مجلس وحدت مسلمین کے سیاسی کردار نے قوم کا سر فخر سے بلند کیا ہے، اسد نقوی
اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT
لاہور میں صوبائی و ضلعی مسئولین کے اجلاس سے خطاب میں مرکزی سیکرٹری سیاسیات کا کہنا تھا کہ کا کہنا تھا کہ مجلس وحدت جہاں مذہبی حلقوں میں اپنا اثرو رسوخ رکھتی ہے، وہیں ناصر ملت علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی دور اندیش قیادت میں مجلس کو پاکستان کی سیاست میں بھی اہم مقام حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین اسی طرح اپنا سیاسی کردار ادا کرتی رہے گی، اس کیلئے نچلی سطح تک اپنی رابطہ مہم تیز کرنا ہو گی۔ اسلام ٹائمز۔ صوبائی سیکرٹریٹ مجلس وحدت مسلمین پنجاب میں مرکزی سیکرٹری سیاسیات سید اسد عباس نقوی کی زیرصدارت صوبائی اور ضلعی مسئولین کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں مجلس علماء مکتب اہل بیت (ع) کے علامہ سید امتیاز حسین کاظمی، صوبائی صدر مجلس وحدت مسلمین پنجاب علامہ سید علی اکبر کاظمی، صوبائی سیکرٹری سیاسیات سید حسین زیدی، صوبائی سیکرٹری فلاح و بہبود شیخ عمران علی، صوبائی سیکرٹری مالیات سید فصاحت علی بخاری، صوبائی سیکرٹری اطلاعات و نشریات(میڈیا) ضلعی صدر نجم عباس خان، ضلعی جنرل سیکرٹری نقی مھدی، ضلعی ڈپٹی جنرل سیکرٹری ضلع لاہور، ڈویژنل صدر وحدت یوتھ ونگ لاہور ڈویژن نقی حیدر، ڈویژنل جنرل سیکرٹری وحدت یوتھ ونگ لاہور ڈویژن شعیب اور عقیل موجود تھے۔
اجلاس میں کئی اہم تنظیمی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ لاہور اور پنجاب بھر میں روابط بڑھانے، تنظیمی سرگرمیوں اور فعالیت پر فوکس کیا گیا۔ صوبائی، ضلع اور وحدت یوتھ ونگز کے مسئولین نے اپنے اپنے شعبوں کی کارکردگی پر مرکزی سیکرٹری سیاسیات کو بریفنگ دی۔ مرکزی سیکرٹری سیاسیات مجلس وحدت مسلمین پاکستان سید اسد عباس نقوی نے صوبائی اور ضلعی ونگز کے مسئولین کی کاوشوں کو سراہا۔ تنظیمی صورتحال اور فعالیت کے بارے خصوصی ہدایات بھی جاری کرتے ہوئے سید اسد عباس نقوی کا کہنا تھا کہ مجلس وحدت جہاں مذہبی حلقوں میں اپنا اثرو رسوخ رکھتی ہے، وہیں ناصر ملت علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی دور اندیش قیادت میں مجلس کو پاکستان کی سیاست میں بھی اہم مقام حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین اسی طرح اپنا سیاسی کردار ادا کرتی رہے گی، اس کیلئے نچلی سطح تک اپنی رابطہ مہم تیز کرنا ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت کے سیاسی کردار نے بہت سے نام نہاد قائدین کی نیندیں حرام کر دی ہیں، ہم اسی طرح ملت کی خدمت کرتے رہیں گے۔ انہوں ںے کہا کہ مجلس کے سیاسی کردار نے قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: صوبائی سیکرٹری کہ مجلس وحدت سیاسی کردار کہا کہ مجلس
پڑھیں:
بلوچستان کا بحران اور نواز شریف
بلوچستان کے حالات میں بہتر تبدیلی لانے کے لیے غیر معمولی اقدامات درکار ہیں ۔ حکمت عملی کا تقاضا یہ ہونا چاہیے کہ طاقت کے ساتھ ساتھ سیاسی حکمت عملی کا بھی بھرپور استعمال کیا جائے۔ بلوچستان کے حالات اسی صورت میں بہتر ہوں گے جب ہم سیاسی حکمت عملی کو بالادستی دیں گے ، یہ ہی حکمت عملی ریاستی رٹ کو بھی مضبوط بنانے میں معاون ثابت ہوگی۔
پچھلے دنوں سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک کی اس تناظرمیں ہونے والی ملاقات ایک اہم پیش رفت سمجھی جا سکتی ہے۔بہت سے سیاسی افراد اور اہل دانش نے یہ تجویز دی تھی کہ اگر نواز شریف آگے بڑھیں اور اپنا کردار ادا کریں تو حالات میں بہتری کی گنجائش پیدا ہو سکتی ہے۔خود نواز شریف نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ بلوچستان کے حالات کی بہتری میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف ایک بڑی سیاسی شخصیت ہیں اور ان کو بلوچستان میں احترام کے طور پر دیکھا بھی جاتا ہے۔
بلوچستان کے حالات میں خرابیاں چند دنوں یا ہفتوں میں نہیں ہوئی ہیں بلکہ یہ برسوں کی کہانی ہے۔ بلوچستان کے حالات کی بہتری میں جو بڑا کردار بڑی سیاسی جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ ن،پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کو ادا کرنا چاہیے تھا ، اس کا فقدان دیکھنے کو ملا ہے۔اس وقت بھی بلوچستان میں دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی و مسلم لیگ ن کی مشترکہ حکومت ہے ۔اس مشترکہ حکومت کا بھی کوئی بڑا کردار ہمیں حالات کی بہتری میں دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے۔
موجودہ حالات میں صوبائی حکومت کا کردار محدود نظر آتا ہے۔اصل میں بلوچستان میں موجود سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادتیں موجودہ حالات میں پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں سے بھی مایوس نظر آتی ہیں۔ان کے بقول بلوچستان کے حالات کی خرابی میں جہاں دیگر عوامل موجود ہیں وہیں بڑی سیاسی جماعتوں کا صوبے کے حوالے سے لاتعلقی کا پہلو بھی ہے۔
