لانگ مارچ میں کسی سے بات نہیں ہوگی. جنید اکبر
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
پشاور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔یکم فروری ۔2025 )تحریک انصاف خیبر پختونخوا کے صدر جنید اکبر نے کہا ہے کہ آئندہ پارٹی کے لانگ مارچ میں یہ فرق ہوگا کہ پہلے قیادت اداروں کے ساتھ رابطے میں تھی، اس بار اگر لانگ مارچ کے لیے نکلے تو کسی سے کوئی بات نہیں ہوگی، میں گرفتار ہوا تو شاہراہ ریشم، پاک افغان شاہراہ، موٹروے اور جی ٹی روڈ مکمل بند کریں گے.
(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ جس دن اپنی بات پر کھڑا نہ ہو سکا، اس دن پی ٹی آئی کی صدارت چھوڑ دوں گا، پی ٹی آئی سے پیسوں کے عوض عہدے دینے کے کلچر کو ختم کروں گا، پی ٹی آئی کی تنظیم سازی کے لیے مجھے عمران خان نے کوئی ہدایت نہیں دی جنید اکبر نے کہا کہ موجودہ تنظیمیں ہی کام کریں گے، جب تک مجھے ہدایات نہیں ملتی، جو لوگ پارٹی کے جلسوں پر پیسے لگاتے ہیں پھر کو کرپشن بھی کرتے ہیں، 8 فروری کے احتجاج کے لئے کسی منتخب ممبر کو بندے لینے کا ٹارگٹ نہیں دونگا، پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ ہم نے اس کلچر کو ختم کرنا ہے کہ پیسے لگا کر کماﺅ، اب یہ نہیں چلے گا، جو انویسٹ کرتا ہے، پھر وہ کمیشن بھی لیتا ہے.
انہوں نے کہا کہ 9 مئی کے بعد جس طرح ہمار ورکرز کو رولایا گیا ہے، یہ بات میں کبھی نہیں بھولونگا، جب بھی اختیار ملا ان سب کو نشان عبرت بناونگا، یہ میرا وعدہ ہے، شہباز شریف یاد رکھے کل ہماری حکومت آئی تو آپ کے بچے بھی روئیں گے. جنید اکبر نے کہا کہ اگر ہماری حکومت میں شہباز شریف کے بچے نہ روئیں تو پی ٹی آئی کو چھوڑ دوں گا، ہمارے لانگ مارچ اور پہلے لانگ مارچ میں فرق یہ ہوگا کہ پہلے قیادت اداروں کے ساتھ رابطے میں تھی ان کا کہنا تھا کہ اس بار اگر لانگ مارچ کے نکلے تو کسی سے کوئی بات نہیں ہوگی، اگر میں گرفتار ہوا تو شاہ راہ ریشم، پاک افغان شاہ راہ، موٹروے اور جی ٹی روڈ مکمل بند کریں گے.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جنید اکبر نے کہا لانگ مارچ نے کہا کہ پی ٹی آئی
پڑھیں:
افغان سرزمین کسی بھی ملک کیخلاف دشمن سرگرمیوں کیلئے استعمال نہیں ہوگی، کابل
افغان سرزمین کسی بھی ملک کیخلاف دشمن سرگرمیوں کیلئے استعمال نہیں ہوگی، کابل WhatsAppFacebookTwitter 0 20 April, 2025 سب نیوز
اسلام آباد:افغانستان کے قائم مقام وزیر اعظم ملا حسن اخوند نے پاکستان کو یقین دلایا ہے کہ افغان سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف دشمن سرگرمیوں کے لیے استعمال نہیں کی جائے گی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق افغان وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم نے پاکستانی وفد کو یقین دلایا کہ افغانستان کی سرزمین اپنے ہمسایوں سمیت کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں کی جائے گی۔
ملا حسن اخوند نے زور دیا کہ عسکریت پسندی کی روک تھام کے لیے ان کی انتظامیہ کے ’قول و فعل‘ کے درمیان ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
اسحاق ڈارکا یہ دورہ کئی ماہ کے سفارتی تعطل، سرحدی جھڑپوں اور سلامتی کے بڑھتے ہوئے خدشات کے بعد اسلام آباد اور افغان طالبان انتظامیہ کے درمیان دوبارہ مذاکرات کے عمل کی ایک نئی بنیاد ہے۔
