سیدنا زیدؓ کے والد حارثہ بنی قضاعہ سے تعلق رکھتے تھے، جو یمن کا ایک نہایت معزز قبیلہ تھا، ان کی والدہ سعدی بنت ثعلبہ بنی معن سے تھیں، جو قبیلہ طے کی ایک شاخ تھی، وہ ایک مرتبہ اپنے صغیر السن بچے زیدؓ کو ساتھ لے کر اپنے میکے گئیں، اسی اثناء میں بنو قین کے سوار، جو غارت گری سے واپس آرہے تھے، اس نو نہال کو خیمہ کے سامنے سے اٹھا لائے اور غلام بنا کر عکاظ کے بازار میں فروخت کے لیے پیش کیا۔ ستارہ اقبال بلند تھا، غلامی میں بھی سیادت مقدر تھی، حکیم بن حزام نے چارسو درہم میں خرید کر اپنی پھوپھی ام المومنین سیدہ خدیجہ بنت خویلدؓ کی خدمت میں پیش کیا، جن کی وساطت سے سرور عالمؐ کی غلامی کا شرف نصیب ہوا، جس پر ہزاروں آزادیاں اور تمام دنیا کی شہنشاہیاں قربان ہیں۔ (طبقات ابن سعد)
سیدنا زیدؓ کے والد حارثہ بن شرحبیل کو قدرۃً اپنے لخت جگر کے گم ہو جانے کا شدید غم ہوا، آنکھوں سے سیل اشک بہائے، دل آتش فراق سے بھڑک اْٹھا اور محبت پدری نے الفاظ کی رنگ آمیزی سے اس طرح رنج والم کا نقشہ کھینچا ؎ (اشعار کو اردو ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے)
’’میں نے زید پر گریہ وزاری کی، لیکن یہ معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کیا ہوگیا، آیا زندہ ہے جس کی امید رکھی جائے یا اسے موت آگئی‘‘
’’خدا کی قسم! میں نہیں جانتا ہوں اگرچہ پوچھتا بھی ہوں کہ کیا تجھے نرم زمین نگل گئی یا پہاڑ کھا گیا؟‘‘
’’کاش! میں جانتا کہ آیا تیرا آنا کبھی ممکن ہے؟ پس تیرا واپس آنا ہی میرے لیے دنیا میں کافی ہے‘‘
’’آفتاب اپنے طلوع ہونے کے وقت اس کو یاد دلاتا ہے اور جب غروب کا وقت قریب آ جاتا ہے تو اس کی یاد کو پھر تازہ کر دیتا ہے‘‘
’’باد بہاری کی لپٹ اس کی یاد کو برانگیختہ کر دیتی ہے، آہ! مجھے اس پر کس قدر شدید رنج والم ہے‘‘
’’عنقریب میں اونٹ کی طرح چل کر تمام دنیا چھان ماروں گا، میں اس آوارہ گردی سے اپنی زندگی بھر نہیں تھکوں گا، یہاں تک کہ اونٹ تھک جائے گا‘‘
’’یا مجھ پر موت آجائے… ہر آدمی فانی ہے، اگرچہ سراب امید سے دھوکا دے‘‘
’’میں قیس اور عَمرو دونوں کو اس کے جستجو کی وصیت کرتا ہوں اور یزید کو پھر ان کے بعد جبل کو وصیت کرتا ہوں‘‘
جبل سے مراد جبلہ بن حارثہ ہیں، جو زیدؓ کے بڑے بھائی تھے اور یزید ان کے اخیافی بھائی تھے۔
ایک سال بنی کلب کے چند آدمی حج کے خیال سے مکہ آئے تو انہوں نے اپنے یوسف گم گشتہ کو دیکھتے ہی پہچان لیا اور یعقوب صفت باپ کا ماجرائے غم کہہ سنایا، بولے یقینا انہوں نے میری فرقت میں نوحہ خوانی کی ہوگی، تم میری طرف سے میرے خاندان والوں کو یہ اشعار سنا دینا۔
’’میں اپنی قوم کا مشتاق ہوں، گو ان سے دور ہوں، میں خانہ کعبہ میں مشعر حرام کے قریب رہتا ہوں‘‘
’’اس لیے اس غم سے باز آ جاؤ جس نے تم کوپْر الم بنا رکھا ہے اور اونٹوں کی طرح چل کر دنیا کی خاک نہ چھانو‘‘
’’الحمد للہ کہ میں بنی معد کے ایک معزز اور اچھے خاندان میں ہوں، جو پشتہا پشت سے معزز ہے‘‘
