گرینڈ الائنس یا سولو فلائٹ
اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT
عمومی طور پر جو لوگ پی ٹی آئی اور بانی پارٹی کی سیاست کا ادراک رکھتے ہیں، وہ اس بات کو تسلیم کریں گے کہ پی ٹی آئی کا دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا کوئی اچھا تجربہ نہیں ہے جب کہ دیگر سیاسی جماعتوں کاکہنا ہے کہ ان کا پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر کام کرنے کا تجربہ اچھا نہیں ہے۔ بانی پی ٹی آئی اتحادی سیاست کے مقابلے میں سولو فلائٹ کے حامی ہیں۔ وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ‘جے یو آئی اور عوامی نیشنل پارٹی کو کرپشن کا طعنہ دیتے ہیں۔
پی ٹی آئی کو مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی سیاست ہے کا سامنا ہے تو دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ بھی اس کے حق میں نہیں ہے۔یہ ہی وجہ ہے سیاسی محاذ پر پی ٹی آئی کو کافی مشکلات کا سامنا ہے جب کہ قانونی مشکلات کا بھی ایک پہاڑ کھڑا ہے۔حالیہ دنوں میں حکومت پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مکالمہ کے کئی دور بھی ہوئے لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔
اسی بنیاد پر پی ٹی آئی کے اندر ایک نئی سوچ نے جنم لیا ہے کہ ہمیں مختلف دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک گرینڈ الائنس کی طرف پیش رفت کرنی چاہیے۔اگرچہ پی ٹی آئی نے محمود خان اچکزئی کی قیادت میں پہلے ہی سے گرینڈ الائنس بنایا ہوا ہے۔
لیکن لگتا ہے کہ اب اس میں نئی وسعت پیدا کرنی ہے۔خاص طور پر مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی اور جماعت اسلامی کو بھی اس گرینڈ الائنس کا حصہ بنانے کو حتمی شکل دی جارہی ہے۔جب کہ بلوچستان اور سندھ سے عطا اللہ مینگل سمیت دیگر قوم پرست رہنماؤں کو بھی اتحاد کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔
پی ٹی آئی کا خیال ہے کہ اگر اس گرینڈ الائنس کی موجودگی میں ہم اپنی سیاست کو آگے بڑھائیں تو حکومت پر بھی اور اسٹیبلشمنٹ پر زیادہ مضبوطی کے ساتھ اپناعملی سیاسی دباؤ بڑھا سکتے ہیں۔ اس دباوکے نتیجے میں ہمیں سیاسی ریلیف ملنے کے امکانات بہت زیادہ بڑھ سکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ گرینڈ الائنس کا سیاسی ایجنڈا کیا ہوگا اور کیا جوسیاسی جماعتیں اس کا حصہ بنیں گی وہ کسی مشترکہ سیاسی ایجنڈا پر اتفاق کر سکتی ہیں۔کیونکہ پی ٹی آئی کے سامنے جوبڑے چیلنجز ہیں ایک وہ فوری طور پر سیاسی ریلیف چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کے لیڈر سمیت دیگر اسیران ہیں، انھیں رہا کیا جائے۔ دوسراآٹھ فروری کے انتخابات کی منصفانہ اور شفاف تحقیقات یا نئے انتخابات کا مطالبہ ہے۔جب کہ تیسرا بڑا مطالبہ نو فروری کے معاملات کی عدالتی تحقیقات یا عدالتی کمیشن بنانے کا ہے ۔
پی ٹی آئی کے اندر یہ بات پیدا ہوئی ہے کہ ہمیں دیگر سیاسی جماعتوں کے بارے میں محض منفی سوچ کہ اچھی رائے بھی رکھنی چاہیے اور اب پی ٹی آئی کو بھی اپنا سیاسی رویہ بدل کر اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرنی ہوگی اور جو لوگ پی ٹی آئی کے ساتھ کم سے کم ایجنڈے کے اوپر مل کر کام کرنا چاہتے ہیں ہمیں ان کی طرف ہاتھ بڑھانا ہوگا۔
