کالج پرنسپل نے پولیس کو بتایا کہ سپرنٹنڈنٹ محمد نفیس بددیانتی سے کالج کی تقریباً 81 طالبات سے امتحانی فیس کی مد میں نقد رقم 9 لاکھ 10 ہزار 2 سو روپے وصول کر چکا ہے، مگر یہ رقم بینک میں جمع کرانے کے بجائے خود رکھ لی۔ اسلام ٹائمز۔ شہر قائد میں گورنمنٹ کالج فار وومن ناظم آباد کا سپرنٹنڈنٹ طالبات کی فیس کی مد میں وصول کی جانے والی نقد رقم 9 لاکھ 10 ہزار 2 سو روپے لے کر فرار ہو گیا۔ کالج پرنسپل کی درخواست پر سپرنٹنڈنٹ کے خلاف رضویہ سوسائٹی تھانے میں مقدمہ درج کر لیا گیا۔ مدعیہ مقدمہ شہلا بشیر کے مطابق وہ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں 20 گریڈ کی پروفیسر ہیں اور بحیثیت گورنمنٹ کالج فار وومن ناظم آباد میں پرنسپل تعینات ہیں۔ مدعیہ نے پولیس کو بتایا کہ تین روز قبل کالج کے اسٹاف سے انہیں معلوم ہوا کہ کالج کی طالبات ایڈمٹ کارڈز وصول کرنے آ رہی ہیں، مگر طالبات کے ایڈمٹ کارڈ جاری نہیں ہوئے ہیں۔ ایڈمٹ کارڈز کالج کے سپرنٹنڈنٹ محمد نفیس، جو کہ 17 گریڈ میں ہیں، نے جاری کرنے تھے، اب انہیں معلوم ہوا کہ سپرنٹنڈنٹ محمد نفیس بددیانتی سے کالج کی تقریباً 81 طالبات سے امتحانی فیس کی مد میں نقد رقم 9 لاکھ 10 ہزار 2 سو روپے وصول کر چکا ہے، مگر یہ رقم بینک میں جمع کرانے کے بجائے خود رکھ لی۔


کالج پرنسپل نے بتایا کہ اکتوبر 2024ء میں طلبہ و والدین کیلئے کالج کی دیوار پر نوٹس بھی لگایا گیا تھا کہ وہ کالج کے کسی بھی اسٹاف ممبر کو کسی بھی مد میں نقد رقم نہ دیں اور بینک واؤچر حاصل کریں۔ مدعیہ نے بتایا کہ مزید طالبات کی شکایات موصول ہو رہی ہیں کہ سپرنٹنڈنٹ محمد نفیس آخری مرتبہ 25 جنوری کو آیا تھا اور اس کے بعد وہ کالج نہیں آیا، میرا دعویٰ ہے کہ محمد نفیس نے ناجائز طور پر امتحانی فیس کی مد میں طالبات سے نقد رقم وصول کرکے خردبرد کی ہے، لہٰذا قانونی کارروائی کی جائے۔ پولیس نے مقدمے کے اندراج کے بعد کالج کے سپرنٹنڈنٹ کی تلاش میں چھاپہ مار کارروائیاں شروع کر دی ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ کالج کے سپرنٹنڈنٹ کو جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: سپرنٹنڈنٹ محمد نفیس فیس کی مد میں بتایا کہ وصول کر کالج کے کالج کی

پڑھیں:

ڈھکن کی سیاست

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251214-03-6

 

قاسم جمال

کراچی ایک لاوارث شہر بن چکا ہے۔ اس شہر کے بچے کبھی ڈمپر، کبھی ٹینکر اور کبھی ڈھکن نہ ہونے پر ماں باپ کے سامنے کھلے گٹر میں گر کر ابدی نیند سو رہے ہیں۔ 30 نومبر کو نیپا چورنگی کے قریب شاپنگ مال میں اپنے والدین کی ہمراہ شاپنگ کر کے گھر واپس جانے والا معصوم بچہ ابراہیم لمحوں میں کھلے گٹر میں گر کر ہلاک ہوگیا۔ پندرہ گھنٹوں کی محنت اور مشقت کے بعد ایک کچرا چننے والے لڑکے نے آدھا کلومیٹر دور سیوریج لائن کے اندر سے معصوم بچے کی پھنسی لاش نکالی۔ معصوم بچے کی اس مظلومانہ موت نے پورے شہر کو ہی افسردہ کر دیا۔ معصوم بچے ابراہیم نے تو کے ایم سی، واٹر کارپوریشن اور سندھ حکومت کے ریسکو کے تمام اداروں کو اپنی مظلومانہ موت سی مکمل طور پر برہنہ اور اچھی طرح سے بے نقاب کر دیا ہے۔ ابھی معصوم بچے ابراہیم کے غم میں اہل کراچی غم میں ڈوبے ہوئے تھے اور معصوم ابراہیم کے والدین کی آہ وبکا رُکی نہیں تھی کہ دس دسمبر کو نارتھ کراچی بابا موڑ کے قریب عثمان پبلک اسکول کے نوجوان طالب علم عابد رئیس جو کو اپنے گھر سے کالج کے لیے روآنہ تھا کہ وہ بدقسمتی سے ایک تیز رفتار واٹر ٹینکر کی بھینٹ چڑھ گیا۔ تیز رفتار واٹر ٹینکر سرجانی فور کے چورنگی کے قریب نوجوان عابد رئیس پر چڑھ دوڑا جس کے نتیجے میں عابد رئیس کی موٹر سائیکل بری طرح واٹر ٹینکر کے ویلز کے نیچے کچلی گئی۔ طالب علم عابد رئیس دو بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ اکلوتے بیٹے کے واٹر ٹینکر سے ہونے والی ہلاکت پر اس کے گھر پر کہرام اور صف ماتم مچ گیا۔ نوجوان عابد رئیس کے والد کا رونا کسی سے دیکھا نہیں جا رہا تھا اور ہر آنکھ اشکبار تھی۔

