قبائلی اضلاع میں بے روزگاری امن کی راہ میں بڑی رکاوٹ
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
بدقسمتی سے ہمارے قبائلی نوجوان بے روزگاری کے ساتھ ساتھ بدامنی کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں۔ ہمارے نوجوان نوکری کرنا چاہتے ہیں اور نوکری کی تلاش میں بھی ہیں، ڈگریاں بھی ان کے پاس موجود ہیں، لیکن روزگار نہیں ملتا۔
اب آپ خود بتائیں جب ہمارے ملک کے نوجوان بے روزگار ہوں گے تو کیا پھروہ غلط کاموں کی طرف مائل نہیں ہوں گے؟ ایسے میں تو وہ کسی شریر کے ہاتھوں کا آرام سے کھلونا بن سکتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان ایک ترقی پزیرملک ہے، جو اب بھی عالمی دنیا میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ ایک ترقی پذیر ملک ہونے کے ساتھ جب بے روزگاری کے ساتھ بدامنی بھی شامل ہو جائے تو آپ اندازہ کریں پھر اس ملک کا مستقبل کیا ہوگا؟
بے روزگاری کا بد امنی کے ساتھ انتہائی گہرا تعلق ہے، کیوںکہ جب بے روزگاری ہوگی تو اس سے ہمارے نوجوان غیر مصروف رہیں گے، جس سے غربت جنم لیتی ہے اور جب غربت ہوگی تو انسان اپنا پیٹ بھرنے کے لیے کوئی بھی کام کرنے کو تیار ہوتا ہے اور پھر ایسے نوجوان بڑے آسانی سے دہشتگردی میں ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ برین واش بھی ہوسکتے ہیں۔
اس کے علاوہ ہمارے نوجوانوں کا دماغ کچا ہوتا ہے، وہ ہر ایک سانچے میں ڈھل جاتے ہیں، اگر نوجوان بے روزگار ہوں گے تو وہ خود بخود بھی دہشتگردی، قتل وغارت، منشیات اور ڈکیتی میں ملوث ہوسکتے ہیں۔
بے روزگاری پاکستان کا بڑا مسئلہ بن چکا ہے، پاکستان کی بہت سی یونیورسٹیاں ہر سال ہزاروں نوجوان گریجویٹ تیار کرتی ہیں، لیکن یہی نوجوان اپنی ڈگری مکمل ہونے پر نوکری حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
16 سال کی انتہائی مشکلات اور محنت کے بعد جب ماں باپ کی جمع پونجی سے ایک نوجوان لڑکا یا لڑکی کسی یونیورسٹی سے فارغ ہوتے ہیں اور اوپر سے نوکری کے لیے طویل انتظار کرنے کے بعد بھی نوکری نہ ملے تو پھر اس کے دل پر کیا گزرتی ہوگی؟ جبکہ مایوسی کے بعد جو اقدام متوقع ہیں، اس بارے ریاست کو ضرور سوچنا چاہیے۔
ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ ہمارے نوجوان بے روزگاری اور غربت سے تنگ آکر باہر ممالک جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ پھر جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ مال دار بھی ہو تو وہ کسی نہ کسی طریقے سے قانونی طور پر باہر چلے جاتے ہیں۔
مگر وہ نوجوان جن کے پاس پیسوں کی کمی ہو تو وہ غیر قانونی طور پر باہر ممالک جانے کی کوشش کرتے ہیں، یا تو وہ جانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور یا پھر عمر بھر کے لیے افسوس بھری زندگی گزارتے ہیں، کیونکہ راستے میں ان کو اتنی اذیت مل جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اب آپ بتائیں کہ ہمارے ملک میں غربت کا خاتمہ کیسے ہوگا، جب ہمارے ملک کے سرمایہ کار باہر کے پراجیکٹس میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں، لیکن اپنے ملک میں کوئی بھی سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں۔ہمارے ملک میں بالخصوص قبائلی اضلاع میں بدامنی اتنی زیادہ ہے کہ نا تو اپنے اور نا ہی غیر ملکی یہاں سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہیں۔
آئے روز غیر ملکیوں کے ساتھ کوئی نہ کوئی حادثہ ہوتا رہتا ہے، اگر یہ سرمایہ کار ہمارے ملک میں سرمایہ کاری کرتے تو اس سے نوجوانوں کو روزگار ملتا، سب کچھ اس کے برعکس ہو رہا ہے جو بالآخر بے روزگاری کی ایک اہم وجہ ہے۔
قبائلی اضلاع میں تعلیمی نظام وقت کی ضرورت کے مطابق بہتر نہیں ہوسکا۔ بہت سے ٹیکنیکل کالجز ہیں، جو طلبا کو تربیت دے رہے ہیں، تاہم یہ ٹریننگ مارکیٹ کے مطابق نہیں ہے۔
پرائمری سطح سے لے کر یونیورسٹی کے گریجویٹس تک کو مختلف ہنر سیکھانے چاہییں، خاص طور پر بنیادی توجہ نوجوانوں میں کاروباری صلاحیتوں اور خصوصیات کی تعمیر پر ہونی چاہیے۔
