Juraat:
2025-04-22@00:01:34 GMT

احتساب تو ثبات چاہتا ہے

اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT

احتساب تو ثبات چاہتا ہے

ب نقاب /ایم آر ملک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نام نہاد اور قانون سے بالا تر شرفاء کی طرف شاید احتساب کی ایک انگلی بھی نہ اُٹھ سکے،کرپشن سے گدلے پانی کے تالاب میں گرنے والے پتھر سے پانی کناروں سے باہر آچکا ، اب لوٹ مار کو اخلاقی سندمل چکی ، ٹی وی چینلز پربیٹھے حکومتی تنخواہ دار اب جھوٹ کو سچ قرار دیکر میڈیا کو پارسا ئی کے سرٹیفکیٹ دکھائیں گے ،نیب کوماضی میں” پگڑی اُچھال ادارہ” قراردینے والوں کو سانپ سونگھ گیا ،ان مداریوں کی ڈگڈگی پر ناچنے والے 26کروڑ لوگوں کو بے وقوف بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جائے گا ،کھوکھلی نعرے بازی ہے کہ اُن سے کسی قسم کے افاقے کی توقع نہیں ،کرپشن کی جونکوں کو خراج تحسین پیش کرنے والے نام نہاد دانش ور نہیں جانتے کہ مرض لاعلاج سطح پر پہنچ گیا اور سب تدبیریں اُلٹی ہونے والی ہیں ۔
کرپشن زدہ شرفاء کی مسکراہٹیں ہیں کہ خود اپنا مذاق اُڑا رہی ہیں ،150میگا اسکینڈلز میں کون سا شریف اور معزز ہے جو سر بازار ننگا نہیں ہوا مگر بے لباسی کو شاہی لباس سمجھ کر اترایا جارہا ہے ،جن کے خلاف انقلاب آنا تھا وہ انقلاب کا مذاق اُڑا کر خود فریبی کی دلدل میں غرق ہو رہے ہیں۔ ان کے سارے جرائم گیلے کاغذ کی طرح ہیں جس پر نہ کچھ لکھا جا سکتا ہے اور نہ مٹایا جاسکتا۔
غلطیاں شاید بڑے لوگوں کا آرٹ ہوتی ہیں۔ ماضی میں عمران جسے منافقت کے ایوانوں میں بغاوت کی للکار سمجھا گیا خود قابل احتساب وزیروں ،پارلیمنٹیرین کے حصار میں گھر گیا ، احتساب ثبات چاہتا ہے ۔لوٹ مار کرنے والے کتنے ہی بڑے کیو ں نہ ہوتے ،پابند ِ سلاسل ہونا تھے ۔ ماڈل ٹائون میں گرنے والی 14لاشوں کا جے آئی ٹی نے جنہیں مجرم ٹھہرایا ،وہ بدستوردندناتے پھرتے رہے ،احتساب کی ہوا اُنہیں چھو کر بھی نہ گزری۔ وقت کے حکمرانوں نے ماضی کی شاید کوئی کتاب نہیں پڑھی۔
اورنگزیب عالمگیر نے اپنی رہائش گاہ کے قریب ایک قبر کھدوائی مو ذن روزانہ کھودی گئی قبر میں کھڑا ہوکر اذان دیتا، شہشاہ وقت کا کہنا تھا کہ مو ذن جب اللہ اکبر کہے تو مجھے باور ہو کہ لافانی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ میں فانی ہوں۔ جاہ و حشمت ،عزو جلال چار روزہ ہے ، ڈھلتی چھائوں ۔قبر کامقصد یہ ہے کہ مجھے آخر مرنا ہے خاک نشیں ہونا ہے۔
شہنشاہ جہانگیر کی بیوی اپنے وقت کی طاقت ور ترین عورت تھی جہانگیر دربار لگاتا تو اُس کے بالوں پر ہاتھ رکھ کر بیٹھتا آج شاہدرہ کے قریب نورجہان کی قبر کے صرف آثار باقی ہیں موت کے بے رحم ہاتھ سب کچھ فنا کر گئے ۔ایک مغل حکمران پر جب عتاب ٹوٹا ،اقتدار کی نیا ڈوبی قابض فوج محلات پر آچڑھی تو وہ صرف اپنی جان بچا کر بھاگا۔ بھاگتے ہوئے رات کے سناٹے میں اُس نے دور تک اپنی بیٹیوں اور بیوی کی درد ناک چیخیں سنیں ان چیخوں کی باز گشت بھاگتے ہوئے میلوں اُس کا پیچھا کرتی رہیں ۔
