ہماری تہذیبی جنگ کے بڑے میدان
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
یہ محفل علماء کرام کی ہے اور موجودہ حالات میں ان کی ذمہ داریوں پر گفتگو اس کنونشن کا خصوصی موضوع ہے۔ جہاں تک علماء کرام کے حوالہ سے موجودہ صورتحال کا تعلق ہے، مجھے ’’چومکھی لڑائی‘‘ کا محاورہ یاد آرہا ہے جس میں انسان کو آگے، پیچھے، دائیں، بائیں، چاروں طرف سے دشمنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور سب سے بیک وقت لڑنا پڑتا ہے۔ لیکن اس وقت دنیا میں اہلِ دین کو اور اسلام کی نمائندگی کرنے والوں کو جن محاذوں کا سامنا ہے اور جن جن مورچوں پر لڑنا پڑ رہا ہے، اسے دیکھ کر اس محاورے کا دامن تنگ نظر آتا ہے اور یوں لگتا ہے کہ شاید اسے ڈبل کر کے بھی درپیش منظر کی پوری طرح عکاسی نہ کی جا سکے۔ مگر میں ان میں سے چند اہم محاذوں اور مورچوں کا تذکرہ کرنا چاہوں گا جن پر اس وقت دنیائے اسلام کے اہل دین کو محاذ آرائی درپیش ہے۔
(۱) پہلا مورچہ تو عالمی سطح کا ہے کہ عالمی قوتوں نے یہ بات طے کر رکھی ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں اہل دین کو اقتدار اور قوت میں آنے سے ہر قیمت پر روکنا ہے، اور یہ باقاعدہ ایک طے شدہ منصوبے کا حصہ ہے۔ آپ حضرات کے علم میں ہوگا کہ پہلی جنگ عظیم میں ترکی کی خلافت عثمانیہ بھی جرمنی کے ساتھ تھی اور جرمنی کی شکست کی وجہ سے وہ بھی شکست سے دوچار ہو گئی تھی۔ خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے کے لیے ایک طرف ترکوں کو ’’ترک نیشنل ازم‘‘ کے نام پر عربوں کے خلاف ابھارا گیا تھا، اور دوسری طرف عربوں کو ان کی برتری کا احساس دلا کر ’’عرب قومیت‘‘ کا پرچم ان کے ہاتھ میں تھما دیا گیا تھا۔
مکہ مکرمہ میں خلافت عثمانیہ کے گورنر شریف حسین کو عرب خلافت کا لالچ دے کر ترکی کے خلاف بغاوت پر آمادہ کیا گیا تھا جس کی بغاوت کے بعد عرب علاقے ترکی کی دسترس سے نکل گئے تھے۔ فلسطین پر برطانیہ نے قبضہ کر لیا تھا۔ عراق اور اردن پر شریف مکہ کے ایک ایک بیٹے کو بادشاہ بنا کر حجاز پر آل سعود کا قبضہ کرا دیا گیا تھا۔
اس دوران جنگ عظیم میں شکست کے بعد جب قسطنطنیہ یعنی استنبول پر برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کی فوجوں نے قبضہ کر لیا تو ترکوں کو ترکی کی حکومت کے حوالے کرنے کے لیے اتحادیوں کی بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ترکی کے قوم پرست لیڈروں کو اس شرط پر ترکی کا حکمران تسلیم کیا گیا کہ وہ ترکی کی حدود تک محدود رہیں گے، خلافت کو ختم کر دیں گے، ملک میں نافذ اسلامی قوانین منسوخ کر دیں گے، اور اس بات کی ضمانت دیں گے کہ آئندہ کبھی اسلامی قوانین نافذ نہیں کیے جائیں گے اور نہ ہی خلافت بحال کی جائے گی۔
