دنیا کے مشہور و معروف جنگلوں میں چھوٹے سے چھوٹے جانور سے لے کر قوی الجثہ ہر قسم کے جانور پائے جاتے ہیں، کچھ زیادہ وقت پانی میں گزارنا پسند کرتے ہیں جیسے دریائی گھوڑا، کہنے کو تو اسے گھوڑا کہا جاتا ہے لیکن جسامت میں وہ ہاتھی سے کم نہیں ہوتا، ہاتھی اپنا زیادہ وقت خشکی پر گزارتا ہے لیکن اسے پانی سے خاص رغبت ہے، وہ حالت غصہ میں ہو یا رومانوی موڈ میں، خشکی اور پانی دونوں میں ایک جیسی پرفارمنس دے سکتا ہے۔ غصے کی حالت میں یا پاگل پن کی حدود میں داخل ہاتھی اپنی راہ میں آنے والی ہر چیز کو اپنی سونڈ میں لپیٹ کر زمین پر پٹخ دیتا ہے۔ بڑے سے بڑے درخت کو آن واحد میں جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے۔ ہاتھی کی عمر اسی سے سو برس کے درمیان ہوتی ہے، ضعیف یا بیمار ہاتھی دور سے چلتا ہوا آ رہا ہو تو عام آدمی کو اس کی اندرونی حالت کا اندازہ نہیں ہو سکتا لیکن اس کی نگرانی پر مامور مہاوت پہلی نظر میں جانچ لیتا ہے کہ اتنا بڑا جسم اور بے پناہ طاقت رکھنے والے جانور کے اندر کیا ٹوٹ پھوٹ ہو چکی ہے۔
بڑے اور طاقتور ملک ہاتھی جیسی طاقتور معیشت رکھتے ہیں لیکن وہ کس وقت کس حال میں ہے اس کا اندازہ اتنی آسانی سے نہیں لگایا جا سکتا۔ ایسی معیشتوں کو ڈوبتے ڈوبتے بھی کافی عرصہ لگ جاتا ہے۔ اس اثناء میں کئی ایسے موقعے بھی مل جاتے ہیں جن سے ڈوبتی ہوئی معیشت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ڈوبتے ہوئے شخص کو پانی دو سے تین مرتبہ اچھال کر پھینکتا ہے، حواس برقرار رکھنے والا ہاتھ پائوں مارنا نہ چھوڑ دے تو ڈوبنے سے بچ سکتا ہے۔ حواس باختہ ہو جائے تو ڈوب جاتا ہے۔
امریکی معیشت ایسے ہی حالات سے دوچار ہے۔ نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک سمجھدار مہاوت کی طرح اقتدار میں آنے سے قبل ہی اس کا احساس ہو چکا تھا۔ وہ صرف ایک سیاست دان ہی نہیں دنیا میں ایک کامیاب بزنس مین کی پہچان بھی رکھتے ہیں اور ایک بڑی بزنس امپائر کو کامیابی سے چلاتے رہے ہیں، اس سے بہتر اس وقت کوئی نہیں جانتا کہ امریکہ کو آج ایک ایک ڈالر کی کس قدر ضرورت ہے، غیر ضروری جنگوں کو روکنے کا نعرہ اسی لئے لگایا گیا اور اب جبکہ وہ امریکہ کو ایک مرتبہ پھر عظیم ریاست بنانے کا نعرہ لگا چکے ہیں، ان کی کامیابی کا دارومدار معیشت کے میدان میں کامیابیوں یا ناکامیوں سے جڑا ہے۔ نئی حکومت کے پہلے سو دن اہم سمجھے جاتے ہیں۔ اس عرصہ میں حکومتی سفر کے راستوں اور منزل کا تعین ہو جاتا ہے، ٹرمپ نے پہلے دس روز میں پچاس روز کا سفر طے کر لیا ہے، انہوں نے ہنگامی طور پر کچھ فیصلے کئے ہیں جو امریکی نقطہ نظر سے مثبت ہیں۔ یہ اور بات کہ آدھی دنیا کو وہ فیصلے پسند نہ ہوں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے دنیا کے نوے ممالک میں یو ایس ایڈ کے پروگرام تین ماہ کے لئے بند کر دیئے ہیں جبکہ صرف دو ملکوں، اسرائیل اور مصر کو استثنا حاصل ہے۔ اس حوالے سے پاکستان میں چلنے والے 33 پراجیکٹ اس کی زد میں آئے ہیں۔ ان میں تعلیم کے شعبہ کے 4، صحت سے منسلک 4، زراعت سے وابستہ 5، گورننس سے متعلق 11، معیشت سے جڑے 4 اور انرجی سیکٹر کے 5پراجیکٹ ہیں۔ تین ماہ ان پراجیکٹس کا جائزہ لینے کے بعد امریکی حکومت اپنی ترجیحات کے مطابق فیصلہ کرے گی کہ کون کون سے پراجیکٹ جاری رکھے جا سکتے ہیں اور کون کون سے پراجیکٹ بند کئے جائیں گے۔ یہ معاملہ صرف پاکستان کے حوالے سے نہیں دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ان پراجیکٹس کو اس انداز میں دیکھا جائے گا۔ ایک اضافی نکتہ یہ ہوگا کہ نئی صف بندیوں میں امریکہ کی نئی ضروریات کیا ہیں اور کون سا ملک امریکہ کے ساتھ کہاں تک چل سکتا ہے۔
عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے آسٹریلیا اور بھارت سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات سے ملاقات کی۔ اب بھارت کے وزیراعظم مودی وہ پہلے وزیراعظم ہو سکتے ہیں جو امریکہ کا دورہ کریں۔ ان کے دورہ امریکہ کی تفصیلات طے ہونے سے قبل ہی ٹرمپ نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ بھارت سے کیا چاہتا ہے۔ بھارت کو بتا دیا گیا ہے کہ کم از کم 32ارب ڈالر کی امریکہ سے خریداری کرے تاکہ امریکہ اور بھارت کی تجارت میں توازن قائم ہو سکے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی راستہ دکھا دیا گیا ہے کہ بھارت اسلحہ کی خریداری کرے کیونکہ اگر غیر ضروری جنگیں ختم کرنا ہے تو پھر امریکی اسلحے کو گوداموں میں پڑے رہنے سے بھی بچانا ایک ضرورت ہے۔ گزشتہ دس روز میں جاری ہونے والے ویزوں میں ستر فیصد بھارت کو دس فیصد چین کو جبکہ باقی دنیا کو بیس فیصد میں حصہ دیا گیا ہے۔ امریکی پالیسی کا ایک رخ یہ بھی ہے۔
ایک طرف نوزائیدہ ٹرمپ حکومت اپنی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کی منصوبہ بندی کر رہی تھی، ٹرمپ چین اور بعض دیگر ممالک کے ٹیرف میں اضافے کی بات کر رہے تھے کہ اسی اثنا میں چین نے اے آئی کا مہلک وار کر دیا۔ چین کی اس ضرب سے درجن بھر سے زائد اے آئی کے شعبے میں کام کرنے والی کمپنیوں کو سیکڑوں ارب ڈالر کا نقصان ہو گیا، انہیں اس نقصان سے سنبھلنے میں کچھ وقت لگے گا کچھ عجب نہیں اسی دوران کسی اور شعبے میں ضرب لگا دی جائے۔
ڈونلڈ ٹرمپ اس سے قبل اعلان کر چکے تھے کہ وہ چاہیں گے کہ اپنے پہلے سو دنوں میں چین کا دورہ کریں۔ اب دیکھنا ہے وہ یہ دورہ اپنی پہلی منصوبہ بندی کے مطابق کرتے ہیں یا نئی صورتحال کے مطابق نئی حکمت عملی ترتیب دیتے ہیں۔ آئی ٹی کے شعبہ میں ایک درخشندہ ستارہ قرار پانے والے ایلون مسک کے خلاف ایک نیا محاذ سامنے آ چکا ہے جنہیں ان کی ٹرمپ کے ساتھ قربت ایک آنکھ نہ بھاتی تھی وہ اپنی کامیاب چال چل گئے ہیں۔ انہوں نے وائٹ ہائوس میں اپنا دفتر بنانے کا خواب دیکھنے والے ای لون مسک کو وائٹ ہائوس بدر کرا دیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی چیف آف سٹاف سوزی نے ہدایات جاری کر دی ہیں کہ ایلون مسک سڑک کے پار آئیزن پاور بلڈنگ میں اپنے درجن بھر سٹاف کے ساتھ بیٹھیں گے اور وہ براہ راست صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو رپورٹ بھی نہیں کریں گے۔ یاد رہے یہ وہی ایلون مسک ہیں جنہوں نے کئی سو ارب ڈالر ٹرمپ کی انتخابی مہم پر خرچ کئے، انہیں ٹرمپ کے انتہائی قریبی اور قابل اعتماد شخصیتوں میں شمار کیا جا رہا تھا۔ اقتدار میں آنے کے بعد وہ پہلے شخص ہیں جن کے قدموں تلے سے زمین کھینچ لی گئی ہے۔ اس سے اندازہ کیجئے جس شخص نے اس کا عشر عشیر بھی ٹرمپ کی خدمت نہیں کی وہ اس کا کیسا قریبی یا کتنا معتمد ہو سکتا ہے۔ ایسی شخصیت یا گروپ سے کس قدر توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں جو امریکہ کا ملک ریاض بھی نہیں۔ ادھر میاں منشا بھی نہیں وہ پاکستان کو کیا دے سکتا ہے؟ امریکہ سے وابستہ توقعات کچھ غیر منطقی ہیں۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ جاتا ہے سکتا ہے کے ساتھ
پڑھیں:
کسی صوبے کا پانی دوسرے صوبے کے حصے میں نہیں جا سکتا: رانا ثناء اللّٰہ
وزیرِ اعظم شہباز شریف کے مشیر برائے بین الصوبائی رابطہ رانا ثناء اللّٰہ نے کہا ہے کہ کسی صوبے کا پانی دوسرے صوبے کے حصے میں نہیں جا سکتا، اس امر کو یقینی بنانے کے لیے ملک میں آئینی طریقہ کار اور قوانین موجود ہیں۔
ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ پانی کے مسئلے پر سیاست نہیں کرنی چاہیے، معاملات میز پر بیٹھ کر حل کرنے چاہئیں۔
رانا ثناء اللّٰہ کا کہنا ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف نے پیپلز پارٹی سے بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے کی ہدایت کی ہے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما نے کہا کہ اکائیوں کے پانی سمیت وسائل کی منصفانہ تقسیم پر مکمل یقین رکھتے ہیں، پیپلز پارٹی وفاق کا حصہ ہے، آئینی عہدوں پر رہتے ہوئے بات زیادہ ذمہ داری سے کرنی چاہیے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہمیں پیپلز پارٹی کی قیادت کا بہت احترام ہے، 1991ء میں صوبوں کے درمیان ہونے والے معاہدے اور ارسا ایکٹ کی موجودگی میں کسی سے ناانصافی نہیں ہو سکتی۔
انہوں نے کہا کہ اکائیوں کی مضبوطی کو وفاق کی مضبوطی سمجھتے ہیں، ماضی کی طرح اسی طرز عمل پر چلتے رہیں گے۔
رانا ثناء اللّٰہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اکائیوں اور اس میں رہنے والے عوام کے حقوق کے تحفظ پر سمجھوتا کیا نہ کریں گے، بات چیت اور مشاورت ہی ہر مسئلے کا حل ہے۔
Post Views: 1