Nai Baat:
2025-04-23@00:24:12 GMT

کبھی ہاں کبھی ناں

اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT

کبھی ہاں کبھی ناں

حکومت سے باہر رہتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کا بطور ایک سیاسی پارٹی بالعموم اور اس کے بانی چیئرمین مسٹر عمران خان کا بالخصوص کسی بھی معاملہ ، چاہے وہ ملکی مفاد کے کسی منصوبے سے متعلق ہو یا حکومتی پارٹی کی کو ئی سیاسی تدبیر، میں تعاون کرناایک انہونی سی بات نظر آتا تھا۔ پھر یہ لوگ جانے کیسے اور کس مصلحت یا منصوبہ بندی کے تحت حکومت سے مذاکرات پر راضی ہو گئے۔ ہمیں یا د ہے کہ یہی پی ٹی آئی اور یہی عمران خان موجودہ حکومت کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکاری تھے اور اپنی سیاست میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات کو یکسر خارج از امکان قرار دیا کرتے تھے۔

ممکن ہے کہ ابتدا میں عمران خان کا خیال ہو کہ شائد وہ ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات طے کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یقینا انہوں نے اس سلسلہ میں سرتوڑ کوشش بھی ضرور کی ہو گی لیکن یہ تمام سوچیں اور کاوشیں بے سود ثابت ہوئیں۔ چار و ناچار انہوں نے حکومت کے ساتھ مذاکرات تو شروع کر لیے لیکن امید کہیں اور ہی باندھ رکھی اور پھر جب انہیں اس سلسلہ میں امید کی ایک ہلکی سی کرن نظر آئی تو انہوں نے سب سے پہلے جو کام کیا وہ حکومت کے ساتھ مذاکرات ختم کرنا تھا۔

داد دینی پڑے گی عمران خان کے طرز ندگی اور طرز سیاست کو کہ پورے اعتماد کے ساتھ یو ٹرن بھی لے لیتے ہیں اور پھر جھوٹا بھی اپنے مخالفین کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس مذاکرات والے معاملہ میں بھی کچھ یوں ہی ہوا ۔ یعنی مذاکرات کی اگلی نشست کے لیے جو تاریخ باہمی رضا مندی سے طے ہوئی تھی اس سے قبل ہی مذاکرات ختم کرنے کا اعلان بھی خود سے فرما دیا اور پھر اس تمام صورتحال کی ذمہ داری بھی حکومت پر ڈال دی۔

اب یہ تمام کاروائی مسٹر عمران خان کے اپنے ذہن کی پیداوار ہے یا پھر ان کے مشیران میں سے کسی نے ان کے کان میں پھونک ماری ہے یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ آنے والے دنوں میں پی ٹی آئی کا حکومت کے ساتھ مذاکرات کے سلسلہ کو ختم کرنا اتنا ہی احمقانہ فیصلہ ثابت ہو گا جتنا ان کا اسمبلیوں سے مستعفی ہونا یا پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں اپنی صوبائی حکومتیں ختم کرنا تھا۔
اس بات کا اندازہ لگانا بھی زیادہ مشکل نہیں کہ پی ٹی آئی کو عجلت میں حکومت کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ بند کرنے کی غلطی کا احساس ہو چکا ہے اور عین ممکن ہے کہ ان کے اندر اس سلسلہ میں ایک اور یو ٹرن لے کر مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ سے جوڑنے کی خواہش بھی پیدا ہو چکی ہو۔ پی ٹی آئی کے لیے تو کسی بھی بات پر یوٹرن لے لینا کوئی بڑی بات نہیں لیکن لگتا ہے کہ حکومت میں شامل جماعتوں کو بھی ان کے ساتھ ایک لمبا عرصہ تک معاملات چلانے کے بعد ان کو ڈیل کرنے کا طریقہ سمجھ میں آ چکا ہے۔ ممکن ہے کہ جب تک پی ٹی آئی والے ایک یو ٹرن فیصلہ کے تحت دوبارہ مذاکرات میں شامل ہونے پر رضا مندی کا اظہار کریں حکومتی جماعتیں اس سلسلہ میں نئے معیار اور قوائد و ضوابط طے کر چکی ہوں۔ اور ان کے ساتھ وہی کچھ ہو جائے جو اسمبلیوں سے استعفے دینے اور اپنی ہی دو صوبائی حکوتیں ختم کرنے کے نتیجہ میں ہو چکا ہے۔ یعنی کچھ حاصل حصول تو خیر کیا ہونا تھا جو ہاتھ میں تھا وہ بھی ضائع ہو گیا۔
اپنی تمام تر سیاسی حکمت عملی کی ناکامی کی صورت میں پی ٹی آئی کی طرف سے جو پلان بی پیش کیا جا رہا ہے اس میں بھی کچھ نیا نہیں۔ احتجاج ،سڑکیں بلاک کرنااور اسلام آباد پر چڑھائی جیسی کاروائیاں پہلے بھی بری طرح ناکام ہوئی ہیں اور اب تو شائد حکومت ایسی حرکتوں کو زیادہ مضبوط ہاتھوں کے ساتھ نمنٹنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
پی ٹی آئی کا یہ بھی وطیرہ رہا ہے کہ جب بھی ملک میں کوئی اہم ایونٹ ہونا ہو یا کسی اہم غیر ملکی شخصیت کا دورہ شیڈول ہو یہ عین اس وقت پر اپنے احتجاجی پروگرام کا اعلان کر دیتے ہیں۔ سیاسی مخالفین تو اس قسم کے رویہ کو ملک کو بدنام کرنے کی ایک سازش قرار دیتے ہیں۔ لیکن اگر ایسا نہیں بھی ہے تو بھی اس بات میں تو کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ یہ کوئی اچھا طرز عمل نہیں ہے۔

