Express News:
2025-04-22@11:09:11 GMT

’’شادی کے بعد اپنی بیوی کو چھپا تو نہیں سکتے‘‘، رجب بٹ

اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT

پاکستانی یوٹیوبر اور سوشل میڈیا انفلوئنسر رجب بٹ ’’فیملی ولاگنگ‘‘ اور اپنے ساتھی ڈکی بھائی کی حمایت میں ایک ’’نامناسب‘‘ بات کہہ کر خود سوشل میڈیا صارفین کی تنقید کا نشانہ بن گئے ہیں۔

رجب بٹ نے ڈکی بھائی کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’شادی کے بعد اپنی بیوی کو چھپا تو نہیں سکتے‘‘۔ رجب کے اس بیان پر سوشل میڈیا پر تنقید کی جارہی ہے۔

رجب بٹ نجی چینل پر ایک ٹاک شو میں شریک تھے جہاں انھوں نے اپنی نمود و نمائش والی مہنگی شادی اور فیملی بلاگنگ پر ہونے والی تنقید کے حوالے سے کھل کر گفتگو کی۔

رجب بٹ اپنے فیملی ولاگز کےلیے مشہور ہیں اور ان کے یوٹیوب چینل پر 5.

64 ملین سبسکرائبرز ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ہی ہونے والی ان کی شادی پر سوشل میڈیا پر شدید تنقید کی گئی تھی، کیونکہ اس شادی کی مہنگی تقریبات، بے تحاشا خرچے اور مہمانوں کے قیمتی تحائف کو صارفین نے نمودونمائش قرار دیا تھا۔

رجب بٹ نے فیملی بلاگنگ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کو ڈکی بھائی کی مثال دے سکتا ہوں۔ انھوں نے گیمنگ اور روسٹنگ کی جس میں وہ گالم گلوچ کرتے تھے تو یہ لوگوں کو اچھا نہیں لگا، اس لیے انھوں نے اسے چھوڑ دیا۔

جب ڈکی بھائی نے اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ روزانہ فیملی بلاگنگ شروع کی تو انھیں کامیابی ملی۔ لیکن شادی کے بعد وہ کیا کرسکتے ہیں؟ وہ اپنی بیوی کو چھپا تو نہیں سکتے، جو ان کے ساتھ ہے۔ لوگ ان سے نفرت کریں گے چاہے کچھ بھی ہو کیوں کہ وہ اعلیٰ ڈیجیٹل تخلیق کاروں میں سے نہیں ہے۔

رجب نے مزید کہا کہ جب ایک امیر آدمی کا سی اے پاس بے روزگار بیٹا ایک غریب آدمی کے سی اے فیل بیٹے کو لینڈ کروزر چلاتے ہوئے دیکھے گا تو اسے دکھ ہوگا، اور وہ اس پر تنقید کرے گا۔

نہوں نے کہا کہ اسی طرح، میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا جب میں اعلیٰ درجے کے بلاگرز کی دوڑ میں شامل ہوا تو مجھ پر تنقید شروع ہوگئی۔ شادی سے پہلے میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ ویڈیوز کیں تو لوگ اسے بہت پسند کر رہے تھے۔ شادی کے بعد میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ ویڈیوز پوسٹ کیں کیونکہ میں نے اپنا زیادہ وقت دوستوں کے ساتھ گزارا تھا تو تنقید ہوئی کہ میں اپنی بیوی کو وقت نہیں دیتا۔ یہاں تک کہ اگر میں اپنی بیوی کو کسی بھی بلاگ میں دکھاتا ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ اپنی بیوی کو دکھا کر فالوورز حاصل کررہا ہے۔ اب ہم کیا کرسکتے ہیں۔

رجب نے اپنی شادی پر بے جا نمودونمائش اور اسراف پر کی جانے والی تنقید پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ایک عام شادی کی۔ میری شادی کے چند فنکشنز تھے جن میں مایوں، مہندی، بارات اور ولیمہ کے فنکشنز شامل تھے۔ لیکن اگر میرے دوستوں نے میری شادی پر پیسے خرچ کرکے خوشی منانے کی خواہش پوری کی تو میں انہیں روک نہیں سکتا تھا، کیونکہ میری شادی کو لے کر ان کے بہت ارمان تھے۔

