UrduPoint:
2025-04-22@06:04:41 GMT

اسپین میں سیاحوں کی آمد کا نیا سالانہ ریکارڈ، چورانوے ملین

اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT

اسپین میں سیاحوں کی آمد کا نیا سالانہ ریکارڈ، چورانوے ملین

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 فروری 2025ء) ہسپانوی دارالحکومت میڈرڈ سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق دنیا بھر سے ہر سال جنوبی یورپ کی گرم دھوپ، ریتلے ساحلوں اور ہسپانوی ثقافت کی بہت متنوع کشش کے سبب جو کروڑوں سیاح جزیرہ نما آئبیریا کی بادشاہت اسپین کا رخ کرتے ہیں، 2024ء میں ان کی کل تعداد تقریباﹰ 94 ملین رہی، جو ایک نیا ریکارڈ ہے۔

اسپین ایک ایسا ملک ہے، جو اپنے ہاں سیاحت کے لیے آنے والے غیر ملکیوں کی تعداد کے لحاظ سے پوری دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔

خشک سالی سے ہسپانوی سیاحتی صنعت متاثر

اسپین کی معیشت میں اس جنوبی یورپی ملک کو سیاحت سے ہونے والی آمدنی کا حصہ تقریباﹰ 13 فیصد بنتا ہے، وہ بھی ایسے حالات میں کہ جب یورپی یونین کے یورو زون میں شامل دیگر ریاستوں کو اپنی اپنی قومی معیشتوں میں سرد بازاری یا مجموعی قومی پیداوار میں انتہائی معمولی اضافے کا سامنا ہے۔

(جاری ہے)

اسپین میں بہت بڑی تعداد میں سیاحوں کی آمد پر منفی ردعمل بھی

سیاحت اسپین کے لیے صرف بہت زیادہ آمدنی کی وجہ ہی نہیں ہے بلکہ اسی شعبے کے سبب عوامی سطح پر یہ احساس بھی اب پہلے کے مقابلے میں زیادہ شدید ہو چکا ہے کہ 'حد سے زیادہ سیاحت‘ کے اس ملک کی معیشت اور سماجی زندگی پر منفی اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں۔

ان منفی سماجی اور اقتصادی اثرات میں سے نمایاں ترین یہ ہے کہ اسپین کو گزشتہ کافی عرصے سے ہاؤسنگ کے شعبے میں ایک ایسے بحران کا سامنا بھی ہے، جو اب تک کی تمام تر حکومتی کوششوں کے باوجود ختم نہیں ہو سکا۔

کیا موسمیاتی تبدیلیاں جنوبی یورپ میں سیاحت کو متاثر کر رہی ہیں؟

ملکی وزارت سیاحت کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق اسپین میں سیاحتی شعبے کا انحصار اب زیادہ تر صرف چھٹیوں کے روایتی سیزن پر نہیں رہا۔ اس کے بجائے اب بین الاقوامی سیاح کسی بھی سیزن کے وسط میں یا بالکل غیر مصروف دنوں میں بھی بڑی تعداد میں اسپین جاتے ہیں۔

وزیر سیاحت کے جاری کردہ اعداد و شمار

ہسپانوی وزیر صنعت و سیاحت یوردی ایرےاُو (Jordi Hereu) نے میڈرڈ میں صحافیوں کو بتایا کہ حکام کے تخمینوں کے مطابق 2024ء میں اسپین آنے والے سیاحوں کی مجموعی تعداد تقریباﹰ 94 ملین رہی، جو 2023ء کے مقابلے میں 10 فیصد زیادہ بنتی ہے۔

مزید یہ کہ اسپین اس شعبے میں ''قومی سطح پر نئے سے نئے ریکارڈ بناتا جا رہا ہے۔‘‘

گزشتہ برس اسپین جانے والے سیاحوں نے وہاں مجموعی طور پر تقریباﹰ 126 بلین یورو (130 بلین ڈالر کے برابر) رقوم خرچ کیں، جن کی مالیت 2023ء کے مقابلے میں 16 فیصد زیادہ رہی۔

