حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات دوبارہ شروع ہوجائیں گے، فواد چوہدری
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات دوبارہ شروع ہوجائیں گے، فواد چوہدری WhatsAppFacebookTwitter 0 1 February, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (آئی پی ایس )سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا ہے کہ مذاکرات کا پراسس ختم نہیں ہو گا دوبارہ شروع ہو جائے گا، موجودہ صورتحال میں ایک آل پارٹیز کانفرنس کی ضرورت ہے اور اگر عمران خان اس میں شرکت نہیں کرے تو پھر یہ بھی بے کار ہوگی۔سابق وفاقی وزیر اور سینئر سیاستدان فواد چوہدری نے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات کا پراسس دوبارہ شروع ہو جائے گا اور یہ ختم نہیں ہوگا، جب بانی پی ٹی آئی سے مذاکراتی کمیٹی ملاقات ہی نہیں کر سکتی تو کیا مذاکرات کرے؟
ان کا کہنا تھا کہ فیصلے تو بانی پی ٹی آئی نے ہی کرنے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے اسپیس ہی نہیں دی جا رہی، ہمیں غیر سیاسی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے، جس میں سب شامل ہوں، اصل اسٹیک ہولڈر شامل ہی نہیں ہے، کوئی بھی جماعت اتنی طاقتور نہیں کہ دوسری جماعت کو ایک حد سے زیادہ نیچا دکھا سکے۔
انہوں نے کہا کہ راستہ یہ ہے کہ ہم اپنے پاوں سے آگے دیکھنے کی کوشش کریں۔ انہوں نے کہا کہ میری بانی پی ٹی آئی سے ملاقاتیں ہوئیں تھیں ان کو دیکھ کر میں یہی کہوں گا کہ بانی پی ٹی آئی نے ڈیل نہیں کرنی، مجھے یقین ہے کہ بانی پی ٹی آئی اپنی پوزیشن سے پیچھے نہیں ہٹیں گے وہ بالکل خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت سے بانی پی ٹی آئی مینج نہیں ہو رہے، کیسز بے شک چلتے رہیں لیکن انصاف کیا جائے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پیکا ایکٹ 2016 میں مسلم لیگ ن لے کر آئی، ہم تو پی ایم ڈی اے لے کر آئے تھے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ اٹھا کر جیلوں میں ڈال دیں ،جو کچھ کیا جا رہا اس سے لگتا کہ ان کو سمجھ ہی نہیں کہ میڈیا کیسے چلایا جا تا ہے۔
سینئر سیاستدان فواد چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ پی ٹی آئی گرینڈ اپوزیشن الائنس بنا لیتی ہے تو حکومت کو خطرات ہیں، حکومت بہت کمزور ہے، درمیانہ احتجاج بھی حکومت کو غیر مستحکم کر دے گا۔ اپوزیشن الائنس بننے میں کم از کم 6 مہینے کی تاخیر ہو چکی ہے۔ موجودہ صورتحال میں ایک اے پی سی کی ضرورت ہے اور بانی پی ٹی آئی اس اے پی سی میں نہیں ہوتے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
شاہ محمود قریشی جیسے لوگ مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں، مجھے نہیں سمجھ آتی شاہ محمود قریشی کیوں جیل میں ہیں؟۔ ان کا کہنا تھا کہ عدم سیاسی استحکام سے نقصان پاکستان کا ہوتا ہے، ملک میں مستقل عدم استحکام ہے ،کرم میں اور بلوچستان میں جو ہوا وہاں اسٹیٹ کی رٹ تو ختم ہو گئی ناں۔ فواد چوہدری نے کہا کہ معیشت استحکام کے لیے طویل المدتی پالیسی چاہیے، راتوں رات پاکستان کی معیشت نہیں سنبھلے گی۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: ان کا کہنا تھا کہ دوبارہ شروع ہو بانی پی ٹی آئی فواد چوہدری نہیں ہو ہی نہیں نے کہا
پڑھیں:
ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری پروگرام پر اہم مذاکرات
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 اپریل 2025ء) ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی ان مذاکرات کی سربراہی کر رہے ہیں۔ عمان کی ثالثی میں ہونے والے ان مذاکرات میں امریکی مندوب برائے مشرقِ وسطیٰ اسٹیو وٹکوف واشنگٹن حکومت کی نمائندگی کریں گے۔
اطالوی دارالحکومت روم میں یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے، جب ایک ہفتہ قبل دونوں فریقین نے عمان کے دارالحکومت مسقط میں بالواسطہ مذاکرات کیے تھے۔
سن 2018 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کپ پہلپ دور صدارت کے دوران واشنگٹن کے عالمی جوہری معاہدے سے الگ ہونے کے بعد امریکہ اور ایران کے مابین یہ اولین اعلیٰ سطحی رابطہ ہے۔مغربی ممالک بشمول امریکہ طویل عرصے سے ایران پر الزام لگا رہے ہیں کہ وہ جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن تہران اس کی تردید کرتا رہا ہے اور اصرار کرتا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن اور سول مقاصد کے لیے ہے۔
(جاری ہے)
