جرمن انتخابات۔۔جرمنی نئی منزلوں کی تلاش میں
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
عالمی سیاسی افق اس وقت عجیب منظر نامہ پیش کرہا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے دائیں بازو کی حامل شخصیات اور سیاسی جماعتوں نے رائے عامہ کو یرغمال بنا لیا ہے۔ آج سے چند ہفتے قبل امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کا دوسری بار صدارت کی گدی پر براجمان ہونا اسی رجحان کی کڑی ہے۔ اسی طرح، آسٹریا میں ’’فری ہائٹلیشے پارٹی آسٹریا‘‘ اور اٹلی میں’’لیگا‘‘ جیسی پارٹیاں، جو امیگریشن کے خلاف خیالات کی بنیاد پر انتخابات میں کامیاب ہوئیں اور اب ان ممالک کی بھاگ دوڑ سنبھال رہی ہیں۔ بھارت میں مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی ہندوتوا اور افغانستان میں انتہا پسند طالبان کا بول بالا ہے۔ اسی طرح پاکستان کے سابقہ وزیراعظم عمران خان اپنے غیر مستحکم مذہبی و سیاسی خیالات کی بنیاد پر مقبولیت کے سنگھاسن پر سوار ہیں۔
ہارڈ لائنز کی نمائندگی جرمنی میں 23 فروری2025ء کو ہونے والے عام انتخابات میں بھی نظر آنے کا امکان ہے، جس میں دائیں بازو کی جماعت ’’آلٹرنیٹو فار جرمنی‘‘ (اے ایف ڈی) اپنی امیگریشن مخالف پالیسی اور نازی حمایت یافتہ مؤقف کی بنیاد پر مقبولیت کی نئی سطح کو چھو رہی ہے۔آنے والے دنوں میں دنیا کی چوتھی بڑی اور یورپ کی سب سے بڑی معیشت کی فیصلہ سازی کے عمل میں اس دائیں بازو کی جماعت کا کلیدی کردار ہوگا۔ اس بڑھتی ہوئی مقبولیت سے مسلمانوں، غیر ملکیوں خصوصاً پاکستانی کمیونٹی میں گہری تشویش پائی جاتی ہے۔ جرمنی میں مقیم پاکستانیوں کی اکثر تعداد طالبعلم، نوکری پیسہ افراد یا پناہ گزینوں پر مشتمل ہے۔ ان انتخابات کے نتائج کا ڈائریکٹ اور فوری اثر ان میں سے بیشتر افراد خصوصاً وہ افراد جو غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں کے مستقبل پر طور پر پڑے گا۔
ایلس ویڈل’’آلٹرنیٹو فار جرمنی‘‘ (اے ایف ڈی) کی جانب سے چانسلر کی امیدوار ہیں۔ اس پارٹی کے رہنماؤں نے اپنے حالیہ متنازعہ بیانات میں ہٹلر کے کچھ خیالات کو درست قرار دیا اور یورپی اتحاد پر کڑی تنقید کی۔یہ پارٹی اپنی امیگریشن اور مہاجرین مخالف پالیسی کو بخوبی اجاگر کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ ایک حالیہ واقعے میں، جرمنی کے شہر کارلسروہے میں، ’’آلٹرنیٹو فار جرمنی‘‘کے حامی کارکنوں نے 30ہزار پمفلٹ چھپوا کر تقسیم کیے جن کا ڈیزائن یکطرفہ ہوائی جہاز ٹکٹوں سے مشابہت رکھتا تھا اور اس کی منزل کے خانے میں محفوظ سر زمین درج تھا۔ اس بات کا بھی خیال رکھا گیا کہ یہ پمفلٹ اپنے اصل مخاطبین یعنی مہاجرین تک پہنچ سکیں چنانچہ یہ ان کے گھروں کے لیٹر باکس میں ڈالے گئے تھے۔ ایک بیان کے مطابق پولیس نے اس واقعے کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ اس پارٹی کے مخالفین نے سوشل میڈیا پر’’نیور اگین‘‘کا ہیش ٹیگ چلا کر ان انتہا پسند بیانات اور سرگرمیوں کی مخالفت کی ہے۔ یہ یاد رہے کہ اس پارٹی کے مہاجرین مخالف مؤقف کو غیر ملکیوں کے پرتشدد واقعات کی بنا پر پزیرائی ملتی ہے۔حال ہی میں، اشافن برگ میں ایک افغان شہری نے دو افرار کو چاقو کے وار کر کے ہلاک کر دیا تھا، جس کے بعد عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور اینٹی امیگریشن قوانین پر بحث مزید تیز ہو گئی ہے۔
کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) طویل عرصے تک جرمنی کی سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آتی رہی ہے۔ ماضی میں اس پارٹی کی قیادت سابقہ چانسلر انگیلا مرکل نے کامیابی کے ساتھ سنبھالی اور اپنی مقبولیت کی بدولت 2005 سے2012ء تک ملک کی چانسلر رہیں۔ تاہم، اب مرکل کی بہت سی پالیسیز جن میں جنگ زدہ ممالک کے پناہ گزینوں کی مدد، ’’ڈیٹ بریک‘‘ پالیسی کا نفاذ، روسی تیل پر ضرورت سے زیادہ انحصار اور انفراسٹرکچر پر ضرورت سے کم خرچ کرنے پر کڑی تنقید ہو رہی ہے۔ حالیہ انتخابات میں اس پارٹی کے چانسلر کے امیدوار فریڈرک مرز ہیں جن کا مرکزی فوکس ٹیکس ریٹس میں کمی، فلاحی سہولیات میں کچھ سختی برتنا، امیگریشن میں کٹوتی کرنا اور یوکرین کی امداد کو بڑھانا شامل ہیں۔
دوسری جانب سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (اس پی ڈی ) کے اولاف شولز ہیں، جو حالیہ اتحادی حکومت میں چانسلر تھے۔ شولز کے بنیادی نکات میں کم آمدنی والے خاندانوں پر کھانے پینے کی اشیاء پر کم ویلیو ایڈڈ ٹیکس نافذ کرنا، کم آمدنی والے افراد پر کم ٹیکس کا بوجھ ڈالنا، کم از کم اجرت کی شرح بڑھانا، امیگریشن پالیسی کو کم فنڈ دینا، انفراسٹرکچر سرمایہ کاری فنڈ کی مد میں100ارب یورو مختص کرنا اور یوکرینی امداد میں کمی کرنا شامل ہے۔
رابرٹ ہیبیک’’گرین‘‘پارٹی کی جانب سے چانسلر کے عہدے کی امیدوار ہیں۔ پچھلی حکومت گرین پارٹی کی اینالینا بیربوک وزیر خارجہ کے طور پر خدمات انجام دے چکی ہیں اور انہوں نے ماحولیاتی تبدیلیوں کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ رابرٹ کا فوکس پرجوش نوجوانوں کی طرف راغب ہے اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جرمنی کو قابل تجدید توانائی کی طرف منتقل ہونا ہوگا اور ماحول دوست پالیسیز کو اپنانا ہوگا۔’’گرین‘‘پارٹی کی انتخابی مہم کا مرکزی نعرہ ’’مستقبل کو سبز بنائیں‘‘ہے، جس میں وہ کاربن اخراج میں کمی، الیکٹرک گاڑیوں کی ترویج، اور فوسل فیولز سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کرنے کی بات کرتے ہیں۔ وہ ان سبز دوست پالیسیز کی بدولت پورے یورپ میں ماحولیاتی تعاون کے خواہاں ہیں۔