پی ٹی آئی میں یہ بات بھی محسوس کی جا رہی ہے کہ اگر ہم مذاکرات کی بات کرتے ہیں تو اسے ہماری کمزوری سمجھا جا رہا ہے کہ ہمارے پاس سیاسی آپشن یا مزاحمت کم ہوگئی ہے۔اگر پی ٹی آئی مولانا فضل الرحمن اور جماعت اسلامی کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے اور بلوچستان سے کچھ علاقائی جماعتیں بھی اس گرینڈ لائنز کا حصہ بن جاتی ہیں تو یقینی طور پر یہ حکومت کے لیے بہت بڑا سیاسی دھچکا ہوگا۔
پچھلے دنوں پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر اور آرمی چیف کے درمیان ملاقات ہوئی تھی۔اس ملاقات کی تصدیق دونوں اطراف سے کی گئی لیکن سیکیورٹی ذرایع کے بقول یہ ملاقات صرف سیکیورٹی معاملات تک محدود تھی اور اس کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں تھا۔
اب یہ سوال بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے کہ صرف ایک ملاقات کے بعد کیا پی ٹی آئی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مذاکرات کا معاملہ ختم ہو چکا ہے اور بات مذاکرات سے آگے بڑھ گئی ہے۔کیونکہ اگر مذاکراتی عمل ناکام ہو چکا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ پی ٹی آئی سولو فلائٹ کے بجائے ایک بڑے گرینڈ الائنس کی بنیاد پر آگے بڑھ کر اپنا سیاسی کردار ادا کرنا چاہتی ہے۔اس سے مراد ایک نئی مزاحمتی سیاست بھی ہو سکتی ہے۔
پاکستان میں اتحادی سیاست یا گرینڈ الائنس کی کہانی کوئی بہت اچھی نہیں ہے۔گرینڈ الائنس کی سیاست میں چھوٹی سیاسی جماعتیں بڑی سیاسی جماعت یا جماعتوں کے لیے ایک سیاسی آلہ کار کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ان کے سامنے سیاست جمہوریت آئین اور قانون کی حکمرانی سے زیادہ ذاتی مفادات یا حکومت کو بنانے یا گرانے کا کھیل نمایاں ہوتا ہے۔اس کھیل میں وہ آئین اور قانون سے ہٹ کر کچھ ایسے اقدامات بھی کرتے ہیں جس سے ملک کا جمہوری عمل کمزور ہوتا ہے یا اسے نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔اس لیے جب بھی اس ملک کی سیاست میں سیاسی اتحاد بنتے ہیں یا گرینڈ الائنس کی باتیں ہوتی ہیں تو سیاسی پنڈت اسے شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
اگر واقعی کوئی گرینڈ الائنس بننا ہے اور پی ٹی آئی نے اس میں کوئی کردار ادا کرنا ہے سیاسی طالب علم کے طور پر دلچسپی کا سب سے اہم سوال یہ ہوگا کہ اس آلائنس کا بڑا ایجنڈا کیا ہوگا اور کون اس کی قیادت کرے گا یا کون سی جماعتیں اس الائنس کا حصہ بنیں گی۔
مسئلہ محض حکومت کاعملی خاتمہ یا نئے انتخابات کا مطالبہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس ملک میں منصفانہ اور شفاف انتخابات کا نظام آئین اور قانون کی حکمرانی سمیت قومی جمہوری نظام کی مضبوطی کو بنیاد بنا کر اگر کچھ سیاسی قوتیں اپنا کردار ادا کرنا چاہتی ہیں تو اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔لیکن یہ خواہش ہم ہمیشہ سے اپنے اندر رکھتے ہیں اور اسی بنیاد پر سیاسی اتحادوں کی حمایت بھی کرتے ہیں مگر عملی طور پر ان اتحادی سیاست کا تجربہ قومی سیاست کے تجربے کے لیے کوئی اچھا شگون ثابت نہیں ہوا۔سازشوں کے اس کھیل نے جمہوری عمل کو مضبوط کرنے کے بجائے کمزور کیا۔اسٹیبلشمنٹ پاکستان کی ایک حقیقت ہے ۔اس سے بھی بات ہونی چاہیے ، اس سے ہٹ کرجوبھی راستہ ہوگا وہ ہمیںجمہوریت سے اور زیادہ دورکردے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: گرینڈ الائنس کی پی ٹی آئی کے جماعتوں کے کی سیاست ہے جب کہ آئی اور کے ساتھ نہیں ہے بھی اس ہیں تو کا حصہ اور اس
پڑھیں:
بلوچستان کا بحران اور نواز شریف