اسلام آباد کا الزام ہے کہ افغان عسکریت پسند گروہ سرحد پار حملے کرتے ہیں اور یہاں دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور ان پر عمل درآمد کرتے ہیں، اس کے جواب میں، پاکستان نے افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف فوجی حملے کیے ہیں اور افغان شہریوں کو نشانہ بناتے ہوئے بڑے پیمانے پر ملک بدری مہم شروع کی ہے۔
پاکستان اور افغانستان کی جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی (جے سی سی) نے رواں ہفتے کے اوائل میں کابل میں نئے مذاکراتی عمل کے تحت ملاقات کی تھی جس کا مقصد اعتماد اور تعاون کی بحالی ہے۔
اسحٰق ڈار کے دورے سے ایک روز قبل پاکستانی دفتر خارجہ نے دہشت گردی کو دونوں ممالک کے تعلقات میں ’اہم تشویش‘ قرار دیا تھا۔
افغان وزیر اعظم کے دفتر نے پاکستان میں مقیم افغانوں کی بے دخلی کے معاملے پر کہا کہ پاکستان کے یکطرفہ اقدامات مسئلے کو مزید شدت دے رہے ہیں اور حل کی طرف پیش رفت میں رکاوٹ بن رہے ہیں، بیان کے مطابق افغان وزیراعظم نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ افغان پناہ گزینوں کے ساتھ ناروا سلوک بند کرے۔
افغان وزارت خارجہ نے بھی اس معاملے پر اسی طرح کا موقف اختیار کیا ہے، وزیر خارجہ امیر خان متقی نے پاکستان میں افغان مہاجرین کی صورتحال اور ان کی جبری وطن واپسی پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔
انسانی سلوک کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے پاکستانی حکام پر زور دیا کہ وہ اس وقت پاکستان میں مقیم یا واپس آنے والے افغان شہریوں کے حقوق کا تحفظ کریں، اسحٰق ڈار کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب ملک بدری کی مہم میں تیزی آئی ہے جس کی وجہ سے ہزاروں افغانوں کو واپس جانے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔
اقوام متحدہ کی انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) کے مطابق یکم سے 13 اپریل کے درمیان طورخم اور اسپن بولدک سرحدی گزرگاہوں کے ذریعے تقریباً 60 ہزار افغان باشندے افغانستان واپس جانے پر مجبور ہوئے۔
یہ بے دخلی دوسرے مرحلے کا حصہ ہے جس کا مقصد 8 لاکھ سے زائد افغان شہریوں کو نشانہ بنانا ہے جن کے پاس اب غیرقانونی قرار دیے جاچکے افغان سٹیزن کارڈ (اے سی سی) اور دیگر دستاویزات کی کمی ہے۔
انسانی ہمدردی کے اداروں نے افغانستان کے سرحدی علاقوں پر دباؤ کے بارے میں متنبہ کیا ہے جو واپس آنے والے پناہ گزینوں کی میزبانی کررہے ہیں، جن میں سے بہت سوں کے پاس وسائل یا پناہ گاہوں کی کمی ہے۔
دریں اثنا، پاکستان نے یو این ایچ سی آر کے جاری کردہ پروف آف رجسٹریشن کارڈ رکھنے والے 1.3 ملین سے زائد افغانوں کو راولپنڈی اور اسلام آباد چھوڑنے کا حکم دیا ہے، حالانکہ انہیں 30 جون تک پاکستان میں رہنے کی اجازت ہے۔
دریں اثنا، مغربی ممالک سے کہا گیا ہے کہ وہ ان افغان باشندوں کی نقل مکانی کا عمل تیز کریں جن سے 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد مغربی ممالک میں آباد کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا، پاکستانی حکومت نے 30 اپریل کی ڈیڈ لائن مقرر کی ہے، جس کے بعد ان لوگوں کی ملک بدری شروع ہو جائے گی جو اس وقت تک کسی تیسرے ملک میں آباد نہیں ہوئے ہیں۔
اسحٰق ڈار نے اپنے بیان میں پناہ گزینوں کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے واپس بھیجے جانے والوں کے خدشات کو دور کرنے کے اقدامات کا اعلان کیا۔