بہادر شاہ ظفر کو لال قلعہ میں قید کردیا گیا اُس کے دو بیٹوں اور ایک پوتے کو خونی گیٹ پر ہاتھ پائوں باندھ کر قتل کردیا گیا۔ شہزادوں کے سر طشت میںرکھ کر ابو ظفر بہادر شاہ کی مہمان نوازی کیلئے بھیجے گئے۔ چشم ِ فلک نے وہ المناک منظر بھی دیکھا ،جب ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کا آخری تاجدار مغل ایک غاصب ،ڈاکو اور احسان فراموش قوم کی عدالت میں ملزموں کے کٹہرے میں کھڑا تھا۔ وقت نے یہ بھی دیکھا کہ 21دن مقدمہ کی سماعت کے بعد شہنشاہ ہند مجرم قرار پایا، خود ساختہ عدالت کے فیصلے کے مطابق لوہے کی سلائیاں آگ میں تاپ کر شہنشاہ ہند کو دونوں آنکھوں سے محروم کر کے رنگون بھیج دیا گیا۔ فطرت کے قوانین کو جب انسان توڑنا چاہتاہے تو فطرت کبھی اُسے معاف نہیں کرتی۔
راجہ داہر کو درباری نجومیوں نے باور کرایا کہ اگر تم اپنے اقتدار کو دوام بخشنا چاہتے ہو تو اپنی خوبصورت اکلوتی بہن کی شادی کسی اور سے نہ کرنا ،انہی نجومیوں میں سے ایک نجومی نے یہ پیشگوئی بھی کر دی کہ تم خود اپنی بہن سے شادی کر لو۔ راجہ داہر نے اپنی بہن سے شادی کر لی۔ قانون فطرت کے خلاف یہ اُس کا جرم عظیم تھا ۔بس یہیں سے اُس کے اقتدار کی طنابیں ٹوٹنے لگیں ۔رب کائنات کا کوڑا حرکت میںآیا
سینکڑوں کوس دور سے محمد بن قاسم اُس کی سرکوبی کیلئے روانہ ہوا۔
راجہ داہر کی فوج اُس کے اپنے ہاتھیوں کے پائوں تلے کچلی گئی اور وہ خود عبرت ناک موت سے دوچار ہوا ۔محمد بن قاسم جب فاتح کی حیثیت سے راجہ داہر کے محل میں داخل ہوا تو احاطے میں اُس کی بہن کی لاش جل رہی تھی۔ بر صغیر کی دھرتی پر قدم قدم پر بکھرے یہ تاریخی واقعات ایک تازیانہ ایک سبق کی شکل میں موجود ہیں ۔وقت کے اُن حکمرانوں کیلئے جو اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں ۔رضا شاہ پہلوی شہنشاہ ایران جب جلاوطنی کے دوران موت کے آہنی پنجے کا شکار ہوا تو وطن میں چند گز زمین کا ٹکڑا نصیب نہ ہو سکا۔ جب احتساب محض کمزور لوگوں کیلئے قانون بن جائے اور طاقت ور اِس کی لاش کو گھسیٹتے پھریں تو قدرت کا کوڑا حرکت میں آتا ہے کیونکہ سب سے بڑا محتسب وہی ہے۔ عمران خان نے احتساب کی روایت کو پس پشت ڈال کر قابل ِ احتساب لوگوں کو کھل کھیلنے کا موقع فراہم کیا ،بے لاگ احتساب کسی تفریق کے بغیر جاری و ساری رہتا ہے ۔
غرناطہ کے موسیٰ اور دلی کے بخت خان کی طرح جنوبی ہند کے ملک جہان خان نے بھی نامساعد حالات کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا تھا اُس نے غیرت و حمیت کا وہ راستہ اختیار کیا جو کٹھن ہے مگر بالآخر عزت کے معبد کی طرف جاتا ہے ۔عمران خان کو یہی کرنا تھا نہ کرسکا ،یہاں یہ وضاحت بھی ہوتی ہے کہ ایک بڑے صوبہ میں 14افراد کے قاتلوں میں سے ایک بھی گرفتار نہ ہوا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: راجہ داہر

