حکومت اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کے درمیان سیاسی مذاکرات کا عمل ختم ہو گیا ہے، جس کا دونوں جانب سے باضابطہ اعلان کر دیا گیا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف اور حکومت کی تشکیل کردہ مذاکراتی کمیٹیاں بھی تحلیل کی جا چکی ہیں تاہم قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے ابھی تک مذاکراتی کمیٹیوں کو باقاعدہ طور پر ڈی نوٹیفائی نہیں کیا۔

یہ بھی پڑھیں:سیاسی ڈائیلاگ نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکے، پی ٹی آئی کے بعد حکومت کا بھی مذاکرات ختم کرنے کا اعلان

دوسری جانب سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ عمران خان اپنے سیاسی کیریئرکے آغاز سے ہی کبھی مذاکرات کی جانب بڑھے نہ ہی وہ حکومت سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں، دوسری جانب حکومت نے بھی جارحانہ جواب دیتے ہوئے مذاکرات ختم کر دیے ہیں۔

مذاکرات کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں پاکستانی سیاست بلخصوص پی ٹی آئی کی سیاست اب کسی کروٹ بیٹھے گی؟ اس حوالے سے وی نیوز نے چند سیاسی تجزیہ کاروں سے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی ہے۔

پی ٹی آئی فروری میں مذاکرات کیوں نہیں کرنا چاہتی

سیاسی تجزیہ کار ماجد نظامی نے وی نیوز سے گفتگو کرتےہوئے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے لیے فروری کے مہینے میں کوئی بھی مذاکرات فائدہ مند ثابت نہیں ہوتے اس لیے انہوں نے اس چیز کو سمجھتے ہوئے مزاحمتی سیاست کی طرف واپس جانے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ہم مذاکرات کے ذریعے ملک کو آگے لے جانا چاہتے ہیں مگر پی ٹی آئی سنجیدہ نہیں، وزیراعظم

فروری میں عام انتخابات کو ایک برس مکمل ہو رہے ہیں جبکہ پی ٹی آئی اپنے بیانیے میں ان انتخابات کو دھاندلی زدہ الیکشن قرار دے چکی ہے۔ اب بقول پی ٹی آئی دھاندلی زدہ الیکشن کے ذریعے بننے والی حکومت کی پہلی برسی ہے اور اس موقع پر بطور جماعت وہ یہ نہیں چاہیں گے کہ یہ تاثر جائے کہ وہ حکومت کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں اور اس کے ساتھ مذاکرات بھی کر رہے ہیں۔

پی ٹی آئی نے احتجاجی سیاست کا انتخاب کیوں کیا

ان کاکہنا تھا کہ اس صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے پی ٹی آئی نے مذاکرات کو کچھ عرصہ کے لیے روک کر احتجاج کا رخ کیا ہے۔ اس کے لیے پی ٹی آئی تنظیم میں کچھ تبدیلیاں بھی لے آئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فروری میں مذاکرات کی طرف کوئی پیش قدمی نظر نہیں آرہی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت بھی اس معاملے پر کمزوری نہیں دکھانا چاہتی اس لیے انہوں نے بھی سخت فیصلوں کا تاثر دیتے ہوئے مذاکرات کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ حالانکہ اس سے قبل بھی یہی تاثر تھا کہ دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات ہوتے ہیں تو شاہد حکومت کے پاس پی ٹی آئی کو دینے کے لیے زیادہ کچھ نہ ہو۔

مذاکرات دوبارہ شروع ہو سکتے ہیں

حکومت نے بھی جب صورت حال بھانپی تو دفاع کے بجائے جارحانہ پوزیشن اپنا لی، لیکن امید کی جا رہی ہے کہ یہ معاملہ کچھ تعطل کے بعد دوبارہ شروع ہو سکتا ہے۔

سیاسی تجزیہ کار احمد ولید نے اس حوالے سے بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف کا شروع سے ہی ایک مسئلہ رہا ہے کہ 2014 کے دھرنے اور اس کے بعد سے لے کر ہم نے دیکھا کہ عمران خان کو خاص طور پر بہت اچھا لگتا ہے کہ وہ عوام کو اکٹھا کریں، جلسے اور مظاہرے کریں۔

