WE News:
2025-04-22@07:09:17 GMT

دودھ کے دھلے سیاستدان

اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT

دودھ کے دھلے سیاستدان

‘ہم کوئی دودھ کے دھلے تو نہیں، مگر اتنے برے بھی نہیں ہیں’۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ پچھلے کچھ عرصے سے پیپلزپارٹی نے وفاقی حکومت پر تنقید کے نشتر برسانے کی رفتار کچھ زیادہ تیز کردی ہے۔ پنجاب میں پارٹی کے گورنر سردار سلیم حیدر خان صوبائی حکومت کی پالیسیوں پر تندوتیز بیانات کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے۔ اسی طرح سے پچھلے کچھ عرصے سے پیپلزپارٹی کی سیاست کا محور وفاقی حکومت کے اتحادی بغیر مشاورت کے اہم فیصلے کرنا بن چکا ہے۔

مریم نواز شریف کی عملی سیاست کا آغاز ہی وزارت اعلیٰ سے ہوا ہے۔ ان کے چچا وفاق میں بیٹھے مشکل ترین فیصلے کرنے میں مصروف ہیں اور امید دلا رہے ہیں کہ بہت جلد معاشی صورتحال کی بہتری کے اثرات عوام تک پہنچ جائیں گے۔ مگر مہنگائی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ ایسے میں مریم آئے روز نئے منصوبوں کا اعلان کر رہی ہے۔ ستھرا پنجاب سے لے کر بڑے شہروں میں تجاوزات کے خاتمے جیسے اقدامات کے ساتھ ان کی توجہ نوجوانوں پر ہے جنہیں وہ سکوٹیاں، قرضے اور لیپ ٹاپ دے رہی ہیں۔

پچھلے روز مریم نواز کی کارکردگی سے متاثرشہر قائد کے تاجروں نے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال سے ایک انوکھا مطالبہ کردیا۔ کہنے لگے کچھ عرصے کے لیے مریم نواز انہیں دے دیں اور سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کو آپ رکھ لیں۔ اس مطالبے نے پیپلز پارٹی کی پوری قیادت کو سیخ پا کردیا۔ بلاول بھٹو نے تاجروں سے ملاقات میں کہا کہ اگر کوئی شکایت ہے تو انہیں بتائیں کسی اور چغلی کرنے کیا کیا ضرورت ہے۔

ہماری حکومت آپ سے کوئی بھتہ تو نہیں مانگ رہی بلکہ آپ کے مسائل حل کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اسلام آباد میں وزیراعظم اور افسران ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کردی ادھر کراچی میں لوڈشیڈنگ کم ہے مگر دوسرے شہروں میں 12 سے 14 گھنٹے لوڈشیڈنگ ہور رہی ہے۔ بلاول کہتے ہیں کہ ان کی مشاورت کے بغیر وفاق کے فیصلوں کے نتائج انہیں بھگتنا پڑ رہے ہیں۔

پیپلز پارٹی کو ایک لمبے عرصے بعد موقع ملا ہے کہ سندھ میں حکومت کے ساتھ کراچی میں میئر کی نشست بھی انہی کے پاس ہے۔ سندھ اور کراچی میں گورننس کے سنگین معاملات کے ساتھ امن و امان، صاف پانی کی فراہمی، سڑکوں کی بری صورتحال سمیت کئی گھمبیرمسائل کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو مخالفین نے ہمیشہ آڑے ہاتھوں لیا۔ پارٹی لیڈرز کہتے ہیں کہ سڑکوں کے بجائے ان کا فوکس صحت اور تعلیم پر ہے۔ ساری موٹرویز وفاق نے پنجاب میں بنائیں۔ اس مرتبہ پیپلز پارٹی بھی سڑکوں کی تعمیر و مرمت کے کام پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔

آئے روز ایسی خبریں آتی ہیں کہ شاید پیپلز پارٹی اپنے اتحادی مسلم لیگ نواز سے خفا ہے اور بہت جلد بلاول کو وزیراعظم بنایا جا رہا ہے۔ تاہم، بلاول اس کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ حکومت 5سال مکمل کرے گی۔ پیپلز پارٹی کی حکمت عملی تھی کہ حکومت میں باقاعدہ شامل ہو کر کٹھن ترین معاشی فیصلوں کا ملبہ اپنے سر لینے کے بجائے آئینی عہدے سنبھال کر سندھ میں ترقیاتی کام کروائیں اور اپنی پوزیشن مضبوط کریں۔

پیپلز پارٹی کے خیال میں وفاقی اور پنجاب حکومت پر تنقید کرنے اور فیصلوں میں مشاورت نہ ہونے کا ڈھول پیٹنے سے مسلم لیگ کی پوزیشن خراب ہوگی اور وہ مزید مضبوط ہوں گے۔ لیکن ایک پہلو یہ بھی ہے کہ پیپلز پارٹی کی پنجاب میں مقبولیت انتہائی نچلے درجے پر ہے اور مسلم لیگ نواز کا کراچی میں اپنی سیاسی جگہ بنانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ دونوں جماعتوں کو پاکستان تحریک انصاف کی صورت میں ایک بڑے سیاسی چیلنج کا سامنا ہے۔

