لاہور ہائیکورٹ نے پیکا قانون کی مختلف شقوں پر عملدرآمد روکنے کی درخواست مسترد کردی۔

صحافی جعفر بن یار کی درخواست پر جسٹس فاروق حیدر  نے مقدمے کی سماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے ندیم سرور ایڈوکیٹ نے دلائل دیے۔

یاد رہے کہ پیکا ترمیمی ایکٹ 2025 کو 2 روز قبل لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردتے ہوئے مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ اس سے آزادی اظہار متاثر ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: پیکا ایکٹ کے خلاف ملک بھر میں یوم سیاہ منانے کا اعلان، صحافتی تنظیمیں احتجاجی جلوس بھی نکالیں گی

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی نے پیکا ترمیم سے متعلق بل منظور کیے۔ پیکا بل منظوری کے لیے اسمبلی نے اپنے رولز معطل کر کے اسے فاسٹ ٹریک کیا۔

درخواست گزار کے مطابق پیکا ترمیمی ایکٹ کے تحت فیک انفارمیشن پر 3 برس قید اور جرمانے کی سزا ہوگی۔ ماضی میں پیکا کو خاموش ہتھیار کے طور استعمال کیا جاتا رہا۔

عدالت میں دائر درخواست میں مزید کہا گیا کہ پیکا ترمیمی ایکٹ میں نئی سزاؤں کے اضافے سے ملک میں رہ جانے والی تھوڑی سی آزادی بھی ختم ہو جائے گی۔

درخواست میں یہ بھی مؤقف اختیار کیا گیا کہ پیکا بل متعلقہ اسٹیک ہولڈرز اور صحافتی تنظیموں کی مشاورت کے بغیر لایا گیا۔ پیکا ترمیمی بل کی منظوری سے آئین میں دی گئی آزادیٔ اظہار شدید متاثر ہوگی۔ ایکٹ غیر آئینی اور آئین میں دی گئی آزادیٔ اظہار کے تحفظ سے متصادم ہے۔

صحافی جعفر نے اپنی درخواست میں عدالت سے استدعا کی کہ پیکا ترمیمی ایکٹ کو غیر آئینی قرار دے کر کالعدم قرار دیا جائے اور عدالت پیکا ترمیمی ایکٹ کے تحت ہونے والی کارروائیوں کو درخواست کے حتمی فیصلے سے مشروط کرے۔

جمعے کو ہونے والی سماعت کے دوران جسٹس فاروق حیدر  کے ریمارکس دیے کہ پہلے فریقین کا مؤقف آجائے پھر فیصلہ کریں گے۔ جسٹس فاروق حیدر نے 3 ہفتوں میں تمام فریقین سے جواب طلب کر لیا۔

بھیک مانگنے سعودیہ جانے والا مقدمہ خارج کرنے کی درخواست مسترد

لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے بھیک مانگنے کے الزام میں سعودی عرب جانے والے کے اشخاص کے خلاف مقدمہ خارج کرنے کی درخواست کا تحریری فیصلہ جاری کردیا۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے صادق حسین سمیت دیگر کی درخواستوں پر پندرہ صفحات مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا۔ عدالت نے ملزمان کی مقدمہ خارج کرنے کی درخواست مسترد کردی۔

مزید پڑھیے: آئندہ کسی بھی سگنل پر خواجہ سرا اور بھکاری نہ ہوں، سندھ ہائیکورٹ کا حکم

فیصلے میں کہا گیا کہ ملزمان پر 20 جولائی 2024 کو  ایف آئی اے ملتان نے انسانی اسمگلنگ کا مقدمہ درج کیا تھا۔ مقدمے کے مطابق ملزمان ملتان ایئر پورٹ سے براستہ مسقط سعودی عرب سفر کر رہے تھے۔ امیگریشن کے دوران شک گزرنے پر ملزمان سے تفتیش کی گئی۔