پڑھیں:

پوپ فرانسس… ایک درد مند انسان

جب دنیا کی سپر پاورز خاموشی کی دبیز چادر اوڑھے غزہ کی مٹی پر بکھرے معصوم بچوں کے جسموں سے نظریں چرا رہی ہوں، جب عالمِ اسلام کے حکمران بے حسی کی چپ میں اپنی کرسیوں کو مضبوطی سے تھامے بیٹھے ہوں ، ایسے میں ایک بوڑھا پادری جس کے جسم پر بیماریوں کے نشان ہیں، جسے بار بار اسپتال لے جایا جاتا ہے، وہ اپنی تھرتھراتی آواز میں انسانیت کا مقدمہ لڑتا ہے، وہ پوپ فرانسس ہے۔ ویٹیکن کے عالی شان محل میں رہنے والا لیکن دل سے فقیروں کا ساتھی، زبان سے مظلوموں کی آواز اور عمل سے ایک نئی روایت کا آغازکرنے والا۔

اس نے کہا کہ جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے، وہ جنگ نہیں قتلِ عام ہے۔ یہ انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ یہ الفاظ کسی جلے ہوئے کیمپ میں پناہ گزین کسی فلسطینی کے نہیں تھے، نہ ہی یہ کسی انقلابی شاعر کے قلم سے نکلے مصرعے تھے۔ یہ ایک ایسے مذہبی ادارے کے سربراہ کے الفاظ تھے جو صدیوں سے طاقتوروں کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ یہ ویٹیکن کے اندر سے آنے والی وہ صدا تھی جو صدیوں کے جمود کو توڑ رہی تھی۔

پوپ فرانسس کا اصل نام خورخے ماریو بیرگولیو ہے۔ وہ ارجنٹینا کے شہر بیونس آئرس میں پیدا ہوا۔ کیتھولک چرچ کے روایتی مزاج سے ہٹ کر وہ پوپ بننے کے بعد پہلی بار چرچ کی فضاؤں میں ایک ایسی روشنی لے کر آیا جس نے اسٹیبلشمنٹ کے اندھیروں میں لرزش پیدا کر دی۔ اُس نے ویٹیکن کی دولت جاہ و جلال اور طاقت کی دنیا کو خیر باد کہہ کر عام انسانوں کے درمیان بیٹھنا پسند کیا۔ اس نے چرچ کے نچلے طبقوں، پسے ہوئے لوگوں اور باہر دھکیلے گئے انسانوں کی آواز بننے کو اپنا منصب سمجھا۔

وہ ایک ایسی دنیا کا داعی ہے جہاں عقیدے کی بنیاد پر نہیں بلکہ انسانیت کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں۔ اس نے ہم جنس پرست افراد کے لیے نرم الفاظ استعمال کیے، اس نے موسمیاتی بحران کو ایک مذہبی اور اخلاقی مسئلہ قرار دیا، وہ مہاجرین کے ساتھ بیٹھا، ان کے پاؤں دھوئے ان کے بچوں کو گود میں لیا اور کہا کہ مذہب صرف عبادت نہیں یہ عمل ہے، یہ انصاف ہے۔ اس نے دنیا کو بتایا کہ گرجا ہو یا مسجد جب تک وہ ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھائیں، وہ خاموشی کے مجرم ہیں۔

جب وہ پوپ منتخب ہوا تو اس نے اپنا لقب’’ فرانسس‘‘ رکھا جو سینٹ فرانسس آف اسّیسی کی یاد میں تھا، وہ درویش پادری جو فقیری میں جیتا تھا، پرندوں سے بات کرتا تھا اور جنگ کے خلاف کھل کر بولتا تھا۔ پوپ فرانسس نے اسی روایت کو اپنایا۔ اس نے ویٹیکن کے محلات میں رہنے سے انکار کیا، ایک چھوٹے سے کمرے میں قیام کیا، عام گاڑی استعمال کی اور قیمتی جوتوں، گھڑیوں اور زیورات سے گریزکیا۔ اس نے نہ صرف کہا بلکہ عمل سے دکھایا کہ مذہب کی اصل طاقت اخلاقی سچائی میں ہے نہ کہ شان و شوکت میں۔

پھر جب فلسطین کی زمین پر بمباری ہوئی، جب اسپتالوں کو نشانہ بنایا گیا، جب بچوں کے جسم ملبے تلے دب گئے تو پوپ فرانسس نے اپنے سادہ سے دفتر سے وہ بات کہی جو بڑے بڑے صدر نہ کہہ سکے۔ اس نے کہا ’’ یہ جنگ نہیں، یہ قتلِ عام ہے۔ یہ انسانیت کی توہین ہے۔‘‘

جب مغربی میڈیا اسرائیل کے بیانیے کو آگے بڑھا رہا تھا جب یورپی حکومتیں دفاعِ اسرائیل کو اپنا حق سمجھ رہی تھیں،جب عالمی ادارے بے بسی کی تصویر بنے ہوئے تھے، تب اس نے انسانیت کی طرفداری کا علم اٹھایا۔وہ چاہتا تو خاموش رہ سکتا تھا۔

وہ کہہ سکتا تھا کہ یہ ایک پیچیدہ تنازع ہے کہ ہم فریق نہیں بن سکتے کہ ہمیں غیر جانبدار رہنا چاہیے، لیکن اس نے غیرجانبداری کو منافقت قرار دیا۔ اس نے کہا کہ ظلم کے وقت خاموش رہنا ظالم کا ساتھ دینا ہے۔ یہ وہ تعلیم ہے جو ہر مذہب دیتا ہے لیکن کم ہی لوگ اس پر عمل کرتے ہیں۔