فری ڈیموکریٹک پارٹی (آف دی پی) کے امیدوار کرسچن لنڈنر کاروبار دوست پالیسیز، کم ٹیکسز اور آزاد مارکیٹ کے حامی ہیں۔ یہ گزشتہ اتحادی حکومت میں اولف شولز کے وزیر خزانہ رہے تاہم اس وقت کے چانسلر اولاف شولز نے 6 نومبر 2024ء کو وزیر خزانہ کرسچن لنڈنر کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔ اس فیصلے کی وجہ حکومت کے بجٹ اور معاشی پالیسیوں پر طویل عرصے سے جاری اختلافات تھے۔ شولز زیادہ مالیاتی اخراجات اور یوکرین کی حمایت کے لیے مزید قرض لینے کے حامی تھے، جبکہ لنڈنر مالیاتی سختی اور قرض کی حد کو برقرار رکھنے پر زور دے رہے تھے۔
لنڈنر کی برطرفی کے بعد، ان کی جماعت ایف ڈی پی نے مخلوط حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی، جس سے حکومت کا اتحاد ٹوٹ گیا اور قبل از وقت انتخابات کی راہ جرمنی کی سیاست میں ماحولیاتی تبدیلی، امیگریشن، اور معیشت اہم موضوعات بن چکے ہیں۔ کووڈ-91 کے بعد جرمنی کو شدید معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس کا سب سے واضح اثر آٹو انڈسٹری کو برداشت کرنا پڑا ہے۔ گزشتہ دو برسوں میں تقریباً 50بڑے کارخانے بند ہو چکے ہیں، جن میں ووکس ویگن، بی ایم ڈبلیو، اور مرسیڈیز بینز جیسے بڑے برانڈز کے چھوٹے بڑے کارخانے بھی شامل ہیں۔ ان بندشوں کے نتیجے میں تقریباً ایک لاکھ افراد اپنی ملازمتوں سے محروم ہو چکے ہیں۔’’گرین‘‘ پارٹی نے اس بحران کو موقع گردانتے ہوئے ممکنہ ووٹرز کی توجہ اس طرف مرکوز کرائی ہے کہ جرمنی کو اب اپنی روایتی صنعتوں پر انحصار کم کر کے الیکٹرک گاڑیوں اور قابل تجدید توانائی کی طرف منتقل ہونا ہوگا۔
روس-یوکرین جنگ نے جرمنی کی معیشت اور معاشرے کو شدید متاثر کیا ہے۔ جرمنی روس سے قدرتی گیس کا سب سے بڑا درآمد کنندہ تھا، لیکن جنگ کے بعد توانائی کے بحران نے ملک کو ایک بڑے چیلنج سے دوچار کر دیا۔ توانائی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے نے نہ صرف گھریلو صارفین کو بے حد متاثر کیا بلکہ صنعتوں کو بھی شدید دباؤ میں ڈال دیا۔ اس بحران کے نتیجے میں آٹو، مینوفیکچرنگ اور کیمیکل سیکٹرز، جو جرمن معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا۔ اس بحران نے عوام میں گزشتہ حکومت کے خلاف ناراضی کو بڑھاوا دیا تھا۔ اس خفت کا اثر انتخابات میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے۔
یورپی اتحاد اور نیٹو کے حوالے سے جرمنی کو سخت دباؤ کا سامنا ہے۔ اپنے حالیہ صدارتی خطاب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیٹو ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی مجموعی قومی پیداوار کا کم از کم 5 فیصد دفاع پر خرچ کریں جو کہ پہلے 2فیصد طے شدہ تھا۔ جرمنی نے اس ہدف کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن ابھی تک یہ صرف1.