کتنی مشکل سے والدین اپنے بچوں کی پرورش کرتے ہیں اور اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو پالتے ہیں۔ ایسے میں یہ خونیں ڈمپر اور خونیں مافیا انہیں موت کی گھاٹ اُتار دیتی ہے۔ سندھ حکومت پہلے ہی شہر میں ٹریفک نظام کی درستی اور بہتری کے لیے ای چالان کے نام پر لوٹ مار کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ جس میں روزآنہ کی بنیاد پر سیکڑوں کی تعداد میں غریب موٹر سائیکل سواروں کے ہزاروں روپے کے چالان کیے جا رہے ہیں۔ تماشا یہ کہ تمام قوانین چھوٹے اور کمزور لوگوں کے لیے ہیں۔ موٹرسائیکل سواروں کے دو ہزار روپے سے لیکر بارہ بارہ ہزار روپے کے چالان کیے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب حکومتی نااہلی اور انتظامی غفلت کی وجہ سے شہر قائد میں رواں سال کے دوران مختلف علاقوں میں جان لیوا ٹریفک حادثات میں خواتین، بزرگوں اور بچوں سمیت 800 کے قریب افراد جاں بحق اور 11 سو سے زائد شہری زخمی ہو جانے کی میڈیا رپورٹس نشر ہوئی ہیں۔ 2025 کے پہلے سات مہینوں میں کراچی میں ٹریفک حادثات میں کم از کم 538 شہری جاں بحق ہوئے۔ ان میں 222 ہلاکتیں بھاری گاڑیوں سے وابستہ ہیں اور 274 اموات موٹرسائیکل سواروں کی ہیں۔ یعنی نصف سے زیادہ قتل کی ذمے دار بھاری گاڑیاں ہیں اور ان ہیوی ٹریفک سے شہر میں اوسطاً ہر ہفتے دو درجن حادثات ہوتے ہیں۔ زیادہ تر حادثات رات اور صبح کے اوقات میں ہوتے ہیں۔ اس وقت پولیس کی نگرانی بھی کمزور اور روشنی بھی کم ہوتی ہے۔ ہیوی ٹریفک کے ڈرائیوروں کی اکثریت منشیات میں مبتلا ہوتے ہیں جو کہ حادثات کی اہم وجہ میں سے ایک ہے۔ اس کے علاوہ ٹریفک پولیس کے اہلکار بھاری رشوت کے عوض ہیوی ٹریفک کو ممنوع اوقات کار میں شہر میں داخلے کی کھلی اجازت دیتے دیتے ہیں۔ ان ہی کرپٹ ٹریفک پولیس اہلکاروں کی وجہ سے لائسنس، فٹنس سرٹیفکیٹ اور روٹ پرمنٹ کے بغیر دھڑلے کے ساتھ شہر میں گاڑیاں اور ٹرانسپورٹ چلتی ہیں۔

ریاست جس کا کام شہریوں کو تحفظ دینا ہے مگر اس شہر میں یہ قاتلوں کی سرپرست بنی ہوئی ہے۔ سیف سٹی منصوبہ جو 2016 میں کراچی کے لیے منظور ہوا تھا لیکن آج تک یہ منصوبہ مکمل نہیں ہو سکا اور کراچی کے شہری بے دردی کے ساتھ مارے جارہے ہیں۔ جوان بچے کی ناگہانی موت نے ایک باپ کی کمر توڑ دی ہے۔ سندھ حکومت اپنی مستیوں میں مگن ہے۔ سندھ حکومت کا سارا زور غریب اور مظلوم طبقہ کی سواری موٹر سائیکل سواروں پر ہی ہے اور روزآنہ ایک ایک موٹر سائیکل سوار کا ہزاروں روپے کا چالان کیا جا رہا ہے اور اسے بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔ کراچی کے بیٹے ڈمپروں، ٹرالروں اور کھلے گٹروں میں گر کر مر رہے ہیں لیکن اس بے بس اور مجبور شہر کے رہنے والوں کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر جماعت اسلامی کے ٹاؤن چیئرمین کی کھلے مین ہولز پر تصاویر والے پلے کارڈ لگا رہے ہیں جبکہ بچہ بچہ جانتا ہے کہ معصوم ابراہیم کی موت جس مین ہول میں ہوئی وہ یونی ورسٹی روڑ کا مقام اور بلدیہ عظمیٰ کراچی اور واٹر کارپوریشن کے دائرۂ اختیار میں آتا ہے۔

