اسلام آباد: سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیل کی سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ مخصوص قانون کے تحت قائم ہونے والی عدالتوں کا دائرہ اختیار محدود ہوتا ہے۔

آئینی بنچ کی سربراہی جسٹس امین الدین خان کر رہے ہیں، جس میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی جا رہی ہے۔ سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے اپنے گزشتہ روز دیے گئے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا میں یہ خبریں آئی تھیں کہ 8 ججز کے فیصلے کو دو ججز نے غلط قرار دیا ہے، جس پر کئی ریٹائرڈ ججز نے ان سے رابطہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کی تشویش کے باوجود، حقیقت کی درستگی ضروری ہے۔

وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین میں عدالتوں کا ذکر آرٹیکل 175 میں ہے، مگر فوجی عدالتوں کا آئینی عدالتی نظام میں کوئی ذکر نہیں۔ فوجی عدالتیں الگ قانون کے تحت قائم کی جاتی ہیں، جو تسلیم شدہ ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 175 کے تحت بننے والی عدالتوں کے اختیارات وسیع ہوتے ہیں، لیکن مخصوص قانون کے تحت بننے والی عدالتوں کا دائرہ محدود ہوتا ہے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال کیا کہ 21ویں ترمیم کے فیصلے میں مہران اور کامرہ بیسز کا بھی ذکر کیا گیا ہے، تو جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والوں کا ٹرائل کہاں کیا گیا تھا؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں کیا گیا تھا، جو 21ویں ترمیم سے پہلے تھا۔

سماعت کے دوران بلوچستان حکومت کے وکیل سکندر بشیر مہمند کی نمائندگی پر سوال اٹھایا گیا۔ جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ نجی وکیل حکومت کی نمائندگی کیسے کر سکتا ہے؟ وکیل بلوچستان حکومت نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں میں نجی وکیل کو حکومت کی نمائندگی کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف ہائیکورٹ میں رٹ دائر کرنے کی گنجائش نہیں ہوتی، کیونکہ بنیادی حقوق سلب کرنے کا جواز نہیں بنتا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ سویلین اور فوجی فورسز کے ملزمان میں فرق نہیں ہونا چاہیے؟ ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین نے جواب دیا کہ دونوں میں واضح فرق ہونا چاہیے کیونکہ مسلح افواج میں شامل ہونے والا شخص آرمی ایکٹ کے تحت آتا ہے، جبکہ عام شہری اس سے الگ ہوتا ہے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف اپیلوں پر مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی۔ جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین کل بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

پڑھیں:

سپریم کورٹ کے جسٹس ریٹائرڈسرمد جلال عثمانی انتقال کرگئے

کراچی(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ کے جسٹس ریٹائرڈسرمد جلال عثمانی انتقال کرگئے۔

نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق سپریم کورٹ رجسٹری  اعلامیہ کے مطابق سرمد جلال عثمانی کینسر کے عارضے میں  مبتلا تھے اورطویل عرصے سے ہسپتال میں زیرعلاج تھے،سرمد جلال عثمانی کی نماز جنازہ کل بعدنماز عصر مسجد حمزہ ڈیفنس فیز 8میں ادا کی جائے گی۔

مزید :

متعلقہ مضامین

  • وقف بورڈ قانون کو لیکر مجھے سپریم کورٹ پر بھروسہ ہے، ڈمپل یادو
  • محبوبہ مفتی کا بھارتی سپریم کورٹ سے وقف ترمیمی قانون کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ
  • سپریم کورٹ کے جسٹس ریٹائرڈ سرمد جلال عثمانی انتقال کرگئے
  • سابق جج سپریم کورٹ جسٹس سرمد جلال عثمانی انتقال کر گئے
  • جسٹس منصور علی شاہ نے قائم مقام چیف جسٹس پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھالیا
  • سپریم کورٹ کے جسٹس ریٹائرڈسرمد جلال عثمانی انتقال کرگئے
  • شوہر کے ظالمانہ طرزعمل پر خلع لینے والی خاتون کا حقِ مہر ساقط نہیں ہوتا، لاہور ہائیکورٹ
  • وقف قانون کی مخالفت میں "آئی پی ایس" افسر نور الہدیٰ نے اپنی نوکری سے استعفیٰ دیا
  • ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کیس، جوڈیشل کمیشن، رجسٹرار سپریم اور وزارت قانون نے جواب جمع کروا دیا
  • آرمی ایکٹ صرف آرمڈ فورسز کیلئے، سویلین کو لانا ہوتا تو الگ سے ذکر کیا جاتا: جسٹس نعیم