ایلون مسک نے اپنے حالیہ بیانات میں واضح طور پر ’’آلٹرنیٹو فار جرمنی‘‘ کی حمایت کا اشارہ دیا ہے۔ حتیٰ کہ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد اپنی پہلی تقریر کے دوران بازو اٹھا کر اور ہوا میں خاص طریقے سے لہرا کر پرو نازی ہونے کا سگنل بھی کیا۔ان کی یہ حرکات اور کئی ایسے اور بیانات جرمنی میں شدید تنقید کا نشانہ بنے ہیں۔ایک جرمن تجزیہ کار کے مطابق ایلون مسک ان اشاروں سے ان سوئنگ ووٹرز پر حاوی ہونا چاہ رہے ہیں جو کہ ابھی تک اپنے ووٹ کے حقدار کو تلاش کرنے میں ناکام ہیں اور ان کی یہ حرکات ان کے ہم خیال ’’آلٹرنیٹو فار جرمنی‘‘ کو زیادہ سے زیادہ ووٹ لینے میں مددگار ثابت ہو سکیں گی۔ کیونکہ ماضی کے انتخابات میں جرمنی کو کبھی اتنی کھلی مداخلت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، وہ اسے اپنی ملکی سالمیت پر حملے سے تشبیہ دے رہے ہیں اور ان حرکات کو جرمن انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہونا گردان رہے ہیں۔
ان سب نکات کا واضح اثر معاشرے میں گہری تقسیم کی صورت میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں پر’’گرین‘‘ کے حامی نوجوان اور سی ڈی یو کے روایتی ووٹرز کے درمیان کشش بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے، جس کی وجہ سے قریبی حلقہ احباب اور دوستوں کے درمیان گرم بحث و مباحثے کا سماں نظر آتا ہے۔ امیگریشن کے مسئلے پر اے ایف ڈی کے سخت موقف نے معاشرے کو مزید تقسیم کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں مہاجرین کے خلاف احتجاجی مظاہرے اور ان کے حامیوں کے جوابی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ معاشی پالیسیوں پر اختلافات نے مڈل کلاس اور مزدور طبقے کے درمیان دوریاں پیدا کی ہیں، جس کا اثر واضح طور پر کام کی جگہوں پر دیکھائی دیتا ہے۔ سوشل میڈیا پر’’نیور اگین‘‘ کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ ہونا اس سماجی تقسیم کی نمایاں مثال ہے۔دی گارڈین کے تازہ ترین جائزوں کے مطابق، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سی ڈی یو اور اس کی باویرین اتحادی پارٹی، سی ایس یو کے امیدوار مرز جرمنی کے اگلے چانسلر ہوں گے۔ یہ اتحادی پارٹیاں کئی مہینوں سے مسلسل 31 فیصد کے ساتھ پولز میں سب سے آگے ہیں، جبکہ اے ایف ڈی21-20 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ ایس پی ڈی تقریباً 61 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے، اور گرین 41 فیصد کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے۔در حقیقت جو بھی پارٹی اوپر درج اہم موضوعات کا متوازن حل اور ان کو عملی جامہ پہنانے کا مؤثر پلان پیش کرے گی، آنے والی حکومت میں نمایاں مقام پائے گی۔مستند تجزیہ کاروں کے مطابق یہ ممکن ہے کہ اتحادی حکومت قائم ہوگی کیونکہ کسی ایک جماعت کا واضح اکثریت حاصل کرنا مشکل ہو گا۔