Daily Ausaf:
2025-04-22@06:27:24 GMT

علماء اسلام آبادکی بیداری علماء کراچی کہاں ہیں ؟

اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT

ناموس رسالت پہ حملوں کے بدترین جرم میں گرفتارپانچ سو کے لگ بھگ شیطانوں کے سہولت کاروں کو خبر ہو کہ علماء اسلام آباد جاگ چکے ہیں،یہ خاکسار اس سے قبل بھی اپنے کالموں میں لکھ چکا ہے کہ تحفظ ناموس رسالت کے مقدمات کو لاوارث سمجھنے والے احمقوں کی جنت میں بستے ہیں ، امریکہ میں پناہ گزین ایک بھگوڑا صحافی اور اس کے چیلے چانٹے بعض ادروں میں گھسی ہوئی قادیانی بد روحوں کے ذریعے معزز عدالتوں اور 24 کروڑ مسلمانوں کو زیادہ دیر تک دھوکا نہیں دے سکتے، ’’سسٹم‘‘ یعنی نظام سے وابستہ قوتیں یاد رکھیں،جو جج جرنلسٹ ، جرنیل،سیاست دان،وکیل،تاجر،یا حکمران مقدس ترین شخصیات بالخصوص حضور ﷺ کی توہین کے مرتکب دجال صفت شیطانوں کو ریلیف فراہم کرنے یا ان کا سہولت کار بننے کی کوشش کرے گا تو پاکستانی قوم اسے اس کی اجازت نہیں دے گی،جج وہی عزت کا مستحق بنے گا جو ثبوتوں کی بنیاد پر گستاخوں کو قانون کے مطابق سزا دے گا،عدلیہ کے لئے اس سے بڑھ کر المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ سندھ ہائیکورٹ کے ایک جج نے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے ہاتھوں ثبوتوں کے ساتھ گرفتار ایک درجن سے زائد گستاخان رسول کی ’’میری عدالت میری مرضی‘‘کے نظریہ ضرورت کے عین مطابق ضمانتیں دے دیں، گستاخوں کے خلاف قانون کا شکنجہ کسنے کی بجائے اگر انہیں ضمانتیں ملنا شروع ہو جائیں گی تو اس کا نتیجہ لاقانونیت کی شکل میں نکلے گا۔
یہ امر خوش آئند ہے کہ اسلام آباد ،راولپنڈی، پشاور،گو جرانوالہ، لاہور وغیرہ کی عدالتیں سوشل میڈیا پر مقدس ترین شخصیات بالخصوص حضور ﷺ کی گستاخیاں کرنے والے ملعونوں کے خلاف قانون اور آئین کے مطابق فیصلے کر رہی ہیں،لیکن صوبہ سندھ میں اگر گستاخوں کی سہولت کاری کر کے کوئی ’’راجہ داھر‘‘کی داھریت کو زند ہ رکھنا چاہتا ہے تو اس کی مرضی ؟مجھے یقین ہے کہ اسلام آباد کے علماء کی طرح کراچی کے علماء بھی غیر قانونی اور غیر آئینی راجہ داھریت کا راستہ روکنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں گے،ان شااللہ ، 28جنوری 2025ء کوجامعہ محمدیہ اسلام آباد میں تمام مکاتب فکر کے علما ء کے نمائندہ پلیٹ فارم ’’بین المسالک علماء فورم‘‘کا اجلاس ہوا، اجلاس اور پریس کانفرنس میں مفتی ضمیر احمد ساجد، مولانا محمدنذیر فاروقی ، مولانا حافظ مقصود احمدسلفی ،مولانا ظہور احمد علوی ، سمیت مختلف مسالک کے متعدد علماء کرام شریک ہوئے ،علما ء کرام نے الومنیٹی ملحدین کی جانب سے سوشل میڈیا پر منظم گستاخانہ مواد کی تشہیر کا سلسلہ اور اس کی بالواسطہ بلا واسطہ تائید و حمایت کے اس گھنائونے کھیل کا شرعی اور قانونی پہلوئوں سے تفصیلی جائزہ لیا اور بھرپور غور و خوض کے بعد مشترکہ اعلامیہ، پریس ریلیز جاری کی جس کیاہم نکات درج ذیل ہیں۔
