Express News:
2025-04-22@11:09:48 GMT

’’ نصف صدی کا قصہ‘‘

اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT

قومی ترانے کے خالق معروف شاعر، ادیب اور دانشور حفیظ جالندھری کا یہ مصرعہ’’نصف صدی کا قصہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں ‘‘ اتنی کثرت سے استعمال ہوا ہے کہ اس پر ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔آج میں ایک کتاب ہی کا ذکر کر رہا ہوں، اس کا عنوان ہے ’’ نصف صدی کا قصہ‘‘ یہ کتاب دشت صحافت کی ایک ایسی کلیدی شخصیت کے گرد گھومتی ہے جس کا نام شکور طاہر ہے۔

یہ تحقیقی کتاب پاکستان کی ایک ممتاز یونیورسٹی رفاہ انٹرنیشنل کے اسکالر محمد رضوان تبسم نے تحریر کی ہے۔ بظاہر یہ کتاب ایک شخصیت کے گرد گھومتی ہوئی ہے لیکن فی الحقیقت یہ کتاب پاکستان کی الیکٹرانک صحافت کہ 50 سال کا احاطہ کرتی ہے۔کتاب معلومات کا ایک خزانہ لیے ہوئے ہے اور مستقبل میں پاکستان کی الیکٹرانک صحافت پر تحقیق کرنے والوں کے لیے ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔

 شکور طاہر پاکستان کے ان چنیدہ افراد میں ہیں جن کے کام کو ان کی زندگی ہی میں نہ صرف یہ کہ سراہا گیا بلکہ اہل قلم اور ابلاغیات کے معروف افراد نے بھی داد تحسین پیش کی ہے۔بلا شبہ شکور طاہر الیکٹرانک میڈیا اور صحافت کے حوالے سے ملک کا ایک معتبر نام ہے۔انھیں اردو اور انگریزی دونوں زبانوں پر دسترس ہے۔

ان کی تحریریں نایاب تاریخی معلومات کے ساتھ ساتھ ادبی چاشنی سے مزین ہوتی ہیں۔ حسن اتفاق یہ بھی ہے کہ میری ان کے ساتھ رفاقت کو بھی 50 سال یعنی نصف صدی ہو چکی ہے۔ میں نے جب بطور نیوز پروڈیوسر رپورٹر 1975 میں پی ٹی وی جوائن کیا تو وہ وہاں نیوز ایڈیٹر تھے۔

شکور طاہر صاحب نے بی اے میں پنجاب یونیورسٹی سے گولڈ میڈل لیا، یہی نہیں بلکہ انھوں نے ایم اے صحافت میں بھی گولڈ میڈل حاصل کیا ۔ شکور طاہر پاکستان کی جیتی جاگتی تاریخ ہیں وہ پاکستان کی سیاست کے بہت سے رازوں کے امین ہیں۔وہ اس فن سے بھی خوب شناسا ہیں کہ سچ کا اظہار کیسے اور کن الفاظ میں کیا جانا چاہیے۔

رب کریم نے انھیں بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ایک منجھے ہوئے براڈکاسٹر کی طرح انھیں الفاظ اور جملوں کی تراش خراش، ان کی باریک بینی اور ادائیگی کے فن میں مہارت حاصل ہے۔وہ زبان و بیان، لہجے اور تلفظ کی نزاکتوں کو خوب سمجھتے ہیں۔وہ صاحب مطالعہ ہونے کے ساتھ ساتھ زبان و بیان پر پورا عبور رکھتے ہیں۔

پنجاب یونیورسٹی شعبہ صحافت میں تعلیم کے دوران انھوں نے جو نوٹس تحریر کیے وہ ابلاغ عامہ کے موضوع پر اردو کی پہلی کتاب کی بنیاد بنے۔ انھیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے ڈاکٹر عبدالسلام خورشید، پروفیسر مسکین علی حجازی، پروفیسر سید وقار عظیم اور پروفیسر وارث میر کی رہنمائی میں ابلاغ عامہ کی انگریزی اصطلاحات کا اردو میں ترجمہ بھی کیا۔