اس اتحاد میں اس پی ڈی یا گرین، یا شاید دونوں شامل ہوں گی مگر پارلیمنٹ میں نشستوں کی تقسیم کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ امر بھی ممکنات میں سے ہے کہ سی ڈی یو کچھ نکات جیسے کہ غیر قانونی غیر ملکیوں کے اوپر کریک ڈاؤن جیسے معاملات پر دائیں بازو کی اے ایف ڈی کے ساتھ الحاق کر کے ’’ایکلیمیٹ ایڈیشن آف ورکنگ ریلیشن شپ‘‘ قائم کر لے۔ دنیا بھر کی نظریں جرمنی کے آنے والے انتخابات اور اس کے نتیجے پر لگی ہوئی ہیں۔ تاہم ہمیں اس کے نتائج اور اس کی بنیاد پر بننے والی اتحادی حکومت جو کہ نہ صرف جرمنی بلکہ یورپ کی سمت کا تعین کرے گی، کا انتظار2025ء کے پہلے ربع کے اخیر تک کرنا ہو گا۔
: مصنف سعود بن نعمان میونخ، جرمنی میں مقیم فری لانس صحافی اور لکھاری ہیں۔ وہ جرمنی کی زندگی کے تجربات اور حالات و واقعات کے ساتھ ساتھ پاکستانی ثقافت، سیاست اور دیگر موضوعات پر اپنی رائے پیش کرتے ہیں۔ ان کے مضامین سماجی مسائل، بین الاقوامی تعلقات اور جدید دنیا کے مختلف پہلوؤں پر محیط ہوتے ہیں۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: دائیں بازو کی اتحادی حکومت انتخابات میں فیصد کے ساتھ یورپی اتحاد اس پارٹی کے کی بنیاد پر اے ایف ڈی جرمنی کو پارٹی کی جرمنی کے کے نتیجے کے مطابق جرمنی کی سی ڈی یو کے حامی کے خلاف بات میں ہیں اور رہے ہیں اور اس اور ان کے بعد دیا ہے رہی ہے کر دیا
پڑھیں:
پیپلز پارٹی کھیل بگاڑنا چاہتی ہے؟
ارادہ تو یہ تھا کہ پاکستان کے وزیر خارجہ کے دَورۂ کابل پر کچھ تفصیلی اظہارِ خیال کروں گا۔ دَورے سے مگر کچھ ایسی بڑی خبر نکلی ہی نہیں کہ اِس پر بالتفصیل کلام کیا جائے ۔
جناب اسحاق ڈار نے وزارت کی دو ٹوپیاں پہن رکھی ہیں۔وہ ہمارے وزیر خارجہ بھی ہیں اور نائب وزیر اعظم بھی ۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اگر نون لیگی صدر کو عزیز نہ ہوتے تو شائد وہ یہ دو کلغیاں سر پر سجانے میں کامیاب نہ ہو سکتے ۔
ماضی میں وہ وزارتِ خزانہ کے معاملات چلاتے رہے ہیں ۔ اُن کی مہارت اور درک بھی معاشیات میں زیادہ سمجھی جاتی رہی ہے ۔ اِس بار مگر جب اُنہیں وزارتِ خارجہ کا قلمدان تھمایا گیا تو بہت سے لوگوں کو حیرت و استعجاب نے آ لیا۔ پچھلے ایک سال سے مگر اسحاق ڈار صاحب دونوں عہدے نبھا رہے ہیں ۔ کس شعبے میں اُن کا طرۂ امتیاز بلند ہو رہا ہے، مطلق طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔
ہمارے وزیر خارجہ، جناب اسحاق ڈار، 19اپریل کی صبح کابل پہنچے اور19اپریل کی شام ہی اپنے وطن واپس آ گئے ۔ جناب شہباز شریف کی کابینہ کے ایک وزیر مملکت نے کہا ہے کہ اسحاق ڈار کو بہت پہلے کابل پہنچنا چاہیے تھا ۔ ذرا تاخیر سے وہ کابل پہنچے ہیں ، مگر پہنچے تو سہی ۔ پی ڈی ایم کی پہلی ڈیڑھ سالہ حکومت ( جس کے سربراہ بھی شہباز شریف صاحب ہی تھے) میں وزیر خارجہ ، بلاول بھٹو زرداری صاحب، افغانستان کے دارالحکومت نہیں پہنچ سکے تھے ۔