سمندری راستے سے اسپین پہنچنے کی کوشش میں 10 ہزار سے زائد ہلاکتیں

ہسپانوی سیاحتی شعبے کی نمائندہ ملکی تنظیم Mesa del Turismo کی گزشتہ ماہ جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال جن تین ممالک سے سب سے بڑی تعداد میں سیاح اسپین کا رخ کرتے ہیں، وہ تینوں وسطی یورپی ممالک ہیں اور ان کے نام برطانیہ، فرانس اور جرمنی ہیں۔

اسپین یورپی یونین کی چوتھی سب سے بڑی معیشت

اسپین کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ یہ ملکیورپی یونین کی چوتھی سب سے بڑی معیشت ہے۔ لیکن پرتگال اور یونان جیسے اپنے جنوبی یورپی ہمسایہ ممالک کی طرح اسپین کو بھی ماضی قریب میں بہت تکلیف دہ مالیاتی بچتی اقدامات کرنا پڑے تھے۔

ہزاروں تارکین وطن کی تیر کر مراکش سے اسپین پہنچنے کی کوشش

2010ء کی دہائی کے شروع میں یہ تینوں ممالک ریاستی قرضوں کے لحاظ سے انتہائی حد تک مقروض تھے۔

یہ مالی مشکلات کئی سال تک جاری رہیں۔ پھر کورونا وائرس کی عالمی وبا کے خاتمے کے بعد جب سیاحتی شعبہ پوری طرح بحال ہوا، تو اسی شعبے کی کامیابی کے باعث ہسپانوی معیشت کو دوبارہ سنبھالا ملا تھا۔

جرمنی: سب سے زیادہ پھل اور سبزیاں اسپین سے درآمد

اب صورت حال یہ ہے کہ ملک کے مرکزی مالیاتی ادارے بینک آف اسپین کے مطابق 2024ء کے لیے حتمی اقتصادی شرح نمو 3.

1 فیصد رہے گی۔ اس کے مقابلے میں یورپی مرکزی بینک ای سی بی نے گزشتہ برس کے دوران پورے یورو زون کے لیے اقتصادی ترقی کی حتمی شرح صرف 0.8 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔

م م / ع ا (اے ایف پی، روئٹرز)

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے مقابلے میں کے مطابق کے لیے

پڑھیں:

مغربی سامراجی قوتوں نے تاریخ کو کیسے مسخ کیا؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 اپریل 2025ء) اس کی ایک واضح مثال 1861ء سے 1865ء تک جاری رہنے والی امریکی خانہ جنگی ہے۔ مورخین اس کے اسباب پر منقسم ہیں۔ ایک گروہ کا ماننا ہے کہ یہ جنگ غلامی کے خاتمے کے لیے لڑی گئی، جبکہ دوسرا گروہ اسے یونین کے تحفظ سے جوڑتا ہے۔ تیسرے گروہ کی رائے ہے کہ شمالی ریاستیں، جو صنعتی ترقی کی راہ پر تھیں، جنوبی ریاستوں کے زرعی کلچر اور غلامی پر مبنی معیشت کو ختم کرنا چاہتی تھیں۔

جنوبی ریاستوں کے بڑے زمیندار، جن کی دولت غلاموں کی محنت سے حاصل شدہ زرعی پیداوار پر منحصر تھی، غلامی کو جائز قرار دیتے تھے۔ وہ دعویٰ کرتے تھے کہ افریقی غلاموں کو ان کے ''پسماندہ معاشروں‘‘ سے نکال کر امریکہ میں آباد کیا گیا، جہاں انہیں عیسائیت قبول کروا کر ''نجات اور معاشی استحکام‘‘ دیا گیا۔

(جاری ہے)

جب کوئی تاریخی واقعہ متنازع ہو جاتا ہے، تو ہر گروہ اپنے موقف کے دفاع کے لیے نئے تاریخی مآخذ تلاش کرتا ہے یا موجودہ مآخذ کی نئی تشریحات پیش کرتا ہے۔