بلوچستان کے حالات میں بہتر تبدیلی لانے کے لیے غیر معمولی اقدامات درکار ہیں ۔ حکمت عملی کا تقاضا یہ ہونا چاہیے کہ طاقت کے ساتھ ساتھ سیاسی حکمت عملی کا بھی بھرپور استعمال کیا جائے۔ بلوچستان کے حالات اسی صورت میں بہتر ہوں گے جب ہم سیاسی حکمت عملی کو بالادستی دیں گے ، یہ ہی حکمت عملی ریاستی رٹ کو بھی مضبوط بنانے میں معاون ثابت ہوگی۔
پچھلے دنوں سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک کی اس تناظرمیں ہونے والی ملاقات ایک اہم پیش رفت سمجھی جا سکتی ہے۔بہت سے سیاسی افراد اور اہل دانش نے یہ تجویز دی تھی کہ اگر نواز شریف آگے بڑھیں اور اپنا کردار ادا کریں تو حالات میں بہتری کی گنجائش پیدا ہو سکتی ہے۔خود نواز شریف نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ بلوچستان کے حالات کی بہتری میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف ایک بڑی سیاسی شخصیت ہیں اور ان کو بلوچستان میں احترام کے طور پر دیکھا بھی جاتا ہے۔
بلوچستان کے حالات میں خرابیاں چند دنوں یا ہفتوں میں نہیں ہوئی ہیں بلکہ یہ برسوں کی کہانی ہے۔ بلوچستان کے حالات کی بہتری میں جو بڑا کردار بڑی سیاسی جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ ن،پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کو ادا کرنا چاہیے تھا ، اس کا فقدان دیکھنے کو ملا ہے۔اس وقت بھی بلوچستان میں دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی و مسلم لیگ ن کی مشترکہ حکومت ہے ۔اس مشترکہ حکومت کا بھی کوئی بڑا کردار ہمیں حالات کی بہتری میں دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے۔
موجودہ حالات میں صوبائی حکومت کا کردار محدود نظر آتا ہے۔اصل میں بلوچستان میں موجود سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادتیں موجودہ حالات میں پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں سے بھی مایوس نظر آتی ہیں۔ان کے بقول بلوچستان کے حالات کی خرابی میں جہاں دیگر عوامل موجود ہیں وہیں بڑی سیاسی جماعتوں کا صوبے کے حوالے سے لاتعلقی کا پہلو بھی ہے۔
بلوچستان کی قوم پرست سیاسی جماعتیں یہ بھی سمجھتی ہیں کہ بلوچستان کے صوبے میں حقیقی سیاسی لوگوں کی بجائے نمائشی سیاسی لوگوں کی بالادستی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں نے بلوچستان کے حالات کی درستگی میں کب عملی اقدامات اٹھائے ہیں اور ان کوعملی اقدامات کرنے سے کب روکا گیا ہے۔اصل میں ہماری بڑی سیاسی جماعتوں نے خود سے بھی بلوچستان کے حالات میں کچھ بھی نہ کرنے کی پالیسی اختیار کر لی ہے اور اس کا عملی نتیجہ بلوچستان کے حالات کی خرابی کی صورت میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔
پاکستان میں جو پاپولر سیاست ہو رہی ہے، اس میں نواز شریف سرگرم نظر نہیں آرہے۔ قومی سیاست ایک طرف وہ مسلم لیگ ن ہی نہیں بلکہ پارلیمانی سیاست میں بھی کوئی دلچسپی نہیں لے رہے اور نہ ہی وہ پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں۔اسی طرح پارٹی کے اجلاس ہوں یا پارلیمانی میٹنگز میں بھی ان کی غیر حاضری واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔مسلم لیگ ن کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے اہم افراد اور دانش وروں و تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نواز شریف موجودہ حالات سے مطمئین نظر نہیں آتے ہیں۔