پاکستان میں تعلیم بنیادی مسائل میں سے ایک ہے، ایسی صلاحیتوں اور ڈگریوں کو پیدا کرے، جس سے انہیں ملازمت حاصل کرنے میں مدد مل سکے۔ پاکستان کے حکمرانوں کو ہمارے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی آبادی جس رفتار سے بڑھتی جا رہی ہے یہ انتہائی پریشان کن ہے۔ آبادی میں اس اضافے کے بہت سے محرکات ہیں، جب آبادی ذیادہ ہوگی تو نوکری ملنا بھی مشکل ہوگی۔
قبائلی اضلاع میں قدرتی وسائل کی بھرمار ہے، لیکن تکنیکی اور پیشہ ورانہ محنت کی کمی کی وجہ سے ان وسائل کو استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
بے روزگاری کسی بھی معیشت کے لیے ایک سنگین مسئلہ ہے، سب سے پہلے مناسب معاشی منصوبہ بندی، طاقتور حکومتی پالیسیاں، اور ملک میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانا ہوگا۔ تاکہ سرمایہ کار پاکستان آئیں اس طرح معمول کے مطابق ملازمتوں کی جگہیں پیدا ہوں گی۔ نوکریاں صرف میرٹ پر دی جائیں، مستحق افراد کو نوکری دی جائیں۔
حکومت کو چاہیے کہ سرمایہ کاروں کو فوائد فراہم کرے، تاکہ وہ قبائلی اضلاع میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کریں، حکومت اور عہدیداروں کو بھی نوجوانوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جہاں وہ تجربہ حاصل کرسکیں اور اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے اور چمکانے کے مواقع حاصل کریں۔
نوجوانوں کو اپنے اندر محنت کرنے کی خوبیاں پیدا کرنی چاہییں اور نتیجہ خیز کام کرنے کا جذبہ بھی پیدا کرنا چاہیے۔ کیونکہ ایسا سب کچھ کرنے سے ملک میں امن آئے گا اور بے روزگاری کا خاتمہ ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: نوجوان بے روزگار قبائلی اضلاع میں ہمارے نوجوان سرمایہ کاری بے روزگاری ہمارے ملک جاتے ہیں کے ساتھ ملک میں کے لیے
پڑھیں:
تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد نہیں ہوگا، جے یو آئی
اسلام آباد (نیوز ڈیسک) جمعیت علمائے اسلام نے حتمی طور پر فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ تحریک انصاف کےساتھ اتحاد نہیں کریگی اور نہ ہی کسی ایسے اتحاد میں شامل ہوگی جو تحریک انصاف کے ایما پر قائم کیا جائیگا۔
اس کافیصلہ جمعیت نے اپنی مجلس عمومی کے دو روزہ اجلاس میں کیاہے جواتوار کو لاہور میںاختتام پذیر ہوگیا ہے۔
جمعیت نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں آزاد حزب اختلاف کا کردارادا کرتی رہے گی وہ حکومت کا حصہ نہیں بنے گی اور پارلیمنٹ میں زیر غوآنے و الے معاملات کاجائزہ لیتی رہے گی اورعندالضرورت تحریک انصاف کے ساتھ تعاون کرنے یا نہ کرنے کا تعین ہوگا۔
جمعیت العلمائے اسلام کے ذرائع نے جنگ /دی نیوز کو بتایا ہے کہ جمعیت العلمائے اسلام کے زیر اہتمام 27؍ اپریل کو مینار پاکستان کے سبزہ زار پر ’’اسرائیل مردہ باد‘‘ ریلی ہوگی اسی طرح دس مئی کو پشاور اور سترہ مئی کو کوئٹہ میں ’’اسرائیل مردہ باد‘‘ کے اجتماعات ہونگے۔
جمعیت نے پنجاب میں نہریں نکالے جانے کے معاملے میں اپنی سندھ تنظیم کے موقف کی تائید کا فیصلہ کیا ہے اور طے کیا ہے کہ جمعیت کی مرکزی تنظیم اس بارے میں کوئی راہ عمل اختیار نہیں کرے گی۔
منرلز اور مائنز کے قانون کے سلسلے میں جمعیت العلمائے اسلام صوبوں کے آئینی مفادات کا تحفظ کرے گی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ جمعیت العلمائے اسلام نے مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں قومی معاملات کے بارے میں صائب فیصلے کئے ہیں۔
جمعیت نے تحریک انصاف کی بار بار اور پرزور درخواستوں پر اس سے رازداری کے ساتھ بعض وضاحتیں طلب کی تھیں جو کئی ہفتے گزر جانے کے باوجود جواب طلب ہیں جمعیت کا کہنا تھا کہ وہ حکومت کے خلاف سیاسی جماعتوں کے اشتراک سے بڑا اتحاد قائم کرنے کی خواہاں تھی جبکہ دوسری طرف وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات میں مصروف تھی اس نے وسیع تر سیاسی اتحاد کا ڈول ڈال رکھا تھا تاکہ ان خفیہ مذاکرات میں اس کی سودا کار حیثیت مستحکم ہوسکے ۔
اس طرح وہ ہم عصر سیاسی جماعتوں کو آلہ کار کے طور پر استعمال کرنے کے درپے تھی۔
Post Views: 4