اور ہی ہے ۔ حسینہ واجد کا شمار تاریخ کی ظالم اور سفاک ترین عورتوں میں ہوتا ہے اس نے اپنے دور اقتدار میں وہ مظالم ڈھائے کہ تاریخ آنے والے وقت میں اسے ظالم ترین عورت کے نام سے یاد کرے گی۔ اس خونخوار عورت نے بوڑھے، ضعیف، سفید ریش بزرگ بھی تختہ دار پر لٹکا دیے جبکہ ہزاروں کی تعداد میں جیلوں میں ڈال دیے گئے جن میں کئی ایسے نامور صحافی بھی تھے جو 1971ء میں شیخ مجیب کے ساتھ تھے۔ حسینہ واجد کا خیال تھا کہ وہ جبر اور ظلم کی بیساکھیوں کے سہارے ہمیشہ اقتدار میں رہے گی لیکن یہ بات طے ہے کہ ظلم کو دوام اور بقا نہیں بقول ساحر لدھیانوی
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی صورت میں جو ظلم برپا تھا وہ مٹ گیا اور بہنے والا خون جم گیا یہ خون ۔۔۔ اب ظالموں سے حساب اور جواب مانگ رہا ہے۔ بیگناہ شہیدوں کا خون رنگ لے آیا ہے۔ حسینہ واجد بھارت نواز تھی، سیکولر تھی اور اسلام دشمن بھی تھی۔ اس نے بنگلہ دیش سے اسلام کی اعلیٰ روایات واقدار کو مٹانا چاہا تو بنگالی مسلمانوں نے اس کے اقتدار کو ہی مٹا ڈالا اور پاؤں نیچے روند ڈالا اور ثابت کردیا کہ وہ پکے سچے مسلمان ہیں، ان کے دلوں میں اسلام بستا ہے۔ حسینہ واجد کی تمام تر اسلام دشمنی کے باوجود بنگلہ دیشی عوام آج بھی اسلام سے محبت کرتے ہیں۔
ان کے دلوں میں آج بھی نظریہ پاکستان کی صداقت زندہ ہے۔ بنگلہ دیش میں ایسی حکومت اقتدار میں آچکی ہے جو انصاف پسند ہے، انسانی قدروں پر یقین رکھتی ہے اور پاکستان سے محبت کرتی ہے۔ بنگلہ دیش کی نئی حکومت کے نگران ڈاکٹر محمد یونس ہیں جو نیک نام اور غریب پرور انسان ہیں، انھوں نے لاکھوں بنگالیوں کو روز گار مہیا کیا یہ اسی سالہ بزرگ ڈاکٹر یونس بھی حسینہ واجد کے عتاب کا شکار رہے اور قید وبند کی صعوبتیں اٹھاتے رہے ہیں۔
حسینہ واجد کے خلاف چلنے والی تحریک نے ڈھاکہ یونی ورسٹی سے جنم لیا۔ یہ تحریک یہاں سے ہی اٹھی، پلی بڑھی، جوان ہوئی پھر جلد ہی بنگلہ دیش کے گلی کوچوں اور بازاروں میں پھیل گئی۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کی تاریخ بھی بہت دلچسپ ہے۔ 1971ء میں پاکستان مخالف احساسات اور رجحانات نے اسی یونی ورسٹی سے جنم لیا تھا۔ جس یونیورسٹی کو بھارت اور ہندو اساتذہ نے اپنے سازشوں کا مرکز بنایا تھا اسی یونی ورسٹی سے حسینہ واجد کے خلاف تحریک چلی اور کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ اسے کہتے ہیں مکافات عمل۔
حسینہ واجد کے بنگلہ دیش سے فرار ہونے اور نئی حکومت کے قیام کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تیزی کے ساتھ محبتیں اور قربتیں بڑھ رہی ہیں۔ مقام شکر ہے کہ بنگلہ دیش میں ایک ایسی حکومت بر سر اقتدار آچکی ہے جو پاکستان سے محبت کرتی اور بھارت سے نفرت کرتی ہے۔ وہ تمام لوگ جو پاکستان کے ساتھ محبت کے جرم میں جیلوں میں بند تھے ۔۔۔۔ سب رہا کئے جا چکے ہیں۔
رہا ہونے والوں میں بیگم خالدہ ضیا بھی ہیں ۔ بیگم خالدہ ضیا کے شوہر جنرل ضیاء الرحمن پی ایم اے کاکول کے تربیت یافتہ تھے ان کے دور میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان مثالی برادرانہ تعلقات قائم ہوئے یہاں تک کہ بنگلہ دیش کے فوجی دستے ٹریننگ کیلئے پاکستان آتے تھے۔ ایک بہت ہی خوبصورت بات یہ ہوئی کہ بنگلہ دیش میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر سید احمد معروف نے اپنی اہلیہ سمیت بیگم خالدہ ضیا سے ڈھاکہ میں ان کی رہائش گاہ پر خوشگوار ماحول میں ملاقات کی جو نوے منٹ تک جاری رہی۔ سید احمد معروف نے بیگم خالدہ ضیا کی خیر وعافیت دریافت کی، ان کی صحت یابی کے لیے دعا کی، پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات کو بہتر بنانے پر تبادلہ خیالات ہوا وزیر اعظم شہباز شریف اور صدر آصف علی زرداری کی طرف سے ان کو پیغام تہنیت بھی پہنچایا۔