اِس پر بے حد اور لاتعداد قیاس آرائیاں کی گئیں اور آٹے کی کئی چڑیاں بھی اُڑانے کی کوششیں کی گئیں ۔ اِس سے قبل بانی پی ٹی آئی کی ساڑھے تین سالہ حکومت میں وزیر خارجہ ، شاہ محمود قریشی ، کابل گئے تھے ، مگر وہ دَورہ بھی لاحاصل اور بے ثمر ہی رہا کہ افغان طالبان نے پاکستان مخالف اپنا پرنالہ ہٹانے سے انکار کر دیا تھا ۔ مگر اتنا ضرور ہُوا تھا کہ شاہ محمود قریشی کا افغان عبوری حکومت کے عبوری وزیر خارجہ نے کابل ائر پورٹ پر استقبال کیا تھا۔اِس بار، بد قسمتی سے، مگر یہ منظر بھی سامنے نہ آسکا۔ اسحاق ڈار دراصل افغانستان کی طالبان عبوری حکومت کے وزیر خارجہ، ملا امیر خان متقی، کی دعوت پر کابل گئے تھے ، لیکن ہمارے وزیر خارجہ کے کابل پہنچنے پر(مبینہ طور پر) افغان وزیر خارجہ ویلکم کہنے کے لیے ائر پورٹ پر موجود نہیں تھے ۔ کیا اِسے سفارتی آداب کے منافی رویہ نہیں کہا جانا چاہیے ؟
اسحاق ڈار کے دَورئہ کابل کے نتیجے میں جو نکات سامنے آئے ہیں، ان میں سے چندایک یہ ہیں:(1)کسی ملک کی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے (2)خطّے کی ترقی کے لیے مل کر کام کیا جائیگا (3) دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی سامان کے نقل و حمل پر تبادلہ خیال کیا گیا (4) طورخم بارڈر پر آئی ٹی سسٹم کو جلد بحال کیا جائے گا (5) افغان مہاجرین ( پاکستان سے افغانستان واپسی) بارے 4اصولی فیصلے ہُوئے ہیں ۔
اِن نکات میں سے پاکستانی عوام کو عمومی طور پر کیا دلچسپی ہو سکتی ہے ؟ ہاں ہم سب پاکستانی عوام اسحاق ڈار کے دَورئہ کابل سے یہ اُمیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ افغان مقتدر طالبان اپنے ہاں پناہ یافتہ دہشت گرد تنظیم ٹی ٹی پی ، جو پاکستان اور پاکستانیوں کو لاتعداد نقصانات پہنچا چکی ہے، کو نتھ ڈالنے کے لیے کیا کیا وعدے وعید کرتے ہیں ۔
اِس بارے مگر کوئی نکتہ یا وعدہ منصئہ شہود پر نہیں آ سکا ہے ۔ رہا یہ وعدہ کہ ’’ پاکستان اور افغانستان اپنی اپنی سر زمین دہشت گردوں کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے‘‘ تو یہ وعدہ افغان طالبان نے تین ، ساڑھے تین سال قبل دوحہ مذاکرات میں امریکا اور عالمی برادری کے بڑوں کے سامنے بھی کیا تھا۔
پچھلے چار برسوں میں افغان طالبان نے مگر اِس وعدے کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں ، یوں کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو اپنی سرزمین پر پاکستان کے خلاف پناہ بھی دیے رکھی اور ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو افغانستان سے مسلّح تیار ہو کر پاکستان پر بار بار حملہ آور ہونے کی اجازت بھی دی ۔ اب اگر افغان طالبان نے ایک بار پھر اپنی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہ کرنے کا وعدہ کر لیا ہے تو کون جانے اِس پر کتنا اور کہاں تک عمل ہوگا؟ دیکھنا یہ ہے کہ آیا پاکستان کے عوام افغانستان کے سوراخ سے ایک بار پھر ڈسے تو نہیں جائیں گے؟
اسحاق ڈار ابھی کابل ہی میں تھے کہ پاکستان میں یہ خبر ہر طرف پھیل گئی کہ وفاقی وزیر مملکت برائے مذہبی امور، جناب کھیل داس کوہستانی، پر کسی گروہ نے حملہ کر دیا ہے ۔ خدا کا شکر ہے کہ وزیر موصوف حملے میں بخیریت رہے ۔