اسی بنیاد پر جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ نواز شریف بلوچستان میں کوئی بڑا مفاہمانہ کردار ادا کرسکیں گے اس پر بہت سے سوالیہ نشان موجود ہیں۔ نواز شریف 8فروری کے انتخابات کے بعد بڑے بہت زیادہ فعالیت یا متحرک ہونے کی بجائے بیک ڈور بیٹھ کرخاموشی کے کردار کو ہی اپنے لیے بہتر سمجھتے ہیں تاکہ وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت کو کسی بڑی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اس وقت وزیراعظم میاں شہباز شریف بھی بلوچستان کے حالات کی بہتری میں کوئی بڑا بریک تھرو نہیں کراسکے ہیں۔جس انداز سے قومی سیاست میں سیاست دانوں،سیاسی جماعتوں سمیت سیاست وجمہوریت کی جگہ محدود ہوئی ہے وہاں ایک بڑے مجموعی سیاسی کردار کی جنگ بھی محدود ہی نظر آتی ہے۔ماضی میں نواز شریف کئی بار بلوچستان کے حالات کی بہتری میں اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں اور اسی تناظر میں سابق وزیر اعلی ڈاکٹر عبدالمالک نے نواز شریف سے ملاقات بھی کی ہے۔
اگر ان تمام تر حالات کے باوجود نواز شریف خود سے آگے بڑھ کر بلوچستان کے حالات کی درستگی میں عملی طور پر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اس کی یقیناً سیاسی قدر کی جانی چاہیے۔اسی طرح یہ سوال بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے کیا نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کی مرضی اور منشا کے بغیر بلوچستان کے حالات میں کوئی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں یا ان کو اس تناظر میں اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہوگی۔
کیونکہ مسلم لیگ ن اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر آگے بڑھ سکے ۔بلوچستان کی بیشتر قوم پرست سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت بلوچستان کے تناظر میں اسٹیبلشمنٹ کی سیاست پر تحفظات رکھتی ہیں۔ایسے میں نواز شریف کیا اسٹیبلشمنٹ اور بلوچستان کے قوم پرستوں کے درمیان غلط فہمیوں پر ایک بڑے پل کا کردار ادا کر سکیں گے۔ان حالات میںجب بلوچستان کی سنگینی کافی حساس نوعیت کی ہے تو نواز شریف نے بلوچستان جانے کی بجائے اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ بیلا روس اور لندن کے دورے پر جانے کو ترجیح دی اور اب وہ اپنے علاج کے سلسلے میں لندن میں موجود ہیں۔اس دورے سے ان کی ترجیحات کو سمجھا جاسکتا ہے۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس وقت بلوچستان میں شرپسندوں کے خلاف طاقت کی حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اگر یہ درست ہے تو پھر سیاسی آپشن واقعی محدود ہو جاتے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ نواز شریف کے بھی سیاسی آپشن محدود ہیں ۔ بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے تمام سیاسی جماعتوں ،سیاسی قیادت اور اسٹیبلیشمنٹ کو مل کر سیاسی اور انتظامی حکمت عملی اختیارکرنا ہوگی تاکہ اس بحران کا حقیقی اور پائیدار حل سامنے آسکے۔بلوچستان کے مسائل کا بہتر حل قومی سیاست اور ایک بڑے سیاسی،معاشی اور سیکیورٹی استحکام کے ساتھ ہی جڑا ہوا ہے ۔
اس لیے ایک ایسے موقع پر جب خارجی یا علاقائی ممالک بالخصوص بھارت اور افغانستان کی مداخلت موجود ہے توایسے میں ہمیں داخلی سطح کے مسائل کا حل تلاش کرکے ایک بڑے سیاسی اتفاق رائے کو پیدا کرنا ہوگا اور اسی حکمت عملی کی بنیاد پر سیاسی حل تلاش کرکے ہمیں بلوچستان کا حل تلاش کرنا ہے۔