کراچی: سرکاری کالج کا سپریٹنڈنٹ طالبات کی فیس کے لاکھوں روپے لیکر فرار
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
کراچی:
گورنمنٹ کالج فار وومن ناظم آباد کا سپرنٹنڈنٹ طالبات کی فیس کی مد میں وصول کی جانے والی نقد رقم 9 لاکھ 10 ہزار 2 سو روپے لے کر فرار ہو گیا۔
کالج پرنسپل کی درخواست پر سپرنٹنڈنٹ کے خلاف رضویہ سوسائٹی تھانے میں مقدمہ درج کرلیا گیا۔ مدعیہ مقدمہ شہلا بشیر کے مطابق وہ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں 20 گریڈ کی پروفیسر ہیں اور بحیثیت گورنمنٹ کالج فار وومن ناظم آباد میں پرنسپل تعینات ہیں۔
مدعیہ نے پولیس کو بتایا کہ تین روز قبل کالج کے اسٹاف سے انہیں معلوم ہوا کہ کالج کی طالبات ایڈمٹ کارڈز وصول کرنے آ رہی ہیں، مگر طالبات کے ایڈمٹ کارڈ جاری نہیں ہوئے ہیں۔
ایڈمٹ کارڈز کالج کے سپرنٹنڈنٹ محمد نفیس، جو کہ 17 گریڈ میں ہیں، نے جاری کرنے تھے۔ اب انہیں معلوم ہوا کہ سپرنٹنڈنٹ محمد نفیس بد دیانتی سے کالج کی تقریباً 81 طالبات سے امتحانی فیس کی مد میں نقد رقم 9 لاکھ 10 ہزار 2 سو روپے وصول کر چکا ہے، مگر یہ رقم بینک میں جمع کرانے کے بجائے خود رکھ لی۔
اکتوبر 2024 میں طلبہ و والدین کے لیے کالج کی دیوار پر نوٹس بھی لگایا گیا تھا کہ وہ کالج کے کسی بھی اسٹاف ممبر کو کسی بھی مد میں نقد رقم نہ دیں اور بینک واؤچر حاصل کریں۔
مدعیہ نے بتایا کہ مزید طالبات کی شکایات موصول ہو رہی ہیں کہ سپرنٹنڈنٹ محمد نفیس آخری مرتبہ 25 جنوری کو آیا تھا اور اس کے بعد وہ کالج نہیں آیا۔ میرا دعویٰ ہے کہ محمد نفیس ولد اشرف الدین نے ناجائز طور پر امتحانی فیس کی مد میں طالبات سے نقد رقم وصول کر کے خرد برد کی ہے، لہٰذا قانونی کارروائی کی جائے۔
پولیس نے مقدمے کے اندراج کے بعد کالج کے سپرنٹنڈنٹ کی تلاش میں چھاپہ مار کارروائیاں شروع کر دی ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ کالج کے سپرنٹنڈنٹ کو جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
بلوچستان میں کالج یونیورسٹی موجود؛ ڈسکرمینشن موجود نہیں تو جنگ کیا ہے ؛ سابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ
سٹی 42: سابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کاہ ان لوگوں سے لڑنا مشکل نہیں اصل لوگوں کو سمجھانا ایشو ہے ۔یہ چند لوگ کھلم کھلا علیحدگی کی تحریک چلا رہے تشدد ان کے لئے معنی نہیں ۔
سابق نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ ے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاسپرنٹ موومنٹ کا صرف پاکستان کو سامنا نہیں ۔ایران افریقہ،انڈیا کئی اور ممالک میں ایسی تحریک ہے ۔بلوچستان میں چند افراد اس طرح کی تحریک چلا رہے ہے ۔ یہ لوگ 17 سو سمیت مختلف تاریخی کا حوالہ دیتے ہے ۔برٹش راج سے قبل ایسٹ انڈیا کمپنی نے کام شروع کیا ۔پھر برٹش راج آیا اور کئی ریاستوں کو قبضے میں لیا ۔ برٹشن نے جانے کا فیصلہ کیا تو دو تحریکوں سے جنم لیا ۔جو آج بلوچستان ہے یہ پہلے برٹشن بلوچستان تھا ۔اس میں کچھ ریاست کلات پر کچھ حصہ مشتمل تھا ۔ 17 مارچ 1948 کو ریاست کلات پاکستان کا حصہ بن گئے ،موجودہ حالات میں یہ چند لوگ مختلف بہانے بناتے ہے ۔وائلس کو بطور آلہ کار بنا کر تحریک شروع کر دی گی جہاں تشدد ہو وہاں کوئی بہنانہ ڈھونڈا جاتا ہے ۔مزدوروں کو بسوں سے اتار کر مار دیا جاتا ہے ۔
صوبہ بھر میں انفورسمنٹ سٹیشن قائم کرنے کا فیصلہ، وزیراعلیٰ پنجاب کی زیر صدارت خصوصی اجلاس
آج بلوچستان میں کالج یونیورسٹی موجود ہے ،جب ڈسکیرمنشن کہیں موجود نہیں تو پھر یہ جنگ کیا ہے ۔ان لوگوں سے لڑنا مشکل نہیں اصل لوگوں کو سمجھانا ایشو ہے ۔یہ چند لوگ کھلم کھلا علیحدگی کی تحریک چلا رہے تشدد ان کے لئے معنی نہیں ۔