یہ بھی پڑھیں:پی ٹی آئی مذاکراتی اجلاس میں بیٹھتی تو توقعات سے کچھ زیادہ ہی لے کر جاتی، عرفان صدیقی

ان کا کہنا تھا کہ جب عمران خان کو حکومت ملی تو انہوں نے عثمان بزدار کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ لگا دیا جن کی کارکردگی اچھی نہیں رہی ہے، ان کے علاوہ پی ٹی آئی کی مرکزی حکومت بھی کوئی کارکردگی نہ دکھا سکی۔

اس کے حوالے پی ٹی آئی کے کچھ خود اپنے لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ ان کی پرفارمنس خاص نہیں رہی ہے۔ اگر عدم اعتماد کی تحریک سے ان کی حکومت نہ جاتی تو انہیں مزید مسائل درپیش آتے اس لیے انہوں نے استعفے دے کر سڑکوں پر نکلنے کو ہی عافیت سمجھا۔

احمد ولید کا مزید کہنا تھا کہ اس ساری صورتحال سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مذاکرات کی طرف جانے کی تو انہوں نے کبھی کوئی بات کی ہی نہیں ہے۔ ایسا پہلی بار ہوا کہ تحریک انصاف مذاکرات کے لیے خود حکومت کے پاس پہنچی، حالانکہ اس سے قبل حکومت انہیں مذاکرات کی پیش کش کرتی رہی ہےلیکن ان کی جانب سے یہی کہا جاتا رہا کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، ہم مذاکرات ان کے ساتھ کریں گے جن کے پاس طاقت ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان تحریک انصاف ایک مشکل میں پڑ چکی ہے۔ حکومت کے وزرا تو انہیں کہتے رہے ہیں کہ ہم آپ کی بات وہاں تک پہنچائیں گے اور وہاں ہی سے آپ کو کچھ مل سکتا ہے۔ اگر پی ٹی آئی ڈائریکٹ مذاکرات کی کوشش کر رہی تھی تو وہ مذاکرات نہیں بلکہ کوئی ڈیل کرنا چاہا رہے ہیں یا پھر ’این آر او‘ لینا چاہا رہے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف نے بہت سی چیزیں کر کے دیکھ لی ہیں، اس میں سول نافرمانی کی تحریک سے لے کر بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو ترسیلات زر بھیجنے سے روکنا بھی شامل ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوسکا کیونکہ وہ لوگ کسی سیاستدان یا حکومت کو نہیں بلکہ اپنے خاندان کی کفالت کے لیے پیسہ بھیجتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:مذاکرات ایک جگہ ہورہے تھے جو ختم ہوچکے، بیرسٹر گوہر

ان کا کہنا ہے کہ سول نہ فرمانی کی تحریک کے دوسرے مرحلے میں بجلی کے بل جمع نہ کروانا شامل ہے لیکن لوگ بل جمع نہ کروانے پر میٹر کٹ جانے کے ڈر سے ایسا بھی نہیں کریں گے، اس لیے اس وقت پی ٹی آئی پھنس چکی ہے۔

احمد ولید کا کہناہ ے کہ ان کے یہ تمام منصوبے فیل ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ اب 8 فروری کو بھرپور احتجاج کی کال دی گئی ہے، وہ پورے ملک میں بھرپور مظاہروں کے ذریعے عالمی سطح پر معاملہ اٹھانا چاہتے ہیں تاکہ ان کی کوئی شنوائی ہو سکے۔

ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکا کے صدر بننے سے بھی بہت سی امیدیں وابسطہ تھیں، لیکن اس وقت تک ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے بھی کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔

احمد ولید کا مزید کہنا تھا کہ پی ٹی آئی میں اندرونی مسائل بھی چل رہے ہیں، پی ٹی آئی ایسی حکمت عملی اپنانا چاہتی ہے جس سے وہ سیاسی ہلچل میں بھی رہیں اور جیلوں میں موجود لیڈرز بھی باہر آ سکی، ان کے پاس اب مظاہرے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا۔