وزیر موصوف کا خود کہنا ہے: ’’ مَیں ٹھٹھہ سے سجاول کی جانب جارہا تھا کہ شہر کے درمیان ایک سندھی قوم پرست جماعت کے کارکنان نے اچانک حملہ کر دیا۔ اُن کے ہاتھوں میں پارٹی جھنڈے بھی تھے ۔وہ کینالز کی تعمیر کے خلاف نعرے بازی کررہے تھے۔‘‘ وزیر اعظم ، جناب شہباز شریف، سمیت وفاقی حکومت کے تقریباً تمام وزرا نے بیک زبان اِس حملے کی مذمت کی ہے ۔ مذمت کی بھی جانی چاہیے تھی ۔ مذمتی آوازوں میں سب سے بلند آواز وزیر اطلاعات ، جناب عطاء اللہ تارڑ، کی ہے ۔ اُن کی آواز سب سے اونچی ہونی بھی چاہیے تھی کہ وہ حکومتِ وقت کے مرکزی ترجمان ہیں ۔
اِس حملے کو معمولی خیال نہیں کرنا چاہیے ۔ یہ حملہ جہاں ایک وفاقی وزیر پر حملہ ہے، وہیں یہ وفاق پر بھی حملہ کہا جانا چاہیے ۔ پورے ملک میں اِس پر لے دے ہو رہی ہے ۔ پچھلے چند ایک ماہ سے پیپلز پارٹی ، جو کئی حکومتی معاملات میں وفاق کی شریکِ کار بھی ہے، نے مبینہ6نہروں کی تعمیر کے خلاف شہباز حکومت کے خلاف احتجاجی طوفان اُٹھا رکھے ہیں۔
دو روز قبل پیپلز پارٹی کے چیئرمین، جناب بلاول بھٹو زرداری ، نے مجوزہ 6نہروں کے خلاف ایک زبردست اور اشتعال انگیز تقریر کی تھی ۔ بلاول بھٹو صاحب دبئی میں12روزہ قیام و آرام کے بعد سیدھے حیدرآباد، سندھ، اُترے اور ایک جلسے سے خطاب کیا ۔ موصوف نے اپنے مذکورہ خطاب میں شہباز شریف کی حکومت کو کھلی دھمکی یوں دی :’’ اگر نہروں کا منصوبہ نہ روکا تو حکومت کے ساتھ نہیں چل سکتے ۔‘‘
مجوزہ نہروں کے خلاف جو اشتعال انگیز بیانات بلاول بھٹو زرداری مسلسل داغ رہے ہیں، پیپلز پارٹی کے سبھی اہم ترین لیڈرز بھی یہی زبان اور اسلوب اختیار کیے ہُوئے ہیں ۔ پچھلے دنوں صدرِ مملکت ، جناب آصف علی زرداری، نے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہُوئے بھی، مبینہ طور پر، مذکورہ نہروں کے خلاف بیان دیا تھا ۔ کیا پیپلز پارٹی وفاقی حکومت کو بلڈوز کرنا چاہتی ہے؟ کیا ایسا اقدام خود پیپلز پارٹی کے پاؤں میں کلہاڑی مارنے کے مترادف نہیں ہوگا؟ خاص طور پر ایسے پس منظر میں جب نون لیگی حلقوں میں بین السطور یہ بات بھی کہی جارہی ہے کہ صدرِ مملکت مذکورہ نہروں کی تعمیر بارے مثبت اشارے بھی دے چکے ہیں ۔
یہ درست ہے کہ نون لیگ وفاقی حکومت سے لطف اندوز ہو رہی ہے مگر وفاقی حکومت میں پیپلز پارٹی کے اسٹیکس بھی کم نہیں ہیں ۔ صدر صاحب اور سینیٹ کے چیئرمین پیپلز پارٹی کے ہیں ۔ قومی اسمبلی کے ڈپٹی چیئرمین بھی پیپلز پارٹی کے ہیں اور پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان کے گورنرز بھی پیپلز پارٹی کے ہیں ۔ ایسے میں مجوزہ نہروں کی بنیاد پر بلاول بھٹو کی شہباز حکومت کو دھمکی دراصل خود پیپلز پارٹی کے مفادات پر کاری ضرب کے مترادف ہے ۔ پُر اسرار اور ناقابلِ فہم بات مگر یہ ہے کہ اِسکے باوصف پیپلز پارٹی ایسے حساس موقع پر کھیل کیوں بگاڑنا چاہتی ہے؟مزید حیرانی کی بات ہے کہ ایسے پُر آزمائش موقع پر نون لیگی صدر، جناب نواز شریف، لندن جا بیٹھے ہیں۔