WE News:
2025-04-22@11:18:46 GMT

دادیوں والا گاؤں      

اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT

گھنٹی دوسری بار بجی تو ملازم دوڑ کر دروازے کی طرف لپکا۔ دروازہ کھولا تو سامنے ایک اجنبی نوجوان ایک نوعمر بچے کی انگلی تھامے کھڑا تھا اور دوسرے ہاتھ سے ایک چھوٹا چرمی بیگ اٹھایا ہوا تھا۔

ہاں جی!  کیا کام ہے جی؟  کس سے ملنا ہے؟

یہ محمد رشید کا گھر ہے؟ اجنبی شخص نے سوال کیا۔

یہاں تو مجید دادا اور ان کے بیٹے بھائی یاسین رہتے ہیں۔ کم عمر ملازم نے سر کھجاتے ہوئے جواب دیا۔

ہمارا نام کیلاش سنہا ہے۔ یہ میرا بیٹا سنجیو ہے۔ ہم دلّی سے آئیں ہیں اور مجید جی سے ملنا چاہتے ہیں۔

ملازم دوڑ کر اندر گیا، واپسی پر اس کے ہمراہ ایک 60-65  سالہ آدمی تھا۔ آدمی نے کیلاش کو اندر آنے اور وہیں دالان میں پڑی کرسیوں پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں:پیارا دشمن                           

میں محمد رشید کے دوست راجو سنہا کا پوتا ہوں۔ یہ گاؤں میرے باپو کی جنم بھومی ہے۔ باپو آخری دم تک دادیوں والے گاؤں کی یاترا کا سپنا لیے پچھلے سال ہی پرلوک سدھار گئے۔ اس گاؤں کی درجنوں مہلائیں میرے باپو کی ماں کا درجہ رکھتی ہیں، کیونکہ انہوں نے ان کا دودھ پیا تھا۔ باپو مرتے دم تک مجھے جتلاتے رہے کہ تیری درجنوں دادیاں ہیں اور وہ اس گاؤں کو ہمیشہ ’دادیوں والا گاؤں‘ کہتے تھے ۔۔۔۔۔ کیلاش سنہا کی آنکھیں دور، کہیں دور اپنا ماضی تلاش کرنے لگیں اور مجید اسے ایک ٹک دیکھے گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سرگودھا کے گاؤں سَالم کے رہائشی رشیدے کے گھر راجو سنہا کی بیوی کملا بائی پچھلے 2 دن سے درد زہ سے تڑپے جا رہی تھی، لیکن بچہ دنیا میں آنے سے کترا رہا تھا شاید جان گیا تھا کہ اس سمے باہر کی دنیا سے زیادہ ماں کی کوکھ محفوظ ہے۔

دائی خدیجہ کے کہنے پر کملا بائی زور لگا لگا کر اب تھک چکی تھی ۔ بار بار اس پر غنودگی طاری ہونے لگتی تو دائی خدیجہ اس کے منہ پر زور زور سے تھپڑ مار کر اسے جگانے کی کوشش کرتی، لیکن اب دائی کی ہمت بھی جواب دینے لگی تھی۔

’ راجو تیری جورو کی جان کو خطرہ ہے۔ خون بہت بہہ گیا ہے، بس رب سے دعا کر کہ بچہ جلدی سے جنے ۔ورنہ شہر کے اسپتال لے جانا پڑے گا‘ ۔ دائی خدیجہ نے ہارے ہوئے لہجے میں راجو کو بتایا۔

راجو سنہا  بھیگی آنکھوں سے اپنی بے ہوش اور بے حال پتنی کملا بائی کو دیکھے جا رہا تھا۔کملا نے اب تکلیف سے چلانا بھی بند کر دیا تھا ۔شاید درد ٹھنڈے پڑ گئے تھے، لیکن پیٹ کا ابھار ایک سخت چٹان کی طرح تن کے کھڑا تھا۔

رشیدے کے گھر 2 دن سے چولہا نہ جلا تھا لیکن پورا پنجاب آگ میں جل رہا تھا۔ سالم گاؤں کے تمام ہندو اور سکھ گھرانے کئی روز پہلے ہی ہندوستان ہجرت کر گئے تھے، سوائے راجو سنہا کے۔ اس کی بیوی کملا بائی پورے دن سے تھی اور ایسے میں بیل گاڑی کا سفر زچہ اور بچہ دونوں کے لیے جان لیوا ہو سکتا تھا اور یہاں رہتے ہوئے بھی ہر لمحہ بلوائیوں کے ہاتھوں مارے جانے کی تلوار سر پر لٹکے ہوئے تھی۔سرحد کے اِس پار اور اُس پار ہجرت کرنے والوں کے قتل و غارت کی خبریں سن کر تمام گاؤں والے  خوف زدہ تھے کہ گاؤں سے چھوڑ کر جانے والے کتنے سلامت رہے اور کتنے رستے ہی میں مار کاٹ دیے گئے؟