یہ شہر ہم سب کا ہے اور ہم سب کو مل جل کر اس کی خدمت کرنا ہے۔ معصوم ابراہیم کی المناک موت نے پورے شہرکو افسردہ کردیا ہے۔ اس شہر کا ہر باسی آج غم میں ڈوبا ہوا ہے۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی نے تین سو روپے کا ایک نیا ٹیکس کراچی کے شہریوں پر لگایا ہے جو کہ بجلی کے بلوں میں لگ کر آرہے ہیں۔ اکثر گھروں میں لوڈ تقسیم کرنے کے لیے ہر فلور اور پورشن کا الگ میٹر لگا ہوا ہے۔ اس طرح ہر گھر میں چار چار میٹر لگے ہوئے ہیں اور ایک ہی گھر سے 1200 روپے شہر کی صفائی وترقی کے کام کی لیے وصول کیے جا رہے ہیں۔ کے ایم سی اب تک کروڑوں روپے اس مد میں وصول کر چکی ہے لیکن جس مقصد کے لیے یہ ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے وہ کہیں بھی لگتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ اسی طرح بلدیہ عظمیٰ کراچی پورٹ سے بھی شہر کی سڑکوں کی تعمیر اور اس کی مرمت کے لیے ٹیکس وصول کرتی ہے لیکن وہ اربوں روپے بھی کرپشن کی نظر ہوجاتا ہے۔ ورنہ یہ پیسہ کہیں تولگتا نظر آنا چاہیے تھا۔ ہم سب کی خواہش اور تمنا تھی کہ اندرون سندھ کے علاقے بھی کراچی کی طرح ترقی کریں اور وہاں بھی ترقیاتی اور خوشحالی کے کام ہوں لیکن افسوس ناک بات یہ کہ سندھ حکومت اندرون سندھ کے علاقوں کو کیا ترقی یافتہ شہر بناتی وہ تو کراچی جیسے میگا سٹی شہر کولاڑکانہ، نواب شاہ، گھوٹکی بنانے میں مصروف عمل ہے۔ گٹر کے ڈھکن کی سیاست نے سب کو بے نقاب کردیا ہے۔ شہرکے لوگوں کی مشکلات کے خاتمے کے لیے مخیر افراد اور تنظیمیں آگے آئیں اور شہر کے کھلے مین ہولز پر ڈھکن رکھنے اور شہریوں کی زندگی محفوظ بنانے میں اپنا کردار ادا کریں تا کہ کسی اور ماں کا معصوم بچہ ابراہیم اس بے دردی سے نہ مرے اور کسی ماں کی گود اب نہ اُجڑے اور ڈھکن کی سیاست کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کیا جاسکے۔

 

قاسم جمال

متعلقہ مضامین

  • آئی ایم ایف مطالبے پر سرکاری ملازمین کے اثاثے پبلک کرنے سے متعلق قانون سازی کرچکے ،وزیر خزانہ
  • لاہور: ملزم جیولری مارکیٹ کے سناروں کا 20 کلو سونا لیکر فرار
  • ڈھکن کی سیاست
  • صدر اور وزیراعظم کی سلطان محمد گولڈن کو مبارکباد، سرفراز بگٹی 5 کروڑ روپے انعام کا اعلان
  • آئی ایم ایف نے سرکاری ملازمین کے اثاثے سامنے لانے کا کہا ہے؛ وزیر خزانہ
  • کیلیفورنیا کی خاتون نے سالگرہ سے ایک دن قبل لاکھوں ڈالرز کی لاٹری جیت لی
  • سرکاری ملازمین کے اثاثے پبلک کرنے سے متعلق قانون سازی کر چکے: وزیر خزانہ
  • لاہور:ٹریفک خلاف ورزیوں پر دلچسپ کارروائیاں، پیدل چلنے پر گرفتاری، ایک ہی شہری پر لاکھوں روپے جرمانہ
  • کراچی، پولیس مقابلے میں ایک ڈاکو زخمی حالت میں گرفتار، اسلحہ و دیگر سامان برآمد
  • وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف ترکمانستان کے صدر سردار بردی محمدوف کی دعوت پر دو روزہ سرکاری دورے پر روانہ