نیشنل پریس کلب ڈھاکہ میں 12ستمبر کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کی مناسبت سے اردو شاعری اور گیتوں کے ساتھ ایک تقریب کا انعقاد ہوا جس میں ڈھاکہ میں تعینات پاکستان کے ڈپٹی ہائی کمشنر کامران دھنگل کے علاوہ مقامی سیاستدانوں وکلا ، طلبہ ، صحافیوں ، سول سوسائٹی کے نمائندوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ تقریب میں قائد اعظم محمد علی جناح کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ پروفیسر ڈاکٹر مستفیض الرحمن نے کلیدی مقالہ پڑھا جس نے انھوں نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی ، ان کی جد وجہد اور قیام پاکستان کے اسباب پر روشنی ڈالی۔ ایک دوسرے مقرر محمد شمس الدین نے کہا اگر 1947 ء میں بنگلہ دیش مشرقی پاکستان کے طور پر آزاد نہ ہوتا تو آج ہماری حالت بھی مقبوضہ جموں کشمیر جیسی ہوتی جہاں ہندوستانی فوج ہتھیاروں اور اسلحے سے لیس ہر کشمیری پر بندوق تانے کھڑی ہے۔
انھوں نے مزید کہا نئی دھلی چاہتا تھا کہ ڈھاکہ میں علامہ اقبال ہال اور جناح ایونیو کے نام ختم کر دیے جائیں مگر ہم نے ایسا نہ ہونے دیا۔ معروف شاعر جعفرالحق جعفر نے اردو نظم کے ذریعے بانی پاکستان کو خراج تحسین پیش کیا۔ بنگلہ دیش میں زیرِ تعلیم دو پاکستانی طلباء محمد طاہر اور کامران عباس نے قائد اعظم کی زندگی کے بارے میں اردو ترانے پیش کیے۔ الغرض بہت عرصے بعد پہلا موقع تھا کہ نیشنل پریس کلب ڈھاکہ میں قائد اعظم کی یاد میں شاندار اور پروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا اور بانی پاکستان کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ تمام مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ بنگلہ دیش بھارت کے مقابلے میں چین اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرے۔
ڈھاکہ یونی ورسٹی کا ذکر پہلے ہو چکا ہے اس مناسبت سے اب مزید نئی پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ 13نومبر 2024ء کو یونی ورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر نیاز احمد خان کی صدارت میں یونی ورسٹی سینیڈیکٹ کے اجلاس میں پاکستانی طلبہ کو ڈھاکہ یونی ورسٹی میں داخلہ لینے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ اس فیصلے کا مقصد دونوں ممالک کی نئی نسل کو ایک دوسرے کے قریب لانا، دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانا اور تعلیمی تعاون کو فروغ دینا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یونی ورسٹی حکام نے پاکستانی طلبہ کے لیے یونی ورسٹی کے دروازے ہی نہیں کھولے یوں سمجھیں کہ بنگالی عوام نے اہل پاکستان کے لیے دلوں کے دروازے کھول دیے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان میں بھی بنگلہ دیشی شہریوں اور طلبہ کیلئے ویزے کا حصول بہت آسان کر دیا گیا ہے۔ سمندری راستے سے دونوں ممالک کے درمیان تجارت بھی بحال ہو چکی ہے۔1971ء کے بعد پہلی دفعہ مال برادر جہاز کراچی سے چٹاگانگ بندر گاہ دس دن کی مختصر مدت میں پہنچا ہے۔
