اسلام آباد: خیبر پختونخوا حکومت کے معاملات سنبھالنے کی ٹیم میں شامل پی ٹی آئی کے ایک اہم عہدیدار نے کہا ہے کہ افغان طالبان سے مذاکرات کے لیے ’چھوٹا گروپ‘ سرکاری سرپرستی میں افغانستان چند دنوں میں روانہ ہو گا۔
انڈپینڈنٹ اردو کو تصدیق کرتے ہوئے عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ سرکاری سرپرستی میں پہلے مرحلے میں ایک سمال گروپ بنایا گیا جو افغانستان کا دورہ کرکے افغان طالبان کے سرکردہ رہنماؤں سے ملاقاتیں کریں گے۔
انہوں نے بتایا  کہ یہ گروپ چند دنوں میں افغانستان جائے گا اور اس کے بعد ایک بڑا گروہ بنایا جائے گا جس میں تمام شراکت دار بھی شامل ہوں گے۔
عہدیدار، جو پی ٹی آئی کی مرکزی کور کمیٹی کا حصہ بھی ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو کو مزید بتایا کہ اس سے پہلے مسئلہ صوبائی حکومت کے مینڈیٹ کا تھا، ہم خود سے مذاکرات شروع نہیں کر سکتے۔  چونکہ دہشت گردی کی سب سے زیادہ حدت خیبر پختونخوا میں ہی محسوس ہوتی ہے تو ماضی قریب میں ہونے والے کچھ اعلٰی سطحی اجلاسوں میں افغان طالبان سے مذاکرات شروع کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔
انہوں نے بتایا   ماضی قریب میں ایک اہم ملاقات کے بعد اب ایک چھوٹا گروہ بنایا گیا ہے جو مذاکراتی مرحلے کو شروع کرے گا۔ ان مذاکرات میں اکوڑہ خٹک نوشہرہ میں واقع دارالعلوم حقانیہ کی مدد بھی حاصل ہو گی کیونکہ ان کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔
  واضح رہے کہ چند دن قبل صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے جامعہ حقانیہ کا دورہ کر کے وہاں کے منتظمین سے ملاقات کی تھی۔  اس ملاقات کے سرکاری طور پر جاری بیان میں افغان طالبان سے مذاکرات کا کوئی ذکر تو نہیں تھا لیکن عہدیدار کے مطابق وہ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔
 افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے رواں سال 21 جنوری کو وزیر اعلٰی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے ڈیرہ اسماعیل خان میں تقریب سے خطاب میں بتایا کہ جلد ہی مذاکراتی جرگہ افغانستان جائے گا۔
 علی امین کے مطابق مذاکراتی وفد میں قبائلی عمائدین اور مشران بھی شامل ہوں گے جو افغان عبوری حکومت سے بات چیت کریں گی۔
 کچھ دن پہلے پشاور میں پاکستان فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کی وزیر اعلٰی خیبر پختونخوا سمیت سیاسی جماعتوں کے نمائندگان سے ملاقات ہوئی تھی۔
 اس ملاقات میں شامل سیاسی جماعت کے ایک نمائندے نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ آرمی چیف سے ملاقات کے دوران صوبائی حکومت کو بات چیت کرنے کا بتایا گیا تھا تاکہ اس مسئلے کا حل نکل آئے۔
مذاکراتی عمل شروع کرنے کے پس منظر کے حوالے سے عہدیدار نے بتایا کہ وفاقی حکومت اس مسئلے کو سنجیدہ نہیں لے رہی تھی اور خیبر پختونخوا حکومت کا یہ مینڈیٹ نہیں تھا کہ وہ مذاکرات شروع کر دیتے۔
 گذشتہ برس دسمبر میں بین الاقوامی میڈیا کے نمائندوں سے ملاقات میں وزیر اعلٰی علی امین گنڈاپور نے بھی مذاکرات کا ذکر کیا تھا۔
 علی امین گنڈاپور نے بتایا تھا کہ جب میں خود مذاکرات کی بات کی تھی تو اس سے پتہ نہیں لوگوں نے کیا بنا لیا تھا لیکن اب وفاقی حکومت نے مذاکرات شروع کرنے کے حوالے سے بتایا ہے۔
 اس وقت وزیر اعلیٰ نے بتایا تھا کہ شدت پسندی سے سب سے زیادہ متاثرہ ہمارا صوبہ اور یہاں کے عوام ہیں تو ہماری ذمہ داری بھی بنتی ہے کہ اس مسئلے کا حل نکالا جا سکے۔
 

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

افغان سرزمین کسی بھی ملک کیخلاف دشمن سرگرمیوں کیلئے استعمال نہیں ہوگی، کابل

افغان سرزمین کسی بھی ملک کیخلاف دشمن سرگرمیوں کیلئے استعمال نہیں ہوگی، کابل WhatsAppFacebookTwitter 0 20 April, 2025 سب نیوز

اسلام آباد:افغانستان کے قائم مقام وزیر اعظم ملا حسن اخوند نے پاکستان کو یقین دلایا ہے کہ افغان سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف دشمن سرگرمیوں کے لیے استعمال نہیں کی جائے گی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق افغان وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم نے پاکستانی وفد کو یقین دلایا کہ افغانستان کی سرزمین اپنے ہمسایوں سمیت کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں کی جائے گی۔

ملا حسن اخوند نے زور دیا کہ عسکریت پسندی کی روک تھام کے لیے ان کی انتظامیہ کے ’قول و فعل‘ کے درمیان ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔

اسحاق ڈارکا یہ دورہ کئی ماہ کے سفارتی تعطل، سرحدی جھڑپوں اور سلامتی کے بڑھتے ہوئے خدشات کے بعد اسلام آباد اور افغان طالبان انتظامیہ کے درمیان دوبارہ مذاکرات کے عمل کی ایک نئی بنیاد ہے۔

اسلام آباد کا الزام ہے کہ افغان عسکریت پسند گروہ سرحد پار حملے کرتے ہیں اور یہاں دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور ان پر عمل درآمد کرتے ہیں، اس کے جواب میں، پاکستان نے افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف فوجی حملے کیے ہیں اور افغان شہریوں کو نشانہ بناتے ہوئے بڑے پیمانے پر ملک بدری مہم شروع کی ہے۔

پاکستان اور افغانستان کی جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی (جے سی سی) نے رواں ہفتے کے اوائل میں کابل میں نئے مذاکراتی عمل کے تحت ملاقات کی تھی جس کا مقصد اعتماد اور تعاون کی بحالی ہے۔

اسحٰق ڈار کے دورے سے ایک روز قبل پاکستانی دفتر خارجہ نے دہشت گردی کو دونوں ممالک کے تعلقات میں ’اہم تشویش‘ قرار دیا تھا۔

افغان وزیر اعظم کے دفتر نے پاکستان میں مقیم افغانوں کی بے دخلی کے معاملے پر کہا کہ پاکستان کے یکطرفہ اقدامات مسئلے کو مزید شدت دے رہے ہیں اور حل کی طرف پیش رفت میں رکاوٹ بن رہے ہیں، بیان کے مطابق افغان وزیراعظم نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ افغان پناہ گزینوں کے ساتھ ناروا سلوک بند کرے۔

افغان وزارت خارجہ نے بھی اس معاملے پر اسی طرح کا موقف اختیار کیا ہے، وزیر خارجہ امیر خان متقی نے پاکستان میں افغان مہاجرین کی صورتحال اور ان کی جبری وطن واپسی پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔

انسانی سلوک کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے پاکستانی حکام پر زور دیا کہ وہ اس وقت پاکستان میں مقیم یا واپس آنے والے افغان شہریوں کے حقوق کا تحفظ کریں، اسحٰق ڈار کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب ملک بدری کی مہم میں تیزی آئی ہے جس کی وجہ سے ہزاروں افغانوں کو واپس جانے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔

اقوام متحدہ کی انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) کے مطابق یکم سے 13 اپریل کے درمیان طورخم اور اسپن بولدک سرحدی گزرگاہوں کے ذریعے تقریباً 60 ہزار افغان باشندے افغانستان واپس جانے پر مجبور ہوئے۔

یہ بے دخلی دوسرے مرحلے کا حصہ ہے جس کا مقصد 8 لاکھ سے زائد افغان شہریوں کو نشانہ بنانا ہے جن کے پاس اب غیرقانونی قرار دیے جاچکے افغان سٹیزن کارڈ (اے سی سی) اور دیگر دستاویزات کی کمی ہے۔

انسانی ہمدردی کے اداروں نے افغانستان کے سرحدی علاقوں پر دباؤ کے بارے میں متنبہ کیا ہے جو واپس آنے والے پناہ گزینوں کی میزبانی کررہے ہیں، جن میں سے بہت سوں کے پاس وسائل یا پناہ گاہوں کی کمی ہے۔

دریں اثنا، پاکستان نے یو این ایچ سی آر کے جاری کردہ پروف آف رجسٹریشن کارڈ رکھنے والے 1.3 ملین سے زائد افغانوں کو راولپنڈی اور اسلام آباد چھوڑنے کا حکم دیا ہے، حالانکہ انہیں 30 جون تک پاکستان میں رہنے کی اجازت ہے۔

دریں اثنا، مغربی ممالک سے کہا گیا ہے کہ وہ ان افغان باشندوں کی نقل مکانی کا عمل تیز کریں جن سے 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد مغربی ممالک میں آباد کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا، پاکستانی حکومت نے 30 اپریل کی ڈیڈ لائن مقرر کی ہے، جس کے بعد ان لوگوں کی ملک بدری شروع ہو جائے گی جو اس وقت تک کسی تیسرے ملک میں آباد نہیں ہوئے ہیں۔

اسحٰق ڈار نے اپنے بیان میں پناہ گزینوں کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے واپس بھیجے جانے والوں کے خدشات کو دور کرنے کے اقدامات کا اعلان کیا۔

متعلقہ مضامین

  • علی امین گنڈاپور نے اسحاق ڈار کے دورہ افغانستان پر ردعمل دے دیا
  • مزید کن ممالک کے ساتھ پی آئی اے کی براہ راست پروازیں شروع ہو گی؟
  • افغان سرزمین کسی بھی ملک کیخلاف دشمن سرگرمیوں کیلئے استعمال نہیں ہوگی، کابل
  • افغانستان کسی کو غلط سرگرمی کیلئے اپنی زمین استعمال نہیں کرنے دے گا، اسحاق ڈار
  • افغانستان سے بات چیت دیر سے مگر درست ا قدام ہے، ترجمان خیبر پختونخوا حکومت
  • وفاق کا افغانستان کے ساتھ بات چیت کے عمل کا آغاز خوش آئند ہے. بیرسٹر سیف
  • افغانستان سے بات چیت شروع کرنے پر وفاق دیر آئے مگر درست آئے: بیرسٹر سیف
  • افغانستان سے بات چیت دیر سے مگر درست قدم ہے، ترجمان پختونخوا حکومت
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان سکیورٹی اور امن و سلامتی سے متعلق مذاکرات شروع
  •  مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا کا وفاقی حکومت کی جانب سے افغانستان کے ساتھ بات چیت کے عمل کے آغاز کا خیرمقدم