Daily Ausaf:
2025-04-23@00:28:01 GMT

پولیٹیکل ہرڈمینٹیلٹی

اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT

ہمارے ہاں رائج جمہوریت کا المیہ یہ ہے کہ یہ انفرادی سوچ اور فکر کے لئے زہر قاتل ہے۔ بے شک مغربی جمہوریت آج تک کا ایک کامیاب ترین نظام حکومت ہے مگر یہ اس لحاظ سے بدترین سیاسی نظام ہے کہ جب تعلیم اور تربیت اور سیاسی شعور سے عاری معاشرے ابتری کا شکار ہوتے ہیں تو سماجی افراد کی اپنی رائے ختم ہو جاتی ہے۔ بنیادی طور پر سیاست کا مطلب الیکشن سے پہلے اور الیکشن مہم کے دوران پروپیگنڈہ کے زور پر رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کبھی کبھار سیاسی لیڈران عوام کے اندر غیر محسوس انداز میں خوش فہمیوں پر مبنی ایسی یاسیت و قنوطیت یا ناامیدی بھر دیتے ہیں کہ عوام کو سوچنے کا موقع ہی نہیں ملتا کہ وہ کن امیدواران کے حق میں ووٹ دینے کا فیصلہ کریں، کیونکہ جمہوری رائے دہی میں ایک جھوٹا سیاست دان بھی خود کو سچا ثابت کرنے کے اتنے جتن کرتا ہے کہ ایک مرحلے پر سچ اور جھوٹ کی تمیز ختم ہو جاتی ہے۔ترکی میں چند سال پہلے ایک پہاڑی چوٹی سے درجنوں بھیڑوں کے نیچے گرنے کا واقعہ پیش آیا تھا جس میں ایک بھیڑ سلپ ہو کر اتفاقاً پہاڑی سے نیچے گرتی ہے تو دوسری بھیڑیں اسے دیکھ کر ایک ایک کر کے نیچے چھلانگ لگا کر ہلاک ہو جاتی ہیں۔
ہمارے ہاں ’’بھیڑ چال‘‘کا محاورہ مشہور ہے جس کا عمومی مطلب یہ ہے کہ جب ایک بھیڑ کسی طرف کا رخ کرے تو اس کی دیکھا دیکھی دوسری بھیڑیں بھی اس کے پیچھے چلنے لگتی ہیں۔ جمہوری سیاست میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ جس طرف ہوا چلے لوگ اسی سیاسی رہنما کے پیچھے چلنے لگتے ہیں، اسی کا انتخاب کرتے ہیں اور اسے ہی ووٹ دے کر منتخب کرتے ہیں، خواہ وہ کتنا ہی جھوٹا، دھوکے باز اور فریبی کیوں نہ ہو۔ حالانکہ بھیڑ چال کا اصطلاحی مفہوم ہی دھوکہ دہی کے بارے میں ہے جو دونوں لحاظ سے سیاسی جمہوریت کے حق میں نہیں ہے۔ ہماری جمہوریت کے دعوے دار لیڈران عموماً ناقابل عمل اور غیر حقیقی خوابوں ہی کو حقیقت محسوس کرواتے ہیں۔ اس لحاظ سے جمہوریت کی کامیابی کا انحصار یکسر طور پر عوام الناس میں رائے دہی کی یکسانیت پیدا کرتا ہے۔ ایسی ناقص اجتماعی فکر کے زیر اثر چونکہ لوگ سیاسی غوروفکر کا منبہ صرف اپنے ہی محبوب رہنما کو سمجھتے ہیں جس سے عوام کی اجتماعی سوچ کے سلب ہو جانے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے۔ سیاست میں بڑے بڑے سیاسی اجتماعات منعقد ہوتے ہیں جو ایک ہی ذہنی طرز عمل پر مبنی ہوتے ہیں۔ ہجوم ذہنیت یا ’’ہرڈ مینڈیلٹی‘‘ بیمار ذہنیت کا دوسرا نام ہے۔ ہمارے ہاں کی سیاست میں بھی ایسا ہی ماحول بن چکا ہے کہ لوگ عام انتخابات میں تعلیم اور معیار کے مقابلے میں اپنے تعلق، واسطے اور ہوا کے رخ پر ووٹ دیتے ہیں جس میں حقیقی جمہوریت کا کہیں نام و نشان نظر نہیں آتا ہے۔ جمہوریت کی اصل روح اظہار رائے کی آزادی ہے مگر ہمارے ملک میں گنگا الٹی بہتی ہے کہ سیاسی رہنمایان عوام میں ذہنی یکسانیت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو انہیں کوئی ووٹ نہیں دیتا ہے۔ سیاست میں ویژن اور علم ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ کھیل کے دوران آپ فورا مختلف ذہنی کیفیت میں چلے جاتے ہیں۔ جب جمہوریت میں ذہنی اختراع اور تنوع کو فروغ نہیں دیا جاتا، ووٹرز کو سوچنے کا موقعہ نہیں ملتا تو وہ مسلسل کند ذہن ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں جب سے جمہوریت رائج ہوئی ہے تب سے سیاستدانوں کی ایسی کھیپ پیدا ہوئی ہے کہ انہوں نے سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنے کا فرق ہی ختم کر دیا ہے۔ ہماری عوام بار بار انہی آزمائے ہوئے امیدواروں کو منتخب کرتی ہے جن کے ہاتھوں وہ پہلے ہی کئی بار رسوا ہو چکے ہوتے ہیں۔یعنی ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے رائج سیاسی نظام میں کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ، سچا اور ایماندار انسان سیاسی امیدوار بننے کا اول رسک ہی نہیں لیتا اور وہ ایسا کرے بھی تو وہ کامیاب نہیں ہوتا ہے، تب تک رسوائی اس کا مقدر بن چکی ہوتی ہے۔ ہماری سیاست میں جھوٹ، منافقت اور بے وفائی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ لوگ سچے انسان پر اعتبار نہیں کرتے۔ جھوٹے سیاست دانوں نے عوام کی ایسی نفسیات بنا دی یے کہ وہ اچھی خبروں میں منفی پہلو تلاش کر کے خود کو جھوٹی تسلی دیتے ہیں کہ ہمارے ملک میں سب اچھا چل رہا ہے۔ ہمارا حال اس بیمار جیسا ہے جو بیماری ہی کو شفا سمجھتا ہے اور اپنے درد کو کرید کر اس سے مزہ لیتا ہے۔
دنیا میں کئی ایسے نفسیاتی مریض ہیں جو خود کو ایذا دے کر اطمینان محسوس کرتے ہیں کہ ان کو تلخی بھی مستقل مزا دینے لگتی ہے۔ ہماری اس بیماری کو فروغ دینے میں ہمارے ان مکار سیاست دانوں کا بنیادی کردار ہے جو ملکی وسائل کو لوٹنے اور اپنے عہدوں کی خاطر عوام کو اندھیرے میں رکھتے ہیں۔ یہ ایک قنوطی سوچ ہے جو ایک بار پیدا ہو جائے تو انسان کو کسی دوسرے کی کوئی خوبی، اچھائی یا مثبت بات نظر نہیں آتی، اسے ہر چیز ٹیڑھی ہی نظر آتی ہے جس طرح کہ شفاف پانی میں کھڑی ایک سیدھی چھڑی بھی آدمی کو ٹیڑھی نظر آتی ہے۔پاکستان تمام اسلامی ممالک میں واحد اور مسلمہ ایٹمی قوت یے۔ یہاں وسائل اور ذہانت کی کمی نہیں ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کے اندر بھینگا پن اور مایوسی پیدا کر دی گئی ہے جس کی بنیادی وجہ سیاست دانوں کے زریعے پیدا کی گی یہی ’’پولیٹیکل ہرڈمینٹیلٹی‘‘ ہے۔ لوگوں کو آزادی سے سوچنے کا موقع دیں لوگ اسی ملک میں رہ کر کارنامے انجام دیں گے۔ دنیا بھر میں سائنسی ترقی ایک دوسرے کی مدد سے ہوتی ہے۔ سوچ میں جدت ہو۔ ہر انسان کو سوچنے کی آزادی ہو تو سوچوں میں اختراع پیدا ہو گا جس سے ایجادات ہونگی اور ترقی کرنے کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ایک زمانہ تھا جب مسلم تہذیب میں پیدا ہونے والی بو علی سینا اور ابن رشد جیسی علمی شخصیات کی پورا یورپ پیروی کرتا تھا، اس وقت ساری دنیا امریکہ کی پیروی کرتی ہے۔ جو قوم ذہانت کی بے قدری کرتی ہے وہ کبھی اعلی پائے کی قوم نہیں بن سکتی ہے۔ جب کوئی قوم ناامیدی کا شکار ہو جائے اور لوگوں کی اکثریت قنوطیوں پر مبنی ہو تو انہیں کچھ بھی ٹھیک نظر نہیں آتا یے، وہ ہر بات میں کیڑے نکالتے ہیں اور اپنے ہی ملک کی برائی کرتے ہیں، جیسے کہ اس ملک کی خرابیوں میں انکا کوئی حصہ ہی نہ ہو۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: سیاست میں ہوتے ہیں کرتے ہیں یہ ہے کہ پیدا ہو ملک میں