چٹاگانگ بندر گاہ پر لنگر انداز ہونے والے جہاز کا استقبال پاکستانی ہائی کمشنر اور بنگلہ دیشی حکام نے کیا۔ دونوں ممالک کے درمیان سول رابطوں کے بعد فوجی رابطے بھی بحال ہو چکے ہیں۔ گذشتہ دنوں بنگلہ دیش کے آ رمڈ فورسز ڈویژن کے پرنسپل اسٹاف آفیسر لیفٹننٹ جنرل ایس ایم قمر الاسلام نے ایک وفد کے ہمراہ پاکستان کا دورہ کیا اور فوج کے ہیڈ کوارٹر راولپنڈی میں پاکستان کے آ رمی چیف جنرل سید حافظ عاصم منیر سے ملاقات کی۔ آ رمی چیف جنرل سید حافظ عاصم منیر اور جنرل ایس ایم قمر الاسلام نے ملاقات کے دوران خطے کے بدلتے سکیورٹی حالات اور معاملات پر مفصل بات چیت کی اور دونوں ممالک کے درمیان مزید فوجی تعاون کی راہیں نکالنے پر غور کیا گیا۔ دونوں فوجی سربراہان نے دونوں ممالک کے درمیان مضبوط دفاعی تعاون کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ دونوں برادر ممالک کے درمیان شراکت داری اور تعاون بیرونی اثرات سے بالاتر ہونی چاہیے۔
بنگلہ دیشی وفد نے بعد ازاں کراچی میں پاک بحریہ کے کمانڈر فلیٹ رئیرایڈمرل عبدالمنیب ، کمانڈر کوسٹ رئیرایڈمرل فیصل امین اور ایم ڈی کراچی شپ یارڈ رئیرایڈمرل سلمان الیاس سے بھی ملاقات کی۔ وفد نے پاک بحریہ کے جہازوں اور یونٹس کا بھی دورہ کیا۔ بنگلہ دیشی وفد نے پاک فضائیہ کے سربراہ سے بھی ملاقات کی اور جی ایف تھنڈر طیاروں کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کی۔ دوطرفہ تعلقات میں گرم جوشی کے اس ماحول میں پاکستان کے وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار آئندہ ماہ ڈھاکہ کا دورہ کر رہے ہیں۔
ایک دہائی سے زائد عرصے کے بعد کسی پاکستانی وزیرِ خارجہ کا یہ پہلا دورہ بنگلہ دیش ہو گا۔ اس سے قبل وزیر اعظم شہباز شریف کی بھی بنگلہ دیش کے حکومت کے نگران ڈاکٹر محمد یونس سے دوبار ملاقات ہوچکی ہے۔ ایک ملاقات قاہرہ میں ہوئی تھی اور دوسری ملاقات اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر ہوئی تھی جس میں شہباز شریف نے ڈاکٹر محمد یونس کو پاکستان کے دورہ کی دعوت دی تھی۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بڑھتی ہوئی قربتوں کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ امریکہ میں بھارتی لابی بنگلہ دیش کی نئی حکومت پر پابندیاں لگوانے کیلئے متحرک ہو چکی ہے۔ بات صرف یہ نہیں کہ بھارت بنگلہ دیش کا دشمن بن چکا ہے بھارت پاکستان کا بھی ازلی دشمن ہے۔ اسی بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے 1971ء میں اپنے ملک کی لوک سبھا میں کہا تھا ’’ ہم نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے‘‘ آج اگر اندرا گاندھی زندہ ہوتی تو وہ دیکھتی کہ نظریہ پاکستان آج بھی زندہ ہے اور خلیج بنگال کی طرح ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔
آج مودی کو بھی یاد کرنا چاہئے کہ وہ7جون 2015ء کو جب اس نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا تو اس موقع پر اس نے پاکستان کو توڑنے اور بنگلہ دیش بنانے میں بھارتی کردار کا اعتراف کیا تھا۔ اس موقع پر مودی نے جو گفتگو کی اس کا ایک ایک لفظ پاکستان دشمنی میں ڈوبا ہوا تھا۔ مودی کا کہنا تھا’’بنگلہ دیش کی آزادی میں بھارتی فوجیوں کا خون بھی شامل ہے، ہمارے لوگوںنے بھی بنگلہ دیشیوں کے کندھے سے کندھا ملا کر جدوجہد کی، ہم مکتی باہنی کے ساتھ مل کر لڑے۔ ہمارے فوجیوں کے علاوہ عام ہندوو ں کا بھی بنگلہ دیش بنانے (پاکستا ن توڑنے ) میں حصہ ہے۔
