Jasarat News:
2025-04-22@09:51:39 GMT

اسلامی معاشرت سہیل وڑائچ اور میڈیا

اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT

اسلامی معاشرت سہیل وڑائچ اور میڈیا

گزشتہ دنوں وسط دسمبر اور اوائل جنوری میں دو مرتبہ راولپنڈی ریلوے اسٹیشن جانے کا اتفاق ہوا، 21 ویں صدی میں 19 ویں صدی کے ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم اور سہولتوں کو دیکھ کر ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی کہ آثار قدیمہ کے شوقین کسی آثار قدیمہ جا کر اپنا وقت ضائع کریں۔ دونوں بار واش روم جانے کے لیے اجڑے ہوئے مردانہ ویٹنگ روم کے باہر انگریزی زبان میں ایک نوٹس آویزاں دیکھا کہ مینٹیننس کی وجہ سے ٹکٹ ویٹنگ ہال کا واش روم استعمال کیا جائے جس کے لیے پچاس روپے وصول کیے جا رہے تھے، خواتین ویٹنگ روم کے حمام کی حالت ناگفتہ اور مسلسل پانی کا زیاں ہو رہا تھا، کار پارکنگ سے باہر نکلتے وقت ایک صاحب گاڑیاں روک کر پارکنگ رسید بٹور رہے تھے، ان واپسی رسیدوں کا مصرف سمجھنا زیادہ دقت طلب امر نہیں ہے۔ کاش اسلام آباد ائر پورٹ بھی آثار قدیمہ کے شائقین کے لیے اپنی اصلی حالت میں رہنے دیا جاتا تاکہ کچھ تو ائر پورٹ اور ریلوے اسٹیشن کا آپس میں موازنہ ہوتا۔ حسب معمول پلیٹ فارم پر کھڑی ٹرین روانگی کے لیے تاخیر کا شکار تھی اور میرے سامنے کھڑے دو تین افراد نظر بازی میں مصروف جن کا ارتکاز قریب کھڑی خواتین تھیں۔ آپ راول ڈیم جائیں، کراچی ساحل سمندر جائیں یا کسی چڑیا گھر یا بازار یا کوئی بس ویگن کا اڈہ ہو آپ کو اس طرح نظر بازی کے مناظر بار بار نظر آئیں گے۔ ایسے میں ٹی وی چینل پر جانے پہچانے سہیل وڑائچ اپنے مقبول پروگرام’’ایک دن جیو کے ساتھ‘‘ یاد آگئے، گزشتہ دنوں کراچی سے ان کے مہمان پیپلز پارٹی کے قبضہ مئیر مرتضیٰ وہاب تھے۔ دوران پروگرام سفر کرتے ہوئے انہوں نے مرتضیٰ وہاب سے کچھ سوالات کیے، سوالات کے ساتھ جوابات بھی شاہکار تھے، مختصراً آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔

خوبصورتی میں انسانی حسن میں کیا پسند ہے؟۔ آنکھیں؛
حسن پرست آدمی ہوں دیکھتا ہوں اچھی چیز نظر آتی ہے ایڈمائر کرتے ہیں اس کو؛
حسن پرست، تو پھر حسن کو چھونے کی حسن کو پانے کی بھی خواہش کرتا ہے؟
حسن کو پا لیا بیگم صاحبہ ہیں زندگی میں؛
اور کوئی دوسرا حسن کبھی آ کے ڈسٹرب تو نہیں کرتا؟
اگر ڈسٹرب کرتا بھی تو ٹی وی پہ تو نہیں کہوں گا (مشترکہ قہقہے)
یہ کس طرح قابو پاتے ہیں؟

یہ کیمرہ بڑی زبردست چیز ہے ہر جگہ ہمارے ساتھ تو اب کیمرہ چل رہا ہوتا ہے تو اب تو دیکھتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے (دوبارہ مشترکہ قہقہے)