اس عمل سے تاریخ کا دائرہ کار وسیع ہوتا ہے اور نئے خیالات اسے تازگی عطا کرتے ہیں۔ تاہم یہ عمل تاریخ کو مسخ کرنے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

یورپی سامراجی ممالک نے اپنی نوآبادیاتی تاریخ کو بہت حد تک مسخ کیا ہے۔ انہوں نے مقامی باشندوں کا استحصال کیا، ان کا قتل عام کیا اور ان کی دولت لوٹ لی لیکن ان مظالم کا تذکرہ ان کی تاریخی کتابوں میں شاذ و نادر ہی ملتا ہے۔

اس کے برعکس، وہ اپنی نوآبادیاتی تاریخ کو فخر کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے ایشیا اور افریقہ کی ''پسماندگی‘‘ کو ختم کر کے انہیں ''مہذب‘‘ بنایا۔

اسی طرح، جن یورپی ممالک نے غلاموں کی تجارت کی، انہوں نے افریقہ سے غلاموں کو جہازوں میں بھر کر امریکہ کی منڈیوں میں فروخت کیا اور کریبین جزائر میں ان سے شکر اور کافی کی پیداوار کروائی۔

ان مظالم کی تفصیلات ان کی تاریخ سے غائب ہیں۔

تاریخ کا ارتقاء کیسے ہوتا ہے؟

وہ فخر سے بتاتے ہیں کہ 1830ء کی دہائی میں برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک نے غلامی کا خاتمہ کیا اور وہ اسے اپنی مذہبی و اخلاقی اقدار کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ لیکن یہ دعویٰ حقیقت سے دور ہے۔ غلامی کا خاتمہ مذہبی یا اخلاقی وجوہات کی بجائے تکنیکی ترقی کی وجہ سے ہوا۔

جب مشینوں نے غلاموں کی محنت سے زیادہ پیداوار دینا شروع کی تو غلام معاشی بوجھ بن گئے۔ نتیجتاً، انہیں آزاد کیا گیا لیکن آزادی کی قیمت بھی غلاموں سے ہی وصول کی گئی۔ مالکان نے دعویٰ کیا کہ غلام ان کی ملکیت ہیں، اس لیے انہیں آزادی کے بدلے چار سے پانچ سال تک بغیر معاوضے کے کام کرنا پڑا۔ یورپی ممالک نے غلاموں کی نسلوں سے لی گئی محنت کا کوئی معاوضہ ادا کرنے پر غور نہیں کیا اور غلامی کے کاروبار کو جرم قرار دینے سے گریز کیا۔

یورپی سامراج نے اپنی غربت کم کرنے کے لیے افریقہ میں کالونیاں قائم کیں۔ سیسل روڈز (وفات: 1902ء) نے موجودہ زمبابوے اور جنوبی افریقہ میں مقامی لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کر کے برطانوی غریبوں کو آباد کیا۔ جرمنی نے نمیبیا اور ہرارے میں نابا قبائل کو ختم کر کے جرمن آباد کاروں کو بسایا۔ اس طرح، یورپی ممالک نے ''اپنی غربت ختم کر کے افریقیوں کو غریب‘‘ بنا دیا لیکن ان کی تاریخ ان جرائم پر خاموش ہے۔

تاریخ کو مسخ کرنے کا عمل قوم پرستی اور وطن پرستی کے نام پر بھی کیا گیا۔ 1937ء میں جاپان نے چین پر حملہ کیا اور نانجِنگ سمیت کئی شہروں میں لوٹ مار اور قتل عام کیا۔ نانجِنگ میں شہریوں کا قتل، خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی اور منچوریہ میں آبادی کا خاتمہ جاپانی بربریت کی واضح مثالیں ہیں۔

عالمگیر تاریخ

جاپان نے فلپائن اور کوریا میں بھی یہی مظالم دہرائے، جہاں کوریائی خواتین کو ''کمفرٹ ویمن‘‘ کے نام سے جنسی غلامی کا نشانہ بنایا گیا۔