ہم سوشل میڈیا پر ایک عرصہ سے جاری مقدسات اسلام کی منظم توہین کی شدید مذمت کرتے ہیں،حکومت اور ریاستی اداروں سے بھرپور مطالبہ کرتے ہیں کہ اس گستاخانہ مہم جوئی کو فوری کنٹرول کرنے کے لئے بھرپور اقدامات اٹھائے جائیں۔یہ بین المسالک علماء فورم حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ فی الفور مدارس رجسٹریشن 1860کے سوسائٹی ایکٹ کے تحت شروع کی جائے اور مدارس کے بنک اکائونٹس بحال کئے جائیں تا کہ مسلمانان پاکستان میں پائی جانے والی بے چینی اور اضطراب ختم ہو سکے۔آج کا یہ اہم اجلاس ان ریاستی اداروں کی تحسین کرتا ہے جو اپنی آئینی قانونی اور شرعی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں اور ایسے ریاستی اداروں، شخصیات کی پشت پناہی اور غیر مشروط حمایت کا متفقہ طور پر اعلان کرتے ہیں۔اجلاس میں ان تمام ریاستی اداروں، ذمہ داران، حکومتی شخصیات، ممبران پارلیمنٹ، تاجر اور وکلا ء کو بھی خراج تحسین پیش کیا گیا جو اس طوفان بدتمیزی کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں اور قانونی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔تمام مکاتب فکر کے علماء ملکی عدالتوں، خفیہ ایجنسیوں اور دیگر ریاستی اداروں سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ قانون کی بالادستی شرعی اور اخلاقی ذمہ داریوں کی ادائیگی کی خاطر گستاخانہ مواد پھیلانے والے فکری دہشت گردوں کو قانونی گرفت میں لانے کے حوالے سے کوئی سستی یا لاپرواہی ہرگز نہ برتیں کیونکہ یہ امن عامہ اور قومی سلامتی کے لیے شدید خطرے کا باعث ہوگا۔
بین المسالک علماء فورم نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ کوئی ریاستی طاقت یا ادارہ ان شخصیات یا اداروں پر کسی قسم کا دبائو ڈالنے کی غلطی کر کے ان بدبخت فکری دہشت گردوں کی سہولت کاری کا ذریعہ ہرگز نہ بنیں اور ایسے تمام افسران جو غیر جانبدارانہ تحقیقات و کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ان کی حوصلہ افزائی اور انہیں قانونی تحفظ مہیاکیا جائے۔جب سے ریاستی قانون، ان اسلام مخالف نظریاتی دہشت گردوں اور ملکی امن کے ان غداروں کے خلاف حرکت میں آیا تو دنیا بھر سے اور مقامی سطح سے ان کے ہم خیال سہولت کاروں نے بھی منظم انداز میں معاملے کو عدالت کی بجائے عوامی فورمز پر لا کر فتنہ پھیلانا شروع کر دیا ہے۔ اگر ان سہولت کاروں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے باز نہ رکھا تو فرزندان توحید و رسالت بھی عدالتی کارروائی کے ساتھ ساتھ عوامی فورمز پر ان ایشوز کو زیر بحث لانے پر مجبور ہوں گے کیونکہ فریق مخالف کو ان کے فورم پر جواب دینا ہمارا آئینی اور قانونی حق ہے لہذا متعلقہ ادارے اس بات کو مدنظر رکھیں۔گستاخانہ موا د کی روک تھام کے لئے کسی بھی ادارے یا عدالت کا آئین اور قانون سے متصادم اقدام نہ پہلے کبھی برداشت کیا گیا نہ آئندہ برداشت کیا جائے گا۔توہین رسالت کے ان مقدمات کا تیز ترین ٹرائل مکمل کر کے مقدمات کا قانون کے مطابق فیصلہ کیا جائے اور ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دی جائے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ریاستی اداروں اسلام آباد اور قانون کرتے ہیں کے لئے

پڑھیں:

فلسطین امت کی وحدت کا نقطۂ آغاز بن سکتا ہے، علامہ جواد نقوی

سربراہ تحریک بیداری امت مصطفیٰ نے لاہور میں تقریب سے خطاب میں کہاکہ قومی بیداری کو وقتی جوش کے بجائے مستقل شعور میں بدلنا ہوگا، صیہونی سرمائے سے جڑی کمپنیوں کو اپنے مفادات غیر محفوظ محسوس ہونے چاہییں۔ اسلام ٹائمز۔ تحریک بیداری امت مصطفی کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی نے فلسطین و غزہ کی حمایت میں اٹھنے والی حالیہ عوامی تحریک کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ یہ لہر تاخیر سے اُٹھی، لیکن اب ملک کے سارے مختلف طبقات اس میں متحرک ہو چکے ہیں۔ انہوں نے 19 ماہ کی قومی خاموشی پر افسوس کا اظہار کیا، خاص طور پر اُس وقت جب غزہ میں شدید ظلم کے باوجود مزاحمت امید بن چکی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی عوام کے جذبات ایسے عوامل سے متاثر ہوتے ہیں جو بعض اوقات شدید ظلم پر بھی خاموشی اختیار کروا دیتے ہیں، اور کبھی اچانک انہیں جوش دلا دیتے ہیں۔ ان محرکات کی شناخت ضروری ہے تاکہ قومی بیداری کو وقتی نہ ہونے دیا جائے بلکہ اسے مستقل شعور میں ڈھالا جا سکے۔ انہوں نے زور دیا کہ اب جبکہ یہ تحریک ایک قومی شکل اختیار کر رہی ہے، ہر پاکستانی کو فرقہ واریت یا جماعتی وابستگی سے بالاتر ہو کر اس میں عملی شرکت کرنی چاہیے۔ فلسطین کی حمایت ایک ایسا مرکز ہے جو پاکستانی قوم کو ملتِ واحدہ بنا سکتا ہے۔

علامہ سید جواد نقوی نے کہا کہ اب احتجاج سے آگے بڑھتے ہوئے ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جن سے صیہونی مفادات کو واضح پیغام جائے کہ پاکستان میں ان کیلئے کوئی جگہ نہیں۔ جو کمپنیاں یا ادارے اسرائیلی یا صیہونی سرمائے سے جڑے ہیں، انہیں اپنے مفادات غیر محفوظ محسوس ہونے چاہییں۔ انہوں نے امریکا کو اسرائیل کا سب سے بڑا حمایتی اور فلسطینی مظلوموں پر ظلم کا شریکِ جرم قرار دیا، اور کہا کہ وہ ہمیشہ سے اس ظلم کی پشت پناہی کرتا آیا ہے اور اب بھی اس میں پیش پیش ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ بیداری وقتی نہ رہے بلکہ ایک طویل المدتی اور منظم قومی شعور میں تبدیل ہو، تاکہ پاکستان مظلومینِ عالم کا ایک مؤثر ترجمان بن سکے۔

متعلقہ مضامین

  • مغرب میں تعلیمی مراکز کے خلاف ریاستی دہشت گردی
  • پاراچنار، ضلع کرم میں پائیدار امن و امان کے موضوع پر سیمینار کا انعقاد
  • اسلام آباد ہائیکورٹ ججز ٹرانسفر کی سمری منظوری کی حیران کن سپیڈ، صرف ایک دن میں 8 سرکاری کام ہوئے
  • جمعیت علماء اسلام کا پی ٹی آئی سے اتحاد نہ کرنے کا فیصلہ
  • تحریک طالبان پاکستان کا بیانیہ اسلامی تعلیمات، قانون، اخلاقیات سے متصادم قرار
  • وادی کشمیر کے ضلع بارہمولہ میں "بین المسالک بیداری کانفرنس" کا اہتمام
  • پاکستان اور ایران کے تعلقات، چیلنجز اور تعاون کی راہ
  • باطنی بیداری کا سفر ‘شعور کی روشنی
  • فلسطین امت کی وحدت کا نقطۂ آغاز بن سکتا ہے، علامہ جواد نقوی
  •  دو ریاستی حل ہم کبھی بھی اسرائیل کو قبول ہی نہیں کرتے، فخر عباس نقوی