اخلاقی زوال کی یہ انتہا ہے کہ اگر خوف ہے تو بس کیمرے کی آنکھ کا، یہ جملہ شخصیت کی بھرپور عکاسی کر رہا ہے، سہیل وڑائچ جو استاد جیسے معزز پیشے سے وابستہ بھی رہے ہیں، ان کا مرتضیٰ وہاب سے یہ مکالمہ دیکھیں، کیا یہ کھلم کھلا نظر بازی کی اشتہا کے حوالے سے گفتگو نہیں؟، احکام الٰہی اور تعلیمات رسول کریمؐ سے متصادم اس طرح کے سوالات کے کیا کچھ مقاصد ہیں؟ اگر ایسا نہیں تو ہم سہیل وڑائچ اور ٹی وی چینلز پر انٹرٹینمنٹ پروگرام کرنے والے خاص کر تابش ہاشمی اور دیگر سے یہ ہی التماس کریں گے کہ آپ خرافات اور ذومعنی جملوں کے استعمال سے ناظرین کو ہنسنے، قہقہے لگانے اور دلچسپی فراہم کرنے کے لیے اپنے پروگرام میں ’’بے حیا باتوں کے ٹوٹے‘‘ لگانے پر کیوں مصر ہیں؟۔ کم از کم آپ جیسے آسودہ حال لوگوں کی معاش کے حوالے سے اپنے اپنے چینلز کی خلاف اسلام پالیسیوں کی تعمیل مجبوری نہیں۔ یہ بات اس لیے بھی اہم ہے کہ میڈیا کے ہماری ثقافت پر ہر طرح کے اثرات مرتب ہوتے ہیں، بڑے بڑے مالز کا حال احوال کیا بتایا جائے اب تو گلی محلوں میں چھوٹے بازار اور مارکٹوں میں آنے والی خواتین خاص کر بچیوں کے پہناوے دیکھیں، کیا یہ سب مغربی اقدار کی نقالی میڈیا کے زیر اثر نہیں اور کیا یہ سب ان برائیوں کے ایک بڑے اسباب میں نہیں جو آج ہمارے معاشرے کا ناسور بن چکا ہے۔ خبروں میں آئے دن کیسے کیسے دلخراش واقعات سنائی دیتے ہیں اور نظر بازی کیا یہ اسی شاخسانہ کا ایک بد نما باب نہیں جس کا ذکر ریلوے اسٹیشن کے حوالے سے کیا گیا۔ اسی طرح ایک ڈھولک بجانے والی ’’ڈھولچن‘‘ کے ساتھ اپنے پروگرام میں سہیل وڑائچ نے اس کی ایک روز کی آمدنی کا تخمینہ لگایا تو کیا اس ڈھولچن کی ایک دن کی ہوشربا آمدنی دیکھ اور سن کر کتنی بچیوں کا دل نہیں مچلا ہو گا کہ کاش وہ بھی ڈھولچن بن جائیں۔ آپ ہماری اخلاقی گراوٹ کا اندازہ کریں کہ سہیل وڑائچ نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ ڈھولچن کے وارڈ روب میں ان کے لباس اور جم میں مرد ٹرینر کے ساتھ ورزش کا سیشن بھی شامل پروگرام کر لیا۔ آخر وہ اس طرح کی ڈھولچن اور دیگر ڈانسرز کے ساتھ پروگرام کرکے نوجوان نسل کو کہاں لے جانا چاہ رہے ہیں؟، معاشرہ کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟، ایک معلم اور معاشرہ پر اثر انداز ہونے والے اور تجزیہ پیش کرنے والے فرد کا اس طرح کا رویہ اسلامی معاشرت کی اقدار کے قطعی منافی ہے۔