بنی کلب کے زائروں نے واپس جا کر ان کے والد کو اطلاع دی تو تعجب سے ان کی آنکھیں چمک اٹھیں اور وفوریاس نے یک بیک یقین نہ ہونے دیا۔ بولے: ’’رب کعبہ کی قسم! کیا میرا ہی نور نظر تھا؟‘‘ ان لوگوں نے جب تفصیل کے ساتھ حلیہ، جائے قیام اور مربی کے حالات بیان کیے تو اس وقت اپنے بھائی کعب بن شرحبیل کو ہمراہ لے کر مکہ کی طرف چل کھڑے ہوئے اور حضرت سرور کائناتؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر بصد منت ولجاجت عرض کی: ’’اے ابن عبد اللہ! اے ابن عبد المطلب! اے اپنی قوم کے رئیس زادے! تم اہل حرم اور اس کے مجاور ہو، مصیبت زدوں کی دست گیری کرتے ہو، قیدیوں کو کھانا دیتے ہو، ہم تمہارے پاس اس غرض سے آئے ہیں کہ ہمارے لڑکے کو آزاد کر کے ہم کو رہین منت بنا دو، زر فدیہ جس قدر چاہو لو، ہم بیش قرار معاوضہ دینے کو تیار ہیں‘‘۔ ارشاد ہوا: ’’وہ کون ہے؟‘‘ بولے: ’’زید بن حارثہ‘‘۔ آپؐ نے زید کا نام سنا تو ایک لمحہ تفکر کے بعد فرمایا: کیا اس کے سوا کوئی اور حاجت نہیں؟ عرض کی: ’’نہیں!‘‘ فرمایا: ’’بہتر۔ زیدؓ کو بلا کر اختیار دو اگر وہ تمہیں پسند کرے تو تمہارا ہے اور اگر مجھے ترجیح دے تو خدا کی قسم! میں ایسا نہیں ہوں جو اپنے ترجیح دینے والے پر کسی کو ترجیح دوں‘‘۔ حارثہ اور کعب نے اس شرط پر شکریہ کے ساتھ رضا مندی ظاہر کی۔ سیدنا زیدؓ بلائے گئے، آنحضرتؐ نے پوچھا: ’’تم ان دونوں کو پہچانتے ہو؟‘‘ عرض کی: ’’ہاں! یہ میرے ماں باپ اور چچا ہیں‘‘۔
آپؐ نے ان کے ہاتھ میں قرعہ انتخاب دے کر فرمایا: ’’میں کون ہوں؟ اس سے تم واقف ہو، میری ہم نشینی کا حال بھی تم کو معلوم ہے، اب تمہیں اختیار ہے چاہے مجھے پسند کرو یا ان دونوں کو‘‘۔ سیدنا زیدؓ کو شہنشاہ کونین کی غلامی میں جو لطف ملا تھا اس پر صدہا آزادیاں نثار تھیں۔ بولے: ’’میں ایسا نہیں ہوں جو حضورؐ پر کسی کو ترجیح دوں، آپؐ ہی میرے ماں باپ ہیں‘‘۔ زیدؓ کی اس مخلصانہ وفا شعاری نے ان کے باپ اور چچا کو محو حیرت کر دیا، تعجب سے بولے: زید! افسوس تم آزادی، باپ چچا اور خاندان پر غلامی کو ترجیح دیتے ہو‘‘۔ فرمایا: ’’ہاں! مجھے اس ذات پاک میں ایسے ہی محاسن نظر آئے ہیں کہ میں اس پر کسی کو کبھی ترجیح نہیں دے سکتا‘‘۔
سیدنا زیدؓ نے اپنی غیر متزلزل وفا شعاری سے آقائے شفیق کے دل میں محبت کی دبی ہوئی چنگاری کو مشتعل کر دیا۔ آپؐ نے خانہ کعبہ میں مقام حجر کے پاس ان کو لے جا کر اعلان فرمایا کہ زید آج سے میرا فرزند ہے میں اس کا وارث ہوں گا، وہ میرا وارث ہوگا۔ اس اعلان سے ان کے باپ اور چچا کے افسردہ دل گل شگفتہ کی طرح کھل گئے، گو والد کو مفارقت گوارا نہ تھی، تاہم اپنے لخت جگر کو ایک شفیق و معزز باپ کی آغوش عاطفت میں دیکھ کر اطمینان ہوگیا اور امتنان ومسرت کے ساتھ واپس گئے۔
اس اعلان کے بعد سیدنا زیدؓ آپؐ کے انتساب کے ساتھ زید بن محمدؐ کے نام سے زبان زد عام و خاص ہوئے، یہاں تک کہ جب اسلام کا زمانہ آیا اور قرآن پاک کی الہامی زبان نے صرف اپنے نسبی آبا کے ساتھ انتساب کی ہدایت فرمائی تو وہ پھر حارثہ کی نسبت سے زید بن حارثہ مشہور ہوئے۔ (طبقات ابن سعد)