یہ بھی پڑھیں:علی چوہدری کا 2060 کا اسلام آباد   

رشیدا اور راجو بچپن کے جگری یار تھے۔ دونوں کے دُکھ سُکھ سانجھے تھے۔ 2 سال پہلے رشیدے اور راجو کے بیاہ بھی آگے پیچھے ہوئے تھے۔ رشیدے کی گھر والی سکینہ نے پچھلے سال بیٹی کو جنم دیا تو راجو کی بیوی کملا نے سوا مہینے تک سکینہ کی دن رات خدمت کی تھی۔ شاید زچہ کے دل سے نکلی دعا کا اثر تھا کہ 2 ماہ بعد ہی کملا کی خالی کوکھ بھی بھر گئی تھی۔

پنجاب کے دوسرے گاؤں کی طرح سالم گاؤں میں بھی میں فسادات سے قبل ہندو،  مسلمان اور سکھ امن و شانتی سے رہ رہے تھے ۔عید ہو یا بقرعید، ہولی ہو یا دیوالی یا بیساکھی کی رُت ہو، گاؤں میں ہر تہوار پر دل کھول کے جشن منایا جاتا تھا۔ نہ جانے پھر  دیکھتے ہی دیکھتے 5 دریاؤں کی زرخیز زمین کو کس کی نظر کھا گئی کہ انسانی جان ارزاں ہوتی چلی گئی۔

’یہ سب خالی قینچیاں چلانے سے دنگے فساد ہونے لگے ہیں۔ خالی قینچی چلانے سے بدشگونی ہوتی ہے۔ نحوست کے سائے منڈلانے لگتے ہیں‘، علاقے میں مار کاٹ کے واقعات سن کر محلے کی بڑی بوڑھیاں اپنی پوپلی زبان میں تبصرے کرتیں۔

سالم گاؤں میں راجو سنہا ہی واحد ہندو رہائشی تھا جو اب تک پاکستان کی حدود پھلانگ کر ہندوستان کی دہلیز عبور نہ کر پایا تھا ۔ شیدے نے زبردستی راجو کے گھر تالا لگایا اور دونوں میاں بیوی کو اپنے ساتھ گھر لے آیا تھا۔ گاؤں کے تمام مسلمان مکینوں نے راجو اور اس کی بیوی کملا کی جان کی حفاظت کرنے کی قسم کھائی تھی۔ دن رات پہرے دیے جارہے تھے کہ کہیں بلوائی اچانک حملہ کر کے نہتے راجو اور اس کی حاملہ بیوی کو جان سے نہ مار دیں، لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ کملا کی حالت نازک تھی لیکن اس خونی دور میں اسے سرگودھا کے کسی اسپتال لے جانا بھی موت کے منہ میں لیجانے جیسا تھا ۔سب بے بس و لاچار تھے۔

دائی خدیجہ نے گرم کاڑھا دوبارہ کملا کے حلق میں انڈیلا تاکہ درد زہ پھر زور پکڑے اور بچہ دنیا میں آنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارے۔

یہ بھی پڑھیں:نقاب

کچھ ہی گھنٹوں بعد کملا کی دلخراش چیخوں نے جہاں دم توڑا وہیں، ایک ننھے مہمان کے رونے کی آواز فضا میں گونجی جو کافی دیر جاری رہی۔ باہر راجو کے ساتھ محلے کے مرد چپ سادھے انتظار میں تھے کہ اندر سے کیا خبر آتی ہے۔

کملا بائی نے ایک زندگی سے بھرپور بچے کو جنم دیا تھا لیکن خود زندگی کی بازی ہار بیٹھی تھی۔

راجو کی ہستی بکھر گئی تھی جس میں اس کے خوشی اور غم کے سارے جذبات چکنا چور ہو چکے تھے۔ بچہ دودھ کے لیے مستقل روئے جا رہا تھا کیونکہ بچے کے پیٹ کو سیراب کرنے والا ماں کا سینہ سوکھا پڑا تھا۔

موت کی سوگواری سے پرے زندگی بھوک سے بلک رہی تھی۔

سکینہ نے فوراً بچے کو سینے سے لگایا اور دودھ پلانے لگی۔

گاؤں کے 10 سے 12 گھرانوں میں اس سال نئے بچوں کی آمد ہوئی تھی۔ گاؤں کی ان تمام عورتوں نے جن کے چھاتیوں میں دودھ اُترا ہوا تھا، نئے مہمان کو دودھ پلانے کی ذمہ داری بخوشی اٹھانے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