بنگلہ دیش بنانے (پاکستان توڑنے کی تحریک) میں میں نے بھی بطور رضاکار حصہ لیا ۔ مودی نے اس دوران پاکستان توڑنے کی پرانی یادوںاور باتوں کو دھر اتے ہوئے یہ بھی بتایا ’’واجپائی نے اس کارنامے (پاکستان توڑنے) پر اندرا گاندھی کو درگا میئتا کا خطاب دیا تھا ۔ مودی کی اس تقریر سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ پاکستان دشمنی میں سرتاپا غرق ہے لہذا یہ وقت ہے کہ پاکستان سیاسی ، معاشی اور عسکری سطح پر بنگلہ دیش کے ساتھ دست تعاون دراز کرے اس میں دونوں ممالک کا فائدہ ہے ۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش سارک پلیٹ فارم کو متحرک کریں تاکہ خطے میں بھارت کی سازشوں کا منہ توڑ جواب دیا جا سکے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان دونوں ممالک کے درمیان بیگم خالدہ ضیا کہ یونی ورسٹی بھی بنگلہ دیش حسینہ واجد کے بنگلہ دیش میں بانی پاکستان میں پاکستان بنگلہ دیشی پاکستان کے میں بھارت ملاقات کی پاکستان ا ڈھاکہ میں ایک دوسرے کیا گیا کے ساتھ دورہ کی ہے اور اور اس
پڑھیں:
انڈونیشین سرمایہ کار پاکستان میں مواقع تلاش کریں ، اکنامک قونصل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (کامرس رپورٹر)انڈونیشین قونصلیٹ کے اکنامک قونصل ڈاکٹر سفیان احمد نے انڈونیشیا اور پاکستان کی لیڈرشپ کے درمیان حال ہی میںدستخط کیے گئے مشترکہ اعلامیے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ اہم پیش رفت دونوں ممالک کے لیے ایک نئے دور کی بنیاد رکھ رہی ہے کیونکہ اب دونوں ملک اپنے موجودہ تجارتی انتظامات کو ایک جامع اقتصادی شراکت داری معاہدے سیپا میں تبدیل کرنے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔فی الحال دونوں ممالک ترجیحی تجارتی معاہدے (پی ٹی اے) کے تحت کام کر رہے ہیں جو تقریباً 300 ٹیرف لائنز پر مشتمل ہے تاہم سیپا اس دائرہ کار کو نمایاں طور پر وسیع کرے گا۔سیپا کے تحت شامل اشیاء کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکتا ہے جو روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والی بے شمار مصنوعات تک وسیع ہوگا۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کا دورہ کرنے والے انڈونیشیا کے تجارتی وفد کے ساتھ ملاقات کے موقع پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر صدر کے سی سی آئی محمد ریحان حنیف، سینئر نائب صدر محمد رضا، نائب صدر محمد عارف لاکھانی، فئیرز،ایگزیبیشن اینڈ ٹریڈ ڈیلیگیشن سب کمیٹی کے چیئرمین عمران معیز، پاکستان انڈونیشیا بزنس فورم کے صدر شمون ذکی اور کے سی سی آئی کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے اراکین بھی موجود تھے۔ڈاکٹر احمد نے اس بات پر زور دیا کہ دوطرفہ تجارتی تعاون کو مستحکم بنانے کا بنیادی مقصد طویل مدتی پائیداری کو یقینی بنانا ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ اس وقت انڈونیشیا کی پاکستان کے لیے برآمدات بہت زیادہ ہیں تاہم انہوں نے حالیہ صدارتی دورے کے دوران انڈونیشیائی قیادت کے اس عزم کو دہرایا کہ پاکستانی مصنوعات کی انڈونیشیا کی مارکیٹوں میں موجودگی یقینی بنائی جائے گی۔