18 ماہ میں میری کسی درخواست پر سماعت نہیں ہوئی، عمران خان کا سپریم کورٹ سے شکوہ
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے بانی اور سابق وزیراعظم عمران خان نے چیف جسٹس آف پاکستان اور آئینی بینچ کے سربراہ سے شکوہ کیا ہے کہ گزشتہ 18 ماہ کے دوران انسانی حقوق اور انتخابی قوانین کی خلاف ورزیوں سے متعلق ان کی اور ان کی جماعت کی جانب سے دائر متعدد درخواستوں میں سے کسی پر بھی سپریم کورٹ میں سماعت نہیں ہوئی۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی اور سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین کو لکھے گئے خط میں پی ٹی آئی کے بانی نے اپنی جماعت کو نشانہ بنانے کے لیے قوانین بنانے پر بھی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
اس خط کے ساتھ حکومت کی ہٹ دھرمی کا ’ثبوت‘ بھی شامل ہے، جس میں مبینہ ریاستی کارروائی کے دوران لاپتہ، زخمی یا جاں بحق ہونے والے پارٹی کارکنوں کی فہرست بھی شامل ہے۔
سیکڑوں صفحات پر مشتمل خط اور اس کے ضمیمہ میں تصاویر، میڈیکل رپورٹس، عدالتی احکامات اور درخواستیں، پریس کلپنگ اور دیگر متعلقہ دستاویزات شامل ہیں جو پی ٹی آئی رہنما کے خیال میں ان کے دعوؤں کی تصدیق کرتی ہیں۔
خط میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ سال 24 سے 27 نومبر کے درمیان پی ٹی آئی کے 10 ہزار حامیوں کو گرفتار کیا گیا۔
خط میں اسلام آباد کے ریڈ زون سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے آپریشن کے دوران مبینہ طور پر زخمی یا ہلاک ہونے والے پی ٹی آئی کے 42 کارکنوں کی فہرست بھی منسلک ہے، ساتھ ہی 75 افراد کی فہرست بھی منسلک ہے جو طویل عرصے تک ’لاپتہ‘ رہے۔
مزید برآں پی ٹی آئی کے بانی نے دعویٰ کیا کہ انہیں گزشتہ سال 3 اکتوبر سے 25 اکتوبر تک قید تنہائی میں رکھا گیا تھا اور انہیں ضروری مراعات سے محروم رکھا گیا تھا اور ان کے ساتھ ’توہین آمیز سلوک‘ کیا گیا تھا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ سیکیورٹی کے بہانے ان کے اہل خانہ اور قانونی ٹیم کے ساتھ ان کی ملاقاتوں پر پابندی ہے۔
اس کے بعد عمران خان نے طویل عرصے سے قید و بند کا سامنا کرنے والے اپنی پارٹی کے رہنماؤں کا نام لیا جن میں میاں محمود الرشید، سینیٹر اعجاز چوہدری، ڈاکٹر یاسمین راشد، عمر سرفراز چیمہ اور شاہ محمود قریشی شامل ہیں۔
انہوں نے سوشل اور مین اسٹریم میڈیا پر پی ٹی آئی کے حق میں مواد پر مبینہ سنسرشپ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے آئین کے آرٹیکل 19 میں درج بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا۔
پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین نے گزشتہ سال کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی طرف بھی اشارہ کیا اور کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم عدلیہ کو کمزور کرنے کے لیے لائی گئی تھی۔
انہوں نے 100 سے زائد عام شہریوں کے خلاف فوجی ٹرائل کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ سپریم کورٹ پہلے ہی اس طرح کے مقدمات کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔
خط میں چیف جسٹس سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے پاس موجود تمام اختیارات کا استعمال کریں تاکہ ریاست کی جانب سے جمہوریت کو دبانے کا خاتمہ کیا جا سکے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: پی ٹی آئی کے سپریم کورٹ انہوں نے کے بانی اور ان
پڑھیں:
ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: سپریم کورٹ
ویب ڈیسک : صنم جاوید کی 9 مئی مقدمے سے بریت کے خلاف کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔
سپریم کورٹ میں 9 مئی مقدمات میں صنم جاوید کی بریت کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت ہوئی، جس میں حکومتی وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صنم جاوید کے ریمانڈ کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی۔ ریمانڈ کیخلاف درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو مقدمے سے بری کردیا۔
صوبہ بھر میں انفورسمنٹ سٹیشن قائم کرنے کا فیصلہ، وزیراعلیٰ پنجاب کی زیر صدارت خصوصی اجلاس
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ان کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہوچکی ہیں کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے۔ اب آپ یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیا اور ملزمہ کو بری کیا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ میرا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں۔ اگر ہائیکورٹ کو کوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہورہی تو وہ اختیارات استعمال کرسکتی ہے۔ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔
واٹس ایپ کا ویڈیو کالز کیلئے فلٹرز، ایفیکٹس اور بیک گراؤنڈز تبدیل کرنے کا نیا فیچر
وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کرسکتی، جس پر جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دیے کہ کریمنل ریویژن میں ہائی کورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔
صنم جاوید کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے ہائیکورٹ میں ریمانڈ کے ساتھ بریت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ آہپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے؟ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے آپ کو بھی معلوم ہے۔ اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے۔
لاہور؛ بین الاصوبائی گینگ کا سرغنہ مارا گیا
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے غصے میں فیصلہ دیا۔ بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔
Ansa Awais Content Writer