رجب بٹ نے مزید کہا کہ میں وہ نہیں تھا جو خود پر پیسے پھینک رہا تھا۔ میں کیا کرسکتا تھا؟ میں اپنے دوستوں کوروک نہیں سکتا تھا۔

یہ خبر بھی پڑھیں: حرا مانی کی رجب بٹ سے انوکھی اپیل، رجب نے بڑا تحفہ دینے کا اعلان کردیا

انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں نے اس مقام کو حاصل کرنے کےلیے شب وروز محنت کی ہے۔ میں نے بھی صفر سے شروعات کی تھی اور آج بھی اپنی صحت اور وقت کی پروا کیے بغیر محنت کررہا ہوں۔ آخر ہمارے کام پر تنقید کرنے کے بجائے حوصلہ افزائی کیوں نہیں کی جاتی ہے جو زیادہ بہتر ہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: شادی کے بعد سوشل میڈیا کہا کہ میں کے ساتھ

پڑھیں:

سوشل میڈیا کی ڈگڈگی

تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز چاہے وہ فیس بک کے جلوے ہوں یا انسٹا گرام اور تھریڈزکی شوخیاں، X نامی عجب نگری ہو یا ٹک ٹاک کی رنگینیاں، ایک نقلی دنیا کے بے سروپا تماشوں کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ میں نے اپنے اردگرد کے لوگوں کو اکثر یہ کہتے سنا ہے، ’’ دنیا بدل گئی ہے‘‘ جب کہ ذاتی طور پر مجھے ایسا لگتا ہے کہ دنیا کبھی بدل نہیں سکتی ہے۔

دنیا ویسی ہی ہے، زمین، آسمان، سورج، چاند، ندی، دریا، سمندر، پہاڑ، پیڑ، پودوں اور قدرت کے کرشموں سے لیس انسانوں اور جانوروں کے رہائش کی وسیع و عریض پیمانے پر پھیلی جگہ جو صدیوں پہلے بھی ایسی تھی اور آیندہ بھی یوں ہی موجود رہے گی۔

البتہ دنیا والے ہر تھوڑے عرصے بعد اپنی پسند و ناپسند اور عادات و اطوار سمیت تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور اُن کی یہ تبدیلی اس قدر جادوئی ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذات سے جُڑی ماضی کی ہر بات سرے سے فراموش کر بیٹھتے ہیں۔

تبدیلی کے اصول پر عمل پیرا ہوتے ہوئے، اس دنیا کے باسی صرف گزری، بیتی باتیں نہیں بھولتے بلکہ وہ سر تا پیر ایک نئے انسان کا روپ دھار لیتے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟

جس کا سیدھا سادہ جواب ہے کہ انسان بے چین طبیعت کا مالک ہے، وہ بہت جلد ایک جیسے ماحول، حالات اور واقعات سے بیزار ہو جاتا ہے۔ ہر نئے دورکا انسان پچھلے والوں سے مختلف ہوتا ہے جس کی مناسبت سے اُن کو نت نئے نام دیے جاتے ہیں، جن میں سے چند ایک کچھ یوں ہیں،

 Millennials, G i generation, Lost generation, Greatest generation, Generation Alpha, Silent generation,

Generation Z

یہ سب نام انسان کی ارتقاء کی مناسبت سے اُس کی نسل کو عنایت کیے گئے ہیں، جب ہر دورکا انسان دوسرے والوں سے قدرے مختلف ہے تو اُن کی تفریح کے ذرائع پھر کس طرح یکساں ہوسکتے ہیں۔تاریخِ انسانی کے اوائل میں مخلوقِ بشر داستان گو سے دیو مالائی کہانیاں سُن کر اپنے تصور میں ایک افسانوی جہاں تشکیل دے کر لطف اندوز ہوتی تھی، وہ دنیاوی مسائل سے وقتی طور پر پیچھا چھڑانے کے لیے انھی داستانوں اور تصوراتی ہیولوں کا سہارا لیتی تھی۔

