کیا حکومت تعلیم کے شعبے کو بھی کنٹرول کرنا چاہتی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 جنوری 2025ء) اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ اٹھارویں آیئنی ترمیم کے تحت تعلیمی پالیسی سے متعلق فیصلے صوبوں کو کرنے چاہییں۔ قابل اعتماد ذرائع نے حال ہی میں ڈی ڈبلیو کو بتایا تھا کہ صدر نے سینیٹ میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن ترمیمی بل کی پیشکش اور منظوری کی پرائیویٹ سطح پر مخالفت کی ہے۔ صدر کی مخالفت کی وجہ سے یہ بل فی الحال مشترکہ اجلاس میں پیش نہیں کیا گیا۔
پاکستانی پروفیسر کی معافی، تعلیمی نظام کہاں جا رہا ہے؟
یہ بل اگرچہ پی ڈی ایم کی حکومت، جو کہ عمران خان کی حکومت کو عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کے بعد وجود میں آئی تھی، نے قومی اسمبلی میں دو ہزار تیئیس میں منظور کیا تھا، لیکن اس کے بعد کسی وجہ سے یہ سینیٹ میں پیش نہ کیا جا سکا اور دو سال گزرنے کے بعد بھی سینیٹ میں اس کی منظوری نہیں ہو سکی۔
(جاری ہے)
حکومت اب اس بل کو سینیٹ میں پیش کرنے کا ارادہ رکھتی تھی، لیکن صدر نے لابنگ کرتے ہوئے اس کی پیشکش اور منظوری رکوا دی کیونکہ یہ بل وزیر اعظم کے دفتر کو مزید اختیارات دے رہا تھا اور تعلیمی معاملات کو مرکزی سطح پر لانے کی راہ ہموار کر رہا تھا، جبکہ اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم ایک صوبائی معاملہ بن چکا ہے۔درسگاہیں غیر شرعی نظام کی بنیاد ہیں، حملے جائز ہیں، طالبان
قانون کیا تبدیلیاں تجویز کرتا ہے؟
بل کے مسودے کے مطابق، ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کی تقرری کا اختیار وزیر اعظم کو حاصل ہوگا، جبکہ موجودہ قوانین کے تحت کمیشن ایک خود مختار ادارہ ہے اور وزیر اعظم صرف ایچ ای سی کے چیئرمین اور چند اراکین کی تقرری کر سکتے ہیں۔
بل میں کمیشن کے اراکین کی تعداد کو کم کر کے دس کرنے کی بھی سفارش کی گئی ہے، جن میں سے چار تعلیمی ماہرین، آئی ٹی ماہرین اور سائنسدان وزیر اعظم کی نامزدگی سے شامل ہوں گے۔ صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین بھی کمیشن کے رکن ہوں گے۔ یہ قابل ذکر ہے کہ صوبائی کمیشن صرف سندھ اور پنجاب میں فعال ہیں، جس کے نتیجے میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان اس کمیشن میں نمائندگی سے محروم رہیں گے۔
امتحانات میں بد عنوانی اور پنجاب کا تعلیمی نظام
ماہرین کا ماننا ہے کہ تعلیمی امور کو تعلیمی ماہرین کے ذریعے ہی چلایا جانا چاہیے۔ تعلیمی شعبے کو سیاست زدہ کرنا نقصان کا باعث بن سکتا ہے اور یہ چیز تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کی بجائے نقصان پہنچائے گی۔ تعلیمی امور کے ایک ماہر تیمور بانڈے کا کہنا ہے، ''تعلیم ایک غیر مرکزی معاملہ ہے اور اسے صوبوں کے دائرہ اختیار میں ہی رہنا چاہیے۔