حماد حسن نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف اپنے پتے بہت غلط کھیل رہی ہے، پی ٹی آئی ہر وہ پتہ کھو رہی ہے جس کی بدولت وہ مشکل سے نکل سکتے ہیں۔

جیسا کہ 24 نومبر کو پی ٹی آئی نے احتجاج کی کال دی اور پھر ہم نے علی امین اور بشریٰ بی بی کے درمیان اختلافات دیکھے،  پھر وہی ہوا کہ 26 نومبر کو احتجاج سے بھاگ گئے۔ اب تو ان کے ہاتھ سے احتجاج کی طاقت بھی ختم ہو چکی ہے۔ پھر انہوں نے ٹرمپ کارڈ کھیلنا شروع کیا، وہ بھی ختم ہو گیا۔

حماد حسن کا مزید کہنا ہے کہ 8 فروری کو ان کے احتجاج  کی کال بھی کامیاب ہوتی ہوئی نظر نہیں آ رہی ہے کیونکہ پہلے علی امین گنڈا پور صوبے کے وزیراعلیٰ اور صوبائی صدر تھے اور تمام سرکاری مشینری بھی استعمال کرتے تھے، پیسہ بھی لگاتے تھے۔

علی امین اپنی پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایم پی اے ، ایم این ایز اور کارکنان کو بھی خوش رکھتے تھے جبکہ کے پی کے کے پارٹی صدر جنید اکبر کے پاس ان میں سے ایک بھی چیز نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بھی علی امین گنڈا پور کو سیاسی پچ پر کھیلنا آتا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ اس لیے 8 فروری کے احتجاج میں بھی ناکامی کا اندیشہ ہے اور اگر ایسا ہوا تو اس کے بعد پی ٹی آئی کی مقبولیت اور طاقت پر مزید برا اثر پڑے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بیرسٹرگوہر پی ٹی آئی حکومت علی امین گنڈاپور مذاکرات.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بیرسٹرگوہر پی ٹی ا ئی حکومت علی امین گنڈاپور مذاکرات پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ کا مزید کہنا کہنا تھا کہ مذاکرات کی ان کا کہنا پی ٹی ا ئی احمد ولید پی ٹی آئی انہوں نے حکومت کے علی امین کہ پی ٹی کے ساتھ رہے ہیں کے بعد رہی ہے کے لیے کے پاس اس لیے ختم ہو

پڑھیں:

تحریک انصاف ایک سال میں اپنے بنیادی مطالبات سے پیچھے ہٹ چکی

اسلام آباد(نیوز ڈیسک) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) گزشتہ ایک سال کے دوران نئے عام انتخابات، حکومت کی تبدیلی اور 2024ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی مکمل تحقیقات کے اپنے بنیادی مطالبات سے پیچھے ہٹ چکی ہے۔

اب پارٹی کی مکمل توجہ جیل میں قید پارٹی قیادت بشمول سابق وزیر اعظم عمران خان کیلئے ریلیف کے حصول اور مخالفانہ ماحول میں سیاسی مقام کے دوبارہ حصول پر مرکوز ہے۔

پارٹی ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے بیشتر رہنما اب سمجھ چکے ہیں کہ تاریخی لحاظ سے پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والی طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ براہ راست تصادم فضول ہے۔ پی ٹی آئی کی سینئر شخصیات کے ساتھ پس منظر میں ہونے والی بات چیت سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اعتماد کا گہرا فقدان ٹھیک نہیں ہو سکتا اور پس پردہ کوئی ڈیل ایسی ثابت نہیں ہو سکتی کہ جس سے عمران خان کی اڈیالہ جیل سے رہائی اور اقتدار کے ایوانوں میں دوبارہ واپسی کو ممکن بنایا جا سکے۔