تاریخی عدم اعتماد کے نتیجے میں عمران خان حکومت کے خاتمے اور اندرونی اور بیرونی سازش پر ایک کامیاب بیانیے اور پی ڈی ایم دور اور حالیہ حکومت کے معاشی فیصلوں سے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں سارا فائدہ تحریک انصاف اٹھا رہی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ گاہے بگاہے پیپلز پارٹی کی اپنی اتحادی حکومت پر تنقید بھی تحریک انصاف کے حق میں جاتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنماء سمجھتے رہے کہ پنجاب سے نکلنے کے بعد عمران خان کی تحریک انصاف ہی مسلم لیگ نواز کا مقابلہ کرسکتی ہے۔

پیپلز پارٹی نے تحریک انصاف کے لیے پنجاب میں قدم جمانے کا موقع فراہم کیا ورنہ مشکل ترین حالات میں بھی پنجاب کے ہرحلقے میں پیپلز پارٹی کا 25 سے 30 ہزار ووٹ موجود رہا جو اب تحریک انصاف کے پاس جا چکا ہے۔ پیپلز پارٹی شاید اس گمان میں بھی ہے کہ مستقبل میں اگر انہیں تحریک انصاف کے ساتھ مل کر بھی حکومت بنانا پڑ سکتی ہے۔

جیسے مسلم لیگ نواز نے پیپلز پارٹی کو پنجاب سے باہر کردیا تو مشترکہ بیانیے سے مسلم لیگ نواز بھی پنجاب میں عوامی مقبولیت کھوسکتی ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے اور بالخصوص حالیہ انتخابات میں تحریک انصاف کی پنجاب میں بڑھتی پذیرائی سے مسلم لیگ نواز کو خاصی تشویش کا سامنا ہے۔ سیاست میں کچھ بھی ناممکن نہیں۔ آج کے حریف کل حلیف بن سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کا اولین مقصد سندھ اور کراچی میں اپنے ووٹ بینک میں اضافہ کرنا ہے۔ جس میں وہ تاحال کامیاب نظر آتے ہیں۔

مسلم لیگ نواز کا حمزہ شہباز کے بجائے مریم نواز کو وزارت اعلیٰ کا قلم دان سونپنا بھی اس حکمت عملی کا حصہ ہے جس میں پارٹی کی کوشش ہوگی کہ وفاق میں مشکل ترین معاشی فیصلوں کے باوجود پنجاب میں چند اچھے منصوبے اور اقدامات اٹھا کر اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالا جاسکے۔ صوبے میں مریم نواز کے بعض منصوبوں کو اچھی پذیرائی مل رہی ہے مگر مہنگائی کم کرنا، روزگار کے مواقع پیدا کرکے عوام کی قوت خرید میں اضافہ کرنا اس حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

احمد ولید

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی کی تحریک انصاف کے مسلم لیگ نواز سے مسلم لیگ کراچی میں مریم نواز پارٹی کے حکومت کے کچھ عرصے کے ساتھ رہی ہے کے لیے

پڑھیں:

لاہور بیٹھک، ن لیگ اور پی پی کا ساتھ چلنے پر اتفاق


مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے لاہو کی بیٹھک میں ساتھ چلنے پر اتفاق کرلیا۔

گورنر ہاؤس لاہور میں ہونے والی ملاقات میں پانی کی تقسیم، زراعت، بلدیاتی انتخابات سمیت کئی معاملات پر تبادلہ خہال کیا۔

ن لیگ کی طرف سے اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان اور پی پی پنجاب کے سربراہ حسن مرتضیٰ نے کوآرڈی نیشن کمیٹی اجلاس میں شرکت کی، اس دوران ملکی صورتحال کے پیش نظر مل جل کر چلنے پر اتفاق کیا۔

اس موقع پر ن لیگ نے پی پی قیادت کے پانی، گندم اور ترقیاتی فنڈز سے متعلق تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کروادی۔

حکومت پیپلز پارٹی کو ناراض کرنے پر تلی ہے، آغا رفیع اللّٰہ

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رکن قومی اسمبلی آغا رفیع اللّٰہ نے کہا ہے کہ دریائے سندھ پر 6 نہریں نکالنے سے سندھ کی موت واقع ہوجائے گی۔

اجلاس میں پنجاب میں دونوں جماعتوں کے درمیان پاور شیئرنگ پر پیشرفت کا بھی جائزہ لیا گیا۔

ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں پی پی کے حسن مرتضیٰ نے کہا کہ کینالز کے معاملے پر ہماری قیادتیں مل کر بیٹھیں گی، ایک موقف لے کر سامنے آئیں گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ کیمرے کے سامنے کھڑے ہو کر کسی کو بھی ذمے دار قرار دینا قومی المیہ بن چکا ہے۔