چونکہ انسان اپنی ہر شے سے چاہے وہ فانی ہو یا لافانی بہت جلد اُکتا جاتا ہے لٰہذا جب کہانیاں سُن سُن کر اُس کا دل اوب گیا تو وہ خود افسانے گھڑنے لگا اور اُسے اس کام میں بھی خوب مزا آیا۔ دراصل داستان گوئی کا جو نشہ ہے، ویسا خمارکہانی سننے میں کہاں میسر آتا ہے مگر انسان کی بے چین طبیعت نے اس شوق سے بھی زیادہ عرصے تک اُس کا جی بہلنے نہ دیا اور بہت جلد وہ داستان گوئی سے بھی بیزار ہوگیا پھر وجود میں آئے انٹرنیٹ چیٹ رومز جہاں بِن دیکھے لوگ دوست بننے لگے، جن کی بدولت’’ ڈیجیٹل فرینڈ شپ‘‘ کی اصطلاح کا جنم ہوا اور اس طرح تفریح، مزاح، لطف کی تعریف ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل گئی۔

زمانہ حال کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ماضی کے اُنھی انٹرنیٹ چیٹ رومز کی جدید شکل ہیں، ان بھانت بھانت کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے آج پوری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا ہوا ہے اور تقریباً ہر عمر و طبقے کا انسان اپنی زندگی کا بیشمار قیمتی وقت ان پر کثرت سے ضایع کر رہا ہے۔ پہلے پہل انسان نے تفریح حاصل کرنے کی نیت سے داستان سُنی پھر افسانے کہے اور اب خود جیتی جاگتی کہانی بن کر ہر روز سوشل میڈیا پر جلوہ افروز ہوتا ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ اس خود ساختہ کہانی کا مرکزی کردار وہ خود ہی ہوتا ہے، جو انتہائی مظلوم ہوتا ہے اور کہانی کا ولن ٹھہرتا ہے ہمارا سماج۔

دورِ حاضر کا انسان عقل و شعور کے حوالے سے بَلا کا تیز ہے ساتھ کم وقت میں کامیابی حاصل کرنے میں اُس کا کوئی ثانی نہیں ہے مگر طبیعتاً وہ بہت خود ترس واقع ہوا ہے۔ سوشل میڈیا کی آمد نے جہاں انسان کو افسانوی دنیا کی کھڑکی فراہم کی ہے وہیں اُسے انگنت محرومیوں کا تحفہ بھی عنایت فرمایا ہے۔

زمانہ حال کا انسان سوشل میڈیا پر دکھنے والی دوسرے انسانوں کی خوشحال اور پُر آسائش زندگیوں سے یہ سوچے بغیر متاثر ہو جاتا ہے کہ جو دکھایا جا رہا ہے وہ سچ ہے یا کوئی فرد اپنی حسرتوں کو وقتی راحت کا لبادہ اُڑا کر اُس انسان کی زندگی جینے کی بھونڈی کوشش کر رہا ہے جو وہ حقیقت میں ہے نہیں مگر بننا چاہتا ہے۔

سوشل میڈیا پر بہت کم ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو دنیا کو اپنی حقیقی شخصیت دکھانے پر یقین رکھتے ہوں۔ سوشل میڈیا پرستان کی جیتی جاگتی تصویر ہے، دراصل یہ وہ جہاں ہے جدھر ہر جانب فرشتہ صفت انسان، عدل و انصاف کے دیوتا، سچ کے پجاری، دوسروں کے بارے میں صرف اچھا سوچنے والے، ماہرِ تعلیم، حکیم، نفسیات شناس اور بندہ نواز موجود ہیں۔