لیکن دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپانی مورخین نے قوم پرستی کے نام پر ان مظالم کو نظرانداز کیا۔ نانجنگ کے قتل عام کو تاریخی طور پر تسلیم نہیں کیا گیا، حالانکہ تصاویر اور شواہد موجود ہیں، جن میں شہریوں کی لاشیں سڑکوں پر بکھری نظر آتی ہیں۔

کچھ جاپانی فوجیوں نے فخریہ طور پر اپنی ڈائریوں میں لکھا کہ انہوں نے شہریوں کو قطار میں کھڑا کر کے یہ دیکھا کہ ایک گولی سے کتنے لوگ ہلاک ہو سکتے ہیں۔

ایسی تفصیلات جاپانی تاریخ سے غائب ہیں۔

جاپان نے اپنی نئی نسل کو تاریخی حقائق کے بجائے قومی عظمت کی داستانیں سنائیں اور مظالم کو قومی مفاد کے نام پر چھپایا۔ یورپی سامراجی ممالک نے بھی اپنی کالونیوں کی آزادی کے وقت تاریخی دستاویزات کو یا تو جلا دیا یا اپنے ممالک میں منتقل کر دیا۔ آزادی کے بعد لکھی گئی تاریخ میں ایشیا اور افریقہ کی سامراجی مزاحمت کو نظر انداز کیا گیا اور حقائق کو مسخ کر کے پیش کیا گیا۔

مسخ شدہ تاریخ کو درست کرنا اس لیے مشکل ہے کہ متعلقہ دستاویزات یا تو موجود نہیں یا یورپی ممالک کے قبضے میں ہیں، جہاں تک ایشیا اور افریقہ کے ممالک کی رسائی نہیں۔ بدقسمتی سے ایشیا اور افریقہ کے ان ممالک میں، جہاں آمرانہ حکومتیں رہی ہیں، وہاں بھی تاریخ کو مسخ کیا گیا۔ آمروں نے اپنے ظلم و ستم کو قوم پرستی کے نام پر چھپایا اور مورخین نے ان واقعات کو مکمل طور پر بیان کرنے سے گریز کیا۔

جب تاریخ کو مسخ کر کے نصابی کتب میں شامل کیا جاتا ہے، تو نوجوان نسل تاریخی شعور سے محروم ہو جاتی ہے۔ وہ ماضی سے سبق سیکھنے کے بجائے گمراہی کا شکار ہوتی ہے۔ تاریخ کو درست کرنے کی ذمہ داری مورخین اور معاشروں پر عائد ہوتی ہے تاکہ آنے والی نسلیں حقائق سے آگاہ ہو سکیں اور ماضی کے تجربات سے سیکھ سکیں۔

ادارت: امتیاز احمد

متعلقہ مضامین

  • ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کیس: عمران خان اور بشریٰ بی بی کی اپیلوں پر بڑی پیش رفت
  • جے یو آئی بلوچستان کا فلسطین کے حق میں ملین مارچ نکالنے کا اعلان
  • پختونخوا میں دینی مدارس کی گرانٹ 30 ملین سے بڑھا کر 100 ملین کر دی گئی
  • کوہلی نے زیادہ آئی پی ایل ففٹیز کے ریکارڈ میں وارنر کو پیچھے چھوڑدیا
  • کراچی میں آج درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ، تین دن ہیٹ ویو رہے گا، محکمہ موسمیات
  • باکو-لاہور پی آئی اے کی براہ راست پروازوں سے سیاحت کو فروغ دیا جاسکے گا، وزیراعظم
  • باکو-لاہور پی آئی اے کی براہ راست پروازوں سے سیاحت کو فروغ دیا جاسکے گا، وزیراعظم
  • مغربی سامراجی قوتوں نے تاریخ کو کیسے مسخ کیا؟
  • پاکستان کے مختلف شہروں میں سیمنٹ کی قیمتوں میں ملا جلا رجحان
  • دارارقم سکولز خیابان قائد کی سالانہ تقریب تقسیم انعامات کا منصورہ آڈیٹوریم میں انعقاد