بلوچستان کی قوم پرست سیاسی جماعتیں یہ بھی سمجھتی ہیں کہ بلوچستان کے صوبے میں حقیقی سیاسی لوگوں کی بجائے نمائشی سیاسی لوگوں کی بالادستی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں نے بلوچستان کے حالات کی درستگی میں کب عملی اقدامات اٹھائے ہیں اور ان کوعملی اقدامات کرنے سے کب روکا گیا ہے۔اصل میں ہماری بڑی سیاسی جماعتوں نے خود سے بھی بلوچستان کے حالات میں کچھ بھی نہ کرنے کی پالیسی اختیار کر لی ہے اور اس کا عملی نتیجہ بلوچستان کے حالات کی خرابی کی صورت میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔
پاکستان میں جو پاپولر سیاست ہو رہی ہے، اس میں نواز شریف سرگرم نظر نہیں آرہے۔ قومی سیاست ایک طرف وہ مسلم لیگ ن ہی نہیں بلکہ پارلیمانی سیاست میں بھی کوئی دلچسپی نہیں لے رہے اور نہ ہی وہ پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں۔اسی طرح پارٹی کے اجلاس ہوں یا پارلیمانی میٹنگز میں بھی ان کی غیر حاضری واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔مسلم لیگ ن کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے اہم افراد اور دانش وروں و تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نواز شریف موجودہ حالات سے مطمئین نظر نہیں آتے ہیں۔
اسی بنیاد پر جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ نواز شریف بلوچستان میں کوئی بڑا مفاہمانہ کردار ادا کرسکیں گے اس پر بہت سے سوالیہ نشان موجود ہیں۔ نواز شریف 8فروری کے انتخابات کے بعد بڑے بہت زیادہ فعالیت یا متحرک ہونے کی بجائے بیک ڈور بیٹھ کرخاموشی کے کردار کو ہی اپنے لیے بہتر سمجھتے ہیں تاکہ وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت کو کسی بڑی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اس وقت وزیراعظم میاں شہباز شریف بھی بلوچستان کے حالات کی بہتری میں کوئی بڑا بریک تھرو نہیں کراسکے ہیں۔جس انداز سے قومی سیاست میں سیاست دانوں،سیاسی جماعتوں سمیت سیاست وجمہوریت کی جگہ محدود ہوئی ہے وہاں ایک بڑے مجموعی سیاسی کردار کی جنگ بھی محدود ہی نظر آتی ہے۔ماضی میں نواز شریف کئی بار بلوچستان کے حالات کی بہتری میں اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں اور اسی تناظر میں سابق وزیر اعلی ڈاکٹر عبدالمالک نے نواز شریف سے ملاقات بھی کی ہے۔
اگر ان تمام تر حالات کے باوجود نواز شریف خود سے آگے بڑھ کر بلوچستان کے حالات کی درستگی میں عملی طور پر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اس کی یقیناً سیاسی قدر کی جانی چاہیے۔اسی طرح یہ سوال بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے کیا نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کی مرضی اور منشا کے بغیر بلوچستان کے حالات میں کوئی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں یا ان کو اس تناظر میں اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہوگی۔
کیونکہ مسلم لیگ ن اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر آگے بڑھ سکے ۔بلوچستان کی بیشتر قوم پرست سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت بلوچستان کے تناظر میں اسٹیبلشمنٹ کی سیاست پر تحفظات رکھتی ہیں۔ایسے میں نواز شریف کیا اسٹیبلشمنٹ اور بلوچستان کے قوم پرستوں کے درمیان غلط فہمیوں پر ایک بڑے پل کا کردار ادا کر سکیں گے۔ان حالات میںجب بلوچستان کی سنگینی کافی حساس نوعیت کی ہے تو نواز شریف نے بلوچستان جانے کی بجائے اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ بیلا روس اور لندن کے دورے پر جانے کو ترجیح دی اور اب وہ اپنے علاج کے سلسلے میں لندن میں موجود ہیں۔اس دورے سے ان کی ترجیحات کو سمجھا جاسکتا ہے۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس وقت بلوچستان میں شرپسندوں کے خلاف طاقت کی حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اگر یہ درست ہے تو پھر سیاسی آپشن واقعی محدود ہو جاتے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ نواز شریف کے بھی سیاسی آپشن محدود ہیں ۔ بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے تمام سیاسی جماعتوں ،سیاسی قیادت اور اسٹیبلیشمنٹ کو مل کر سیاسی اور انتظامی حکمت عملی اختیارکرنا ہوگی تاکہ اس بحران کا حقیقی اور پائیدار حل سامنے آسکے۔بلوچستان کے مسائل کا بہتر حل قومی سیاست اور ایک بڑے سیاسی،معاشی اور سیکیورٹی استحکام کے ساتھ ہی جڑا ہوا ہے ۔
اس لیے ایک ایسے موقع پر جب خارجی یا علاقائی ممالک بالخصوص بھارت اور افغانستان کی مداخلت موجود ہے توایسے میں ہمیں داخلی سطح کے مسائل کا حل تلاش کرکے ایک بڑے سیاسی اتفاق رائے کو پیدا کرنا ہوگا اور اسی حکمت عملی کی بنیاد پر سیاسی حل تلاش کرکے ہمیں بلوچستان کا حل تلاش کرنا ہے۔