گستاخ امام زمانہ کی عدم گرفتاری کیخلاف کل بلتستان بھر میں احتجاجی مظاہرے کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
اجلاس میں استور مرکز کی جانب سے جو مطالبات اٹھائے گئے ہیں انکی مکمل حمایت کی گئی اور اس بات پر تاکید کی گئی کہ انتطامیہ کی جانب سے گرفتاری عمل میں نہ لائی گئی تو سخت لائحہ عمل دیا جائے گا۔ اسلام ٹائمز۔ مرکز امامیہ سکردو میں ایک ہنگامی اجلاس منعقد ہوا جس میں میں استور میں تکفیری مولوی عبد الرزاق کی جانب سے مہدی موعود ( امام زمانہ) عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی شان میں گستاخی اور ہرزہ سرائی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے ابتک گرفتار نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اجلاس میں کہا گیا کہ استور میں تکفیری ملا نے امام زمانہ کی شان میں گستاخی کر کے تمام مکاتب فکر کی جانب سے متفقہ طور پر جاری کردہ ضابطہ اخلاق کی دھحیاں اڑائی ہے۔ لہذا جی بی حکومت فوری طو پر اس گستاخ کو گرفتار کر کے توہین اہلبیت کے قوانین کے مطابق سزا دی جائے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ گستاخ امام زمانہ کے خلاف کل بروز جمعہ 31 جنوری 2025ء کو بلتستان بھر (سکردو، شگر، کھرمنگ، روندو) میں نماز جمعہ کے بعد احتجاجی مظاہرہ کیا جائے گا۔ تمام عاشقان امام زمانہ سے ان احتجاجات میں بھرپور انداز میں شرکت کی درخواست کی جاتی ہے۔ اجلاس میں استور مرکز کی جانب سے جو مطالبات اٹھائے گئے ہیں انکی مکمل حمایت کی گئی اور اس بات پر تاکید کی گئی کہ انتطامیہ کی جانب سے گرفتاری عمل میں نہ لائی گئی تو سخت لائحہ عمل دیا جائے گا۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کی جانب سے اجلاس میں کی گئی
پڑھیں:
وزیر اعلیٰ کے مشیر کا بیان خطے کے سیاسی و سماجی ماحول پر ایک سنگین سوال ہے، شیعہ علماء کونسل گلگت
شیعہ علما کونسل گلگت کے جنرل سیکرٹری شیخ علی محمد عابدی نے ایک بیان میں کہا کہ کسی حکومتی نمائندے کی جانب سے تند و تیز، ذاتی نوعیت اور غیر شائستہ انداز میں گفتگو نہ صرف قابلِ افسوس ہے بلکہ اس سے خطے کی حساس فضاء کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ شیعہ علماء کونسل ضلع گلگت کے جنرل سکریٹری شیخ علی محمد عابدی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مورخہ 19 اپریل 2025ء کو جاری ہونے والی مشیر وزیراعلیٰ گلگت بلتستان مولانا محمد دین کی پریس ریلیز محض ایک بیان نہیں بلکہ گلگت بلتستان کے سیاسی و سماجی ماحول پر ایک سنگین سوال ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس خطے کی شناخت پرامن بقائے باہمی، مذہبی رواداری اور اجتماعی شعور ہے۔ ایسے میں کسی حکومتی نمائندے کی جانب سے تند و تیز، ذاتی نوعیت اور غیر شائستہ انداز میں گفتگو نہ صرف قابلِ افسوس ہے بلکہ اس سے خطے کی حساس فضاء کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان سے ہمارا سوال ہے کہ کیا مشیر موصوف کی یہ پریس ریلیز آپ کی منظوری سے جاری کی گئی؟ اگر ہاں، تو یہ طرز حکمرانی پر سوالیہ نشان ہے کہ ایک حکومت اپنے عوام سے اس انداز میں مخاطب ہو رہی ہے جو نفرت، تقسیم اور اشتعال کو ہوا دے رہا ہے۔ اور اگر یہ بیان آپ کی اجازت یا علم کے بغیر جاری کیا گیا ہے تو آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے غیر سنجیدہ اور نالائق مشیروں کو فوراً برطرف کریں تاکہ حکومت کی نیک نامی، شفافیت اور سنجیدگی پر عوام کا اعتماد قائم رہ سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ مشیر موصوف نے خطیب جامع مسجد امامیہ گلگت جناب آغا سید راحت حسین الحسینی جیسے محترم، سنجیدہ اور باوقار عالم دین کے خلاف جو زبان استعمال کی، وہ گلگت بلتستان کے مہذب سیاسی و سماجی کلچر سے متصادم ہے۔ ان کی باتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اختلاف رائے کو ذاتی حملے سمجھتے ہیں اور سنجیدہ تنقید کا جواب اخلاقیات کے دائرے سے باہر نکل کر دینا مناسب سمجھتے ہیں۔ حکومتی پالیسیوں پر تنقید اور سوال اٹھانا ہر باشعور شہری، خصوصاً اہل علم کا آئینی، اخلاقی اور سماجی حق ہے۔ اگر حکومت کی پالیسیاں واقعی عوامی مفاد پر مبنی ہیں تو دلیل و حکمت سے عوام کو مطمئن کیا جائے، نہ کہ ان پر الزام تراشی کر کے ان کی زبان بند کرنے کی کوشش کی جائے۔ مشیر موصوف کا یہ کہنا کہ "دین کو سیاست سے الگ رکھا جائے" نہ صرف فکری گمراہی کی نشانی ہے بلکہ اس قوم کے نظریاتی اساس سے انحراف بھی ہے۔ پاکستان کا قیام ہی کلمہ طیبہ ”لا الہ الا اللہ“ کے نام پر ہوا تھا، اور اس ملک کی بقاء اسی وقت ممکن ہے جب دین اور سیاست کو ہم آہنگی سے مربوط کیا جائے۔