مصطفیٰ کمال اتاترک اور دیگر ترک قوم پرست لیڈروں نے ان شرائط کو قبول کر کے ترکی کا اقتدار سنبھالا اور ان شرائط پر عمل بھی کیا۔ آج بھی یہی صورتحال درپیش ہے اور مغربی ممالک اپنی ان شرائط پر مضبوطی سے قائم ہیں۔ ہمارے پڑوس افغانستان میں طالبان کی حکومت کا تیاپانچہ اسی جرم میں کیا گیا کہ انہوں نے اسلامی قوانین نافذ کر دیے تھے اور خلافت کے قیام کی طرف پیشرفت کر رہے تھے۔
اس لیے ہمارا سب سے بڑا محاذ یہ عالمی گٹھ جوڑ ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں اسلامی نظریاتی ریاست کے قیام میں اصل رکاوٹ ہے۔ اس محاذ سے عالم اسلام کی رائے عامہ کو آگاہ کرتے ہوئے عام مسلمانوں کو بیدار کرنا اور اس گٹھ جوڑ کے خلاف منظم کرنا علماء کرام کی ذمہ داری ہے۔ یہ کام انہوں نے ہی کرنا ہے۔ اور کوئی یہ کام نہیں کرے گا اور نہ ہی اس سلسلے میں کسی سے کوئی توقع رکھنی چاہیے۔
(۲) ہمارا دوسرا محاذ داخلی ہے اور ہمارے حکمران طبقے اور مغرب کی تہذیب و ترقی سے مرعوب حلقے ہم سے یہ تقاضا کر رہے ہیں کہ اسلام کی کوئی ایسی نئی تعبیر و تشریح کی جائے جس میں اسلام کا پرچم بھی ہاتھ میں رہے، مغرب بھی ہم سے ناراض نہ ہو، اور ہماری عیاشی، مفادات اور موجودہ زندگی کے طور طریقوں پر بھی کوئی اثر نہ پڑے۔
سود کی حرمت کی بات ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس کے بغیر ہماری تجارت نہیں چل سکتی، شراب کی بات کریں تو کہا جاتا ہے کہ یہ دقیانوسی باتیں ہیں، ناچ گانے اور عریانی و فحاشی کی مخالفت کریں تو کلچر اور تہذیب کا سوال سامنے آ جاتا ہے، اور نماز روزے کی پابندی کی طرف توجہ دلائیں تو زندگی کی مصروفیات کا بہانہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ اب ایسا اسلام جس میں نماز کی پابندی ضروری نہ ہو، سود کو نہ چھیڑا جائے، شراب پر کوئی پابندی نہ ہو، اور ناچ گانے کے فروغ میں بھی کوئی رکاوٹ نہ ہو، ہماری سابق تاریخ میں تو اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ لیکن اب اسے ’’روشن خیال اسلام‘‘ کے عنوان سے پیش کیا جا رہا ہے اور مطالبہ یہ کیا جاتا ہے کہ اسلام کی سابقہ تعبیرات کو ترک کر کے اس ’’روشن خیالی اور ترقی پسندی‘‘ کو اپنا لیا جائے۔
میں اس کے جواب میں عرض کیا کرتا ہوں کہ اس قسم کے اسلام کا مطالبہ طائف والوں نے کیا تھا جس کا ذکر مولانا سید سلیمان ندویؒ نے ’’سیرت النبی‘‘ میں قبیلہ ثقیف کے قبولِ اسلام کے تذکرہ میں کیا ہے کہ بنو ثقیف کا وفد جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ منورہ آیا اور گزارش کی کہ ہم طائف والے اسلام قبول کرنا چاہتے ہیں لیکن ہماری چند شرائط ہیں:
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اسلام کی گیا تھا ترکی کی جاتا ہے ہے اور اور اس
پڑھیں:
نکیال آزاد کشمیر۔۔۔ بچیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں
اسلام ٹائمز: شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ صاحب! ہم سمجھیں یا نہ سمجھیں، یہ بچی ہمیں یہ سمجھا گئی ہے کہ فرقہ پرست مُلاّں یہ شعور نہیں رکھتے کہ بچیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ بچیوں کے جنازوں پر فرقوں کی سیاست نہیں کی جاتی۔ بچیاں، محبت کا وہ معصوم روپ ہوتی ہیں، جو کسی ایک مسلک، قبیلے یا قوم کی ملکیت نہیں ہوتیں بلکہ وہ کائنات کے حُسن کی روشن تجلی ہیں۔ انکے قہقہے، انکی شرارتیں، انکے ننھے ہاتھوں کی معصوم دعائیں۔۔۔ بیٹیاں خدا کیجانب سے انسانوں کو دی گئی وہ رحمتیں ہیں، جنہیں کوئی دیوار، کوئی فرقہ، کوئی جغرافیہ محدود نہیں کرسکتا۔ جب ایک بچی فوت ہو جاتی ہے، تو گویا بہاروں کا رنگ پھیکا پڑ جاتا ہے اور جب ایک معصوم بچی کے جنازے پر کوئی مولوی فساد کھڑا کرے تو یہ صرف ایک بدنصیب خاندان کا سانحہ نہیں ہوتا بلکہ ایسا فساد پورے معاشرے کے ماتھے پر شرمندگی کی ایک نمایاں انمٹ سلوٹ بن جاتا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی
دریڑی پلانی، نکیال گاؤں میں ایک افسوس ناک واقعہ پیش آیا۔ سوشل میڈیا کے مطابق ایک حادثے یا ٹارگٹ کلنگ کے نتیجے میں شدید زخمی ہونے والے مولانا چوہدری ساجد رحمانی کا کہنا ہے کہ پہلی ٹکر میں ہم لوگ معمولی زخمی ہوئے، لیکن ڈرائیور نے دوبارہ گاڑی ریورس کرکے مجھے، میری بیوی اور بچی پر گاڑی چڑھا دی، جس سے ہم شدید زخمی ہوگئے۔ اس واقعے کے حوالے سے شیعہ علماء کونسل آزاد کشمیر کے وفد نے ڈپٹی کمشنر کوٹلی، میجر (ر) ناصر رفیق اور ایس ایس پی کوٹلی، عدیل لنگڑالوی سے اہم ملاقات کی ہے۔ شنید ہے کہ جس گاڑی نے موٹر سائیکل پر سوار مولانا کو ٹکر ماری، وہ نکیال کے ہی کسی شخص کی ملکیت ہے۔ دمِ تحریر مولانا چوہدری ساجد رحمانی کی بیوی اور بچی اس دارِ فانی سے کوچ کرچکی ہیں۔
یہ واقعہ فرقہ وارانہ منصوبہ بندی کا شاخسانہ ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ ریاستی اداروں کو کرنا چاہیئے۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ آزاد کشمیر میں مقامی سطح پر نہ فرقہ واریت کے نیٹ ورکس موجود ہیں اور نہ ہی مذہبی ٹارگٹ کلنگ کے۔ جب بھی ایسا کوئی واقعہ رونماء ہوتا ہے تو اُس کے تانے بانے آزاد کشمیر سے باہر کے دینی مدارس یا عسکری تنظیموں سے جا ملتے ہیں۔ اس سے قبل عباس پور اور مظفرآباد میں بھی ایسا بہت کچھ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہاں پر یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان اور آزاد کشمیر کا مشترکہ اور ازلی دشمن ہندوستان ہے۔ ماضی میں انڈین ایجنسی را کی گود میں بیٹھنے والے ہمارے نام نہاد مجاہد بھائیوں نے جس بے دردی سے مساجد، امام بارگاہوں، اولیائے کرام کے مزارات، پبلک مقامات، صحافیوں، شاعروں، ڈاکٹروں اور پولیس و فوج کے اہلکاروں کو اپنی بربریت کا نشانہ بنایا ہے، اُسے کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اس بربریت کا براہِ راست فائدہ ہندوستان کو پہنچا اور بارڈر کے دونوں طرف کے کشمیری یہ نعرہ لگانا ہی بھول گئے کہ "کشمیر بنے گا پاکستان۔"