تفتیش کے دوران معلوم ہوا کہ ملزمان صادق حسین 8 افراد سعودیہ عرب بھیک مانگنے کے لیے لے جا رہے ہیں۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ایف آئی اے نے ملزمان پر انسانی اسمگلنگ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے رپورٹ دی کہ سعودیہ عرب، عراق اور ملائشیا سمیت متعدد ممالک سے شکایت آئی ہیں کہ پاکستانی یہاں آکر بھیک مانگتے ہیں۔

فیصلے میں بتایا گیا کہ سنہ2023  میں وزارت اوورسیز اور ہیومن ریسورس نے سینیٹ میں رپورٹ دی کہ 90 فیصد پاکستانیوں کے ڈی پورٹ کی وجہ بھیک مانگنا ہے۔

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ بھیک مانگنا ایک معاشرتی مسئلہ ہے جس کی وجہ نامناسب مواقع اور عدم مساوات ہے۔

انفرادی طور پر حالات قابو سے باہر ہونے، بیروزگاری اور ذہنی یا جسمانی معذوری بھیک مانگنے کی ایک وجہ ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ متعدد ممالک میں بھیک سے متعلق فوجداری قوانین موجود ہیں ار بعض ممالک میں بھکاریوں کو ری ہیب کیا جاتا ہے اور انہیں تعلیم، نوکریاں دی جاتی ہیں۔

پاکستان میں سندھ ویگ رینسی ایکٹ 1947 بھیک سے متعلق پہلا قانون بنایا گیا تھا۔ بعض اوقات آرگنائزڈ گروپ، جسمانی اور ذہنی معذور افراد کو ٹارگٹ کرکے ان سے بھیک منگواتے ہیں۔

عدالتی فیصلے میں بھیک اور انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے حوالے سے اقوام متحدہ کے اجلاس کا حوالہ دیا گیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ موجودہ کیس میں ایف آئی اے نے پروٹیکشن آف ہیومن ٹریفکنگ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا اور حقائق کے مطابق یہ کیس انسانی اسمگلنگ کی بجائے ویزے کے غلط استعمال یا بھیک سے متعلق قوانین کے تحت مقدمہ درج ہونا چاہیے تھا۔

تلاشی کے دوران ملزمان سے 900 سے سگریٹ کے پیکٹ اور نیکوٹین بھی برآمد ہوئی۔ ایف آئی کے مطابق ایسی چیزیں آرگنائزڈ بھیک مانگنے والوں سے برآمد ہوتی ہیں۔ ملزمان سے جو تفتیش ہوئی اور برآمدگی کے بعد ہیومن ٹریفکنگ کی دفعات لگ سکتی ہیں۔

فیصلے میں کہا گیا کہ موجودہ حالات میں ایف آئی ار درست معلوم ہوتی ہے اور ٹرائل مکمل ہونے پر معلوم ہوگا کہ ملزمان پر ہیومن ٹریفکنگ کا مقدمہ درج ہونا چاہیے تھا یا صرف بھیک مانگنے۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ عدالت مقدمہ خارج کرنے کی ملزمان کی درخواست مسترد کرتی ہے۔

سربراہ چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کے خلاف توہین عدالت کی درخواست

شہری نے اپنے وکیل رانا سکندر کے ذریعے لاہور ہائیکورٹ میں چالڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کر دی۔

مزید پڑھیں: پنجاب کے تمام دارالامان اور چائلڈ پروٹیکشن بیوروز سے مرد ملازمین کو ہٹانے کا حکم

درخواست میں کہا گیا کہ عدالت نے چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کو بھکاری بچوں کے لیے بہتری کے اقدامات کرنے کی ہدایت کی تھی لیکن عدالتی احکامات اور درخواست گزار کے بیورو سے رابطہ کرنے کے باوجود کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔

رانا سکندر ایڈووکیٹ عدالت کو بتایا کہ عدالت نے چالڈ پروٹیکشن اینڈ ویلیفر بیورو کی سربراہ کو 2 ہفتوں کی مہلت دی جو اب ختم ہوچکی ہے۔

وکیل نے کہا کہ عدالتی حکم پر عمل نہ کرنا توہین عدالت ہے اور قابل دست اندازی جرم بھی لہٰذا سربراہ چائلڈ پروٹیکشن اینڈ