ہم مسلم دنیا میں اکثر خود کو مظلوموں کا وکیل سمجھتے ہیں لیکن جب وقت آتا ہے تو ہماری زبانیں سوکھ جاتی ہیں۔ ہم اپنے تجارتی معاہدے اپنے خارجہ تعلقات اور اپنی کرسیوں کو مظلوموں کے خون پر ترجیح دیتے ہیں۔ پوپ فرانسس ہمیں آئینہ دکھاتا ہے۔ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ مذہب کا اصل جوہر کیا ہے۔ وہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگر ہم ظالم کے خلاف کھڑے نہیں ہوتے تو ہمارا ایمان محض رسم ہے روح نہیں۔

پوپ فرانسس کی اپنی صحت بھی ان دنوں کمزور ہے۔ اسے کئی بار سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہوا ،اسپتال میں داخل کیا گیا، آپریشن ہوئے لیکن جیسے ہی وہ اسپتال سے باہر نکلا ،اس نے دنیا کے زخموں کو اپنی صحت پر ترجیح دی۔ وہ پھر سے کیمروں کے سامنے آیا اور کہا کہ ہمیں غزہ کے بچوں کے لیے دنیا کے مظلوموں کے لیے اور انسانیت کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے۔

انھیں زندہ رہنا چاہیے کیونکہ ان جیسے مذہبی رہنما کی دنیا کو ضرورت ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ ایک مذہبی رہنما ہے بلکہ اس لیے کہ وہ ضمیر کی آواز ہے۔ ایسی آوازیں اب کم رہ گئی ہیں۔ ایسی آوازیں جو نہ رنگ دیکھتی ہیں نہ قوم نہ مذہب نہ سرحد۔ جو صرف انسان دیکھتی ہیں اور جو ہر انسان کے لیے انصاف مانگتی ہیں۔

اس دنیا میں جہاں ہر دوسرا مذہبی پیشوا سیاست دانوں کا ترجمان بنا ہوا ہے، جہاں روحانیت طاقت کی غلامی بن چکی ہے، وہاں پوپ فرانسس ایک مختلف روایت کا پرچم بردار ہے۔ وہ جس سوچ کا حامی ہے، اس میں وہ تنہا نہیں ہے مگر وہ سوچ بہت سوں کی نہیں ہے۔

وہ جو ویٹیکن کی دیواروں سے نکل کر مہاجر کیمپوں میں جاتا ہے، وہ جو عبادت گاہوں سے نکل کر میدانِ سچ میں آتا ہے، وہ جو خاموشی کو توڑتا ہے۔اس کی زندگی اس کی زبان اس کا طرزِ قیادت ہمیں بتاتا ہے کہ انسانیت اب بھی زندہ ہے اگر ہم اسے سننا چاہیں اگر ہم اسے اپنانا چاہیں۔ہم سب کے لیے اور خاص طور پر ہمارے مذہبی رہنماؤں کے لیے پوپ فرانسس کی زندگی ایک سبق ہے۔ وہ سبق جو ہمیں مذہب کی اصل روح سے جوڑتا ہے اور بتاتا ہے کہ اگر دل زندہ ہو تو ضمیر بولتا ہے اور جب ضمیر بولتا ہے تو دنیا کی خاموشی ٹوٹتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بجلی
  • سپیکر کے پی اسمبلی کو کرپشن الزامات میں کلین چٹ دینے پر پی ٹی آئی احتساب کمیٹی میں اختلافات
  • اسپیکر کے پی اسمبلی کو کرپشن الزامات میں کلین چٹ دینے پر پی ٹی آئی احتساب کمیٹی میں اختلافات
  • اسپیکر بابر سلیم کو کرپشن الزامات میں کلین چٹ دینے پر پی ٹی آئی کی احتساب کمیٹی میں اختلافات
  • پی ٹی آئی احتساب کمیٹی نے اسپیکر بابر سلیم سواتی کو کرپشن الزامات سے بری کردیا
  • بابر سلیم سواتی کرپشن الزامات سے بری، احتساب کمیٹی کی رپورٹ سامنے آگئی
  • غیر قانونی بھرتیاں، اسپیکر کے پی اسمبلی کیخلاف احتساب کمیٹی کی تحقیقات مکمل
  • پوپ فرانسس… ایک درد مند انسان
  • غیر قانونی بھرتیاں، اسپیکر کے پی اسمبلی کیخلاف احتساب کمیٹی کی تحقیقات مکمل، رپورٹ جاری
  • ایف آئی آر کی کہانی