لوگوں کو یہ خوف لاحق ہوگیا کہ یہ نام نہاد "مجاہدین" اپنے جرگے بٹھا کر اور خود ساختہ عدالتیں لگا کر ہمیں درختوں سے لٹکا کر گولیاں ماریں گے اور ہماری خواتین و بیٹیوں کو کنیز بنا لیں گے۔ سانحہ اے پی ایس، سانحہ کوہستان، سانحہ بابوسر۔۔۔ یہ سب سانحات گواہ ہیں کہ ایسے عناصر انسانیت سے عاری ہوتے ہیں اور ان کے لیے نہ کوئی فرقہ اہم ہوتا ہے، نہ قوم، نہ عمر، نہ جنس، نہ بچہ اور نہ بچی۔۔۔۔ آزاد کشمیر جو اولیائے کرام کی سرزمین ہے، وہاں مولانا چوہدری ساجد رحمانی کی معصوم بچی کے جنازے کے موقع پر دھنگا فساد کرانے کی کوشش کوئی معمولی بات نہیں۔ نکیال سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ شاہ نواز علی شیر، جو کہ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نکیال کے ممبر اور بار ایسوسی ایشن کے سابق سیکرٹری جنرل بھی ہیں، انہوں نے اپنے کالم میں بالکل درست کہا ہے کہ "حکامِ بالا! اگر آج آپ خاموش رہے، تو کل یہ آگ کسی تھانے، مدرسے، مسجد، اسکول یا بازار تک پہنچ جائے گی۔ یہ محض ایک جنازے پر جھگڑا نہیں تھا؛ یہ معاشرے کے ضمیر کی موت، قانون کی بے بسی اور انسانیت کے چہرے پر ایک سیاہ داغ تھا۔
محترم کالم نگار کے مطابق، مولانا چوہدری ساجد رحمانی کا مسلک شیعہ ہے۔ موقع پر موجود ویڈیوز اور عینی شاہدین کے مطابق، اہلِ تشیع نے ہمیشہ کی طرح واضح کیا کہ جنازے دو ہی ہوں گے؛ ایک اہلِ سنت کے مطابق اور دوسرا اہلِ تشیع کے مطابق۔ اس وضاحت کے باوجود ایک مولوی صاحب نے اہلِ سنت کے عمومی اخلاق کے برعکس، یہ اعلان کیا کہ "نہیں، جنازہ تو صرف ایک ہی ہوگا اور وہ بھی صرف اہلِ سنت طریقے کے مطابق۔ ہم دوسرا جنازہ نہیں پڑھنے دیں گے۔" انسان کے اندر سب سے قیمتی چیز اس کا اخلاق ہے اور یہی اخلاق اس کی شناخت اور مقام کی گواہی دیتا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ یہ رویہ اہلِ سنت کا اخلاق نہیں ہوسکتا، کیونکہ آزاد کشمیر میں اہلِ سنت کے اندر مدبر، تعلیم یافتہ اور روشن فکر شخصیات کی کمی نہیں۔
اس موقع پر بچی کے ورثاء نے کہا کہ اگر ایک ہی جنازہ ہونا ہے، تو پھر ہمیں اپنا شیعہ جنازہ پڑھانے دیں اور اہلِ سنت حضرات ہماری چوتھی رکعت کے اختتام پر اپنی نماز مکمل کرلیں۔ اس پر وہی مولوی صاحب چِلانے لگے کہ صرف اہلِ سنت کی چار تکبیریں "اصلی" ہیں، اس لیے صرف وہی جنازہ پڑھائیں گے۔ ہم اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے، لیکن اتنا ضرور کہیں گے کہ یہ اخلاق اہلِ سنت کا نہیں۔ لہٰذا اس مولوی صاحب کے بارے میں تحقیق ہونی چاہیئے کہ کہیں وہ اس حسّاس سرحدی علاقے میں بھارتی انٹیلیجنس "را" کے لیے تو کام نہیں کر رہے؟ ان دنوں بلوچستان اور افغان بارڈر سمیت پورے پاکستان میں را کی سرگرمیوں اور ایجنٹوں کی موجودگی میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ ایسے میں نکیال جیسے حساس سرحدی علاقے میں ایسی حرکت کسی دشمن ملک کے ایجنڈے کا حصہ بھی ہوسکتی ہے۔