شکور طاہر 1976 میں جیفرسن فیلو شپ پر امریکی ریاست ہوائی گئے تو انھیں ابلاغ عامہ کے ممتاز اساتذہ سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔شکور طاہر پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے بورڈ آف اسٹڈی کے رکن اور ایم اے صحافت اور CSS کے لیے ابلاغیات کے ممتحن بھی رہے۔انھیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ پی ٹی وی کے معروف نیوز بلٹن ’’خبرنامہ‘‘ کو تخلیق دینے والوں میں بھی شامل ہیں۔

یہ کتاب’’نصف صدی کا قصہ‘‘ پی ٹی وی کے آغاز سے عروج تک کے سفر کا خلاصہ بھی ہے۔ شکور طاہر کی شخصیت کے حوالے سے صاحب کتاب نے 70 کے قریب اہم شخصیات کے انٹرویوز اور تاثرات کو تحقیق کا حصہ بنایا ہے۔

سب ماہرین ابلاغیات اور دانشوروں نے شکور طاہر کی شخصیت اور ان کے فن پر جس طرح اظہار خیال کیا ہے وہ بذات خود ایک الگ کتاب کا موضوع ہے۔صاحب کتاب نے نصف صدی کے اس قصے کو پونے چار سو صفحات پر پھیلاتے ہوئے تین حصوں اور تیرہ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔

 شکور طاہر میڈیا کے شعبے سے منسلک طالب علموں اور صحافیوں کے لیے ایک اکیڈمی کی حیثیت رکھتے ہیں، انھوں نے برقیاتی صحافت کو نئے زاویوں اور خبر نگاری کے فن کو نئی جہتوں سے روشناس کرایا ہے۔فی الحقیقت شکور طاہر جیسے صحافی ہماری صحافت کا مان ہے اور وہ صحافت میں انے والی نئی نسل کے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کتاب کو پڑھ کر شدت سے یہ احساس ہوتا ہے کہ ’’ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی‘‘۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نصف صدی کا قصہ پاکستان کی شکور طاہر انھوں نے یہ کتاب

پڑھیں:

خاموش بہار ۔وہ کتاب جوزمین کے دکھوں کی آواز بن گئی

ڈاکٹر جمشید نظر

دنیا بھر میں ہر سال 22اپریل کومدر ارتھ ڈے ” عالمی یوم ارض”منایا جاتا ہے جس کا مقصدزمین پر رہنے والے انسانوں کو زمین کے مسائل اور مشکلات سے متعلق آگاہ کرنا اوراس بات کا شعور پیدا کرنا ہے کہ انسانوں سمیت دیگر جانداروں کے رہنے کے قابل واحد سیارے ”زمین ”کوہر طرح کی آفات اور آلودگی سے محفوظ رکھنے کے لئے مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی۔ زمین کا عالمی دن منانے کا آغاز سن1970 میں امریکہ سے ہواتھا جس میں20ملین لوگوں نے حصہ لیا تھا۔موجودہ سال اس عالمی دن کا موضوع ہے (OUR POWER, OUR PLANET) یعنی ہر جاندار کی سب سے بڑی طاقت اور قوت کرہ ارض ہے کیونکہ زمین سے ہی ہم اپنی خوراک ،پانی اور زندہ رہنے کے لئے بنیادی اشیاء حاصل کرتے ہیں۔
دنیا میںزمین کا عالمی دن منانے کا رحجان ایک بڑے دلچسپ واقعہ سے ہواتھاجس کے متعلق بہت کم لوگ جانتے ہیں۔امریکہ کی نامور مصنفہ ”ریچل کارسن”27مئی1907میں پنسلوانیا میں پیدا ہوئی تھی اُس نے اپنی زندگی میں بہت سے موضوعات پر شمار کتابیں لکھیں لیکن زیادہ تر کتابیں سمندری حیاتیات اورماحولیات کے موضوع پر تھیں۔ریچل کارسن کی ایک کتاب سائلنٹ اسپرنگ ”خاموش بہار”کے نام سے سن1962 میں شائع ہوئی تو اس کتاب کے منفرد ،حیرت انگیز تحریری مواد اور انکشافات نے دنیا میں یکدم ہلچل مچادی۔سائلنٹ سپرنگ کتاب میں زمین پر زندگی کو ختم کرنے والی اُن آلودگیوں کے بارے میںانکشاف کیا گیا تھا جوخودانسان کی پیدا کردہ تھیںحالانکہ اُن دنوں انٹرنیٹ اورسوشل میڈیا بھی نہیں ہوتا تھا کہ ریچل کی تحقیق تیزی سے دنیا میں پھیل جاتی لیکن اس کے باوجودحیرت انگیز طور پرد ریچل کی کتاب ”خاموش بہار”اس قدر تیزی سے مشہور ہوئی کہ دنیا کے 24 ممالک میں اس کی 5لاکھ سے زائد کاپیاں دھڑا دھڑا فروخت ہوگئیں۔اس زمانے میں اتنی بڑی تعداد میںکسی کتاب کا فروخت ہونا ایک بہت بڑا ریکارڈ تھا۔ کتاب کی مقبولیت پر ریچل کوآٹھ مشہور ایوارڈز بھی دیئے گئے۔اسی لئے ریچل کی کتاب”سائلنٹ اسپرنگ” آج بھی دنیا میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں میں سے ایک کتاب سمجھی جاتی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد زراعت میںکیڑے مار ادویات کا اندھادھند استعمال کیا جانے لگا تھا جس سے جنگ عظیم کے بعد زندہ بچ جانے والوں انسانوں کی زندگی کو شدید خطرہ لاحق تھا، ریچل نے اپنی کتاب میں ان خطرات کا ذکر کرتے ہوئے زرعی سائنسدانوں کے طریقوں کو چیلنج کرتے ہوئے قدرتی نظام میں انسان کے بدلتے تصورات کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیاتھا۔اس نے اپنی کتاب کے ذریعے ایک ایسی ماحولیاتی تحریک کو جنم دے دیا تھا جس کی وجہ سے انسانی زندگی میں سائنس کے مقام کی بنیادی تبدیلی کی گئی۔
ریچل کی کتاب کے شائع ہونے پربڑی بڑی کیمیکل کمپنیوں ،اُن کے تجارتی اتحادیوں اور کچھ سرکاری عہدیدارو ںنے ریچل کی تحقیق کو بدنام کرنے اوراس کے کردارکو داغدار کرنے کے لئے تقریبا دو لاکھ پچاس ہزار ڈالرتک خرچ کرڈالے اور یہ افواہ پھیلا دی کہ ریچل ایک گھبرائی ہوئی جذباتی بوڑھی عورت ہے جو بلیوں کی دیکھ بھال کرتی ہے اور جنیات کی سائنس سے پریشان ہے۔ریچل کی کردار کشی کے باوجود اس کی ماحولیاتی تحریک کو دبایا نہ جاسکا۔ کتاب شائع ہونے کے ایک سال بعد سن1963میںریچل نے امریکی کانگریس سے انسانی صحت اور ماحولیات کے تحفظ کے لئے نئی پالیسیاں بنانے کامطالبہ کرتے ہوئے دنیا پرواضح کردیا کہ ماحولیاتی نظام شدید خطرے میں ہے۔اس سے قبل کے امریکی کانگریس ریچل کے مطالبہ پر کوئی ردعمل ظاہر کرتی ریچل سن1964 میں چھاتی کی کینسر کے باعث انتقال کرگئی لیکن اس کی ماحولیاتی تحریک زندہ رہی اور آخرکار ریچل کی تحریک کو عملی جامہ پہناتے ہوئے امریکی سینیٹر گیلارڈ نیلسن نے 22اپریل سن1970کو امریکہ میں تقریباََ 20لاکھ لوگوں،دو ہزارکالجزاوریونیورسٹی،10ہزار گرائمر اورہائی سکول اورایک ہزارکمیونیٹیز کو ماحولیاتی مسائل اور انسان کی وجہ سے ماحول کو درپیش خطرات کی نشاندہی اور تدارک کیلئے اکٹھاکیا اورپہلی مرتبہ ارتھ ڈے منایا۔سن 1995میں سینیٹر گیلارڈ نیلسن کو یومِ ارض تحریک کے بانی کے طور پرامریکہ کے سب سے بڑے سول ایوارڈ سے نوازا گیا۔سن2009 میں اقوامِ متحدہ نے 22اپریل کو” Mother Earth Day ”کے نام سے منسوب کردیا جس کے بعداب ہر سال 22اپریل کو یہ دن دنیا کے 193ممالک میں باقاعدگی سے منایا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • خاموش بہار ۔وہ کتاب جوزمین کے دکھوں کی آواز بن گئی
  • کتاب ہدایت
  • پاکستانی میڈیا: سچ کے بجائے منظر نامے کا اسیر؟