ایران میں سن 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے ایران اور امریکہ کے درمیان سفارتی تعلقات منقطع ہیں۔
ایران پر دباؤ بڑھانے کا سلسلہ جاریجنوری میں دوسری مدت کے لیے عہدہ سنبھالنے کے بعد صدر ٹرمپ نے ایران کے خلاف ''زیادہ سے زیادہ دباؤ‘‘ کی پالیسی دوبارہ نافذ کی اور مارچ میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ایک خط لکھا، جس میں انہوں نے جوہری مذاکرات کی بحالی کی تجویز دی۔
ساتھ ہی صدر ٹرمپ نے خبردار کیا کہ اگر سفارت کاری ناکام ہوئی تو فوجی کارروائی کی جا سکتی ہے۔جمعرات کو ٹرمپ نے کہا، ''میں فوجی آپشن استعمال کرنے میں جلدبازی نہیں کر رہا۔ مجھے لگتا ہے کہ ایران بات کرنا چاہتا ہے۔‘‘ جبکہ اس بیان کے ایک دن بعد عباس عراقچی نے کہا کہ پہلے دور میں ''امریکہ کی طرف سے ایک حد تک سنجیدگی‘‘ دیکھی گئی لیکن اس کے ارادوں پر شکوک برقرار ہیں۔
عراقچی نے ماسکو میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا، ''اگرچہ ہمیں امریکہ کے ارادوں اور محرکات پر سنجیدہ شکوک ہیں لیکن ہم بہرحال کل (ہفتہ) کے مذاکرات میں شرکت کریں گے۔‘‘
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے ہفتے کی صبح سوشل میڈیا پر ایک پیغام میں کہا کہ تہران کو علم ہے کہ یہ راستہ ہموار نہیں ہے لیکن وہ ''کھلی آنکھوں سے ہر قدم اٹھا رہا ہے اور ماضی کے تجربات پر بھی انحصار کیا جا رہا ہے۔
‘‘ ایران جوہری بم حاصل کرنے سے زیادہ دور نہیں، گروسیبدھ کو فرانسیسی اخبار لا مونڈ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے آئی اے ای اے کے سربراہ رافائل گروسی نے کہا تھا کہ ایران ''جوہری بم حاصل کرنے سے زیادہ دور نہیں۔‘‘
ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں امریکہ نے سن 2015 کے جوہری معاہدے سے دستبرداری اختیار کی، جس کے تحت ایران کو بین الاقوامی پابندیوں کے خاتمے کے بدلے میں اپنے جوہری پروگرام پر پابندیاں عائد کرنا تھیں۔
ٹرمپ کی علیحدگی کے بعد ایران نے ایک سال تک معاہدے کی پاسداری کی لیکن پھر آہستہ آہستہ اس سے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا۔
عباس عراقچی سن 2015 کے معاہدے کے مذاکرات کاروں میں بھی شامل تھے جبکہ روم میں ان کے امریکی ہم منصب اسٹیو وٹکوف پراپرٹی بزنس کا پس منظر رکھتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے انہیں یوکرین کے حوالے سے مذاکرات کرنے کے لیے بھی نامزد کیا ہے۔
ایران اس وقت یورینیم کو 60 فیصد تک افزودہ کر رہا ہے جو کہ سن 2015 کے معاہدے میں مقررہ 3.67 فیصد کی حد سے کہیں زیادہ ہے۔ تاہم وہ 90 فیصد کی اس سطح سے نیچے ہی ہے، جو جوہری ہتھیار کے لیے درکار ہوتی ہے۔
مارکو روبیو کا یورپی یونین سے مطالبہجمعہ کو امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے یورپی ممالک پر زور دیا کہ وہ سن 2015 کے معاہدے کے تحت ''اسنیپ بیک‘‘ میکانزم کو فعال کرنے کے بارے میں فیصلہ کریں۔
اس سسٹم کے تحت اگر ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو محدود بنانے کے وعدوں کی خلاف ورزی کی تو اس پر اقوام متحدہ کی پابندیاں خودکار طریقے سے بحال ہو جائیں گی۔تاہم ایران پہلے ہی خبردار کر چکا ہے کہ اگر یہ میکانزم فعال کیا گیا تو وہ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (NPT) سے نکل سکتا ہے۔
گروسی نے کہا ہے کہ امریکہ اور ایران ''ایک بہت ہی نازک مرحلے‘‘ پر ہیں اور ''معاہدے کے لیے زیادہ وقت باقی نہیں۔
‘‘ انہوں نے رواں ہفتے ہی تہران میں ایرانی حکام سے ملاقات کی تھی۔ اس دوران ایرانی حکام نے زور دیا تھا کہ بات چیت صرف جوہری پروگرام اور پابندیوں کے خاتمے پر ہونا چاہیے۔ معاہدہ ممکن ہے، عراقچیایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ اگر امریکہ ''غیر معقول اور غیر حقیقی مطالبات‘‘ سے باز رہے تو معاہدہ ''ممکن‘‘ ہے۔
تاہم انہوں نے اپنی اس بات کی کوئی وضاحت نہیں کی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام اور مشرق وسطیٰ میں شدت پسندوں کی حمایت کو بھی مذاکرات میں شامل کرنے کی کوشش کرے گا۔
عراقچی نے کہا کہ یورینیم افزودگی کا ایران کا حق ''ناقابلِ گفت و شنید‘‘ ہے جبکہ وٹکوف نے اس عمل کو مکمل طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ وٹکوف فی الحال ایران سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ سن 2015 کے معاہدے کو من و عن قبول کرے۔
جمعہ کو امریکہ کے اتحادی اسرائیل نے ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے پاس ایسا کرنے کے لیے ''واضح حکمت عملی‘‘ موجود ہے۔
ادارت: عرفان آفتاب