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے ساتھ
پڑھیں:
بی جے پی عدلیہ کی توہین کرنے والے اپنے اراکین پارلیمنٹ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی، جے رام رمیش
کانگریس لیڈر نے کہا کہ یہ ممبران پارلیمنٹ ہمیشہ ہی نفرت انگیز تقریر کرتے رہتے اور سبک دوش ہونے والے بی جے پی صدر کی صفائی ڈیمج کنٹرول کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اسلام ٹائمز۔ انڈین کانگریس کمیٹی نے بی جے پی کے ذریعے خود کو سپریم کورٹ کے حوالے سے اپنے اراکین پارلیمنٹ نشی کانت دوبے اور دنیش شرما کے بیانات سے الگ کرنے کو نقصان کی تلافی قرار دیا اور بی جے پی پر زور دیا کہ اسے کم از کم ان دونوں کو پارٹی سے نکال دینا چاہیئے۔ کانگریس نے یہ بھی پوچھا کہ دونوں بی جے پی لیڈران کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی اور انہیں وجہ بتاؤ نوٹس کیوں جاری نہیں کیا گیا۔ کانگریس کے جنرل سکریٹری انچارج کمیونیکیشنز جے رام رمیش نے کہا کہ چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) پر دو ممبران پارلیمنٹ کے تبصروں سے پارٹی کے جلد سبکدوش ہونے والے صدر کا خود کو اور پارٹی کو الگ کر لینے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔
جے رام رمیش نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ یہ ممبران پارلیمنٹ ہمیشہ ہی نفرت انگیز تقریر کرتے رہتے اور سبک دوش ہونے والے بی جے پی صدر کی صفائی ڈیمج کنٹرول کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کسی کو بے وقوف نہیں بنا سکتے ہیں، یہ بس ان کی منافقت کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیا وزیراعظم مودی کی خاموشی کو ان کی حمایت سمجھا جائے۔ جے رام رمیش نے مودی سے بھی اس معاملے پر جواب مانگا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہندوستانی آئین پر بار بار ہونے والے ان حملوں پر وزیر اعظم کی مسلسل خاموشی ان کی حمایت کا عکاسی نہیں کرتی ہے تو ان دونوں ممبران پارلیمنٹ کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔
واضح رہے کہ بی جے پی نے ہفتہ کے روز سپریم کورٹ پر دوبے اور شرما کی تنقید سے خود کو الگ کر لیا اور پارٹی کے صدر جے پی نڈا نے ان تبصروں کو ان دونوں کے ذاتی خیالات قرار دیا۔ انہوں نے حکمران جماعت کی طرف سے عدلیہ کے احترام کو جمہوریت کا ایک لازمی حصہ قرار دیا۔ نڈا نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ بی جے پی کا عدلیہ اور چیف جسٹس پر ممبران پارلیمنٹ نشی کانت دوبے اور دنیش شرما کے تبصروں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ان کے ذاتی تبصرے ہیں لیکن بی جے پی نہ تو ان سے اتفاق کرتی ہے اور نہ ہی کبھی اس طرح کے تبصروں کی حمایت کرتی ہے، بی جے پی انہیں قطعی طور پر مسترد کرتی ہے۔