انہوں نے پائیدار تجارتی راہوں پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے عوامی روابط بڑھانے، ویلیو ایڈیشن، صنعتی سرمایہ کاری کے فروغ اور باہمی سرمایہ کاری کے بہاؤ کی حوصلہ افزائی کی اہمیت پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ یہ صرف پاکستان کی جانب سے انڈونیشیا میں سرمایہ کاری کا معاملہ نہیں بلکہ انڈونیشیا کے سرمایہ کاروں کو بھی پاکستان میں موجود مواقع تلاش کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ مشترکہ پیداواری منصوبے دونوں ممالک کے درمیان متوازن اور پائیدار تجارتی تعلقات قائم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔انہوں نے پاکستان اور انڈونیشیا کے درمیان کاروباری تعلقات کو فروغ دینے کے لیے کراچی چیمبر کی مسلسل کوششوں کو بھی سراہا اور خاص طور پر پاکستان انڈونیشیا بزنس فورم (پی آئی بی ایف) کے صدر شمعون ذکی کی خدمات کی تعریف کی جن کی کاوشوں سے دونوں ممالک کی تاجر برادری کے درمیان روابط کو مضبوط بنانے میںمدد ملی۔کراچی چیمبر کے صدر ریحان حنیف نے انڈونیشیاکے وفد کا پُرتباک خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور انڈونیشیا کے درمیان تعلقات صرف اقتصادی مفادات تک محدود نہیں بلکہ دونوں ممالک گہرے ثقافتی، مذہبی و تاریخی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ یہ تعلق باہمی احترام، تعاون اور دیرینہ دوستی کی بنیاد پر قائم ہے جو وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہوا ہے۔انہوں نے دوطرفہ تجارت میں اضافے کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ٹیکسٹائل، ملبوسات، خوردنی تیل، پام آئل، زرعی مصنوعات، دواسازی، حلال مصنوعات، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ڈیجیٹل سروسز اور سیاحت سمیت کئی شعبوں میں تعاون کے وسیع مواقع موجود ہیں۔دونوں ممالک کی تاجر برادری ان مواقعوں سے فائدہ اٹھا کر تجارتی حجم میں نمایاں اضافہ کر سکتی ہیں۔ ریحان حنیف نے انڈونیشیا کے سرمایہ کاروں کو پاکستان کے خصوصی اقتصادی زونز بالخصوص چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک) کے تحت قائم زونز میں سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کرنے کی ترغیب دی جہاں غیر ملکی سرمایہ کار پُرکشش مراعات سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے یقین دلایا کہ کراچی چیمبر مضبوط کاروباری روابط کے قیام اور انڈونیشیا کی کمپنیوں کو پاکستانی مارکیٹ تک رسائی میں ہر ممکن تعاون فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔انہوں نے اِن کوششوں کو ادارہ جاتی شکل دینے کے لیے کراچی اور جکارتہ کے درمیان تجارتی وفود کے باقاعدہ تبادلے، بی ٹو بی میٹنگز، ٹریڈ فیئرز اور نمائشوں میں بڑھتی ہوئی شرکت، سنگل کنٹری نمائشوں کے انعقاد اور متعلقہ شعبوں کی کمپنیوں کے درمیان خصوصی میچ میکنگ سیشنز کی تجویز پیش کی۔انہوں نے مزید کہا کہ ترجیحی تجارتی معاہدے (پی ٹی اے) کے دائرہ کار کو بڑھانے اور ٹیرف و نان ٹیرف رکاوٹوں کو منظم انداز میں حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تجارت کا بہاؤ زیادہ ہموار اور مؤثر بنایا جا سکے۔انہوں نے کے سی سی آئی کی مقبول ترین ’’مائی کراچی‘‘ نمائش میں انڈونیشیا کی مسلسل شرکت پر اظہارِ تشکر کرتے ہوئے انڈونیشیا کی کمپنیوں کو فروری 2026 میں ہونے والی اگلی نمائش میں شرکت کی باضابطہ دعوت دی اور کہاکہ انڈونیشیا کی موجودگی ہمیشہ اس نمائش کو مزید مؤثر بناتی ہے اور دونوں ممالک کے تجارتی و ثقافتی تعلقات کو مضبوط کرتی ہے۔