پاک بحریہ کا بحیرہ عرب میں کامیاب ریسکیو آپریشن، 8 ماہی گیروں کو بچا لیا
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
جیونی کے جنوب میں موجود بلوچ ماہی گیروں کی القادری نامی کشتی انجن کی خرابی کے باعث حادثے کا شکار ہوئی، کشتی میں موجود ماہی گیروں نے امداد کے لیے ریڈیو کالز دیں۔ پاک بحریہ کے سیکنگ ہیلی کاپٹر نے سبک رفتاری سے حادثے کے مقام پر پہنچ کر تمام 8 ماہی گیروں کو بحفاظت ریسکیو کیا۔ اسلام ٹائمز۔ پاک بحریہ نے بحیرہ عرب میں کامیاب ریسکیو آپریشن کے دوران 8 ماہی گیروں کو بچا لیا۔ جیونی کے جنوب میں موجود بلوچ ماہی گیروں کی القادری نامی کشتی انجن کی خرابی کے باعث حادثے کا شکار ہوئی، کشتی میں موجود ماہی گیروں نے امداد کے لیے ریڈیو کالز دیں۔ کشتی کی کال کو جوائنٹ میری ٹائم انفارمیشن اینڈ کوآرڈینیشن سینٹر نے بروقت مانیٹر کیا اور پاک بحریہ کے میری ٹائم ہیڈ کوارٹرز سے ریسکیو آپریشن کی درخواست کی۔
پاک بحریہ کے سیکنگ ہیلی کاپٹر نے سبک رفتاری سے حادثے کے مقام پر پہنچ کر تمام 8 ماہی گیروں کو بحفاظت ریسکیو کیا۔ ریسکیو کیے گئے تمام ماہی گیر مقامی بلوچ ہیں جن کو طبی امداد کے لیے گوادر منتقل کیا گیا ہے، ریسکیو کیے گئے ماہی گیروں نے پاک بحریہ سے اظہارِ تشکر کیا۔ پاک بحریہ ملک کی بحری سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ سمندر میں رونما ہونے والی کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ماہی گیروں کو پاک بحریہ کے لیے
پڑھیں:
مریخ پرکھوپڑی جیسی پراسرار چٹان دریافت
نیویارک(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 اپریل2025ء)ناسا کے مریخ پر موجود روور (rover) نے حال ہی میں ایک حیران کن اور پراسرار چٹان کی تصویر لی ہے جو انسانی کھوپڑی سے مشابہت رکھتی ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق اس غیر معمولی چٹان کو ناسا نے اسکل ہل کا نام دیا ہے، یہ دریافت 11 اپریل کو پرسویئرنس روور کے ذریعے مریخ کے جیجیرو کریٹر کی رم پر ماسٹ کیم-زی آلے کی مدد سے کی گئی۔(جاری ہے)
ناسا کے مطابق جس علاقے میں اسکل ہل دریافت ہوئی ہے وہ عمومی طور پر ہلکے رنگ اور گرد آلود سطح پر مشتمل ہے، لیکن یہ چٹان اپنے سیاہ رنگ، نوکیلی ساخت اور سطح پر موجود چھوٹے گڑھوں کی وجہ سے واضح طور پر نمایاں نظر آتی ہے۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اسکل ہل کی سطح پر موجود گڑھے ممکنہ طور پر چٹان میں موجود اجزا کے کٹا یا مریخ کی تیز ہواں کے باعث پیدا ہوئے ہیں۔ ناسا نے یہ امکان بھی ظاہر کیا ہے کہ یہ چٹان کسی قریبی آتش فشانی چٹان سے کٹ کر آئی ہو یا کسی شہابیے کے ٹکرا کے نتیجے میں یہاں تک پہنچی ہو۔