حکومت مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جبکہ ایچ ای سی کو خود مختار اور غیر مرکزی رہنا چاہیے۔‘‘ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کو نہ صرف صوبوں کے تعلیمی معاملات سے متعلق فیصلوں سے دور رہنا چاہیے بلکہ وفاق میں بھی تعلیم کے شعبے میں سیاست کا داخلہ نہیں ہونا چاہیے۔ تیمور بانڈے کہتے ہیں، ''وفاقی سطح پر بھی، ایچ ای سی کو خود مختار رہنے دیا جائے اور یہی بہتر ہے۔
اگر وزیراعظم بہت سی پوسٹس پر لوگوں کو لگائیں گے تو اس صورت میں میرٹ کی پاسداری مشکل ہو سکتی ہے۔‘‘پاکستان سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں پیچھے کیوں؟
کیا صوبے بہتر طریقے سے تعلیمی معاملات چلا سکتے ہیں؟
تعلیمی معاملات کی خود مختاری سے اتفاق رکھتے ہوئے بعض ماہرین یہ بھی سمجھتے ہیں کہ صوبے اپنی ذمہ داری صحیح سے نہیں نبھا رہے اور بہت سی جامعات میں جنہیں صوبے خود چلا رہے ہیں بہت سی آسامیاں خالی ہیں جس کی وجہ سے کام میں اور تعلیمی معیار میں بہتری لانے میں دشواری کا سامنا ہے۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن کا بجٹ، نئی تحقیق کے لیے کتنا؟
معروف تعلیمی ماہر بیلا رضا جمیل کہتی ہیں کہ ابھی تک صوبے تعلیم کے لیے وفاقی حکومت سے پیسے مانگتے ہیں اور اگر وفاق پیسے نہ دے تو یونیورسٹیز کا چلنا مشکل ہو جائے۔ وہ لیکن یہ سمجھتی ہیں کہ اس مسئلے کا یہ حل نہیں ہے کہ تعلیم کے شعبے کو مرکز تک محدود کر دیا جائے بلکہ صوبوں کواپنی ذمہ داریاں صحیح سے نبھانے کی ضرورت ہے۔
بیلا رضا کا مزید کہنا تھا،''ہم تو اس چیز کے قائل ہیں کہ تعلیم کو ضلعی سطح تک ڈی سینٹرلائز کر دیا جائے اور ضلعی حکومتیں اسکولوں کا نظام چلائیں اور ان کی بہتری کے لیے کام کریں۔ صوبائی حکومتوں کا کردار صرف پالیسی کی حد تک ہونا چاہیے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت کی تمام سطحیں، جیسے کہ وفاقی حکومت، صوبائی حکومت، اور ضلعی حکومت، مؤثر طریقے سے اور ذمہ داری کے ساتھ کام کریں۔‘‘
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ایجوکیشن کمیشن تعلیمی معاملات سینیٹ میں ایچ ای سی تعلیم کے کے لیے کے بعد ہے اور ہیں کہ
پڑھیں:
عورتیں جو جینا چاہتی تھیں
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 اپریل 2025ء) گزشتہ ہفتے سندھ کی دو مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والی دو خودمختار خواتین کو بے دردی سے قتل کیا گیا لاڑکانہ کی سرکاری اسکول ٹیچر صدف حاصلو اور میرپورخاص کی پولیس اہلکار مہوش جروار۔ دونوں کے قاتل پولیس سے تعلق رکھنے والے مرد تھے۔ یعنی اسی ادارے کے نمائندے، جس پر ان کے تحفظ کی ذمہ داری تھی۔
صدف حاصلو، لاڑکانہ کی ایک باہمت لڑکی تھی، جس نے والد کے انتقال کے بعد اپنی ماں کے ساتھ مل کر گھر کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ وہ کبھی پرائیویٹ اسکولوں میں معمولی تنخواہ پر پڑھاتی رہی، کبھی بچوں کو ٹیوشن دیتی رہی اور بالآخر اپنی محنت سے ایک سرکاری اسکول میں ٹیچر لگ گئیں۔ لیکن ایک خودمختار عورت اس معاشرے کو کب قبول ہوتی ہے؟