دائی خدیجہ خود راجو کے بیٹے کو دودھ پلوانے گاؤں کے گھروں میں لے کر جاتی اور سیراب کرکے باپ کے حوالے کرتی۔ راجو کے شیر خوار بیٹے کملیش نے سالم گاؤں کی 12 ماؤں کا دودھ پیا تھا۔ اس کی 12 مائیں تھیں، جنہوں نے اسے اپنے سینے سے لگا کر ممتا کی گرمی بخشی تھی۔ تبھی جب راجو نے تقسیم کے 2 سال بعد اپنے بیٹے کملیش کو لے کر ہندوستان جانے کا فیصلہ سنایا تو کملیش کی ماؤں کے آنکھوں سے برستے آنسوؤں نے برسات کا روپ دھار لیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیلاش نے محمد مجید کی جانب ایک لفافہ بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’یہ ان مہلاؤں کے نام ہیں جنہوں نے باپو کو ماں بن کر دودھ پلایا تھا۔ میری آپ سے بِنتی (التجا) ہے کہ مجھے اپنی دادیوں سے ملوا دیں۔

یہ بھی پڑھیں:روبی مسیح

مجید نے ناموں کی فہرست دیکھی اور کہا کہ تمہاری پانچ دادیاں حیات ہیں اور اسی علاقے میں رہتی ہیں، لیکن آؤ سب سے پہلے تمہیں تمہاری اس دادی سے ملواؤں جو اسی گھر میں رہتی ہیں، میری ماں سکینہ بی بی۔

مجید نے کیلاش کو ساتھ لیا اور گھر کے اندر ایک کمرے کی جانب قدم بڑھا دیے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

صنوبر ناظر

صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔

بقرعید بیساکھی پاکستان تقسیم دیوالی سرگودھا عید ہندوستان ہولی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بیساکھی پاکستان دیوالی سرگودھا ہندوستان ہولی کی بیوی کملا سالم گاؤں کملا بائی راجو سنہا گاؤں کی کملا کی راجو کے رہا تھا گاؤں کے کے گھر کی جان کے لیے

پڑھیں:

گوجرانوالہ اور نارروال سے جعلی شناختی کارڈ بنوانے والا ایجنٹ اور انسانی اسمگلر گرفتار

فوٹو: فائل

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے پنجاب کے شہر گوجرانوالہ اور نارووال میں کارروائی کرتے ہوئے 3 ملزمان گرفتار کرلیے۔

ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ نارووال سے جعلی شناختی کارڈ بنوانے والا ایجنٹ اور انسانی اسمگلر گرفتار کیا گیا ہے، دوران تفتیش ملزم کے ساتھ ملوث نادرا ملازمین کا تعین بھی کیا جائے گا۔

ترجمان ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ نارووال سے 2 انسانی اسمگلر بھی گرفتار کیے گئے ہیں، ملزم نے یو اے ای کے ویزے کا جھانسہ دے کر شہری سے 3 لاکھ روپے لیے تھے۔

 ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ دوسرے ملزم نے کینیڈا بھجوانے کیلئے شہری سے 92 لاکھ روپے وصول کیے تھے۔

متعلقہ مضامین

  • ایسٹر پر کم سن بچی کو مبینہ زیادتی کے بعد قتل کرنے والا سگا ماموں نکلا
  • ڈی آئی خان: کانسٹیبل کو شہید کرنے والا اشتہاری پولیس مقابلے میں ہلاک
  • بکریاں چورے کرنے والا ملزم گرفتار، ویڈیو بھی سامنے آگئی
  • 14 سال کی عمر میں آئی پی ایل ڈیبیو کرنے والا ویبھوو سوریا ونشی کون ہے؟
  • 14 سال کی عمر میں آئی پی ایل ڈیبیو کرنے والا ویبھوو سوریا ونشی کون ہے؟
  • گوجرانوالہ اور نارروال سے جعلی شناختی کارڈ بنوانے والا ایجنٹ اور انسانی اسمگلر گرفتار
  • فواد چوہدری پارٹی میں تقسیم ڈالنے والا ٹاؤٹ ہے، شعیب شاہین کی سابق وفاقی وزیر پر تنقید
  • فواد چودھری پارٹی میں تقسیم ڈالنے والا ٹاؤٹ، شعیب شاہین
  • بلاول بھٹو کا گاؤں ہمت آباد کا دورہ؛ پانی کی کمی سمیت دیگر مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرنیکا حکم
  • اسلام آباد: کالعدم تنظیم کی تشہیر کرنے والا ملزم گرفتار، ذرائع سی ٹی ڈی