پارٹی کی ایک سینئر شخصیت نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس بات کا اعتراف کیا کہ فی الوقت ہمارے لیے سب سے بہتر چیز یہ ہو سکتی ہے کہ اقتدار میں واپسی کی بجائے سیاسی بقاء کی حکمت عملی اختیار کی جائے تاکہ پارٹی کو سانس لینے کا موقع مل سکے اور 2028ء میں منصفانہ الیکشن ملے۔ پارٹی اب سمجھتی ہے کہ موجودہ ’’ہائبرڈ سسٹم’’ (ایک اصطلاح جو اکثر اسٹیبلشمنٹ کے زیر تسلط سیاسی فریم ورک کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے) جاری رہے گا۔

یہ نظام ختم کرنے یا اسے کمزور کرنے کی پی ٹی آئی کی کوششیں ناکام رہی ہیں جس کیلئے پارٹی عوامی تحریکیں، عدالتی دبائو یا بین الاقوامی برادری سے اپیلوں کا راستہ اختیار کر چکی ہے۔ پارٹی کا اپنا تجزیہ یہ ہے کہ عدلیہ اپنی غیر جانبداری کھو چکی ہے، جبکہ غیر ملکی حکومتوں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

ملک کے کئی حصوں میں خاص طور پر نوجوانوں اور شہری متوسط ​​طبقے میں پی ٹی آئی کی مقبولیت زیادہ ہے۔ تاہم، پارٹی رہنما مانتے ہیں کہ اس عوامی حمایت سے سیاسی فائدہ حاصل نہیں کیا جا سکا کیونکہ یہ تسلیم کی گیا ہے کہ فوج کے ساتھ براہِ راست تصادم کی پالیسی غلط رہی۔ پارٹی کی صفوں میں ایک پریشان کن سوال جنم لے رہا ہے کہ اگر کوئی سمجھوتہ ہوا بھی تو کیا اسٹیبلشمنٹ عمران خان پر دوبارہ بھروسہ کرے گی؟ اس کے ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے کہ عمران خان کے بغیر پی ٹی آئی سیاسی لحاظ سے ناقابل تصور ہے۔

پی ٹی آئی کیلئے پریشان کن بات یہ ہے کہ مفاہمت کی خواہشات کے باوجود پارٹی کے بانی چیئرمین نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنے کیلئے پارٹی سوشل میڈیا کو بیان بازی میں نرمی لانے یا حکمت عملی تبدیل کرنے کیلئے نہیں کہا۔

اس کے برعکس، پارٹی سوشل میڈیا کا بیانیہ سخت تنقید پر مبنی ہے جس سے حالات مزید خراب ہوتے ہیں۔ آئندہ کے حوالے سے پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کو ایک عملی نقطہ نظر اختیار کرنا چاہئے: اپنے قیدی رہنمائوں کیلئے قلیل مدتی ریلیف حاصل کرنا، نچلی سطح پر دوبارہ منظم ہونا، اور آئندہ عام انتخابات کیلئے تیاری شروع کرنا۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ پارٹی اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے تصادم کی بجائے بقائے باہمی کا راستہ چنتی ہے یا نہیں۔

Post Views: 5

متعلقہ مضامین

  • جے یو آئی (ف) کا تحریک انصاف کیساتھ سیاسی اتحاد نہ کرنے کا فیصلہ
  • پاکستان اور افغانستان: تاریخ، تضاد اور تعلقات کی نئی کروٹ
  • مولانا فضل الرحمن کا پاکستان تحریک انصاف کیساتھ سیاسی اتحاد کرنے سے انکار
  • شہباز خدا کا خوف کرو، کلمہ پڑھتے ہو اور 25 کروڑ عوام کے حق پر ڈاکہ ڈال کر بیٹھے ہو، محمود اچکزئی
  •  کینالز ، سیاست نہیں ہونی چاہئے، اتحادیوں سے ملکر مسائل حل کریں گے: عطاء تارڑ 
  • جمہوریت کی مخالفت کیوں؟
  • سیاسی سسپنس فلم کا اصل وارداتیا!
  • سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں. اسد عمر
  •  سیاست میں دشمنی کا ماحول پی ٹی آئی نے پیدا کیا : طارق فضل چوہدری
  • تحریک انصاف ایک سال میں اپنے بنیادی مطالبات سے پیچھے ہٹ چکی