بہرحال عوامِ علاقہ کو یہ بات سمجھنی چاہیئے کہ جب ہم انسانی احترام اور حب ُّ الوطنی کو فراموش کر دیتے ہیں، تو پھر ہم جنگ انسانیت اور اپنے ہی وطن کے خلاف لڑ رہے ہوتے ہیں، نہ کہ کسی مذہب یا فرقے کے خلاف۔ نکیال کے ایڈوکیٹ نے بجا طور پر مطالبہ کیا ہے کہ فرقہ واریت کو ہوا دینے والے عناصر کے خلاف فوری، غیرجانبدار اور مؤثر قانونی کارروائی کی جائے۔ جنازوں اور لاشوں کی بے حرمتی کو سختی سے روکا جائے۔ تحصیل و ضلع کی سطح پر بین المسالک ہم آہنگی کے لیے نمائندہ کمیٹی تشکیل دی جائے۔ ایسے واقعات سے بچنے کے لیے SOPs مرتب کیے جائیں۔ انہوں نے یہ بھی تجویز دی کہ تمام مکاتبِ فکر کے علماء کو تحصیل و ضلعی سطح پر جمع کرکے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جائے، جس میں واضح کیا جائے کہ معصوموں کے جنازے، دعائیں اور تدفین کسی مسلک سے بالاتر ہیں۔
شاہ نواز علی شیر کا یہ جملہ ہر باشعور انسان کے دل کو چھو لیتا ہے کہ ہمیں اپنے بچوں کے لیے ایک ایسا ماحول چھوڑنا ہے، جہاں جنازے رشتوں کو توڑیں نہیں، جوڑیں۔ جہاں مذہب دلوں کو نرم کرے، سخت نہ کرے۔ جہاں تکبیر کی تعداد نہیں، دعا کی تاثیر دیکھی جائے۔ وہ اپنے سماج سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم سب کو یہ یاد دلانا ہوگا کہ اسلام اخلاص کا نام ہے، نمازِ جنازہ ایصالِ ثواب اور دعا کا عمل ہے، نہ کہ فرقوں کی برتری کا میدان۔ شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ کے اس جملے کے بعد میرے لکھنے کو کچھ نہیں بچتا کہ ان فتنہ گروں کے بیچ وہ معصوم بچی صرف ایک کفن چاہتی تھی، ایک دعا اور ایک پُرامن رخصتی۔ شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ صاحب! ہم سمجھیں یا نہ سمجھیں، یہ بچی ہمیں یہ سمجھا گئی ہے کہ فرقہ پرست مُلاّں یہ شعور نہیں رکھتے کہ بچیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔
بچیوں کے جنازوں پر فرقوں کی سیاست نہیں کی جاتی۔ بچیاں، محبت کا وہ معصوم روپ ہوتی ہیں، جو کسی ایک مسلک، قبیلے یا قوم کی ملکیت نہیں ہوتیں بلکہ وہ کائنات کے حُسن کی روشن تجلی ہیں۔ ان کے قہقہے، ان کی شرارتیں، ان کے ننھے ہاتھوں کی معصوم دعائیں۔۔۔بیٹیاں خدا کی جانب سے انسانوں کو دی گئی وہ رحمتیں ہیں، جنہیں کوئی دیوار، کوئی فرقہ، کوئی جغرافیہ محدود نہیں کرسکتا۔ جب ایک بچی فوت ہو جاتی ہے، تو گویا بہاروں کا رنگ پھیکا پڑ جاتا ہے اور جب ایک معصوم بچی کے جنازے پر کوئی مولوی فساد کھڑا کرے تو یہ صرف ایک بدنصیب خاندان کا سانحہ نہیں ہوتا بلکہ ایسا فساد پورے معاشرے کے ماتھے پر شرمندگی کی ایک نمایاں انمٹ سلوٹ بن جاتا ہے۔