حکومت کے ساتھ مذاکرات ختم ہو جانے اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے جھنڈی دکھائی جانے کے بعد اب پی ٹی آئی نے پاکستان میں منعقد ہونے والے کرکٹ کے اہم ایونٹ چیمینز ٹرافی کے موقع پر احتجاج کا اعلان کر دیا ہے۔ حکومت نے اب تک جس کامیابی سے ان کے احتجاجی سلسلوں کو ڈیل کیا ہے اس کی روشنی میںتو یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اس مرتبہ بھی اگر چیمپینز ٹرافی کے موقع پر کسی قسم کی ہلڑ بازی کی کوشش کی گئی تو اسے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا اور پی ٹی آئی کو اس مرتبہ بھی الزام تراشی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔

پی ٹی آئی اور اس کی اعلیٰ قیادت بشمول مسڑ عمران خان کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اداروں پر حملہ آور ہونے، گالی گلوچ کرنے ، دھمکیاں دینے اور الزامات لگانے جیسے ہتھکنڈے سیاسی مخالفین کے ساتھ تو چل سکتے ہیں لیکن اگر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ یہ طریقہ اختیار کرنے کی کوشش کی جائے تو اس کا ردعمل بہت سخت آتا ہے۔ انہیں الطاف بھائی اور میاں نواز شریف کی مثال کو بھی سامنے رکھنا چاہیے کہ ملک میں پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی حکومت تو بن گئی نواز شریف کا بھائی وزیر اعظم اور بیٹی پنجاب کی وزیر اعلیٰ بھی بن گئے لیکن میاں نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم بننے کی خواہش دل میں ہی لیے ہوئے جاتی عمرہ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ الطاف بھائی بھی ملکی سیاست کا ایک قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔

عمران خان اور پی ٹی آئی اگر اب بھی ملکی سیاست میں کوئی اہم کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے انہیں ماضی کی غلطیوں کی معافی مانگنی پڑے اور پھر مستقبل میں مثبت رویہ رکھنے کا وعدہ کرنا پڑے گا ورنہ جس رفتار سے ان کی مقبولیت کا گراف نیچے جا رہا ہے وہ دن دور نہیں جب یہ خیبر پختونخواہ کی ایک تیسرے درجے کی پارٹی بن کر رہ جائیں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: حکومت کے ساتھ مذاکرات اس سلسلہ میں پی ٹی ا ئی اور پھر کرنے کی ہے کہ ا اور اس

پڑھیں:

ایران کیساتھ مذاکرات میں اہم پیشرفت ہوئی ہے، امریکی محکمہ خارجہ

اپنے ایک بیان میں بدر البوسعیدی کا کہنا تھا کہ ایران و امریکہ کے درمیان غیر مستقیم مذاکرات میں تیزی آ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت وہ بھی ممکن ہے جو کبھی ناممکن تھا۔ اسلام ٹائمز۔ اٹلی کے دارالحکومت "روم" میں ایران-امریکہ غیر مستقیم مذاکرات کے 12 سے زائد گھنٹے گزرنے کے بعد، امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان "ٹامی بروس" نے المیادین سے گفتگو میں کہا کہ ان مذاکرات میں قابل توجہ پیشرفت ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ایرانی فریق سے اگلے ہفتے دوبارہ ملنے پر اتفاق کیا ہے۔ اسی دوران ٹرامپ انتظامیہ کے سینئر عہدیدار نے امریکی میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ روم میں تقریباََ 4 گھنٹے تک مذاکرات کا دوسرا دور جاری رہا۔ جس میں بالواسطہ و بلاواسطہ بات چیت مثبت طور پر آگے بڑھی۔ واضح رہے کہ امریکہ کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کے دوسرے دور میں ایرانی وفد کی قیادت وزیر خارجہ "سید عباس عراقچی" نے کی جب کہ امریکی وفد کی سربراہی مشرق وسطیٰ میں ڈونلڈ ٹرامپ کے نمائندے "اسٹیو ویٹکاف" کے کندھوں پر تھی۔

مذاکرات کا یہ عمل روم میں عمانی سفیر کی رہائش گاہ پر عمان ہی کے وزیر خارجہ "بدر البوسعیدی" کے واسطے سے انجام پایا۔ دوسری جانب مذاکرات کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے سید عباس عراقچی نے کہا کہ فریقین کئی اصولوں اور اہداف پر مثبت تفاہم تک پہنچ چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رواں ہفتے بدھ کے روز ماہرین کی سطح تک مذاکرات کا یہ عمل آگے بڑھے گا جب کہ اعلیٰ سطح پر بات چیت کے لئے اگلے ہفتے اسنیچر کو اسی طرح بالواسطہ اجلاس منعقد ہو گا۔ سید عباس عراقچی نے کہا کہ اس وقت مذاکرات سے اچھی امید باندھی جا سکتی ہے لیکن احتیاط کی شرط کے ساتھ۔ ایرانی وزیر خارجہ کے ساتھ ساتھ اُن کے عمانی ہم منصب بدر البوسعیدی نے بھی دعویٰ کیا کہ ایران و امریکہ کے درمیان غیر مستقیم مذاکرات میں تیزی آ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت وہ بھی ممکن ہے جو کبھی ناممکن تھا۔

متعلقہ مضامین

  • کیا کبھی ایسا ہوا کہ جیل میں بیٹھا آزاد اور قوم قید میں ہو، عامر ڈوگر
  • کرم کے علاقے سمیر چنار آباد میں تین روز سے جاری مذاکرات کے بعد ختم
  • سکھر دھرنا: کراچی چیمبر آف کامرس کا حکومت سے مذاکرات کے ذریعے قومی شاہراہ بحال کرنے کا مطالبہ
  • کبھی نہیں کہا میرے خلاف مہم کے پیچھے علیمہ خان ہیں، شیر افضل مروت
  • جے یو آئی دیگر اپوزیشن اور پی ٹی آئی سے علیحدہ اپنا الگ احتجاج کرےگی، کامران مرتضیٰ
  • علی امین گنڈاپور نے اسحاق ڈار کے دورہ افغانستان پر ردعمل دے دیا
  • سندھ کی عوام اپنے حقوق کا سودا کرنے والوں کو کسی قسم کے مذاکرات کا حق نہیں دیگی، سردار عبدالرحیم
  • امریکی ٹیرف مذاکرات میں پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ممالک خوشامد سے باز رہیں، چین کا انتباہ
  • نہروں کا معاملہ پی پی کے لیے نعمت، وارننگ پرحکومت کی مذاکرات کی پیشکش
  • ایران کیساتھ مذاکرات میں اہم پیشرفت ہوئی ہے، امریکی محکمہ خارجہ