پنجاب ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ختم ہوجانی چاہیے، لاہور ہائیکورٹ

لاہور ہائیکورٹ میں اسموگ کے تدراک کے لیے مقدمے کی سماعت ہوئی۔

مقدمے کی سماعت جسٹس شاہد کریم نے ہارون فاروق کی درخواست پر کی جس کے دوران زیر زمین پانی کی بچت کے لیے پنجاب بھر کی واسااتھارٹیز کی کارکردگی رپورٹ بھی پیش ہوئی۔

عدالت نے ای بسوں، موٹرسائیکوں اور رکشوں کو الیکٹرک ٹیکنالوجی پرمنتقلی کی رپورٹ طلب کرلی۔

پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی کارکردگی پر ایک بار پھر اظہار برہمی کرتے ہوئے عدالت نے ریمارکس دیے کہ اس ادارے کی ناقص کارکردگی کے باعث اسے ختم کردیا جانا چاہیے۔

سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی حکم پر خشک سالی کی رپورٹ وزیراعلیٰ کو بھجوائی گئی جس پر انہوں نے چیف سیکریٹری کو تمام متعلقہ محکموں کا اجلاس فوری بلانے کا حکم دیا ہے۔

وکیل نے بتایا کہ آئندہ سماعت پر اجلاس کی کارروائی کی رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے گی۔

جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ یہ انتہائی اہم مرحلہ ہے حکومت کو پانی محفوظ کرنے کے لیے اتھارٹی بنانی چاہیے اور یہاں ایسی اتھارٹی کی ضرورت ہے جو تمام محکموں کو مانیٹر کرے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ضلعی سطح پر یہ اتھارٹی ہے تو اس کو ایکشن لینا چاہیے اور ہر ضلعی اتھارٹی کے ایک جیسے رولز ہونے چاہییں۔

جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ واٹر میٹر ہر جگہ لازمی لگائیں چوں کہ لوگوں کو بل دینا پڑے گا اس لیے سارا اہتمام کریں۔

جج نے کہا کہ پی ایم ڈی سی والے کچھ نہیں کرتے صرف دفتروں میں بیٹھے ہیں۔

پی ڈی ایم ایم اے نے بتایا کہ آگاہی کے لیے اشتہار دے دیے ہیں اور ٹی وی پر چلوا دیا ہے جس پر جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ میں اس مہم کے سخت خلاف ہوں یہ پیسے کا ضیاع ہے۔

یہ بھی پڑھیے: اسموگ تدارک کیس، لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے میں اہم بات کیا ہے؟

جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ واٹر کمیشن کے ممبر کو بلا کر ایک میٹنگ کریں اور پانی کو محفوظ کرنے کے لیے اقدامات کی رپورٹ پیش کریں اور یہ سارے میٹنگ منٹس وزیراعلیٰ پنجاب کے سامنے رکھیں۔

ممبر واٹر کمیشن نے بتایا کہ مختلف سوسائٹی میں 47 انسٹال ہوئے ہیں اور 10 ابھی بن رہے ہیں۔

جسٹس شاہد کریم  نے کہا کہ اسکول بسوں کے متعلق رولز بنائے جائیں اور ہر مالی سال میں اسکول بسیں خریدیں۔

انہوں نے کہا کہ ٹو اور تھری وہیلرز کو الیکٹرک پر منتقل کرنے کی ضرورت ہے، رولز بنائیں کہ ٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنٹ ہر 3 ماہ بعد رپورٹ بنا کر پیش کرے۔

عدالت کو بتایا گیا کہ روڈا کو محکمہ جنگلات سے 6 ہزار ایکڑ زمین سنہ 2022 میں ٹرانسفر ہوئی۔

اس پر عدالت نے کہا کہ پنجاب حکومت نے روڈا کو اتنی بڑی زمین کیوں دے دی جب ان کے پاس کوئی سہولت ہی نہیں اس زمین کو واپس لے کر محکمہ جنگلات خود اس کو دیکھے۔

جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ بورڈ آف ریوینیو اور روڈا کو نوٹس کر کے آئندہ سماعت پر بلائیں۔

نجی کالجز کے خلاف مقدمہ

نجی میڈیکل کالجز کے 50 فیصد پاسنگ مارکس یقینی بنانے کے لیے لاہور ہائیکورٹ درخواست کی سماعت  ہوئی۔

عدالت نے درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے سے متعلق فیصلہ محفوظ کرلیا۔ جسٹس احمد ندیم ارشد نے مقدمے کی سماعت کی۔

درخواست گزار جوڈیشل ایکٹیوزم پینل کے سربراہ اظہر صدیق ایڈوکیٹ نے دلائل دیے اور مؤقف اپنایا کہ نجی میڈیکل کالجز کی انتظامیہ ملی بھگت سے طلبہ کی حاضری یقینی نہیں بناتی۔

یہ بھی پڑھیں: فیڈرل بورڈ انٹرمیڈیٹ امتحانات کے نتائج کا اعلان، لڑکیاں پھر سبقت لے گئیں

درخواست میں کہا گیا کہ نجی میڈیکل کالجز طلبہ کے 50 فیصد پاسنگ مارکس پر بھی عمل نہیں کر رہے۔ درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ نجی میڈیکل  کالجز کی غفلت سے طب کےشعبے میں غیر معیاری ڈاکٹرز پیدا ہونے کا اندیشہ ہے اورغیر معیاری ڈاکٹرز مریضوں کی صحت کے لیے سنگین خطرات کا باعث ہوں گے۔

عدالت سے استدعا کی گئی کہ طلبہ کی 85 فیصد حاضری اور نجی میڈیکل کالجز میں زیر تعلیم طلبہ کے 50 فیصد پاسنگ مارکس پر عمل درآمد کے احکامات صادر کیے جائیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسموگ پنجاب ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی پیکا ترمیمی ایکٹ 2025 چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو لاہور ہائیکورٹ نجی کالجز پاسنگ مارکس.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسموگ پنجاب ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی پیکا ترمیمی ایکٹ 2025 لاہور ہائیکورٹ نجی کالجز پاسنگ مارکس جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ مقدمہ خارج کرنے کی کی درخواست مسترد پیکا ترمیمی ایکٹ نجی میڈیکل کالجز انسانی اسمگلنگ لاہور ہائیکورٹ مقدمے کی سماعت درخواست گزار پاسنگ مارکس درخواست میں بھیک مانگنے عدالت نے بتایا کہ کہ عدالت کی رپورٹ کے دوران کے مطابق ایف آئی کے خلاف کہ پیکا کے تحت یہ بھی کے لیے ہے اور

پڑھیں:

بھگوڑا یوٹیوبر برطانوی عدالت کے کٹہرے میں

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جھوٹ اور فریب کاری سے ڈالر کمانے والے جعل ساز اب قانون کی گرفت میں آتے جا رہے ہیں۔ ایک مفرور کورٹ مارشل شدہ بھگوڑا فوجی افسر آج کل برطانوی عدالتوں کے چکر کاٹ رہا ہے۔ یہ موصوف گزشتہ تین برسوں سے تحریک انصاف کے سادہ لوح حامیوں کو انقلاب کا چورن چٹا رہے تھے۔ ان کی پہلی خوبی یہ ہے کہ موصوف پاکستان کے قوانین کے مطابق مفرور قرار دیے جا چکے ہیں ۔ ان کی دوسری خوبی یہ ہے کہ ریاست اور فوجی اداروں کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرنے کے جرم میں ان کا کورٹ مارشل ہو چکا ہے۔ ان کی تیسری خوبی یہ ہے کہ موصوف جعلسازی اور مالیاتی فراڈ کے مقدمات میں پاکستانی عدالتوں کو مطلوب ہیں ۔ ان کی چوتھی خوبی یہ ہے کہ ان کے ساتھ تحریک انصاف کے بعض بھگوڑے رہنما اور چند مٹھی بھر کورٹ مارشل شدہ فوجی گاہے بگاہے بیرون ملک اپنی پناہ گاہوں سے ریاستی اداروں کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کا بازار گرم رکھتے ہیں ۔کچھ عرصہ قبل آئی ایس آئی کے اہم عہدے دار بریگیڈئر راشد نے بھگوڑے یوٹیوبر عادل راجہ کے خلاف برطانوی عدالت میں ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا تھا ۔کچھ عرصہ قبل اس مقدمے میں شواہد کی بنیاد پر عادل راجہ پر مالی جرمانہ عائد کیا گیا تھا ۔دستیاب اطلاعات کے مطابق موصوف جرمانہ ادا کر نے میں تاخیری حربے استعمال کرتے رہے ۔تاہم سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اس مقدمے میں اپنے دفاع کے لیے روایتی مکاری کے ذریعے لگ بھگ ایک لاکھ پائونڈ جمع کر چکے ہیں۔ اس مقدمے کی حالیہ سماعت میں عدالت نے عادل راجہ پر مزید مالی جرمانہ عائد کر دیا ہے۔ میڈیا پہ دستیاب اطلاعات کے مطابق آئی ایس آئی کے سابق اہلکارگزشتہ ہفتے ہتکِ عزت کے مقدمے میں یوکے ہائی کورٹ میں ذاتی طور پر پیش ہوئے۔ یہ سماعت ماسٹر ڈیوسن کے روبرو مقرر تھی، جس کا مقصد مکمل ٹرائل سے قبل تین اہم درخواستوں پر فیصلہ کرنا تھا۔ مکمل ٹرائل رواں سال جولائی میں ہوگا۔عدالت نے ایک بار پھر حکم دیا کہ عادل راجہ مدعی کو قانونی اخراجات ادا کرے۔ اس سے قبل وہ 23,000 ادا کر چکے ہیں، اور اب عدالت نے مزید 6,100 ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔اس سلسلے میں پہلی درخواست عادل راجہ کی طرف سے تھی، جس میں انہوں نے خود اور اپنے گواہوں شاہین صہبائی، کرنل (ر) اکبر حسین، اور مرزا شہزاد اکبر کے لیے ریموٹ ٹرائل کی اجازت مانگی۔ مدعی راشد نذیر کو اصولی طور پر اس پر کوئی اعتراض نہ تھا، لیکن انہوں نے شواہد کی صداقت پر سوال اٹھایا۔جج نے حیرت کا اظہار کیا کہ شاہین صہبائی اور اکبر حسین کے لیے درخواست کیوں دی گئی، کیونکہ عدالت عام طور پر امریکہ سے آن لائن شہادت کی اجازت دے دیتی ہے۔شہزاد اکبر اور عادل راجہ کے لیے درخواست سننے سے جج نے انکار کیا اور کہا کہ یہ فیصلہ ٹرائل جج کرے گا جو جون کی پری ٹرائل سماعت میں ہوگا۔دوسری درخواست ایک گمنام گواہ کے لیے تھی، جس کے بارے میں عادل راجہ نے دعویٰ کیا کہ وہ فوج کا فرد تھا لیکن اس نے گواہی دینے سے انکار کر دیا۔عادل راجہ چاہتے تھے کہ اس درخواست کی لاگت راشد نذیر ادا کریں، لیکن راشد نذیر نے کہا کہ اگرچہ وہ اصولی طور پر اعتراض نہیں رکھتے، مگر چونکہ عادل راجہ نے یہ درخواست واپس لے لی ہے، اس لیے انہیں ہی لاگت ادا کرنی چاہیے۔جج نے فیصلہ دیا کہ اس درخواست کے اخراجات مقدمے کے اختتام پر طے ہوں گے۔ عادل راجہ نے پہلے دیے گئے 23,000 اخراجات وقت پر ادا نہیں کیے تھے ۔ مدعی چاہتا تھا کہ ان اخراجات کی وصولی کی درخواست پر آنے والے قانونی اخراجات بھی عادل راجہ ادا کریں۔عادل راجہ کے وکلا نے اس پر اعتراض کیا، مگر جج نے مدعی کے وکلا سے اتفاق کیا اور عادل راجہ کو 6,100 کی مزید ادائیگی کا حکم دیا جو 14دن میں کی جانی لازم ہے۔عادل راجہ نے ان کارروائیوں کے دوران ایک بیان میں کہا کہ وہ لندن میں مقیم ایک پاکستانی صحافی کو سمن جاری کرنے جا رہے ہیں تاہم ان کے وکیلوں نے اس معاملے پر کوئی واضح موقف اختیار کرنے کے بجائے ہچکچاہٹ کا اظہار کیا۔ مقدمے میں صاف دکھائی دے رہا ہے کہ بھگوڑا یوٹیوبر قانونی مو شگافیوں کی تلاش میں ہے ۔تاہم قانونی کارروائی کے شکنجے میں آنے کے بعد یوٹیوب پر جعلی پروپیگنڈے کے سحر میں مبتلا ہونے والے سادہ لوح فالوورز کی آنکھیں کھل گئی ہیں۔
یہ بات قابل غور ہے کہ بھگوڑے کورٹ مارشل شدہ یوٹیوبر کے علاوہ بیرون ملک مقیم بعض مفرور صحافی سنسنی خیز جعلی خبروں اور جھوٹے الزامات کے ذریعے ایک جانب تحریک انصاف کے حامیوں کو غلط راہ پر لگاتے رہے ہیں تو دوسری طرف ملک میں عدم استحکام کے بیج بوتے رہے ہیں۔ اس منفی طرز عمل کے برے اثرات کا کچھ اندازہ اب تحریک انصاف کی قیادت کو بھی ہوتا جا رہا ہے دو ہفتے قبل پشاور میں شعلہ بیانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے واضح الفاظ میں یہ ذکر کیا کہ بیرون ملک مقیم بہت سے یوٹیوبرز اور وی لاگرز جھوٹی خبروں کی شرلیاں چھوڑتے رہتے ہیں ۔یہ پہلو نہایت توجہ طلب ہے کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے ان تمام یوٹیوبرز اور وی لاگرز کی نہ صرف مذمت کی بلکہ ان سے باقاعدہ تعلق کا انکار بھی کیا ۔جو کچھ بھگوڑے یوٹیوبر عادل راجہ کے ساتھ اس وقت برطانوی عدالت میں ہو رہا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ جعلسازی، جھوٹے پروپیگنڈے اور زہریلے الزامات عائد کرنے کا مذموم دھندہ زیادہ دن نہیں چل سکے گا۔