قرآن کریم میں مرد و خواتین کو نگاہیں نیچی رکھنے، غض بصر اور خواتین کو سینوں پر اوڑھنیاں ڈالنے اور قدم زور سے مار کر چلنے سے منع کیا گیا ہے کہ ان کی زینت نہ ظاہر ہو جائے، ابھی چند دنوں پہلے کراچی میں میراتھن دوڑ کا اہتمام کیا گیا، اس میں خواتین جن حلیوں میں کْل عالم کے سامنے دوڑ رہی تھیں اور میڈیا سے جیسی کوریج ہو رہی تھی اس کا حال سب جانتے ہیں، یہی حال خواتین کرکٹ ٹیم کا ہے ان کے منتظمین اور کوچ مرد ہوتے ہیں، ان کے غیر ملکی دورے ہوں یا ملک میں کرکٹ مقابلے، ان کی لائیو کوریج کی جاتی ہے اور کْل عالم یہ نظارے دیکھتا ہے۔ خدانخواستہ اس کا کوئی مطلب یا شائبہ بھی نہ لیا جائے کہ خواتین کو کھیل کود سے دور رکھا جائے، بجا طور سے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے لیکن خواتین کے کھیل خواتین تک ہی محدود رکھے جائیں چاہے وہ انتظامیہ ہو کوچ ہوں یا شائقین تو اس میں کوئی مضائقہ کی بات نہیں۔ کوئی تبصرہ کرنے سے پہلے رسول کریمؐ کا اسوہ دیکھیے آپؐ کے ارشادات مبارک سنیے، احادیث مبارکہ میں نبی کریمؐ کی شرم وحیا اور آنکھیں نیچی رکھنے کا بالخصوص ذکر ملتا ہے۔ نبی کریمؐ جب کبھی کسی نوجوان کو کسی غیر محرم عورت کی طرف نظریں گاڑے دیکھتے تو اسے اس سے منع کرتے۔ آپؐ نے فرمایا جس مسلمان کی نگاہ کسی عورت کے حسن پر پڑے اور وہ نگاہ ہٹا لے تو اللہ اس کی عبادت میں لطف اور لذت پیدا کر دیتا ہے۔ کسی آدمی کے لیے یہ بات حلال نہیں کہ وہ اپنی بیوی یا اپنی محرم خواتین کے سوا کسی دوسری عورت کو نگاہ بھر کر دیکھے، ایک دفعہ اچانک نظر پڑ جائے تو وہ معاف ہے لیکن یہ معاف نہیں ہے کہ آدمی نے پہلی نظر میں جہاں کوئی کشش محسوس کی وہاں پر نظر دوڑائے، رسول کریمؐ نے اس طرح کی دیدہ بازی کو آنکھ کی بدکاری سے تعبیر فرمایا ہے۔

نبی کریمؐ نے عقائد کی اصلاح کے بعد سب سے زیادہ توجہ اصلاح معاشرہ پر دی اور اس میں بھی شرم اور حیا کو بنیادی اہمیت حاصل رہی۔ رسول کریمؐ پردہ نشین کنواری لڑکی سے زیادہ حیا دار تھے، اگر آپؐ کو کوئی بات ناگوار گزرتی تو چہرہ مبارک پر اس کے آثار ظاہر ہو جاتے تھے، آج ان اقدار کو دیکھیں اور اپنے معاشرے کا جائزہ لیں کیا ہم پر بھی ان رویوں پر کبھی ناگواری کی کیفیت طاری ہوتی ہے؟، دراصل بحیثیت مجموعی ہم ان اقدار سے نہ صرف دور ہو چکے ہیں بلکہ ایک ایسا طبقہ بھی وجود میں آگیا ہے جو شرم، حیا، لباس اور حجاب کے حوالے سے مغربی معاشرت کے اثرات کے تحت اس رو میں بہنے کے لیے مائل و آمادہ ہے۔ ہمارے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر زیادہ تر ایک ایسا طبقہ اثر انداز اور قابض ہو چکا ہے کہ جس کا اسلامی تعلیمات اور عقائد سے دور دور کا واسطہ نہیں، یہ اسلامی اقدار کے تمسخر اور خلاف اسلام نظریات کے ابلاغ پر ایک بڑی اُجرت اور ایک ایجنڈے پر باقاعدہ مامور ہیں۔ آج کے نوجوان کو ’’طاؤس و رباب‘‘ میں گم کر دیا گیا ہے اور عوام بسم اللہ کے گنبد میں بند تو پھر ہماری معاشرت اسلامی معاشرت میں کیسے ڈھل سکتی ہے، جب کہ غار حرا سے پھوٹنے والی روشنی سے نہ جانے کیوں ہم اپنے در و دیوار اور مکینوں کے دل و دماغ روشن کرنے کے لیے آمادہ نہیں اور اپنے اپنے رویوں پر مصر ہیں؟، شاید اسی سوال میں بارشوں کے نہ ہونے کی وجوہات اور دیگر مسائل میں گھرے اہل وطن کے مسائل کا حل پنہاں ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ریلوے اسٹیشن کے حوالے سے رسول کریم کے لیے ا کے ساتھ کیا یہ