پڑھیں:

پاکستان میں سیاسی استحکام کو نقصان پہنچنے نہیں دیں گے، وزیر مملکت طلال چودھری

اسلام آباد: وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چودھری نے کہا ہے کہ ہم پاکستان میں سیاسی استحکام کو نقصان پہنچنے نہیں دیں گے۔
وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چودھری نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف پہلے ہی پیپلز پارٹی کو اعتماد میں لینا چاہتے تھے۔ لیکن بلاول بھٹو ملک سے باہر تھے۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی سے ہائی لیول پر رابطہ ہو گیا ہے۔ پہلے بھی معاملات کو حل کیا ہے اس میں کوئی ذاتی معاملہ یا ذاتی فائدے کی بات نہیں ہے۔ جس کا جو حق بنتا ہے وہ اس کو ملے گا۔
طلال چودھری نے کہا کہ پاکستان میں سیاسی استحکام کو ہم نقصان پہنچنے نہیں دیں گے۔ اور اسی سیاسی استحکام کی وجہ سے پاکستان کی معیشت مستحکم ہوئی ہے۔ سیاسی استحکام کی وجہ سے ہم دہشتگردی کے خلاف اکٹھے ہو کر لڑ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو کی تنقید کو ہم تعمیری طور پر لیتے ہیں۔ جبکہ نہروں کے معاملے کو حل کر لیا جائے گا۔
افغانستان سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے طلال چودھری نے کہا کہ افغان وفد پاکستان میں تھا۔ جو کچھ روز قبل ہی واپس گیا ہے۔ ہماری پالیسی صرف افغانستان کے لیے نہیں بلکہ ساری دنیا کے لیے ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغان شہریوں کو واپس بھیجا جا رہا ہے۔ اور افغان شہریوں کی واپسی کی ڈیڈ لائن میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ دہشتگردی کے خلاف سب کو متحد ہونا ہو گا۔

Post Views: 5

متعلقہ مضامین

  • جے یو آئی کسی سیاسی اتحاد کا حصہ نہیں بنے گی، حافظ حمداللّٰہ
  • بدقسمتی سے سیاستدان جمہوریت کا جنازہ نکال رہے ہیں، ایمل ولی خان
  • ریاست کا حصہ ہیں، عقل کے اندھے آئین پڑھیں: عمر ایوب 
  • علیمہ خان کو سیاست میں گھسیٹنا ناجائز ہے، عمر ایوب
  • کسانوں کے نام پر سیاست نہ کی جائے: عظمٰی بخاری
  • پانی کے مسئلے پر ہمیں سیاست نہیں کرنی چاہیے: احسن اقبال
  • پاکستان میں سیاسی استحکام کو نقصان پہنچنے نہیں دیں گے، طلال چودھری
  • پاکستان میں سیاسی استحکام کو نقصان پہنچنے نہیں دیں گے، وزیر مملکت طلال چودھری
  • کسی صوبے کا دوسرے صوبے کے پانی پر ڈاکا ڈالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا: احسن اقبال
  •  کینالز ، سیاست نہیں ہونی چاہئے، اتحادیوں سے ملکر مسائل حل کریں گے: عطاء تارڑ