متعلقہ مضامین

  • پولش خاتون کی بیٹی حوالگی کی درخواست؛ والد کو بیٹی کی ہر ہفتے والدہ سے بات کرانے کا حکم
  • پیکا ایکٹ میں ترمیم کے خلاف ایک اور آئینی درخواست دائر
  • عدالتی حکم کے بعد وفاقی حکومت نے درخواست گزاروں کے نام ای سی ایل سے نکال دئیے
  • ہارورڈ یونیورسٹی نے ٹرمپ انتظامیہ کے فنڈنگ روکنے کے خلاف وفاقی عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا
  • جعلی و غیر ضروری کیسز کا خاتمہ؛ مقدمے کیلیے درخواست گزار کا عدالت آنا لازمی قرار
  • ہارورڈ یونیورسٹی نے ٹرمپ انتظامیہ کے فنڈز روکنے کے اقدام کو عدالت میں چیلنج کر دیا
  • پی ایف یو جے دستور گروپ کی پیکا ایکٹ میں ترمیم کیخلاف درخواست پر نوٹس جاری
  • صنم جاوید کی بریت کیخلاف درخواست پر سماعت ملتوی
  • رنویر الہ آبادیا کیس کی تحقیقات مکمل، پاسپورٹ واپسی کی درخواست سماعت کیلیے مقرر
  • بھگوڑا یوٹیوبر برطانوی عدالت کے کٹہرے میں