پی پی کے رہنما نے یہ بھی کہا کہ سوال یہ ہے کہ نئی نہریں نکالی جائیں گی تو ان کے لیے پانی کہاں سے آئے گا؟

سسٹم میں پانی نہیں تو یہ کینالز کیسے بنارہے ہیں؟ وزیر آب پاشی سندھ کا سوال

وزیر آب پاشی سندھ جام خان شورو نے استفسار کیا ہے کہ جب سسٹم میں پانی ہی نہیں تو یہ کینالز کیسے بنارہے ہیں؟

اُن کا کہنا تھا کہ اسمبلی میں پیش کیے گئے بلدیاتی بل پر تحفظات ہیں، ترقیاتی فنڈز ہمارا حق ہے، کینالز کا معاملہ تکنیکی ہے، ہم اپنے اپنے موقف کے ساتھ کھڑے ہیں، گفتگو کے بعد بہتر راستہ نکلے گا۔

اس موقع پر ن لیگ کے ملک محمد احمد خان بھی پی پی رہنما کے ہم آواز تھے، انہوں نے کہا کہ سندھ کا حق ہے کہ وہ اپنے پانی کی حفاظت کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ پانی کا ایشو سیاسی نہیں تکنیکی ہے، تکنیکی معاملات پر بات ہونی چاہیے، پانی پر سندھ کے تحفظات دور ہونے چاہئیں، اس میں کچھ غیر فطری نہیں ہے۔

یہ درست نہیں صدر زرداری نے کینالز منصوبے کی منظوری دی، شرجیل میمن

سندھ کے سینئر وزیر شرجیل میمن نے کہا ہے کہ یہ بات درست نہیں کہ صدر آصف علی زرداری نے کینالز منصوبے کی منظوری دی۔

اسپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ ارسا میں پانی کی تقسیم کا فارمولا طے ہے، جس پر سب کا اتفاق ہے، بتایا گیا ہے کہ 10 ملین ایکڑ پانی کا گیپ ہے۔

انہوں نے کہا کہ سندھ اور پنجاب کے درمیان پانی کے معاملات پر ڈیٹا کے مطابق بات کریں گے، مقامی سطح پر عوامی نمائندوں کو اختیار ملنا چاہیے، پیپلز پارٹی بھی چاہتی ہے پنجاب میں اچھی گورننس ہو۔

انکا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دو مختلف جماعتیں ہیں، پی پی ہماری اتحادی جماعت ہے، اس کی رائے مختلف ہوتی ہے تو اظہار جلسوں اور باہمی ملاقاتوں میں ہوتا ہے، اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں۔

ایسا معاشرہ چاہتے ہیں جہاں تمام شہریوں کو مساوی حقوق ملیں، بلاول بھٹو

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ہمیں ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہوگا جہاں تمام شہریوں کو مساوی حقوق اور مواقع ملیں۔

اس سے قبل صدر ن لیگ کی ہدایت پر رانا ثناء اللّٰہ نے وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن سے فون پر رابطہ کیا تھا۔

رانا ثناء اللّٰہ نے شرجیل میمن سے کہا کہ نہروں کے معاملے پر مذاکرات کو تیار ہیں، نواز شریف اور شہباز شریف نے نہروں پر سندھ کے تحفظات دور کرنے کی ہدایت کی ہے۔

اس پر صوبائی وزیر نے کہا کہ پیپلز پارٹی نہروں پر وفاق سے مذاکرات کو تیار ہے، پی پی سندھ کےلیے 1991ء کے معاہدے کے تحت پانی کی منصفانہ تقسیم چاہتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • نوازشریف انسٹیٹیوٹ آف کینسر ٹریٹمنٹ اینڈ ریسرچ بل کی عدم منظوری، مریم نواز برہم، سخت نوٹس لے لیا
  • پانی معاملہ صرف سندھ نہیں پنجاب کا بھی مسئلہ ہے، نیئر بخاری
  • پیپلز پارٹی کا پنجاب میں بلدیاتی انتخابات فوری کروانےکامطالبہ
  • پیپلز پارٹی کھیل بگاڑنا چاہتی ہے؟
  • لاہور بیٹھک، ن لیگ اور پی پی کا ساتھ چلنے پر اتفاق
  • پیپلز پارٹی کا  بلدیاتی الیکشن کا مطالبہ
  • نواز اور شہباز شریف نے پیپلز پارٹی سے بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنےکی ہدایت کی ہے: رانا ثنا
  • بجٹ سے پہلے کینالز منصوبہ ختم کرائینگے مراد علی شاہ:نواز‘ شہباز شریف نے  تحفظات دور کرنے کی ہدایت کر دی‘ رانا ثنا
  • پنجاب: ن لیگ، پی پی پاور شیئرنگ کمیٹیوں کے اجلاس کل طلب
  • پیپلز پارٹی سندھ کا پانی خود فروخت کرکے رونے کا ڈراما کررہی ہے. زرتاج گل