پڑھیں:

جے یو آئی اور جماعت اسلامی اتحاد سے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں، اسپیکر پنجاب اسمبلی

اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے کہا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کے اتحاد سے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔ نے کہا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کے اتحاد سے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب غیرملکی سرمایہ کاروں کے لیے محفوظ اور پرکشش مقام ہے، اسپیکر پنجاب اسمبلی

ملک محمد احمد خان نے جے یو آئی اور جماعت اسلامی کے اتحاد کو سیاسی طورپر خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ دونوں جماعتیں ماضی میں بھی متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے کاوشیں کر چکی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت ترقی کررہی ہے اور صرف ایک جماعت کی جانب سے معمولی نوعیت کے سیاسی بلبلے بنتے ہیں۔

’حکومت کا کام کسانوں کو سہولت فراہم کرنا ہے‘

ملک محمد احمد خان کا کہنا تھا کہ حکومت جب سپورٹ پرائس کےمسئلے سے باہر نکل رہی ہے تو اسے کسانوں کے دیگر مسائل کو بھی دیکھنا ہوگا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کا کام کسانوں کو سہولت فراہم کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میرا یہ خیال ہے کہ حکومت اگر سپورٹ پرائس دیتی ہے تو اس کا اثر پیداوار پر پڑتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کیا ہمارا کسان بھی ایک ایکٹر میں سے 100 من گندم کی پیداوار حاصل کررہا ہے۔

مزید پڑھیے: علی امین گنڈاپور پی ٹی آئی کے گوربا چوف، جے یو آئی نے فضل الرحمان کے خلاف بیان پر وضاحت مانگ لی

اسپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ سنہ 1994 میں پہلی مرتبہ زرعی ٹیکس کی بات کی گئی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت پتا تھا چلا کہ 94 فیصد کاشتکاروں کے پاس ساڑھے 12 ایکٹر رقبہ موجود ہے اور اب یہ رقبہ وراثتوں کی تقسیم کے بعد مزید کم ہوگیا ہوگا۔

’پانی کی تقسیم کے اعتراضات کو بلیک میلنگ نہیں سمجھتا‘

اسپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ میں سندھ کے پانی کی تقسیم پر اعتراضات کو بلیک میلنگ نہیں سمجھتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پانی کی تقسیم کے حوالے سے خدشات پر بات ضرور ہونی چاہیے۔

مزید پڑھیں: گرینڈ اپوزیشن الائنس: جے یو آئی نے تحریک انصاف کو شرائط بتادیں

ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خاتمہ کےلیے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے وہ بات کی جس کے پیچھے پوری قوم کھڑی ہے۔

محمد احمد خان کا مزید کہنا تھا کہ کوئی ایک گروہ ہم سے ہمارا ملک اور ہماری طرز معاشرت چھین نہیں سکتا اور پاکستانی ایک مضبوط قوم ہے اور دہشتگردی کا ڈٹ کر مقابلہ کرے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان جماعت اسلامی جے یو آئی جے یو آئی جماعت اسلامی اتحاد

متعلقہ مضامین

  • اسرائیلی مائنڈ سیٹ،کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ؟
  • بنیادی صحت کے مراکز کی نجکاری قبول نہیں، دھرنا جاری رہے گا، رخسانہ انور
  • ’خواتین کو رات 10 بجے کے بعد کام پر مجبور نہیں کیا جاسکتا‘
  • جے یو آئی اور جماعت اسلامی اتحاد سے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں، اسپیکر پنجاب اسمبلی
  • پی ٹی آئی سے اتحاد نہ کرنے کی خبریں  مصدقہ نہیں،  ترجمان جے یو آئی
  • فلسطین کی صورتحال اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری
  • سوشل میڈیا کی ڈگڈگی
  • پاکستانی میڈیا: سچ کے بجائے منظر نامے کا اسیر؟
  • سوشل میڈیا سے خوفزدہ لوگ اپنے غصے کو ٹھنڈا کریں، عارف علوی کا مشورہ
  • سوشل میڈیا پر مشہور ہونے کیلئے فوڈ چین پر حملہ کیا: ملزمان کا عدالت میں بیان