حسد، جلن، نظر بد کس چڑیا کا نام ہے، اس سے یہاں کوئی واقف نہیں ہے، سب بنا مطلب دنیا کی بھلائی کے ارادے سے دوسروں کی اصلاح میں ہمہ تن گوش رہتے ہیں۔جب کوئی فرد کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا حصہ بنتا ہے تو اُسے استقبالیہ پر ایک مکھوٹا پیش کیا جاتا ہے جسے عقلمند انسان فوراً توڑ دیتا ہے جب کہ بے عقل اپنی شخصیت کا اہم جُز بنا لیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب وہ خوش ہوتا ہے تب اپنی اندرونی کیفیات کو من و عن ظاہرکردیتا ہے جب کہ دکھ کی گھڑیوں میں اپنے حقیقی جذبات کو جھوٹ کی رنگین پنی میں لپیٹ کر خوشی سے سرشار ہونے کی بڑھ چڑھ کر اداکاری کر رہا ہوتا ہے۔

سوشل میڈیا اپنے صارفین کو اُن کے آپسی اختلافات کے دوران حریفِ مقابل پر اقوالِ زریں کی مار کا کھلم کھلا موقع بھی فراہم کرتا ہے، ادھر کسی کی اپنے دوست سے لڑائی ہوئی اُدھر طنز کی چاشنی میں ڈوبے اخلاق کا سبق سموئے نرم گرم جملے اُس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر دکھائی دینے لگتے ہیں۔

انسان کو سوشل میڈیا پر ملنے والے دھوکے بھی دنیا والوں سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں اب چاہے وہ اپنے شناسا لوگوں سے ملیں یا اجنبیوں سے، کڑواہٹ سب کی ایک سی ہی ہوتی ہے۔ جوش میں ہوش کھونے سے گریزکرنے والے افراد ہی سوشل میڈیا کی دنیا میں کامیاب گردانے جاتے ہیں۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز قطعی برے نہیں ہیں بلکہ یہ تو انسانوں کے بیچ فاصلوں کو کم کرنے، بچھڑے ہوئے پیاروں کو ملانے، نئے دوست بنانے اور لوگوں کو سہولیات پہنچانے کی غرض سے وجود میں لائے گئے تھے۔

چونکہ انسان ہر اچھی چیزکا بے دریغ استعمال کرکے اُس کے تمام مثبت پہلوؤں کو نچوڑ کر اُس کی منفیت کو منظرعام پر لانے میں کمال مہارت رکھتا ہے لٰہذا یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ انسان جب تک تفریح اور حقیقت کے درمیان فرق کی لکیرکھینچنا نہیں سیکھے گا تب تک وہ بندر کی طرح سوشل میڈیا پلیٹ فارمزکی ڈگڈگی پر ناچ کر خود کا اور قوم بنی نوع انسان کا تماشا بنواتا رہے گا۔

متعلقہ مضامین

  • 25 اپریل کوآپ آسمان پر مسکراتا چہرہ کب اور کہاں کہاں دیکھ سکتے ہیں؟جانیں
  • ’طعنہ دینے ہمارے ووٹوں سے ہی صد بنے‘بلاول بھٹو کی حکومت پر سخت تنقید سے متعلق رانا ثنا اللہ کا ردعمل
  • تھیلیسیمیا مائنر والے والدین کی شادی پر پابندی نہیں لگوا رہے، ٹیسٹ کی بات کر رہے ہیں، شرمیلا فاروقی
  • نیئر اعجاز کا بیوی کے سامنے ماضی کی محبتوں کے ذکر پر دو ٹوک مؤقف
  • منرلز بل پر تنقید کے پیچھے پورا مافیا، عمران خان سے ملاقات میں بات کلیئر ہو جائےگی، علی امین گنڈاپور
  • علیمہ خانم اور بشریٰ بی بی پر شیر افضل مروت کی تنقید ناجائز ہے، عمر ایوب
  • آغا راحت کی سرکاری ملازمین پر تنقید مناسب نہیں، انجینیئر انور
  • شوہر کے ظالمانہ طرزعمل پر خلع لینے والی خاتون کا حقِ مہر ساقط نہیں ہوتا، لاہور ہائیکورٹ
  • میں نے کچھ غلط نہیں کیا’ سیریز ایڈولینس پر ایک مختلف نقطہ نظر‘
  • سوشل میڈیا کی ڈگڈگی