ایک پولیس اہلکار صدف سے شادی کا خواہشمند تھا۔
(جاری ہے)
صدف کی ماں نے اس کا نکاح تو اس پولیس اہلکار سے پڑھوا دیا، لیکن رخصتی سے پہلے کچھ شرائط رکھی۔ مگر چونکہ لڑکا پولیس میں تھا، اس نے سمجھا کہ اب صدف پر اس کا مکمل حق ہے۔ وہ بار بار صدف کے گھر آتا، دھمکاتا اور ایک دن بندوق اٹھا کر زبردستی کرنے پہنچ گیا۔ صدف نے ہمت دکھائی، خلع کا فیصلہ کیا اور تحفظ کے لیے عدالت سے رجوع بھی کیا۔ لیکن کون سنتا ہے ایک عام سی اسکول ٹیچر کی فریاد؟ نہ تحفظ ملا، نہ انصاف۔چند دن بعد، جب صدف اسکول سے واپس آ رہی تھی، تو اسی پولیس اہلکار نے سرِعام اسے گولی مار کر قتل کر دیا۔ آج بھی وہ قاتل آزاد گھوم رہا ہے، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
دوسری خاتون، مہوش جروار جو ایک پولیس کانسٹیبل تھی۔ مہوش جروار، ایک یتیم لڑکی، جس کا باپ برسوں پہلے دنیا سے رخصت ہو چکا تھا، اپنی ماں کے ساتھ غربت کے سائے میں پلی بڑھی۔
دو سال پہلے اسے پولیس میں کانسٹیبل کی نوکری ملی۔ یہ نوکری اس کے لیے ایک امید تھی، ایک نئی زندگی کی راہ۔ مگر اس نظام میں نوکری نہیں، صرف کمزوروں کا استحصال بکتا ہے۔مہوش کی پوسٹنگ میرپورخاص سینٹرل جیل میں ہوئی۔ پھر پولیس اہلکار یوسف کھوسہ نے اسے مسلسل بلیک میل کرنا شروع کر دیا۔ تنگ آ کر مہوش نے اپنی پوسٹنگ حیدرآباد کروالی، لیکن حالات اور غربت اسے دوبارہ میرپورخاص کھینچ لائی۔
پھر ایک دن وہی وردی جو اس کی پہچان تھی، اس کی لاش پر موجود تھی۔ مہوش اپنی پولیس کی وردی ہی میں پھندے سے جھولتی پائی گئی۔ایک بات طے ہے، مہوش اس بلیک میلنگ سے تھک چکی تھی، اس نے آواز اٹھانے کی کوشش کی، مقام بدلا، شکایات درج کروائیں، مگر سسٹم نے کبھی اس کی بات سننا گوارا نہ کی۔ حیدرآباد میں ایف آئی اے کے دفتر میں ایک شکایت 2 جنوری کو درج ہوئی اور ابھی اپریل چل رہا ہے۔
مگر اس کی تفتیش کا کوئی پتہ نہیں۔ نہ کوئی فون، نہ کوئی طلبی، نہ کوئی پیش رفت۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اگر صدف اور مہوش جیسی تعلیم یافتہ، بہادر، محنتی عورتیں بھی اس معاشرے میں محفوظ نہیں، تو پھر تحفظ کی ضمانت کس کے پاس ہے؟ یہ دو کہانیاں محض دو عورتوں کی نہیں، بلکہ اس پورے نظام کی ناکامی کی کہانی ہیں۔ ایک ایسا نظام جو عورت کو صرف اس وقت برداشت کرتا ہے جب وہ خاموشی سے سر جھکائے، "ہاں" کہنا سیکھ لے اور اپنی خودمختاری قربان کر دے۔
صدف اور مہوش جیسے بے شمار چہرے ہیں جو روز کام پر جاتے ہیں، خود کو اور اپنے گھر والوں کو سنبھالتے ہیں اور اس امید پر زندہ رہتے ہیں کہ شاید ایک دن یہ معاشرہ انہیں جینے کا حق دے گا۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